Baseerat Online News Portal

اسرار جامعی روشن چراغ کے شاعر

ڈاکٹر منصور خوشتر
ایڈیٹر سہ ماہی ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ دربھنگہ
اسرار جامعی طنز و مزاح کے شاعر تھے اور انسانی معاشرے کے سلگتے ہوئے مسئلوں کی نمائندگی کرتے رہے تھے ۔ اس طرح اپنی طنزیہ شاعری میں اپنی موجودگی کا بھی احساس دلاتے رہے۔ انہوں نے اپنے آس پاس کی فضا کو جس دوربینی سے دیکھا اور درپیش مسائل کو جس طرح محسوس کیا زندگی بسر کرنے کا اسے ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا ۔
اسرار جامعی کا انتقال ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ان کے انتقال سے پوری ادبی دنیا میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے ۔ طنز و مزاح ان کے رگ رگ میں رچا بسا تھا ۔ وہ برجستہ اور برمحل شاعری کرتے تھے ۔ اردو ادب سے ان کی وابستگی جنون کی حد تک تھی۔ جامعی کے والد ولی عالم کا تعلق گیا سے تھا ۔ ان کی پیدائش ۱۹۳۸ء میں ہوئی اور انہوں نے ابتدائی تعلیم جامعہ اسلامیہ سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم رانچی یونیورسیٹی سے حاصل کی ۔ جامعی نے غیر شادی شدہ زندگی گزاری ۔ جامعی کی زندگی کانٹوں بھری تھی ۔ سیکروں ایکڑ زمین ہونے کے باوجود اپنوں نے انہیں بے دخل کر دیا ۔ جامعی نیک صفت انسان تھے ہمیشہ سادگی اور انکساری کے ساتھ زندگی گزاری ۔ سال ۲۰۰۹ میں جب میں نے دربھنگہ میں اردو بیداری کانفرنس کل ہند مشاعرہ کا انعقاد کیا تو مرحوم دو دن قبل ہی دربھنگہ تشریف لے آئے ۔ چار دنوں تک ان کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا ۔پروگرام کے دوران انہوں نے کہیں بھی ظاہر نہیں ہونا دیا وہ ایک بڑے شاعر ہیں بلکہ انہوں نے انکساری اور خاکساری کا جذبہ پیش کیا ۔ کسی بھی طرح کے تصنع سے کوسوں دور رہے۔ وہ جن سے بھی ملتے کمپیوٹر سے نکلا ہوا چھوٹا سا پرزہ تھما دیتے جس پر ان کے اشعار کا کچھ حصہ ٹائپ ہوتا تھا۔انہوں نے اپنی صحافت میں طنز و مزاح کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ’’چٹنی‘‘ اور ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کے نام سے اخبار شائع کرطنز و مزاح لوگوں تک پہنچاتے رہے۔اپنے شعری مجموعہ ’’شاعر عظیم‘‘ میں انہوں نے طنز و مزاح ۔۔۔۔۔۔۔ تقریباً ۹۰ سال کی عمر میں انہوں نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ علامہ اسرار جامعی پوری زندگی شعر وادب کی خدمت میں وقف کر دی لیکن اس شاعر عظیم کو عوام اور اپنوں نے فراموش کر دیا۔ پٹنہ سے دلی تک ان کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے یہ مستحق تھے۔ کامران غنی صبااپنے مضمون میں لکھتے ہیں :
’’ اسرار جامعی کوئی گمنام شاعر نہیں تھے. دنیا انہیں جانتی تھی اور خوب اچھی طرح جانتی تھی. ہاں… وہ دنیا کو نہیں جانتے تھے. بالکل نہیں جانتے تھے. تبھی تو انہیں یہ دن دیکھنا پڑا…کہ اپنوں نے آنکھیں پھیر لیں… ادبی دنیا نے انہیں زندگی میں ہی مردہ قرار دے دیا… وہ اپنی زندگی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے دفاتر کی خاک چھانتے رہے. بہار سے لے کر دہلی تک نہ کوئی ادارہ ان کی مدد کے لیے سامنے آیا اور نہ ہی شعر و ادب کی وہ عظیم شخصیتیں جو اپنے شعر و ادب میں رنگ ڈالنے کے لیے سماج کے دبے کچلے طبقات سے اظہار ہمدردی کا ڈھونگ کرتی ہیں. ادب تخلیق ہوتا رہا اور "ادب سماج” کا ایک فرد گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی کی آخری سانس کے لیے جدوجہد کرتا رہا….. ہم شاید اسی دن کے انتظار میں تھے. اب ہم روئیں گے….. سوشل میڈیا پر تصویروں کی نمائش ہوگی… مضامین لکھے جائیں گے… اخبارات میں اسرار جامعی پر خصوصی ضمیمے شائع ہوں گے… تعزیتی نشستیں ہوں گی… کئی دنوں تک تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری رہے گا… یادگاری سمینار اور مشاعرے بھی ہو سکتے ہیں… رسالوں کا خصوصی نمبر بھی نکل سکتا ہے….. اور پھر ہم کسی نئی موت کے انتظار میں اپنے فوٹو البم کو وسیع کرنے میں لگ جائیں گے کہ کہیں کسی شاعر اور ادیب کی موت ہو اور ہمارے پاس اس کے ساتھ کھینچوائی ہوئی تصویر نہ ہو تو ہم کسی کو کیا منھ دکھائیں گے…؟ ‘‘
ٓ اسرار جامعی نے بہت سے طنزیہ و مزاحیہ اشعار کہے ۔ یہاں چند اشعار نمونے کے طور پر پیش کر رہا ہوں:
حسینو! اگر تم کو ہے پاس عزت
تو سْن لو ! سناتا ہوں شاعر کی فطرت
نہ مانو گی میری تو پھوٹے گی قسمت
رہے گی مقدر میں ذلت ہی ذلت
جو اسرار کہتا ہے وہ مان لو تم
یہ کیسے فریبی ہیں یہ جان لو تم
یہ زلفوں کی چھاوں گھنی چاہتے ہیں
یہ پلکوں کی چلمن تنی چاہتے ہیں
ہونٹوں کی ہر دم ” ہنی” چاہتے ہیں
یہ نازک بدن کندنی چاہتے ہیں
ادبی رسائل تک ان کی رسائی کم تھی لیکن اپنے آس پاس کی محفلوں کے لئے نشانات کا جواز پیدا کرتے رہے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے کیونکہ انہوں نے عملی طور پر ایسی شاعری کی ہے جس میں طنز اور مزاح کے رنگ و روپ ادب اور سماج کے کینوس پر پھیلی ہوئی ہے۔ مختلف جہتوں میں ان کی نظمیں اور ان کے قطعات نمایاں ستائش سے سرفرراز ہوتی رہی ہیں جن میں زندگی کی ہنر مندی کی عکاسی ملتی ہے۔ حالانکہ پذیرائی اور قدر دانی سے وہ محروم رہے لیکن اپنی فکر پر اکتفا کرکے سفر کو جاری رکھنے کے لئے ہمہ وقت مصروف رہے۔
٭٭٭

پروفیسر طرزی
قطعۂ تاریخ وفات اسرار جامعی
دنیا سے اٹھ گیا ہے اک نیک آدمی
فضلِ خدائے پاک سے ہوگا وہ جنّتی
شاعر عظیم آبادی وہ طنز و مزاح کا
رخصت ہوا بھی ہم سے اسرار جامعی
۱۲۹۰ ۱۲، ۱۷، ۴۵ ۷۰ ۵۸۶
۲۰۲۰ء

Comments are closed.