بچھڑا کچھ ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

مفتی محمد شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجدانوار،شیواجی نگر،گوونڈی ،ممبئی
زندگی موت کے سائے میں پروش پاتی ہے،اس ناپائیدار دنیا میں زندگی اور اس کے ہنگامے ہمہ وقت موت کے سائبان میں ہی اٹھتے ہیں اور چند مخصوص لمحوں کے بعد خاموش ہوجاتے ہیں جیسے سمندر کی لہریں اٹھتی ہیں اور فنا کی وسعتوں میں غائب ہو جاتی ہیں ، انسان کی اس عالم فانی میں آمد ہی اس کے جانے کی تمہید ہے،بےشمار لوگ روزانہ اس سطح ارض پر خاموشی سے آنکھیں کھولتے ہیں اور موت کی سرنگوں میں اسی طرح ہمیشہ کے لیے داخل ہو کر فنا ہو جاتے ہیں۔
لیکن اسی عالم فانی میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں جو آتے تو ہیں خاموشی کے ساتھ مگر جب وہ اس دنیا کو خیرباد کہتے ہیں تو پورے ماحول کو سوگوار کرجاتے ہیں، ان کی رحلت ایک دنیا کو ارتعاش میں ڈال دیتی ہے، دلوں کی دنیا بے کیف اور طبیعتیں افسردہ ہو جاتی ہیں، انہیں مخصوص لوگوں میں راقم کے ایک رفیق قاری عبد القیوم صاحب سہارنپوری امام وخطیب مسجد ام القریٰ شیواجی نگر، بھی تھے ۔موت کے پنجوں نے جنہیں آج ہم سے چھین لیا، اور اچانک وہ ہمیشہ کے لیے عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے۔
حضرت قاری صاحب ابھی بالکل صحت مند تھے ایسی کوئی بیماری جسے مرض کہا جاسکے ان کو لاحق نہیں تھی ،وہ جس طرح صحت کے اعتبار سے قابل رشک تھے شکل وصورت کے لحاظ سے بھی نہایت خوبرو تھے، متوسط قد وقامت،بھراہوا گداز جسم، رنگ بالکل صاف گورا ملاحت آمیز جیسے کوئی خوبصورت فرشتہ زمین پر اتر آیا ہو ،چہرہ اس قدر روشن اور کھلا ہوا جیسے سفید گلاب چمن میں جلوہ آرا ہو،پیشانی ستاروں کی طرح تابناک، بھری ہوئی نیم سیاہ ڈاڑھی، آنکھیں سیاہ اور فراست کی تنویروں سے معمور، چہرے پر مسکراہٹیں بکھری ہوئیں جیسے ماہتاب کی جمالیاتی کرنیں مسطح ریگزاروں پر بکھر جائیں، زبان ذکر میں اکثر وبیشتر مشغول، انتہائی خلیق وملنسار، مزاج میں نرمی کے ساتھ ساتھ شوخی ،طبیعت ایسی مرنجا مرنج کہ محفل میں زندگی ہی زندگی اور وجود کو سرشار کرنے والی اس کی روشنی، افسردگی واضمحلال کا جہاں نام کو بھی گذر نہیں، نہایت وضع دار اور مہمان نواز،مجال نہیں کہ کوئی ان کے یہاں حاضر ہو اور بغیر چائے یا ناشتے کے رخصت ہوجائے۔
علم پروری اور علما نوازی ان کی طبیعت اور مزاج، سخاوت اور فیاضی ان کی ذات کا استعارہ، اور ضرورت مندوں کی خبر گیری اور مقدور بھر ان کی اشک سوئی امتیازی خصوصیت۔
مذکورہ اوصاف ان کی ذات کے وہ لازمہ اور علامت تھے جو ان کی زندگی کے سفر میں ہمیشہ ساتھ ساتھ تھے، انسانیت نوازی کی ان خصوصیات کے ساتھ جب زندگی اپنا وقت گذار کر آنا فانا رخصت ہو جائے تو نہ صرف وجود بلکہ ارد گرد کا پورا ماحول اور پوری فضا بھی اداس اور غمزدہ ہوجاتی ہے۔
حضرت قاری عبد القیوم صاحب کی جدائی نے آج اسی طرح ذہن ودل کی دنیا کو اداسیوں کی تاریکیوں میں غرق کرڈالا ہے، ان کی متحرک وفعال زندگی اور ان کے ظاہری حالات کے پیشِ نظر دل کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہیں تھا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے عالم آخرت کی طرف روانہ ہوجائیں گے، انہیں پانچھ چھ روز قبل بخار آیا تھا فیملی ڈاکٹر اور علاقائی ڈاکٹر سے رجوع کیا دوائیں لیں تین دن پہلے 7/اپریل 2020/بروز دوشنبہ کی شام میں گوونڈی چمبور کے کئی ہاسپیٹلوں میں ایڈمٹ ہونے کے لئے گئے مگر کسی ہاسپٹل نے ایڈمیشن نہیں لیا بالآخر مجبور ہو کر سرکاری اسپتال سائن ہاسپٹل گئے اور وہیں ایڈمٹ ہوگئے، حالیہ وائرس کا خوف اور دہشت لوگوں کے اعصاب پر اس قدر شدت سے حاوی ہے’کہ اب ہر مریض خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو اس میں لوگوں کو کرونا ہی نظر آتا ہے’، یہاں اہلکاروں سے لیکر ڈاکٹروں تک نے تساہلی اور مجرمانہ لاپرواہی برتی ،ایک تو موجودہ فرقہ پرست میڈیا کے منظم پروپیگنڈوں کے نتیجے میں نفرت کی پھیلی ہوئی فضا دوسرے دینی واسلامی تشخص، ان دونوں وجہوں کی وجہ سے چوبیس گھنٹے تک ٹریٹمنٹ شروع نہیں کیا گیا، منگل کو نو بجے کے قریب انہیں انجیکشن دیا گیا اور دس بجے سے حالت بگڑنے لگی صبح تک بات چیت اور زندگی کی علامت بھی بالکل برائے نام رہ گئی ۔
صبح آٹھ بجے فرقان بھائی جو اس کڑے وقت میں قاری صاحب کے ساتھ ساتھ تھے ان کا فون آیا کہ حالات زیادہ خراب ہے’لیکن میں نے کہا کہ شفا ہوجائے گی ان شاءاللہ اور صحت یابی کا یقین بھی گیارہ بجے دوبارہ ان کا فون آیا تو بھرائی ہوئی اور لرزتی ہوئی آواز میں ان کی رحلت کی جگر خراش اور اندوہناک خبر تھی کہ قاری صاحب کا انتقال ہوگیا، یہ خبر بجلی بن کر دل وذہن کو ساکت کرگئی، ایسا محسوس ہوا کہ جسم بالکل بے جان سا ہو گیا ہے اس وحشت انگیز واقعہ کا تحمل واقعی مشکل تھا کہ ذہن نے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا، طبعیت بجھ گئی، پورے وجود پر افسردگی سی طاری ہو گئی، قاری صاحب کا سراپا اپنے پورے جمال کے ساتھ نگاہوں میں گردش کرنے لگا، اور اب زندگی کی بے ثباتی اور موت کی حقیقت نگاھوں کے سامنے مجسم صورت میں محسوس ہونے لگی۔
ارادہ کیا کہ ہاسپٹل جاؤں اور اپنے عزیز فاروق ماموں کو اس کے لئے بلایا بھی مگر فرقان بھائی نے منع کردیا کہ یہاں وارڈ میں داخل ہونے کی اجازت بالکل نہیں ہے اس لیے آپ نہ آئیں ، وہاں نہ جاکر مسجد کے روم میں ہی پڑا رہا، تین بجے جب فاروق ماموں واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ ہاسپٹل کے عملے کا رویہ ٹھیک نہیں ہے اور دوسرے جس روم میں قاری صاحب کی میت ہے’وہاں تک جانے کی قطعا اجازت نہیں ہے، میت کے انتظار میں دوپہر سے عشاء کا وقت ہوگیا شام چار بجے کاغذی کارروائی کے ساتھ شک کی بنیاد پر وائرس کی ساری احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں میت کو پلاسٹک اور دیگر کپڑوں میں ڈاکٹرس نے بالکل پیک کر کے یہ حکم دیا اور کہا کہ ہم نے نہلا دیا ہے آپ لوگوں کو اس میت پر لگی ہوئی لیمینیش پلاسٹک چاک کرنے کا اختیار بالکل نہیں ہے یہاں سے سیدھے قبرستان جائیں اور جنازہ پڑھ کر تدفین کردیں،اسی شرط پر میت آپ کو دی جارہی ہے’ تین بجے مسجد ام القری کے سیکریٹری حافظ گلشیر صاحب اور ان کے داماد مولوی اشرف صاحب ہاسپٹل گئے تھے حافظ صاحب تو واپس آچکے تھے مولوی اشرف وہیں پر تھے بعد کی ساری کارروائی میں وہ فرقان بھائی کے ساتھ شریک تھے،عشاء کے وقت پونے نو بجے میت دیونار قبرستان آئی وہاں فوراً حاضر ہوا بیس پچیس لوگ یہاں موجود تھے تھوڑی دیر بعد متعلقین میں اور کچھ لوگ بھی آگئے تقریبا چالیس لوگوں کی موجودگی میں راقم نے برستی ہوئی آنکھوں اور دلفگار کیفیت کے ساتھ نماز پڑھائی ، حسرت ویاس کی کیفیت میں کاندھا دیا مولانا نسیم صاحب ندوی ساتھ ساتھ تھے ان کی بھی حالت نہایت افسردہ تھی بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ انہیں قبر کی مٹی کے حوالے کر کے بوجھل قدموں سے ہم واپس روم میں آگئے۔
یہ سچ ہے کہ تمام واقعات تقدیر کی ڈور تقدیر سے بندھی ہوئی ہے جو کچھ پیش آیا ہے اسے آنا ہی تھا جو نہیں آیا ہے’اس کو آنا ہی نہیں تھا لیکن اسباب کی دنیا میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر کسی پرائیویٹ اسپتال میں داخل ہوتے اور سسٹم کے مطابق ان پر توجہ کی گئی ہوتی تو صورت حال برعکس ہوتی، قاری صاحب سے میرے تعلق کی مدت اتنی ہی جتنی کہ ممبئی میں میری رہائش اور اقامت گوونڈی آنے کے کچھ ہی روز بعد کسی کام سے میں ان کے یہاں حاضر ہوا تو ان کے اخلاق اور ان کی مہمان نوازی اور ان کے سلوک نے دل وروح پر بہت گہرا خوشگوار اثر چھوڑا اور اسی اثر کا کرشمہ تھا کہ وقتاً فوقتاً کی ملاقاتیں مضبوط تعلق میں بدل گئیں، وہ اکثر مواقع پر خاص خاص احباب کو اپنے گھر بلایا کرتے مثلاً مفتی شکیل صاحب فرقان بھائی،عید وبقرعید کے لمحات میں تو ان کی دعوت متعین رہتی تھی، وہ مجلسی آدمی تھے احباب واعزہ کے ساتھ دعوتوں کے شوقین تھے، وہ اگر کچھ گذر جاتا تو اپنے دوست فرقان بھائی کے یہاں ہی ہم لوگوں کو بلاتے اور فرقان بھائی کے گھر ہی میں دعوت طعام کی محفل ہوجاتی۔
اب قاری صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں بس ان کی یادیں ہیں،ذہن کی اسکرین پر وہ مناظر ہیں جو ان کے ساتھ زندگی کے اکثر موڑ پر پیش آئے ہیں،وہ محفلیں اور ان کے عکس ہیں جو ان کے ساتھ گذری ہیں، وہ فیاضیاں،سخاوتیں اور شوخیاں ہیں جو مجلسوں کا لازمی حصہ تہیں ابھی چند ہی روز تو ہوئے وہ مجھے کہ رہے تھے کہ میں آپ کو ممبئی میں خالد قیصر کمشنر ممبئی کے چھوٹے بھائی جو ڈاکٹر ہیں ان کے پاس شوگر کے علاج کے لیے لے چلوں گا، کیا خبر تھی کہ مجھے صحت کی دوا سے آشنا کرنے والا ہمیشہ کے لیے خود رخصت ہوجائے گا اور عارضی صحت کی دواؤں کے علاوہ ساری مادی چیزوں سے بے نیاز ہوجائے گا۔۔
قاری صاحب باضابطہ عالم نہیں تھے صرف حافظ اور قاری تھے آواز عمدہ تھی تجوید و قرأت کی تعلیم دارالعلوم دیوبند میں حاصل کی تھی فکر وفن کے حوالے سے شہرہ آفاق شہر سہارنپور سٹی سے متصل ایک بستی کے رہنے والے تھے تعلیم کی تکمیل کے بعد انھوں نے روحانیت کی بھی تعلیم لی اللہ نے ان کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی معوذات کے فن پر انہیں دسترس حاصل تھی وہ ممبئی میں آج سے تقریباً پندرہ سال قبل ماہم میں آئے اور وہیں اقامت اختیار کرلی تجارت وبزنس کے ساتھ عملیات کے ذریعے خدمت خلق بھی کرتے تھے لیکن یہ چیز مزاج کے خلاف محسوس ہوئی تو گوونڈی علاقے کی مشہور علمی شخصیت مفتی آزاد صاحب کے واسطے سے مسجد ام القری روڈ نمبر چار جو مسجد انوار سے چند قدم کی دوری پر ہے بحیثیت امام آئے،پھر اس کے بعد سے یہیں کے ہو کر رہ گئے، مسجد اسی وقت تعمیر ہوئی تھی مگر صرف اسٹیکچر تھا تکمیل کے لحاظ سے بالکل ادھوری تھی۔اس تزئین توسیع اور دیگر تعمیری خدمات میں قاری صاحب کا بڑا اہم کردار ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، عملیات کے علاوہ اخلاقیات کی وجہ سے قاری صاحب کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا عام افراد سے لیکر علماء وخواص اور سرکاری افراد سے لیکر ڈاکٹروں اور ثروت مندوں تک ان کے تعلقات پھیلے ہوئے تھے اس میں ان کے کردار کے ساتھ ساتھ روحانی عمل کا بھی بہت دخل تھا اس معاملے میں وہ امتیازی مقام رکھتے تھے ملیشیا سے سنگاپور اور برونائی دارالسلام سے لیکر عمان بحرین تک ان کے اسفار ہوتے تھے اس لیے تعمیراتی معاملے میں بڑی آسانی سے وہ مسجد کے تعاون کے لئے رقمیں اکٹھا کرلیتے تھے، علماء سے بڑی محبت کرتے تھے وہ کئی سالوں سے اپنی مسجد کے سامنے بلاناغہ جلسہ سیرت النبی منعقد کرتے تھےاور ملک کے بڑے علماء ومشائخ کو دعوت دیکر علاقے میں لوگوں کے لئے ان سے فیض حاصل کرنے کی راہیں ہموار کرتے تھے اس کے علاوہ مدرسہ معراج العلوم چیتا کیمپ فرقانیہ اور دوسرے علاقائی مدارس کے اساتذہ نظماء اور مساجد کے ائمہ کو خاص طور پر مدعو کرتے تھے،چند سال پہلے ٹاٹا نگر گوونڈی میں بچیوں کا ایک مدرسہ بھی قائم کیا تھا جو ہنوز ترقی کی طرف رواں دواں ہے’ خدا کرے یہ مستقبل کا شجر سایہ دار ہو۔۔
مسجد اور ادارے سے متعلق قاری صاحب کی خدمات کا تقاضا ہے’کہ ان کی جگہ پر مسجد میں کسی بھی ملازمت میں ان کے بڑے صاحبزادے مولانا فیضان کو شامل کردیا جائے تاکہ ایک محسن کی احسان شناسی بھی ہوجائے اور قاری صاحب کے اہل وعیال کی کفالت کا بھی نظم ہوجائے۔۔۔
اے مالک کون و مکاں،کائنات کا سارا نظام تو تیرے ہی ہاتھ میں ہے انسان کے اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہے حیثیت اگر ہے تو تیرے فضل کی ہے اپنے اسی فضل کے واسطے سے مرحوم کی مغفرت فرما، ان کی قبر کو جنت کے چمن زاروں کی طرح گلزار بنا، ان کے اہل وعیال کا بہترین اور قابل رشک انتظام فرمادے آمین۔
بچھڑا کچھ ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
*مسجد انوار گوونڈی ممبئی تاریخ 9 ؍ اپریل 2020/یوم الخمیس
بوقت صبح سات بج کر چالیس منٹ۔
Comments are closed.