Baseerat Online News Portal

حضر ت علی ہجو یر ی اور کشف المحجوب

رابعہ الر َ بّا ء
[email protected]

عشق و محبت سے لبر یز ہستی، عا شقا نہ طر یقیت کا پیکر اور عشق و طر یقیت کی منز لو ں و ادب کی عقیدتوں سے مز ین ’’ کشف ا لمجو ب ،، کے خا لق حضر ت دا تا گنج بخش ؒکا عر س اور اس کا ایک روایتی روما ن جو یہا ں کی تہذیب میں رچ بس چکا ہے۔وہی ٹھیلے جن پر مختلف اقسا م کی کھانے کی اشیاء ملتی ہیں جو لاکھ نا قص کہی جا ئیں لو گ ان کو دا تا کی نگر ی کا تبر ک سمجھ کر کھا تے ہیں، وہی روایتی ملنگوں والی جیولر ی مگر لو گ اس کو بر کت سمجھ کر لے جا تے ہیں ، اور وہ دھاگے جو کلا ئوں میں با ند ھ کر منتیں ما نگ کر چلے جا تے ہیں ۔ وہ چادیںجو وہ نجا نے کہا ں کہا ں سے ننگے پیڑ پیدل چل کر لا تے ہیں ۔یہ سب بد ت سہی ، مگر کیا پتا ان نا دا نو ں کی محبت کا در جہ عا قلو ں سے کس قدر بلند ہو ۔ عقل کی با تیں کر نا آ سا ن ہے ،عشق کا ا ند ھا چو لا پہننا مشکل ہے۔کیو نکہ عقل را حت کا سا مان کر سکتی ہے ، عشق کی را حت درد میں ہے۔
جب خو اجہ معین الد ین چشتیؒ کو در با ر ر سالت سے ہند و ستا ن کی ولا یت عطا ہو ئی تو حکم ہو ا پہلے جا کر سید علی ہجو یر ی کے رو ضہ مبا رک پر ا عتکا ف کر نا اور ان سے فیض حا صل کر کے را جپو تا نہ کے صحر ا میں جا کر اسلا می جھنڈ ا نصب کر نا چنا نچہ خوا جہ چشتی ؒنے آ پ کے رو ضہ کے سا منے ایک کو ٹھر ی میں چالیس دن تک ا عتکا ف کیا ۔ چلہ فر ما نے کے بعد بو قت ر خصت یہ شعر کہا
گنج بخش فیض عا لم مظہر نو ر خد ا
نا قصا ں راپیر کا مل ، کا ملاں را رہنما
یہی کشف ا لمجوب ہے ۔ جس کو ہم کئی کئی با ر پڑ ھتے ہیںاس میں کچھ واقعا ت ، کچھ اقوا ل ، کچھ محبتیں سر د یوں کی اوس کی طر ح یا بر سا ت کی مو سلا د ھا ر با ر شو ں کی طر ح مجھے محبو ب ہیں ۔ یہ محبتیں تنہا ئی میں جب خا مو شی سے با تیں کر تی ہیں تو روح کو گد گدا نے لگتی ہیں ، کچھ پیکر خوا ب آ س پا س مہک اْٹھتے ہیں اور زما ن و مکا ن کے پر دے اْٹھا د یتے ہیں ۔ آ ئیے مل کر کشف ا لمجو ب کی مجبتو ں کا چھو ٹا سا سفر کر تے ہیں ۔
’’ کسی بز ر گ سے پو چھا گیا ’’ کیا آپ خدا کو د یکھنا چا ہتے ہیں ،، فرما یا نہیں ۔ پو چھا کیو ں ؟ فر ما یا ۔ مو سی علیہ السلام نے در خوا ست کی تو نہ د یکھ پا ئے ۔ حضور ﷺنے در خواست نہیں کی اور دیدا ر سے سر فر از ہو ئے ۔ درا صل ہما ری خوا ہش ہی ایک حجاب ہے ۔ ارادہ مخا لف کی د لیل ہے اور مخا لف و جہ حجاب ہو تی ہے ۔ ارا دہ ختم ہو تو مشا ہد ہ حا صل ہو تا ہے اور مشا ہد ہ حا صل ہو تو دنیا و عقبی بر ابر ہو جا تے ہیں۔،،
’’مشا ہد ہ کی حقیقت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک مشا ہد ہ صحیح یقین سے اوردوسر اغلبہ محبت حق یعنی غلبہ محبت سے وہ مقا م حا صل ہو ۔جہا ں طا لب ہمہ تن حد یث محبو ب ہو کر رہ جا ئے اور اسے بجز اس کے کچھ نظر نہ آ ئے۔،،
’’ا یک شخص کعبہ کا طوا ف کر ر ہا تھااور یہ د عا اس کے لب پر تھی۔’’ ا ے اللہ ۔میر ے بھا ئیوں کی ا صلا ح فر ما ،،لو گو ں نے کہا اس بلند مقا م پر اپنے لئے دعاکیو ںنہیں کر تا ، اس نے جوا ب د یا ’’ میر ے بھا ئی ہیں جن کے پا س میں لو ٹ کر جا ئو گا ۔ اگر درست ہو ئے تو میں بھی ان کی صحبت میں درست ہو جا ئو ں گا ۔ اگر وہ خراب ہو ئے تو میں بھی لا محا لہ خرا ب ہو جا ئو ں گا ،،مطلب یہ ہے کہ جب میر ی بہبو د ی میر ے بھا ئیو ں کی بہبو دی پر مو قوف ہے تو میں کیو ں نا ان کے لئے د عا کر و ں تا کہ میر ا مقصو د بھی ان کی و جہ سے حا صل ہو جا ئے ان سب امو ر کی بنیا د اس چیز پر ہے کہ نفس کو تسکین دوستوں میں حاصل ہو تی ہے۔جس مجلس یا محفل میں انسان ہو گا اس کے عادات و افعال جذب کر لیتا ہے۔،،
’’ مشا ئیخ طر یقیت میں مشہو ر ہے کہ جب خوا جہ حسن بصر یؒ حجا ج کی پکڑ د ھکڑ سے بھا گ کر حبیب(حبیب ْلعجبیؒ) کے حجر ے میں پنا ہ گز یں ہو ئے تو حجا ج کے سپا ہیو ں نے حبیب سے پو چھا ’’ کیا تو نے حسن کو کہیں د یکھا ہے؟،،حبیب ؒ نے جو اب د یا د یکھا ہے اور وہ میر ے حجر ے میں بند ہے ۔ سپا ہی حجر ے میں گئے وہا ں کسی کو نہ پا یا اور سمجھے کہ حبیب ؒ نے ان کا مذاق اڑا یا ہے۔اس پہ سختی کی۔حبیب ؒنے قسم
کھائی۔دوبا رہ ، سہ با رہ حجر ے کی تلا شی لی گئی مگر خو اجہ حسن بصر ہ ؒکہیں نظر نہ آ ئے۔جب سپا ہی واپس چلے گئے تو خوا جہ صا حب حجر ہ سے با ہر نکلے اور فر ما یا حبیبؒ تیر ی بر کت سے میں کسی کو نظر نہیں آیا مگر تو نے ظا لمو ں سے کیو ں کہا کہ میں حجر ے میں بند ہو ں ۔حبیب ؒ نے جو اب د یا یہ میر ی بر کت نہ تھی ۔صر ف میر ے سچ بو لنے کی بر کت تھی۔ اگرمیں جھو ٹ بو لتا تو شاید ہم دونو ں ر سوا ہو تے،،
’’آپ (ابو سعید فضل اللہ بن محمد المیہنیؒ)نیشا پو ر سے طوس جا ر ہے تھے راستے میں ایک سردوادی پڑ تی تھی،خنکی کی و جہ سے آ پ کے پا ئو ں سرد ہو گئے ۔ایک درویش ساتھ تھا ۔اس نے سوچا کہ اپنے کمر بند کو پھا ڑ کر دونوں پیر وں پر لپیٹ دے۔ پھر خیا ل آ یا کمر بند اتنا خوبصور ت ہے ضا ئع نہیں کر نا چا ہیے۔طو س پہنچ کر درویش حا ضر مجلس ہو ا اور پو چھا ’’ وسوسہ اور الہام میں کیا فر ق ہے،، فرمایا کمر بند کو پھا ڑ کر پا ئوں میں ڈ ال د ینے کا خیا ل الہا م تھا ۔روکنے والی چیز و سوسہ تھا۔،،
’’ایک روز میں آ پ کے پا س حا ضر ہو ا ۔ تپش بہت زیا د ہ تھی ۔ میں لبا س سفر میں تھا اور میر ے با ل پر یشا ن تھے ۔ آپ نے کہا ’’ بتا ئو کیا
چاہتے ہو ؟،، میں نے عر ض کی ’’ مجھے سما ع کی خو اہش ہے۔،، خواجہ صا حب نے فو راََ گانے والو ں کا انتظا م کیا ۔ میں جوان تھا ۔ میر ی طبعیت میں جوش تھا اور ایک نا آزمو دہ مبتدی کا خر وش تھا ۔ نغمہ و سر ور نے مجھے بے چین کر د یا ۔تھو ڑی د یر بعد جب اس آفت کا زور و غلبہ کم ہو اتو آ پ نے فر ما یا ’’ پسند آیا،،میں نے عرض کی ’’ بے حد لطف اند و زہو اہو ں ،، کہنے لگے ’’ ا یک وقت ایسا آئے گا جب تیر ے لئے یہ سما ع اور کووں کی کا ئیں کائیں بر ابر ہو گی ۔ سما ع کی ضرورت اس وقت ہو تی ہے جب مشاہد ہ حا صل نہ ہو،،
’’ شمع صفا اور معدن و فا ہر م بن حیان بز ر گا ن طر یقیت ہو ئے ہیں ۔ صا حب معا ملت تھے، صحا بہ کر ام کی صحبت پا ئی تھی۔ خوا جہ اویس کی ز یا رت کے لئے قر ن گئے مگر ا ویس و ہا ں سے جا چکے تھے۔ نا امید ہو کر مکہ معظمہ واپس آ ئے تو معلو م ہو ا اویس کو فہ میں مقیم ہیں ۔ ہر م کو فہ تشر یف لے گئے مگر او یس وہا ں بھی نا مل سکے، بصر ہ کو واپس آ ر ہے تھے تو د یکھا کہ اویس نہر فر ات پر و ضو کر ر ہے ہیں ۔ و ضو سے فا ر غ ہو کر ر یش مبا رک میں کنگھی کر نے لگے ۔ہر م نے آ گے بڑ ھ کر سلا م کیا۔ اویس نے ہر م کا نا م لے کر سلا م کا جوا ب د یا۔ ہر م نے پو چھا
آ پ نے مجھے کیسے جا ن لیا ۔اویس نے جو اب د یا ’’ میر ی روح آ پ کی روح کو پہچانتی ہے،،
’’حضور پا ک ﷺ نے فر ما یا ار واح کی مثا ل لشکر و ں کی سی ہے جو ایک جگہ مجتمع ہو ں۔متعا رف روحو ں میں اتفا ق اور غیر متعا ر ف میں اختلا ف ہو تا ہے،،
ــ’’پیغمبر ﷺ نے فر ما یا جب حق تعا لی کسی کو دو ست ر کھتا ہے تو جبر ائیل علیہ السلام سے فر ما تا ہے میں فلا ں شخص کو دوست ر کھتا ہو ں تو بھی اس کو دوست ر کھ،جبرا ئیل اس کو دوست ر کھتا ہے اور ا ہل آ سمان سے کہتا ہے فلا ں شخص اللہ کا دوست ہے تم بھی اسے دوست بنا ئو ۔اہل آ سما ن اسے دوست بنا لیتے ہیں پھر اللہ اس بند ہ کو ا ہل ز مین میں مقبو لیت عطا کر تا ہے ۔ اہل ز مین بھی اسے محبت کر تے ہیں ۔،،
عشق کا با ب ہو اور یو سف زلیخا کی با ت نا ہو۔ ممکن ہی نہیں ، وہ عشق کہ میں جب زندگی سے گھبڑ ا کر گر نے لگتی ہو ں مجھے آ گے بڑ ھ کر تھا م لیتا ہے۔وہ عشق کہ جس میں میں اپنے بچپن سے مبتلا ہو ں ۔ کچھ محبتیں ایسی ہو تی ہیں جن میں انسان ٹھہر سا جا تا ہے۔ یہ بھی میر ا ایسا عشق ہی ہے۔ جس سے میں آ ج تک بھی نکل نہیں سکی۔ جنو ن ایسا کہ میں کہیں کو ئی کتا ب اس حوالے سے د یکھ لیتی تو فو راََ لے لیتی ، سب چھو ڑ چھاڑ کر وہی پڑ ھنے بیٹھ جا تی۔ اتنا محو ہو جا تی کہ رات کو آ سما ن پر گھنٹوں چاند کو د یکھ کر اس سے یو سف علیہ السلام کی با تیں کر تی۔ شام کے نیم اند ھیر ے میں سیڑھیو ں میں چھپ کے بیٹھ جا تی اور سوچا کر تی وہ شا م کیسے گز ارا کر تے ہو ں گے۔ یہ وہ دور تھا جب میر ی سوچوں کا محور بس حضر ت یو سف ؑہی تھے۔ عمر اس وقت با رہ سال تھی ۔وقت گزرتا گیا اور میر ا عشق پختہ ہو تا چلا گیا۔ عشق میں بندے کا دل کرتا ہے معشوق میں سب کچھ لْٹا دے ۔ میر ے پا س لْٹا نے کچھ بھی تو نہیں تھا ، بس محبت تھی، جو آج بھی کم نہیں ہوئی۔وہ مجھ میں ر چتی بستی گئی، کہ جب چند سال قبل حضر ت یو سف پہ بنی فلم منظر عا م آئی جس کا دورانیہ چالیس گھنٹوںسے بھی زائد تھا میں نے اس کو کئی با ر مسلسل د یکھا۔
حسن تھا ، حسب نسب تھا، علم وذہا نت تھی، دولت و با د شاہت تھی، جوانی تھی ، تنہا ئی تھی۔۔۔پھر کنا رہ کر جا نا ، میں ساری عمر اس کو آئیدیلز کر تی رہی۔ کر دار کا یہ وقار مجھے ہانٹ کر تا رہا۔پھر عاشقوں کی طر ح نجا نے کیا کیا ہا نٹ کر تا رہا۔اور اب اگر میں یہ کہو ں کہ یہ عشق مجھ میں بیٹھ چکا ہے تو بے جا نا ہو گا۔عشق بھی ہو اور اداب معبودبھی، کشف المجوب میں ہے۔
’’معبود کے مشاہد ہ میں پا س ادب ز لیخا سے سیکھنا چاہئے۔ جب یو سف علیہ السلام کے سا منے خلوت میں اپنی خواہش کی قبو لیت کی درخواست کی تو پہلے بت کا چہر ہ ڈھانپ دیا۔حضر ت یو سف علیہ السلام نے پو چھا یہ کیوں؟کہا میں نہیں چاہتی کہ میر ا معبود مجھے تمہا رے ساتھ اس بے حرمتی کے عالم میں د یکھے۔ یہ شر ط ادب نہیں ۔جب حضر ت یو سف علیہ السلام حضرت یعقو ب علیہ السلام کو مل گئے ۔ زلیخا کو حق تعالی نے ازسر نو جوان کر دیا ۔ اسے راہ اسلا م نصیب ہو ئی۔ اور وہ حضر ت یو سف علیہ السلام کی زوجیت میں آ گئی۔آپ نے کہا ، اے ز لیخا ، میں تیر ا و ہی محبو ب ہو ں۔ دور کیو ں ہٹ ر ہی ہو ۔ کیا میر ی محبت ختم ہو گئی ۔ زلیخا نے کہا ہر گز نہیں بلکہ اب بہت زیا دہ ہے۔ مگر میں نے ہمیشہ آداب معبود کو پیش نظر ر کھا ہے ۔ پہلے دن عالم خلوت میں میر ا معبو د ایک بت تھا ۔ اس کی آ نکھیں نہیں تھیں مگر اس پر کو ئی چیز ڈال دی تا کہ تہمت بے ادبی سے بچ سکوں ، اب تو میرا معبود وہ ہے جو بغیر آ نکھ اور کسی آ لہ سے د یکھ سکتا ہے ۔ہر حا لت میں اس کی نظر میرے اوپر ہے میں نہیں چاہتی مجھ سے ترک ادب سر زد ہو۔،،
تر ک ادب کی جسارت میں بھی نہیں کر نا چاہتی ۔کہ اس ذکر عشق کے بعد کو ئی با ب ر قم کروں۔

Comments are closed.