Baseerat Online News Portal

موت اس کی ہے کرے جس کازمانہ افسوس:آہ! مولاناسیّدابوالکلام قاسمی

قا ری نسیم احمد منگلوری
کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمہ سے دوچارہوناایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جسے لفظوں میں بیان کرناناممکن ہے،بلکہ زبان ودماغ کسی حدتک مفلوج ہوکررہ جاتے ہیں۔اس میں قطعی شک نہیں کہ آناجاناقدرت کابنایاہواایک ایساقانون ہے جس میں کوئی بھی شخص مداخلت نہیں کرسکتا،مگرکچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جانے کے بعددل اداس،آنکھیں اشکبارہوجاتی ہیں۔ایساہی کچھ اس لمحہ ہواجب یہ اطلاع ملی کہ اسلاف کی علمی فکری اورعملی روایتوںکے سچے امین وپاسبان،دارالعلوم دیوبندکے قدیم فاضل حضرت مولاناسیدابوالکلام قاسمی صاحب اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
دلاویزبلاغت،خوبصورت فصاحت،معنوی جگمگاہٹ،حسن شریعت کی چاندنی، عقیدت کانور،محبتوں کامہکتاگلستاں،ادب کی کہکشاں، کہیںجمال طیبہ کے نظارے، کہیں پلکوں پرلرزتے ہوئے الفت کے ستارے،ان تمام کیفیات وواردات کو اگر ایک لڑی میں پروکردیکھاجائے تومسلک حنفیت کاروشن چراغ ،مشرب قاسمیت کا منورستارہ،اسلاف کی روایات کاعظیم پاسبان ،دارالعلوم دیوبندوقف کاعظیم ترجمان، مبلغ اعظم حضرت مولاناسیدابوالکلام قاسمی ؒکی شخصیت ابھرکرسامنے آتی ہے۔ جن کے خطبات میں تفسیرکانور،حدیث کی ضیاپاشی،فقہ کی چاشنی،زبان وبیان کی لطافت، فکر وادب کی نفاست،اورحسن خطاب کی نزاکت ، بدرجہ اتم موجود تھی۔آپ جب خطاب فرماتے تھے،تو ہرہرلفظ سے علم حق کی شان،محبت رسول ﷺ کا خماراورعقیدت کانوربرستاتھا۔
حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحبؒ جیسی آفاقی شخصیتوں کی قربت ملنے کے سبب اللہ نے مولاناکوایسی ہمت بخشی ،حوصلہ عطاکیاکہ مولانانے دیوبندسے لے کر احمدآباد ،کولھاپور جیسی جگہوںپر اس وقت حقیقی روشنی پھیلائی جس وقت ان جگہوں پر بدعت وجہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ہرسمت بے جارسومات کوہی لوگوں نے دین سمجھ رکھاتھا۔دورجہالت سے لے کر دورمعرفت تک،دورتنزلی سے لے کر دورترقی تک مولانانے اپنی علمی،فکری بصیرت سے ان علاقوں کوایسی نورانی جلابخشی کہ باطل پرستوں، بدعات ورسومات کے ٹھیکیداروں کے قلعے زمیں دوزہوگئے۔اورانھیں وہاں سے سرنگوں ہوناپڑا، توبہ کرنی پڑی۔دین حق پرچلنے کے لئے آمادہ ہوناپڑا۔
موصوف سن 1350ہجری بمطابق 1931میں سیدعبدالحئی بمعروف پیرجی عبدالحئی کے یہاں پیداہوئے۔داداصاحب کانام عبداللہ تھا ۔ جوحاجی امداداللہ مہاجرمکی ؒکے مریدتھے۔ اوران کا تعلق محدث کبیرحضرت مولانارشید احمد گنگوہی ؒ، حجۃالاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒ سے بھی بڑاگہرا رہا۔انہوں نے لوگوں سے شاملی کے میدان میں دادشجاعت پائی۔ بعد میں جو حشر ساتھیوں کاہوا وہی ان کا بھی ہوا۔ تمام جائیداد کوضبط کرلیاگیا۔ عسرت ویاس کی زندگی شروع کیاہوئی کہ درجات بلندہوگئے۔سن 1283ہجری میں قیام دارالعلوم کے وقت سالارقافلہ حجۃالاسلام مولاناقاسم نانوتویؒ اورمولاناعابدحسینؒ کے ہمراہ رہے۔ اوربنیادکی ایک اینٹ ان کے ہاتھ سے بھی رکھوائی گئی۔پھرتاعمردارالعلوم دیوبندکی خدمت میں لگے رہے۔قدیم رودادوں میں ذکر موجودہے۔ سید عبد اللہ کے فرزندارجمندمولوی عبدالحی صاحب کی شادی میرٹھ کے ایک بڑے سادات گھرانے میں ہوئی۔جن کااصلاحی تعلق ازاول تاآخرحکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ سے رہا۔غایت تعلق کی وجہ سے ان میں سے ایک شخص کانام بہشتی زیورمیں بھی موجودہے۔
مولاناسیدابوالکلام قاسمی صاحبؒ کاتعلیمی سلسلہ والدمحترم سے شروع ہوا۔بہت کم عمری میں کلام اللہ مکمل کیا۔تقریبادوبرس پرائمری اسکول میں گزارے۔1358ہجری میں دارالعلوم فارسی خانہ میں داخل ہوئے ۔ 1953 عیسویں میں فراغت پائی۔ اسی دوران حضرت قاری حفظ الرحمن ؒسے تجویدمکمل کی۔ اورمختلف حضرات سے طب یونانی کاشوق پوراکیا۔اس کے بعدکچھ انگریزی،ہندی سے شغف رہا۔مولانانے سب سے پہلا سفر بزرگوں کے حکم پر احمدآباد کاکیا۔ بچندوجوہ جس میں کسی غیرکادخل نہیں تھا ، اپنی مرضی سے احمدآبادچھوڑدیا۔ پھربزرگوں کے ہی حکم کی تعمیل میںمہارشٹرکے کولھاپور کے اندرجواس وقت ہرطرح کی خرافات کاگہوارہ تھا،میں جاناہوا۔ چونکہ ابتدا سے ہی حضرت قاری محمدطیب صاحب ؒسے قلبی اورانسیتی لگائورہا۔لہذاان کی شفقتیں اور سرپرستی ہرجگہ شامل حال رہی۔ نومبر1958میں والدمحترم کے انتقال کے بعد توحضرت حکیم الاسلام ؒکی شفقتیں مزیدبڑھ گئیں۔ جسے مولاناآخری لمحہ تک محسوس کرتے رہے،اورکوئی مجلس ،کوئی محفل میں کوئی تقریرایسی نہیں کہ جس میں حضرت قاری صاحبؒ کاذکرنہ کیاہو۔قاری صاحبؒ نے کولھاپورسے بلاکردارالعلوم کے شعبہ تبلیغ میں ازخود تقررفرمایا۔ مطالعہ کابچپن سے ہی شوق تھاجوکہ اب تک جاری ہے۔
قادیانیت،رضاخانیت،مودودیت،مہدویت،وہابیت،صدیق دیندار،عیسائیت اوردیگرمذاہب کے مطالعہ کاشوق رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمذہب ومسلک پرآپ کی گفتگوبڑی پرمغزوپرازمعلومات ہوتی تھی۔ موصوف نے ملک کے طول وعرض میں مدارس ومکاتب کاجال پھیلایا۔جن میں مدرسہ دارالعلوم ملامحمودمنگلور(ہری دوار)کانام قابل ذکرہے۔حقیقی تبلیغی جماعت کے مراکزقائم کئے۔اوراخیرمیں جذبہ فدایت کے ماتحت حضرت قاری طیب ؒکے زیرسایہ وقف دارالعلوم کاسلسلہ شروع کیا۔اللہ کے فضل وکرم سے جس کا سلسلہ آج بھی بڑی آب وتاب کے ساتھ چل رہاہے۔ جس کے فضلادنیاکے ہرخطے میں پہنچ چکے ہیں۔ وقف دارالعلوم کی شروعات دیوبندکی جامع مسجد سے ہوئی اس وقت اسے بھی دارالعلوم ہی کہاگیاتھا۔لیکن مولاناسیدابوالکلام قاسمی صاحبؒ ہی کی تجویزپراس میں لفظ’وقف کا اضافہ کیاگیا۔
بہرکیف مولانازندگی کے ایک لمبے عرصہ تک بڑی تندہی کے ساتھ اس کی خدمات میں لگے رہے۔ اسی کے ساتھ ایک دلچسپ بات یہ بھی، جس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں وہ یہ کہ حضرت والاکوشیخ الاسلام کے اجلہ خلفامیں شامل حضرت مولانا سید محمد احمد صاحب ؒ جعفری مہگاوی الہ آبادی ،حضرت مفتی مظفرحسین صاحبؒاورحضرت قاری محمدمبین صاحب خلیفہ وجانشیں حضرت شاہ وصی اللہ رحمۃاللہ علیہ، ان تین بزرگوں سے اجازت بیعت بھی حاصل تھی۔ مگرراقم کی آنکھوں نے کبھی کسی کومریدکرتے نہیں دیکھا۔ اصلاحی جذبہ جوان رہا، اگرچہ عمرکے اعتبارسے اوربیماری کے غلبے کے سبب کمزوری دن بدن بڑھتی رہی۔ مگردوران خطاب اخیروقت تک کوئی یہ شناخت نہیں کرسکتاکہ مولانا بیمار ہیں، یا کمزور ہیں۔ ہرموضوع پر باطل کی تردید جاری ہے۔ الحمدللہ بے تکان بولتے چلے جاتے تھے۔ اللہ رب العزت نے مولاناکووقت خطاب اپنی زبان کوتلواراورتلوارکوزبان بنانے کاہنر،لفظوں کوگلاب اورجملوں کوگلدستہ بنانے کاخوبصورت سلیقہ بخشا تھا ۔
آپ کی طلعت فکرسے ملک کاگوشہ گوشہ روشن ہے۔آپ کی علمی شوکتوں کا پرچم دلوں کی فصیل پرلہرارہاہے۔آپ کے فکرونظرکی اصابت،علم وفن کے تبحر،فضل وکمال کی انفرادیت اورفہم وادراک کاایک زمانہ معترف ہے۔مولاناکاپرمغزخطاب جذبوں کی تطہیراورپاکیزہ افکارکا امین ہوتاتھا۔مولاناابوالکلام صاحبؒ قدرت بیان اورموثراسلوب کے سبب میدان خطابت میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے،اوریہ کہنے میں بھی کسی طرح کاکوئی مبالغہ نہیں کہ مولانانے خطابت کوروایت وجدت کے ملاپ سے ایک نیارنگ وآہنگ عطاکیاتھا۔اوریہ بھی حقیقت ہے کہ مولانااسلاف کی علمی،فکری اورعملی روایتوں کے سچے امین وپاسبان تھے۔یقینایہ قول ایسے ہی مقام پرصادق آتاہے ،موت العالم،موت العالِم۔

Comments are closed.