کون ہیں مولانا رحمت اللہ ندوی؟

ڈاکٹرمحمدجسیم الدین قاسمی
شعبہ عربی،دہلی یونیورسٹی
مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری سینئر قاضی امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ بہار کے بھتیجے ہیں مولانا رحمت اللہ ندوی۔۔۔مولانا محمد قاسم صاحب نے مولانا رحمت اللہ کی زبردست تربیت کی ہے… آج مولانا رحمت اللہ ندوی جو کچھ بھی ہیں، مولانا قاسم صاحب مظفر پوری کی رہین منت ہیں۔ باقی مولانا رحمت اللہ ندوی بھی علم وتحقیق کے جویا ہیں، کتب بینی ان کی غذا ہے اور کتاب نویسی ان کا مشغلہ ہے، علمی اشتغال و انہماک روز وشب کا معمول ہے۔
میں نے دو سال قبل دہلی یونیورسٹی نارتھ کیمپس کی سینٹرل لائبریری میں محترم مولانا عبد القادر شمس قاسمی سینئر سب ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ساتھ مولانا رحمت اللہ ندوی صاحب کو دیکھا کہ ان کے دونوں ہاتھ گرد آلود ہیں اور وہ مطلوبہ کتابوں کی جستجو میں سرگرداں تھے۔۔۔فی الحال آپ قطر کے بہت بڑے علمی و تحقیقی ادارے سے وابستہ ہیں۔ آپ ہندوستان چند دنوں کے لیے آتے ہیں لیکن یہاں آکر بھی آپ کتابوں کے درمیان ہی بیشتر اوقات گزارتے ہیں بطور خاص کتب خانوں میں آج مجھے ’’خطبات مدراس‘‘ سید القلم سید سلیمان ندوی صاحب کی سیرت پر کی گئی تقریروں کا مجموعہ کا عربی ترجمہ ’’الرسالۃ المحمدیہ‘‘ کا ٹائٹل پیج القلم للبحث والترجمہ واٹس ایپ گروپ پر دیکھ کر بے پناہ خوشی ہوئی کہ آپ دیار عرب میں ہندوستانی علماء کے کارناموں کو کس شان سے منظر عام پر لارہے ہیں، آپ ٹیم ورک کو بھی تن تنہا مسلسل انجام دے رہے ہیں اور آپ کی اکثر عربی میں ترجمہ شدہ کتابیں دمشق کے دارالقلم سے شائع ہورہی ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شیخ زکریا، مولانا سید سلیمان ندوی و غیرہم کی بھی سوانح عربی میں لکھ چکے ہیں جو دمشق کے دارالقلم سے شائع ہوچکی ہیں۔ آپ کا فکر وفن آپ کو معاصرین سے ممتاز کرتا ہے، بات چاہے معلومات کی ہو یا اسلوب نگارش کی، ہرمیدان میں آپ کی انفرادیت آپ کی شناخت ہے، آپ کا اسلوب نگارش بھی بڑا البیلا ہے، ہر سطر چاشنی وشیرینیت کے ساتھ معنی خیز تعبیرات سے لبریز ہے۔اللہ کرے زورقلم اور زیادہ۔
اس وقت مولانا رحمت اللہ دیار عرب میں ہندوستانی علماء کے بڑے ترجمان ہونے کے ساتھ ہم نسل نو کے لیے آئیڈیل ہیں۔ آپ نہایت خاموشی سے بڑے بڑے علمی و تحقیقی مشاریع پر پیہم کام کررہے ہیں، ہرسال قابل ذکر آپ کا علمی کارنامہ منظر عام پر آنے کے بعد شرف قبولیت حاصل کرتا ہے اور علم وادب کے شائقین کے لیے اس طرح گراں قدر سرمایہ آپ فراہم کرتے ہیں۔آپ کا جہد مسلسل اور سعی پیہم آپ کے روشن مستقبل کا غماز ہے، یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مردہ پرستی کا رواج عام ہے، زندگی میں خواہ آپ علم وفن کے کوہ گراں کو سر کردیں، لیکن اس کی ستائش کرنے والے خال خال ہی ملیں گے اور داعی اجل کو لبیک کہتے ہی متوفیہ کے فکر وفن پر تحقیق اور کارناموں کو گنوانے کے لیے قومی و بین الاقوامی سیمیناروں و کانفرنسوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اس ذہن ومزاج اور اس فرسودہ طریقہ کار کو بدلا جائے گا اور جو بھی علمی وتحقیقی کارنامے انجام دینے والی موجودہ شخصیات ہیں، ان کی زندگی میں ہی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے، بلکہ نسل نو ان کے طریق کار کو اپنانے کی تلقین بھی کی جائے. میری یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علمی وتحقیقی سفر کو یونہی جاری رکھے۔
Comments are closed.