آہ! امیر علم وفن آج رخصت ہو گیا

مفتی محمد اطہر القاسمی ارریاوی
اس ماہ رمضان المبارک میں مسلسل روزہ کھولتے وقت،تراویح کے بعد اور جب ہاتھ اٹھانے کی توفیق ملتی؛ امام علم و فن،امیر قافلہ قاسمیت،مرجع خلائق اور ترجمان علوم شریعت استاذنا وشیخناحضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی صحت وسلامتی کے لئے دل سے دعائیں کرتا۔
آج رات نہ جانےمیری بےچینی کیوں بڑھی ہوئی تھی،سحر کے وقت بھی فضلاء دارالعلوم دیوبند 2000 گروپ سےحضرت والا کی صحت کے متعلق معلومات حاصل کی تھی اور بھائی مصطفیٰ امین صاحب پالنپوری نے تسلی بھی دلائ تھی۔اسی بناء پر نماز فجر پڑھ کرسوگیا۔
ابھی ساڑھے سات بجے صبح نیند سے بیدار ہوا تو یکلخت اپنے دونوں ہاتھوں سے تکیہ کے اردگرد کچھ ڈھونڈ رہاہوں۔پھراچانک خیال آیاکہ میں یہ کیسی حرکت کررہا ہوں؟گھروالے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے!
تسلی نہیں ہوئی تو قضاء حاجت سے فارغ ہوا اور چند قدم آنگن میں پھر کچھ ڈھونڈنے لگ گیا۔
بے چینی بڑھ گئی،سر چکرانے لگااور ذہن پر خوب دباؤ ڈالا تاکہ مجھے یادآجائے کہ آخر آج مجھے ہواکیا ہے؟
مگر خدا کی قسم میرے جسم کا رواں رواں کھڑا ہوگیا اور ڈر اور خوف کے ساتھ سانس کی رفتار تیز ہونے لگی۔
پھر محسوس ہوا کہ کوئی انہونی ہوگئی ہے۔
تسلی کے لئے آکر بستر پر لیٹ گیا اور زبردستی آنکھیں بند کرتا مگر باربارآنکھیں کھل جاتیں اورگھر کی درودیوار پر کچھ پڑھنا چاہ رہی تھیں کہ یکایک دماغ کھلا اورلگا کہ کوئی سرہانے خبر دے رہا ہے کہ تمہارے استاذمحترم حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔
فون آن کیا تو واقعی حضرت والا کی وفات کی خبروں سے موبائل بھر چکاتھا۔
اناللہ وانا الیہ رجعون۔
اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کی بخشش فرمائے،کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے،سارے سیآت کو حسنات سے مبدل فرمائے،متعلقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے،ام المدارس دارالعلوم دیوبند،اس کے اساتذہ و عملہ اورمفتی صاحب کے فراق میں غمگین دارالحدیث پر اپنی رحمت خاصہ کا معاملہ فرمائے اور ملک و عالم میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے لاکھوں علمی،ادبی،فقہی،فنی،دینی و مذہبی روحانی اولاد کو بھی صبر جمیل دے کہ آج پورا عالم سوگواران شیخ ہے۔
خدا کی قسم میں نے اوپر جوکچھ لکھاایک حرف بھی افراط و تفریط سے کام نہیں لیا۔جوہوااور جیسا ہوا ہوبہو لکھ دیا۔
حضرت والا کے لئے اب تک دامت برکاتہم العالیہ لکھا جاتا تھا مگر اب آج سے ہمیشہ رحمۃ اللہ علیہ لکھا جائے گا۔
مفتی صاحب واقعی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔یقین آتا نہیں مگر یقین کرنا ہے کہ سب کو اس دارفانی سے کوچ کرجانا ہے۔یہاں ہمیشہ رہنے کو کون آیاہے۔کل آنا،آج جانا اور اپنی جگہ اپنی نسلوں کے حوالے کردینا؛اپنے اعمال اور اپنے کرتوتوں کی گٹھری لئے سب کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔یہی تو اس دنیا کی ریت ہے۔جو آج تک کبھی بدلی نہیں ہے اور قیامت تک کبھی بدلے گی بھی نہیں۔
مفتی صاحب بھی اللہ کو پیارےہوگئے۔
اب علم وفضل اور قلم و قرطاس کے لاکھوں شہسوار ان کے تلامذہ جوپوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں وہ سب اس شجر طوبی کی خوبصورت روحانی شاخیں ہیں۔جو آج حضرت والا کے فراق میں غمگین ہیں اور سبھوں کے ہاتھوں میں موبائل ہے،قلم و قرطاس ہے۔حضرت والا کی یادیں ہیں۔ان کی باتیں ہیں۔مفتی صاحب کے علوم نقلیہ و عقلیہ کے خوبصورت قصے ہیں۔ان کے اسباق حدیث کے پیار بھرے تذکرےہیں،خوبصورت تبصرے ہیں۔
مفتی صاحب دوران درس فرماتے تھے:
*کل میں نے اس حدیث کی شرح میں جو وضاحت کی تھی وہ غلط تھی۔تم لوگ اپنی کاپیوں سے اسے حذف کردو،یہ صحیح ہے۔اسے محفوظ کرلو*۔
مفتی صاحب فرمایا کرتےتھے:
*اپنی غلطی کے اعتراف سے انسان کا مرتبہ گھٹتا نہیں،بڑھتا ہے۔*
مفتی صاحب دوران درس اکثر تنبیہ کرتے تھے:
*چھچھوراپن،ہلکاپن اور ٹھٹھا بازی تمہاری شان اور باوقار شخصیت کے منافی ہے۔باوقاررہو،مہذب بنو،مہذب رہو،*۔
علوم نبویہ کے اس بحر بیکراں کا یہ اعتراف و رجوع اور آب زرسے لکھی جانے والی یہ باتیں تمام اہل علم و فن کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود اپنی کم مائیگی و بےمائیگی اور اسلامی ونبوی تہذیب و تمدن کا احساس دلاتی رہے گی۔
حضرت مفتی صاحب!
آپ ہم سب کو چھوڑ کر کہاں چلے گئے ہیں؟ایک بار آنکھیں کھولئے نا اور ادھر دیکھئے نا آپ کا یہ بچہ کیسے آپ کی یاد میں تڑپ رہا ہے۔بلک رہاہے،سسکیاں لے رہا ہے اور ادھر ادھر نظروں میں صرف آپ کی خضاب والی گھنی و خوبصورت ڈاڑھی اور عظمت و جلال،ہیبت و رعب اور نور علوم نبوت سے معمور پروقارچہرہ اور اس چہرے کی خوبصورت تصویر ذہن و دل پر حاوی ہے۔
خدا مجھے معاف کرے کہ میں نے آپ کا اتنا لمبا وقت لے لیا۔
چلتا ہوں۔وضو کرتاہوں،قرآن کریم کی چند آیتیں تلاوت کرتا ہوں اور مصلی بجھا کر اپنے شیخ،اپنے محسن،اپنے مربی اور اپنےاستاذ مرحوم کے لئے ایصال ثواب کرتا ہوں۔
اور آپ سب سے اپنے لئے بھی صبر و تحمل کی درخواست کرتا ہوں۔
یکے از خوشہ چیں حضرت والا رحمۃ اللّٰہ علیہ
*فاضل دارالعلوم دیوبند
سنہ 2000
٢٥/رمضان المبارک
19/مئی 2020
Comments are closed.