Baseerat Online News Portal

فقیہ النفس محدث جلیل مفتی سعید احمدپالنپوری کی رحلت:تیری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

ڈاکٹر جسیم الدین
گیسٹ فیکلٹی شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی ،دہلی
[email protected]
9711484126
کائنات کا روز ازل سے یہ دستور ہے کہ جوبھی کارگہ عالم میں آیا ہے،اسے ایک نہ ایک دن جاناپڑے گا، لیکن بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں، جن کے وجود سے ایک انجمن آراستہ رہتی ہے اور ان کے جانے سے انجمن کی رونق ماند پڑجاتی ہے، استاذ محترم فقیہ النفس،محدث جلیل مفتی سعید احمدپالنپوری بلاشبہ ایسی شخصیت تھے کہ جن کے وجود مسعودسے دارالعلوم دیوبند کی علمی فضا معطر ومشکبار تھی، آپ کی ذات والا صفات قرن اول کی سادگی کانمونہ تھی،آپ کی طبیعت میں حلم وبردباری،مزاج میں انکساری اورزبان میں شیرینی تھی، آپ علم القرآن کے شیدائی،علم الحدیث کے رسیا اور فقہ اسلامی کے زمزشناس تھے، آپ کے بیان میں شیفتگی، تحریرمیں شگفتگی تھی،آپ فقید المثال اساتذ ہ کے شاگرد اور نامور شاگردوں کے استاذ تھے، چہرہ مہرہ شرافت کی دستاویز، دل خوف غیر اللہ سے خالی، دماغ غور وفکر کا خزینہ اورآپ کا سراپا اکابر واسلاف کا نمونہ تھا۔آپ کی رحلت سے ایک فرد یا ایک خانوادہ ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ مغموم ورنجور ہے، آپ ملت اسلامیہ ہند کے لیے جہاں گراں مایہ تھے، وہیں علوم نبویہ کے طالبعلموں کے لیے چشمۂ صافی تھے۔آپ کے علم وفضل کادائرہ غیر محدود تھا، آپ کے درس حدیث کا عالم میں غلغلہ تھا۔صرف دارالعلوم دیوبند میں داخلہ پانے والوں نے ہی آپ کے علم وفضل سے استفادہ کیا، بلکہ آپ کی بیش قیمت تصانیف وتالیفات سے بلا تفریق مذہب وملت ہر خاص وعام نے کسب فیض کیا۔آپ کی غیر معمولی علمی خدمات کے اعتراف میں صدرجمہوریہ ہند کی طرف سے ایوارڈبھی پیش کیاگیا۔بلاشبہ آپ کی ذات والا صفات ہرچندکہ اس طرح کے ایوارڈ سے بلند وبالاتھی، لیکن آپ نے حب الوطنی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ہند کی طرف سے دیے جانے والے اس اعزاز کو قبول فرمالیا تھا۔
آپ کو ذات باری تعالیٰ نے جہاں قرطاس وقلم کی بے پایاں قوت واستعداد سے سرفراز کیا تھا، وہیں آپ کی شخصیت رجال سازی کے لیے مشہور تھی، آپ نہ صرف اپنے گرد وپیش رہنے والے طلبہ کے لیے فکرمند رہتے،بلکہ طلبہ کی پوری برادری کے لیے دل دردمند رکھتے تھے، راقم الحروف نے 2001 میں آپ سے جامع ترمذی جلد اول پڑھی۔درس وتدریس میں آپ کے کچھ منفرد اصول وضوابط تھے، جن پراخیر وقت تک سختی سے قائم رہے، یوں تو آپ کا طریقۂ تدریس ہی ممتازخصوصیات کا حامل تھا، شاید ہی کوئی طالب علم آپ کے سبق سے غیر حاضر ہوتا، جامع ترمذی جلد اول کی عبارت خوانی کے لیے بھی چند طلبہ کو اپنی رہائش گاہ پر بلاتے اور فرداً فرداً عبارت خوانی کراتے اگر آواز مترنم اور پرکشش ہوتی تو زہے نصیب،ورنہ جامع ترمذی کی عبارت خوانی کے شرف سے محروم رہنا پڑتا، صرف سماعت سے مستفید ہوتے۔وقت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ بعد نماز مغرب متصلاً درس حدیث شروع ہوجاتا، مفتی صاحب کے ورود مسعود سے پہلے تمام طلبہ کی درسگاہ (دارلحدیث تحتانی) میں اپنی نشستوں پر موجودگی لازم ہوتی، مفتی صاحب رونق افروز ہوتے اور عشاکی اذان تک تقریباً دیڑھ گھنٹہ تشنگان علوم حدیث کو اپنے منفرد اسلوب وانداز میں سیراب کرتے۔بطور خاص سال کے اختتام پر آخری سبق جو سبھی طلبہ کے لیے اپنے میدان عمل میں نہ بھلایاجانے والا سبق ہوتا، اس سبق میں آپ کا انداز وآہنگ اتنا پرتاثیر ہوتاکہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد جہاں آپ کے ارشادات کو قلمبند کرتے وہیں کچھ طلبہ ٹیپ ریکارڈکی مدد سے ریکارڈنگ میں مصروف رہتے،اور باقی ہمہ تن گوش ہوکر میدان عمل میں اترنے کے لیے جن آلات کی ضرورت درپیش ہوتی ہیں ان کے بارے میں کیاتیاری ہو اور کس نہج پر ہو گرہ باندھ لیتے۔اس آخری سبق میں جہاں مفتی صاحب اپنے طلبہ کو بیش بہاپند ونصائح سے نوازتے وہیں مدارس کے مروجہ نظام (چندہ وغیرہ)پر کھل کر تنقید بھی فرماتے اور بطور خاص ناقص الاستعداد طلبہ سے منصب اہتمام سے خود کو دور رکھنے کا عہد وپیمان بھی لیتے، مفتی صاحب کا نقطۂ نظر یہ تھا منصب اہتمام مدرسہ آگ پر چلنے کے مترادف ہے، اگر یہ کوالیٹی آپ میں ہے تو آپ شوق سے منصب اہتمام کو سنبھالیے،ورنہ نہیں۔تبلیغی جماعت میں علماء کی شمولیت کتنا مفید اور کتنا مضر؟ اس حوالے سے بھی پرتاثیر خطاب فرماتے کہ جو جید الاستعداد طلبہ ہوں وہ فراغت کے فوراً بعد سال بھرکے لیے دعوت وتبلیغ میں جانے کے بجائے تخصصات کے شعبوں میں وقت لگائیں، ہاں جو متوسط ہیں وہ درس وتدریس سے جڑ جائیں اور جو ناقص الاستعداد ہیں وہ مسجد سے وابستہ ہوکر اذان وامامت کی ذمہ داری نبھائیں۔ آپ جہاں علم حدیث میں ید طولیٰ رکھتے تھے،وہیں آپ علم کلام اور علم فقہ میں بھی ممتاز ومنفرد مقام رکھتے تھے۔آپ نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شہرۂ آفاق تصنیف ’حجۃ اللہ البالغہ‘ کی شرح’رحمۃ اللہ الواسعہ‘ کے نام سے تقریباً چار جلدوں میں لکھی، حجۃ اللہ البالغہ کی شرح ’رحمۃ اللہ الواسعہ‘ میں مفتی صاحب نے جس انداز میں شاہ ولی اللہ کے علوم ومعارف کی تشریح وتوضیح کی ہے وہ آپ کی امتیازی شان ہے۔
آپ فقیہ النفس تھے، فقہ جو در اصل قرآن وحدیث فہمی کے بعد اس سے مستنبط ہونے والے مسائل کا مصدر وسرچشمہ ہے، اس میں بھی آپ کو رب ذوالجلال نے آفاقیت عطا فرمائی، آپ قدیم مختلف فیہ مسائل کو جس انداز سے تشریح وتوضیح کرتے ہوئے فقہ حنفی کی وجہ ترجیح کو احادیث اور آیات قرآنی سے ثابت کرتے، یہ بھی آپ کا یگانہ اندازہوتا تھا، جدید مسائل میں بھی امت مسلمہ کی رہنمائی کافریضہ جس انداز میں انجام دیا، وہ بھی قابل رشک ہے، حال ہی میں ’کورونا‘ کے ختم ہوجانے کے سلسلے میں ’ثریا‘ ستارہ کے طلوع ہونے کے بعد بیماری کے خاتمہ کا سبب ہونے کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی گئیں تھیں اس کی واضح تردیدکرتے ہوئے بہت ہی مفصل محدثانہ خطاب فرمایا جو یوٹیوب وغیرہ پر موجود ہے۔غرضیکہ قدیم مختلف فیہ فروعی مسائل میں مضبوط رائے کے ساتھ نصوص شرعیہ کو پیش کرنے اور اختلاف کو رفع کرنے میں قسام ازل نے غیرمعمولی قدرت دی تھی۔چھ دہائیوں سے مسلسل درس وتدریس اور پچھلے اڑتالیس برسوں سے دارالعلوم دیوبند کی مسند درس وتدریس اورشیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد 2009سے بحیثیت شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی آن بان شان تھے۔آپ کا وجود ایک ادارہ، آپ کی شخصیت ایک انجمن اورآپ کی ذات ایک جماعت تھی۔کاش ابھی آپ داغ مفارقت نہ دیتے، لیکن قدرت کے منشا کے سامنے انسان بے بس ہے۔اس مبارک ماہ میں آپ کی رحلت قابل رشک ہے،ساتھ ہی آپ کی رحلت سے نہ صرف وابستگان دارالعلوم دیوبند کا بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا جو ناقابل تلافی نقصان ہواہے، اللہ اس کی بھرپائی کرے۔رب ذوالجلال آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے۔ع
تیری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے؟

Comments are closed.