قافلہ علم وعمل کاایک اور درخشاں ستارہ غروب

محمدطفیل ندوی
جنرل سکریٹری! امام الہندفائونڈیشن ممبئی
رنج وغم زندگی کاحصہ ہے ہرخوشی کے بعد غم ہے،حیات ممات کاپیش خیمہ ہے،نورکے بعد ظلمت ،ظلمت کے بعد روشنی ،خوشیوں کیساتھ آنسواورآنسوکیساتھ خوشی ومسرت کےقہقہے یہی توزندگی ہے اوراسی زندگی کے خاتمہ کانام’’ موت ‘‘ہےیہ بات مسلم ہے کہ یہ دنیا چل چلائوکانام ہے اوریہ بھی حقیقت ہےکہ دوام اورقرار تو صرف اللہ رب العزت کوحاصل ہے اوریہ بھی معلوم ہےکہ اللہ رب العزت کی ذات مقدس کے سواہر چیز پرفنائیت طاری ہوگی جس کے بارےمیں قرآن مقدس کےاندرارشادہے ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ لیکن کیاکیجئےانسانی طبیعت کا کہ اسے جب بھی کوئی تکلیف پہونچتی ہے تواس کادل روتا ہے یہ جاننےکے باوجود کہ سفرکتناہی آرام دہ کیوں نہ ہو اس کی ایک منزل یقینی ہےاس یقین کے باوجودکہ جس شخص نےخدائی اسٹیشن سےجہاں اورجتنے کا ٹکٹ حاصل کیا ہے اس منزل کے آتےہی ٹکٹ اپنی حیثیت کھودیتاہےمگردوران سفر بعض مسافر اپنے کرداروعمل سے ایسی چھاپ اوراپنی شخصیت کاایسا اثر چھوڑجاتےہیں کہ ان کی جدائی سے دل کوکرب کااحساس ہوتاہےلیکن وفورمحبت میں کوئی بھی مسافر ایسانہیں ہوتاجوخلیق وملنسار اورنیک طینت مسافر کیساتھ اپنے سفر اوراپنی منزل کے آنےسے پہلے اترجائے ہرشخص کو اپنی زندگی کی آخری سانس تک جیناہے اورہرکسی کو اپنی منزل تک پہونچ کر سواری سے اتر ناہےلیکن خداجانے ان آنکھوں کوکرب وبلا کے کتنے مناظر دیکھنے مقدرہیں افکا وحوادث کے کتنے سین دیکھ چکی لیکن زندگی میں جب بھی کوئی ایسالمحہ آیاکہ جب کسی برگزیدہ شخصیت نے اپنابوریہ بستر لپیٹا ،دنیااوردنیاوی چیزوں سے رخ موڑاتواحساس زیاں کی چنگاریوں نے نہاں خانہ دل کو بےچین وبےکل کردیا معدن علم وبصیرت ،تعلیم وتربیت کانگہبان ،فقہ اسلامی کاشناور،تحقیق وتصنیف کامہرمنیر،شعوروآگہی کاپیکرجمیل ،رئیس المحدثین حضرت مولانامفتی سعیداحمد صاحب پالنپوری ؒ نے اپنی عمر طبعی گذارکر تقریبا ۷۸سال کی عمرمیں ۲۵رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹ مئی ۲۰۲۰ءبروزمنگل صبح کے اولین ساعتوں میںاس دارفانی سے ہمیشہ ہمیش کیلئے آنکھیں موندلیں ’’اناللہ واناالیہ راجعون‘‘
اےفرشتہ اجل ! کیاخوب تیری پسندہے
پھول تونے وہ چنا جو گلشن کوویران کرگیا
حقیقت یہ ہےکہ بعض آفاقی شخصیات ایسی ہوتی ہیں ،جوچرخ کے ہزاروں گردشوں کےبعد جنم لیتی ہیں اور چشم فلک جن کا صدیوں اورسالوں انتظارکرتی ہیں وقت قدم قدم پررک کر اورسنبھل کر ایسےافرادکو بناتاہے ،سنوارتاہےاورتراشتاہے تب کہیں جاکر ایک گوہرنایاب اورمردکامل جنم لیتاہے ،بلاشبہ حضرت مفتی صاحبؒ ایسی ہی عالمی شخصیات میں سےتھے وہ بیک وقت فقیہ بھی تھے اورمحدث کبیربھی، بےمثال خطیب بھی تھے اورشیریں گفتارعالم دین بھی بلکہ یوں کہیےکہ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اللہ رب العزت حضرت ؒکے تمام نیک کاموں کوقبول فرمائیں ،روح کوسکون واطمینان بخشیں اورجنت الفردوس کی بہاروں سے پوری طرح سرفرازفرمائیں۔
آتی ہی رہےگی تیرےانفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتاہی رہےگا
حضرت مفتی صاحب ؒ کی ولادت باسعادت ۱۹۴۰ ءکالیڑہ ،شمالی گجرات (پالنپور)میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنےوطن گجرات میں حاصل کی جب آپ کی عمر تقریبا۵یا۶سال کی تھی تو والدمحترم نےآپ کی تعلیم کاآغازفرمایالیکن والدمحترم کھیتی وغیرہ کے کاموں میں مصروف رہتے جس کی وجہ سے خاطرخواہ توجہ نہ دےسکیںاسلئے آپ کومکتب میں بٹھادیا جہاں ناظرہ ودینیات کی تعلیم حاصل کی پھراپنے مامو حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب شیراکےہمراہ دارالعلوم چھاپی چلےگئے جہاں فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۱س کے بعد مصلح امت حضرت مولانا نذیرمیاں صاحب ؒ پالنپورکے مدرسہ میںجوپالنپورشہرمیں واقع ہےداخلہ لیا اورچارسال تک حضرت مولانامفتی محمداکبرمیاں صاحب پالنپوری ؒ اورحضرت مولانا ہاشم صاحب بخاری ؒ سے عربی کی ابتدائی اورمتوسط کتابیں پڑھیںپھر ۱۳۷۷ھ میں مظاہرالعلوم سہارنپورمیں داخلہ لےکرحضرت مولانا صدیق احمدصاحب جموی ؒ سےنحو،منطق وفلسفہ کی بیشترکتابیں پڑھیں نیزحضرت مولاناعبدالعزیزصاحب رائےپوری ؒ حضرت مولانایحی صاحب سہارنپوری ؒ اورحضرت مولاناوقارصاحب بجنوری ؒ سے بھی چندکتابیں پڑھیں بعدازاں ۱۳۸۰ھ مطابق ۱۹۶۰ءمیںفقہ، حدیث، تفسیرودیگرعلوم وفنون کی اعلی تعلیم حاصل کرنےکیلئے دارالعلوم دیوبندمیں داخل ہوئےاورسال اول حضرت مولانا نصیراحمد خاں صاحب بلندشہری ؒ سے تفسیرجلالین مع فوزالکبیر حضرت مولاناسید اختر حسین صاحب دیوبندی ؒ سےہدایہ اولین وغیرہ پڑھیں ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲ءمیں دورہ حدیث شریف سے سالانہ امتحان میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوکرفارغ ہوئے مزیدتعلیم کیلئے شعبہ افتاءمیں داخل ہوئے اورفتاوی نویسی کی تربیت حاصل کی جس کے بعد آپ کے فقہی ذوق میں چارچاندلگ گئے جن حضرات اکابرکےسامنے زانوے تلمذطے فرمایا ان میں حضرت مولاناسیداخترحسین صاحب دیوبندی ؒ،حضرت عبدالجلیل صاحب کیرانوی ؒ،حضرت مولاناقاری محمدطیب صاحب ؒ،حضرت مولانافخرالحسن صاحب مرادآبادی ؒ ،حضرت مولاناابراہیم صاحب بلیاوی ؒ،حضرت مولانااسلام الحق صاحب اعظمی ؒ،شیخ محمودعبدالوہاب صاحب مصری ؒودیگراستاذہ کرام قابل ذکرہیں ۔
تکمیل افتاءکے بعد ۱۳۸۴ھ میںحضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی ؒ کےتوسط سے آپ کا تقرر دارالعلوم اشرفیہ راندیرسورت میں درجات علیاکے استادکی حیثیت سے ہوا یہاں تقریبادس سال تدریسی خدمات انجام دیتےرہے پھر دارالعلوم کی مجلس شوری کےمعززرکن حضرت مولانامحمدمنظورنعمانی صاحب ؒکی تجویز پر ۱۳۹۳ھ میں دارالعلوم دیوبند کےمسند درس وتدریس کیلئے آپ کا انتخاب کیا گیاآپ مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھانےکیساتھ برسوں ترمذی شریف جلداول اورطحاوی شریف کےاسباق آپ سے متعلق رہیں،دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین حضرت مولانا نصیراحمدخاں صاحب ؒ کی علالت کےبعد۱۴۲۹ھ مطابق ۲۰۰۸ءمیںبخاری شریف کادرس آپ کے سپردکیاگیا اورشیخ الحدیث کےمنصب جلیلہ پرفائزہوئےجس کوآخری وقت تک بحسن خوبی انجام دیتےرہےاس میں کوئی شک نہیں کہ آپ مختلف اسلامی علوم کےبحربیکراں تھے لیکن علم حدیث وفقہ میں تدریس کاجو سلیقہ اوراس فن پر جو مہارت آپ کو خزانہ قدرت سے ودیعت ہوئی تھی بہت کم خادم حدیث کی خدمت میں آئی ہوگی بہت خوبصورتی کیساتھ جامع اورمختصر اندازمیں حدیث کامفہوم سمجھاکرطلباءکومطمئن کردیناآپ کیلئے کوئی بڑی بات نہیں تھی اللہ نے آپ کووہ صلاحیت عطاکی تھی جس سے اپنے افکاروخیالات کو طلباء تک منتقل کردینےکی پوری مہارت تامہ حاصل تھی اوردوران درس بڑی خوبی اوراعتمادی کیساتھ حال ومستقبل کاآئینہ دکھاکر تعلیم وتربیت کے ایسے اشارےفرماتے کہ طلباءکے ذہن ودماغ پرنقش ہوجاتا جس سے ان کادل بے حدمسرورہوجایاکرتا اورچہرے پر بشاشت ٹپکنےلگتی کیوں کہ آپ کااسلوب تدریس بڑاہی دلکش اوردل کوبھاجانیوالاہواکرتاتھا آپ بولتے تو یوں لگتاجیسے آبشاربہہ رہےہوں تلفظ کی ادائیگی میں خوبصورتی ،عام فہم باتوں میں معلومات کاسمندر ،کسل مندی پربرمحل ڈانٹ ڈپٹ آپ کی نمایاں خصوصیات میں سے تھیں۔
جس کے کردارسے آتی ہو صداقت کی خوشبو
ان کی تدریس سے پتھربھی پگھل سکتے ہیں
آپ ؒنے نہایت جفاکش اورسادہ طبیعت پائی تھی کھانالباس اورسواری ہرایک میں سادگی ملحوظ رہتی تھی ،عام محفلوں میں بیٹھنا اوراضاعت وقت کرنا آپ کی طبیعت کےبالکل خلاف تھا حضرت کی طبیعت میں درس وتدریس کیساتھ تصنیف وتالیف کابڑامادہ تھا گویاآپ اس میدان کے بھی بہترین شہسوارتھےاسلئے آپ کے نوک قلم سے کئی کتابیں منظرعام پرآئیںخاص طورپردرسی کتابوں کی شروحات جوعلمی مواد اورتحقیقی بنیادپر علمی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کی اسی طرح حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’امدادالفتاوی ‘‘پرآپ نے گراں قدرحاشیہ بھی تحریر فرمایاآپ بچپن ہی سے نہایت ذہین وفطین ،کتب بینی،اورمحنت کے عادی تھے اپنی ذکاوت وذہانت کی وجہ سے مختلف علوم وفنون اورخاص طورپر فقہ اور حدیث میں ممتازجانے جاتےتھے،فقہی سیمیناروں میں آپ کی رائےکوبڑی اہمیت دی جاتی تھی،فقہی باریکیوں کی طرف اشارہ فرماتے اورآپ کےمقالےکوبڑی قدرکی نگاہوں سے دیکھاجاتا آپ کی علمی خدمات کو سرہاتےہوئے صدرجمہوریہ ہند شرمتی پرتبھاپاٹل کےہاتھوں آپ کوقیمتی ایوارڈکے ذریعے نوازاگیا ۔
حضرت عرصہ درازسے علیل چل رہےتھے لیکن ضعف علالت کے باوجود اپنی غیرمعمولی ہمت اورقوت ایمانی سے کام لےکر اپنےآپ کومتحرک اورفعال بنائے رکھتےتھے مگرصحت کےانحطاط کودیکھتےہوئے یہ خطرہ لگاہواتھا کہ یہ ٹمٹماتاہواچراغ کسی بھی وقت داغ مفارقت دےسکتاہے جسکی چندجھلکیاں وقتافوقتامحسوس ہوتی رہی ابھی حالیہ ختم بخاری شریف کےوقت اپنی گفتگوسےقبل زورزورسے دہاڑےمارکررونےلگےاپنے استادکویوں دیکھ کر طلباءاپنے اوپرقابونہ رکھ سکیں اوریوں پورےدارالحدیث میں رونےکاسماں بندھ گیا ہرشخص آبدیدہ ہوگیا چندمنٹوں بعد حضرت کوپانی دیاگیا جس کے بعد کچھ بولنے کی کوشش کی توایسالگا جیسےالفاظ غائب ہوگئےہوں ،کئی مرتبہ بولنےکی کوشش کی مگر نہ بول سکےلیکن حضرت کی زبان سےجوجملہ نکلا وہ تھا ’’اب جواللہ چاہےگاوہ ہوگا ‘‘ یہ جملہ تین مرتبہ فرمایااورمسندسے نیچےاترگئےطلباءکیلئے یہ منظرعجیب تھا تمام طلباءحضرتؒ کے احترام میں کھڑےہوگئےاورحضرت ؒ ہاتھ ہلاتےہوئے طلباءکوسلام کرکےرخصت ہوگئےاوریہ شائددارالعلوم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بغیردعاکےمجلس اختتام پذیرہوگئی ۔حضرت ؒ زمانےسے شوگرکے مریض تھے اورسن وسال کیساتھ ساتھ یکےبعددیگرےبڑھتےگئےابھی چندسالوں سے مختلف امراض نے مزیدبال وپرنکال لئے تھےوقفہ وقفہ سے حضرت ؒ پرمرض کاشدید حملہ ہوتارہااورطرح طرح کی پیچیدگیاں اورنئے نئے عوارض نمودارہوتےگئےمرض نے طول پکڑاتوایمرجینسی وارڈ کےخصوصی دیکھ ریکھ والےکمرے میںرکھاگیاخویش واقارب ،خدام اوراحباب ومتعلقین نے دیکھ ریکھ میں کوئی کسرنہ چھوڑی ہرح کی کوششیں کی لیکن۔
مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی
بالآخر یہ حادثہ فاجعہ ایسے وقت میں پیش آگیاجس وقت پوری دنیا قیدوبندمیں ہیں اسلئے حضرت کے احباب ومتعلقین ،مریدین اورتلامذہ کونہ عیادت کرنےکا موقع ملااورنہ ہی جنازےمیں شرکت کاحضرت ؒبغرض علاج شہرممبئی میں مقیم تھے ملاڈکےسنجیونی ہاسپٹل میںصبرآزماعلالت کےبعد آخری سانس لےکراپنےرب حقیقی سے جاملےاورعقیدتمندوں نےاپنی نم آنکھوں کیساتھ جوگیشوری ممبئی اوشیوارہ قبرستان میں آغوش لحدکردیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ؒ اسلاف کےاس قافلےسے تعلق رکھتےتھے جن کی زندگیاں قوم وملک ،دین وملت کی ہمہ وقت خدمت کیلئے وقف توتھی ہی مگراسی کیساتھ وقت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشنی کامینارہ بھی بنی ہوئی تھیں لیکن ہم سب کومعلوم ہےکہ موت سے کسی کورست گاری نہیں ۔
کریں کیااپنی ہستی کا یقیں ہم
ابھی سب کچھ ابھی کچھ بھی نہیں ہم
آگےپیچھےسب کوجاناہےاس جہان فانی میں جوبھی آیا وہ اپنی متعینہ بہاریں دیکھ کرجہان باقی کی طرف رخصت ہوگیا اسلئےکہ آنیوالوں کی آخری منزل قبرہے۔
دنیاکےاےمسافرمنزل تیری قبرہے
یقیناحضرت مفتی صاحب ؒ ہم سب سے جداہوگئےمگرحضرت کی خدمات کانقش جمیل ناقابل فراموش ہیں گوناگوں اس فتنےکےدورمیں ان خدارسیدہ بزرگوں کانفس وجودبھی امت کیلئےمجسم رحمت ہوتاہےاورنہ جانےکتنے فتنوں کیلئے آڑ بنارہتاہےاسلئےحضرت کی وفات پوری امت کاایساخسارہ ہےجس کی تکمیل مشکل سے ہوسکتی ہےاللہ رب العزت سے دعاہےکہ اللہ حضرت کے درجات کوبلندفرمائیں ،تمام احباب ومتعلقین کو صبرجمیل عطافرماکر امت مسلمہ کو حضرت کانعم البدل عطافرمائے۔آمین
Comments are closed.