ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

خون جگر! شمشیر حیدر قاسمی
یوں تو اس دنیائے دنی میں کوئی بھی ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا، ہر آنے والے کے لئے اس کے آنے سے قبل ہی جانے کا فیصلہ ہو چکا ہے، اور یہ ایسا فیصلہ ہے، جس میں تقدم تأخر کا امکان ہےاور نہ تخلف کی گنجائش، بلکہ اس فیصلے کے خلاف آمد و رفت بساط خلقت سےباہر ہے، یہی وجہ ہے کہ کل سے ہی دل کو سمجھا رہا ہوں کہ استاذ محترم حضرت مفتی سعید احمدصاحب کو خالق موت و زیست کی طرف سے بلاوا آیا، وہ چلے گئے، اس پر رنج و ملال فضول ہے، ارے ہاں وہ خود بھی تو پوری زندگی اسی جانے کی تیاری میں لگے رہے، اور اس جانے کے دن کے آنے کئے لئے دن گنتے رہے،
مگر دل ہے کہ ماننے کو تیار نہیں، بیتابی پڑھتی ہی جا رہی ہے، جب تب آنکھیں بھی اشکبار ہو جا رہی ہیں، اگر بآواز نوحہ و گریاں ممنوع نہ ہوتا تو چشم گریاں و قلب بریاں کی موافقت میں ہر طرف چیخیں ہی چیخیں سنائی دے رہی ہوتیں، کئی دفعہ سوچا دل کے پھپھولوں کو سینۂ قرطاس پر ثبت کردوں اور حضرت استاذ محترم کے فراق اور جدائیگی کی وجہ سے غموں اور صدموں کے پھوٹتے لاوے کو کسی قدر ٹھنڈک فراہم کردوں مگر نہ جانے کیوں الفاظ کے خزانے ہموم و کروب کے اس تیر وتار موقع سے خامہ فرسا ہونے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوئے، مجبورا دل تھامنے کی کوشش میں لگ گیا، اور اسے منانے کی کوشش کرنے لگا، دریں اثنا کچھ اس طرح کے افکار و خیالات کا تموج و تلاطم نے مجھے اپنے گھیر ے میں لے لیا کہ. علوم و معارف کے خزانے لٹانے والی زبان دو مہینہ قبل اس عرض و معروض پر کہ،* جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا*، رک گئی تھی، در اصل یہ ایک تمہیدی جملہ تھا، اس طویل سلسلے کے اختتام یا تکمیل پزیری کو ظاہر کرنے کے لئے،
جس میں ایک مرد قلندر انتہائی شان و شوکت، جوش و جذبہ، وقار و سنجیدگی اور رعب و دبدبہ کے ساتھ ایک پر نور و پر سکون ماحول میں کبھی الامام الترمذی کے* سنن *سے خوبصورت جملے چن چن کر اس کے گیسوئے برہم کو سنوارتا نظر آتا ہے، تو کبھی الامام الہمام البخاری کے الجامع الصحیح میں مستور آبدار موتیوں سے تشنگان علوم نبویہ کو روشناس کراتا دکھائی دیتا ہے، گاہے امام ابو جعفر الطحاوی کے انظار و افکار سے نقاب کشائی کر رہا ہوتا ہے تو کبھی حجۃ اللہ البالغہ کے صفحات میں مسند الہند الامام ولی اللہ کی نکتہ سنجی و دقیقہ رسی پر انھیں خراج تحسین پیش کرتا دیکھائی دیتا ہے،
اسی کے ساتھ اس تمہیدی جملہ میں یہ اشارہ بھی تھا کہ
بخاری و ترمذی کا عظیم المرتبت شارح، تفسیر ہدایت القرآن کا مصنف، رحمۃ اللہ الواسعہ کا مؤلف، نحو، صرف، بلاغت، منطق، فلسفہ، اصول حدیث، اور اصول فقہ جیسے بے شمار علوم پر مشتمل درجنون کتابوں کا یہ قابل رشک خامہ بردار اب جلد ہی قلم و قرطاس سے اپنا ناطہ توڑ لے گا،
مگر ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ عظیم الشان سلسلہ اس قدر جلدی میں تھم جائے گا، ایک طویل عرصہ سے قرآنی علوم اور نبوی فیوض سے قلوب انسانی کو منور کرنے والا مسافر سلسلہ مسافرت کو بعجلت تمام منقطع کر لے گا، اوراسی رمضان المبارک کے عشرہ رحمت و عشرہ مغفرت سے رحمتوں اور مغفرتوں کا ذخیرہ جمع کرنے کے بعد بارگاہ الہی سے عتق من النار کا پروانہ حاصل کر تے ہوئے سوئے عدن رواں ہو جائےگا،
واہ کتنا دلربا ہوا کرتا تھا وہ منظر جب ملت اسلامیہ ہند کا دھڑکتا ہوا دل مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی پر شکوہ درسگاہ حدیث شریف میں شیخ سعید رونق افروز ہواکرتے تھے، ترجمان درسگاہ لاؤڈسپیکر پر اپنی انگلی سے بالکل آہستہ آہستہ ایک یا دو مرتبہ ٹھوکر مارتا، جس سے ٹک ٹک کی آواز پیدا ہوتی، جسے سن کر گلشن قاسمی کے چہچہاتے عنادل یکدم خاموش ہوجاتے اور وسیع و عریض درسگاہ میں بالکل سناٹا طاری ہو جاتا اورسب کی نگاہیں مسند درس کی طرف اٹھ جاتی،
تو سامنے ایک وجیہ اور بارعب شیخ پورے جلال و جمال کے ساتھ جبہ میں ملبوس، سر پر عمامہ اور عمامہ پر رومال ڈالے ہوئے انتہائی وقار سے مسندآرا ہوتے اور پروانۂ علوم نبوت کو اپنی زیارت سے سرفراز فرماتے اور پھرپوری درسگاہ میں شیخ سعید احمد کی یہ خوبصورت آواز سنائی دیتی،* السلام عليكم ورحمۃ اللہ و برکاتہ*
جواب میں طلبہ کی طرف سے جذبۂ جانثاری سے موجزن غایت ادب کے ساتھ کسی قدر دھیمے لہجے میں * وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ* کی صدا بلند ہوتی، اس کے بعد کوئی متعین طالب علم نہایت ہی پر کیف اور خوبصورت آواز میں حدیث پاک کی عبارت پڑھتا پھر شیخ سعید اپنے مخصوص لہجہ، پرکیف انداز، منفرد طرز تفہیم، کانوں میں رس گھولنے والی آواز اور بہت ہی دلکش اشاروں کے ساتھ متعلقہ عبارت کی اس طرح تسلی بخش تشریح فرماتے کہ طلبہ بزبان قال یا بزبان حال پکار اٹھتے کہ،
ہیں اور بھی دنیامیں سخن ور بہت اچھے،
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور،،
افسوس صد افسوس مادر علمی دارالعلوم دیوبند کی درسگاہ حدیث شریف کو اس امتیازی شان سے رونق بخشنے والا شیخ اب ہمیشہ کے لئے ہم سے روٹھ گیا ہے، اور ہمیں سسکتا و بلکتا چھوڑ کر عروس البلاد سے ملحق جوگیشوری کے اوشیورہ مسلم قبرستان نامی شہر خموشاں میں ہمیشہ کے لئے اس حال میں روپوش ہوگیا کہ ہم نہ صرف ان کی آخری دیدار کو ترس گئے بلکہ ہم ان کےقبرانور پر خاک ڈالنے سے بھی محروم رہ گئے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا،
* مدرسہ مقصود العلوم، رامپور،رانی گنج، ضلع ارریہ، بہار،
Comments are closed.