Baseerat Online News Portal

اترگئےمنزلوں کےچہرے،امیرکیا؟کاروں گیاہے

اخترامام عادل قاسمی

مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف سمستی پور

ایک سوگوار صبح

٢۵/رمضان المبارک۱۴۴۱؁ھ(۱۹/مئی ۲۰۲۰؁ء)کی صبح کیسی سوگوارتھی کہ اس
کےآسمان کاسورج ابھی  نکلاہی تھاکہ آسمان علم وفن کاروشن آفتاب غروب
ہوگیا،ابھی صبح کلیوں نےکھلنااورکوئل نےچہکناشروع کیاتھاکہ گلشن اسلام
کاایک پھول مرجھاگیا،اورباغ علوم نبوت کاایک بلبل خاموش ہوگیا،یعنی علم
وفن کاامام رئیس المحدثین حضرت اقدس مولانامفتی سعیداحمدپالنپوری شیخ
الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبندنےاس دنیائےفانی کوالوداع
کہا،اناللہ واناالیہ راجعون ۔

کئی دنوں سےآپ کی شدید علالت کی تشویشناک خبریں موصول ہورہی تھی
۲۴/رمضان المبارک کو شام سےہی حالت زیادہ خراب  ہونےکی خبرملی، ۲۵/رمضان
کی شب کشمکش میں گذری ،رات بھر جاگنےکےبعدصبح کےتھکےہوئےلمحات میں ابھی
آنکھ لگی ہی تھی کہ اس حادثہ ٔجانکاہ کی اطلاع ملی ۔آخرزندگی
بھرکاتھکاہارامسافرابدی نیندسوگیا۔

کڑےسفرکاتھکامسافر، تھکا ہے ایسا کہ  سوگیا ہے

              خوداپنی آنکھیں توبندکرلیں ،ہرآنکھ لیکن بھگوگیاہے

ہمہ جہت شخصیت

حضرت مفتی صاحب ؒاس دورمیں ایک عبقری شخصیت کےمالک تھے،جن کوہرعلم وفن
سےآشنائی تھی ،مدارس کےنصاب میں رائج نیچےسےاوپرتک ہرکتاب کی تدریس کی ان
کوسعادت حاصل ہوئی تھی ،وہ تدریس کابےپناہ ملکہ رکھتے تھے ،کسی فن کی
کتاب ہو،پانی کردیتےتھے،علم کوگھول کرپلانےکاوہ ہنر جانتے تھے، ان
کاطریقہ فن میں اترکر کلام کرنےکاتھا،وہ ہرفن کےمزاج شناس تھے،گفتگوکسی
موضوع پربھی ہوبصیرت وگہرائی میں ڈوبی ہوتی تھی،خاص طورپرحدیث اورفقہ ان
کےذوق کاحصہ تھے،ان دونوں فنون کےمراجع ومآخذپر گہری نظرتھی ،حدیث وفقہ
کےفطری مذاق کانتیجہ تھاکہ ان کےدرس حدیث میں بڑااعتدال ہوتاتھا،وہ نہ
اہل ظاہرکی طرح گفتگو فرماتےتھے، اورنہ فقہی تشقیقات میں غلوکےقائل
تھے،آپ کےیہاں روایت ودرایت دونوں کاامتزاج تھا،حضرت علامہ انورشاہ
کشمیری ؒ نےدارالعلوم دیوبندمیں جس طرز تدریس کی بناڈالی تھی ،مفتی  صاحب
اس دورمیں اس کےبہترین نمائندہ تھے،وہ متصلب حنفی تھے،لیکن درس ایسابصیرت
افروزاورمدلل ہوتاتھاکہ مسلک حنفی دل ودماغ کی گہرائیوں میں
اترجاتاتھا،ان کادرس بڑامقبول اورطرزافہام وتفہیم بہت مؤثر تھا،اسی
لئےبلاشدیدمجبوری کےکوئی طالب علم ان کےدرس سے غیرحاضر نہیں ہوتاتھا۔

فقہ وحدیث کےعلاوہ علوم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اورمعارف حجۃ
الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی ؒ پربھی آپ کاخصوصی مطالعہ تھا،ان
بزرگوں کی کئی کتابوں کی تشریح و تسہیل آپ نےفرمائی ۔

لب ولہجہ اورزبان وبیان

درس ہویاعوامی خطاب ان کالب ولہجہ ہمیشہ مجلسی ہوتاتھا،تکلفات
اورآوردسےبالکل پاک،سیدھاسادہ اندازبیان اورسادہ عام فہم الفاظ،وہ  بہ
تکلف پرشکوہ الفاظ اورحسین تعبیرات کےدرپےنہیں ہوتے تھے،اسی لیےان کی
گفتگوسامعین کےسروں کےاوپرسےنہیں بلکہ دل ودماغ  کےاندرکوچھوتی  ہوئی
گذرتی تھی،خشک سےخشک موضوع  کوتروتازہ اور دلچسپ بناکرپیش کرنےکاجوسلیقہ
انہیں حاصل تھاکہ اس دورمیں شایدباید۔۔۔۔گوکہ ان کی مادری زبان اردونہیں
تھی مگروہ اہل زبان کی طرح اس پر قدرت رکھتے تھے،اردواورعربی دونوں
زبانوں پران کویکساں عبورحاصل تھا،مختلف علوم و فنون پران کی تصنیفات اس
کےلیےشاہدعدل ہیں،نادرموضوعات پرچالیس (۴۰) سے زیادہ تصنیفات آپ
نےیادگارچھوڑیں ،جوایک مستقل علمی لائبریری ہے ،آئندہ محققین کےلئے وہ
مأخذکاکام کرے گی،ان شاء اللہ ۔

شرف تلمذاوررابطہ

مجھے(۱۴۰۶؁ھ ، ۱۴۰۷؁ھ /۱۹۸۶؁ء ،۱۹۸۷؁ء میں )آپ سےہدایہ رابع اورترمذی
وطحاوی پڑھنےکاشرف حاصل ہوا،آپ کی ترمذی وطحاوی کےدرسی افادات بھی میں
نےقلمبندکئے تھے،جومیرے ذخیرۂ کاغذات میں محفوظ ہیں ،دارالعلوم دیوبندکے
دوران  قیام مجھے یادنہیں کہ کسی استاذکےسبق سے میں غیرحاضرہواہوں ، لیکن
حضرت مفتی صاحب کےدرس سے میں بہت متأثرتھا،وہ اس وقت دارالعلوم دیوبند
کی درسگاہ کی آبروتھے،بہت سے علمی مسائل میں لوگ ان کی طرف رجوع کرتے
تھے،ہمارے دور میں طلبہ کےدرمیان وہ سب سے زیادہ مقبول ترین استاذتھے،بہت
بارعب اورباوقارتھے،لیکن اس کےباوجودبڑی محبوبیت کےحامل تھے،طلبہ عصرکے
بعدان کےگھرپر حاضرہوتے تھے،اس زمانہ میں مفتی صاحب  گھرسے دارالعلوم
پاپیادہ تشریف لاتے تھے،میراقیام افریقی منزل قدیم میں تھا،اسی کےپاس سے
گذرکروہ  معراج گیٹ سے دارالعلوم تشریف لےجاتے تھے،اس طرح
اکثرآمناسامنااورملاقات ہوتی تھی،مگرہمت کی کمی کےسبب  بہت دنوں تک آپ
کےدردولت پر حاضری سے محروم رہا۔

سہ روزہ عالمی ختم نبوت کانفرنس میں مقالہ پیش کرنےکاقصہ

پہلی بارمجھےآپ کےگھرپرحاضری کاشرف دارالعلوم دیوبندمیں پہلی  سہ روزہ عالمی

ختم نبوت کانفرنس (۱۹۸۷؁ء )کےموقعہ پرحاصل  ہوا ،وہ قصہ بھی بڑاعجیب تھا،
میں دارالعلوم دیوبندکاایک گمنام طالب علم ،ایک چھوٹے سے مدرسہ (مدرسہ
دینیہ غازی پوریوپی) سے آیاتھا ،حلقۂ احباب میں وہی دوچارطلبہ تھے جوغازی
پورسے ساتھ آئے تھے ،دارالعلوم کےعظیم اساتذہ کےدرباروں تک ہم جیسے
معمولی طلبہ کی رسائی نہیں تھی ،میری طبیعت کی کم آمیزی اس پرمستزاد،طلبہ
سے بھی بہت کم شناشائی تھی ،درسگاہ اور کتب خانہ کےعلاوہ کہیں
آناجانانہیں تھا،دارالعلوم سےباہرکبھی کسی تفریح گاہ ،جلسہ ،مشاعرہ
یاپروگرام میں  شریک نہیں ہوا،اپنےضلعی اورصوبائی انجمنوں میں بھی بہت کم
شرکت ہوتی تھی ،اسی زمانہ میں دارالعلوم میں ختم نبوت کانفرنس کی مہم
شروع ہوئی ،جس میں ملک وبیرون ملک سے بڑی علمی ،ملی اورسیاسی شخصیات
نےشرکت کی،امام حرم عبداللہ بن سبیل بھی تشریف لائے ،اس موقعہ
پردارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نےطےکیاکہ  کانفرنس کےپروگراموں میں ایک
نشست طلبۂ دارالعلوم کی بھی رکھی جائے ،تاکہ دارالعلوم کی نمائندگی اس
میں شامل ہو،نشست میں پانچ (۵)طلبہ کےمقالات اورپانچ (۵)طلبہ کی
تقاریرپیش کرنے کافیصلہ کیاگیا ،اورخواہشمندطلبہ کواس میں حصہ لینےکی
دعوت دی گئی ،تاکہ مسابقہ کےبعدبہترسے بہترانتخاب عمل میں آسکے،اس
کااعلان  آویزاں ہوتےہی خوہشمندطلبہ کااژدحام دیکھنےکوملا،دارالعلوم
دیوبندتوعلم کابحر بےکراں ہے،یہاں ایک پرایک باصلاحیت طلبہ ہرزمانےمیں
موجودرہےہیں ،دفترتعلیمات کےپاس میں نےبھی یہ اعلان دیکھا،میری تمناؤں
نےبھی انگڑائی لی ،مگریہ سوچ  کرکہ دارالعلوم کےباصلاحیت اورممتازطلبہ
کےدرمیان میرےجیسے ایک معمولی اورگمنام طالب علم کی  کیاحیثیت ؟ہمت نہیں
ہوتی تھی ،لیکن شوق کےہاتھوں مجبور ہوکرمیں نےبھی خاموشی کےساتھ ختم نبوت
کےموضوع پرمقالہ نویسی  میں حصہ لینےکاعزم  کرلیا،پھرمیں نے وقت مقررہ
کےاندرمقالہ تیارکرکےخاموشی کےساتھ خریداران یوسف کی آخری صف کےامیدوارکی
طرح دفترمیں جمع کرادیااوراس کی خبراپنےقریب ترین ساتھیوں کوبھی نہیں دی
،تاکہ مقالہ مستردہوجانےکی  صورت میں زیادہ خفت کاسامنانہ کرناپڑے
،اورحقیقت بھی یہی تھی کہ مجھے ایک فی صد بھی امیدنہیں تھی کہ میرامقالہ
کسی لائق ہوگا اور اس عظیم الشان کانفرنس کےلئےاس کاانتخاب کیاجاسکےگا،اس
مسابقہ میں کتنےطلبہ نےحصہ لیایہ تومعلوم نہ ہوسکالیکن میری خوش نصیبی
کہ پانچ منتخب مقالات میں ایک مقالہ میرابھی  شامل تھا۔

گاہ باشدکہ کودکےناداں                             بہ غلط برہدف زندتیرے

دفترکاچپراسی میرےکمرےپرآیااورتحریری حکم سنایاکہ اپنامقالہ لےکرحضرت
مفتی سعیداحمدپالنپوری کےگھرپرحاضرہو،اس طرح پہلی مرتبہ مجھےحضرت مفتی
صاحب کےدردولت پرحاضری کی سعادت میسرہوئی،مفتی صاحب نےکچھ ضروری ہدایات
دیں ،اوررخصت کردیا،یہ پہلاموقعہ تھاجب میرارابطہ حضرت مفتی صاحب کے ساتھ
اتنےقریب سےہوا۔۔۔۔۔

بہرحال عظیم الشان سہ روزہ کانفرنس ہوئی اوراس کی ایک نشست میں جس میں
ملک وبیرون ملک کےاعیان وعلماء تشریف فرماتھے،اس حقیرکوبھی اپنامقالہ پیش
کرنےکی سعادت حاصل ہوئی۔

فقہ میں اختصاص اشتغال بالفقہ سےپیدا ہوتاہے،رسمی کورس سےنہیں

٭اس کےبعدمفتی صاحب سے میری مناسبت بڑھتی گئی ،اوروہ بھی شفقت فرمانےلگے
،دورۂ حدیث  میں مجھے امتیازی نمبرات  حاصل ہوئے،تونظرعنایت میں اور بھی
اضافہ  ہوگیاتھا،مگرافتاء کےسال میں اپنےاسباق اورکاموں  میں ایسامصروف
رہاکہ مفتی صاحب کےیہاں بہت کم آمدورفت رہی ،مفتی صاحب کےپاس  ہماراکوئی
گھنٹہ نہیں تھا،افتاء سے فارغ ہونےکےبعدفقہ میں مزیداختصاص کےلئےمیں
تدریب افتاء میں جاناچاہتاتھا،جس کو وہاں معین المفتی کہتےتھے، ایک دن
دفتر اہتمام  میں مجھےطلب کیاگیا،میں حاضرہواتووہاں اس وقت حضرت
مولانامرغوب الرحمن صاحب ؒمہتمم دارالعلوم دیوبند ،اوراستاذالاساتذہ حضرت
مولانامعراج الحق صاحب ؒ ،اور حضرت شیخ الحدیث مولانانصیرالدین صاحب ؒ
کےعلاوہ پوری مجلس تعلیمی موجودتھی ،اس میں حضرت مفتی سعیداحمدصاحب بھی
تھے،ان بزرگوں نےمیرانام دارالعلوم  میں معین المدرس
کےلئےتجویزفرمایاتھا،میں نےتدریب افتاکی خواہش ظاہرکی ،تومفتی  سعیدصاحب
ؒ نےفرمایاکہ:

"تدریب افتاکامقصد اختصاص فی الفقہ ہےاوریہ رسمی کورس سے نہیں بلکہ

مسلسل اشتغال بالفقہ سے حاصل ہوگا”

مفتی صاحبؒ کےاس ارشادکےبعدمیں نےاپنی خواہش واپس لےلی ،اوربزرگوں
کےفیصلہ کوقبول کرلیا،مفتی صاحب کایہ جملہ  فقہ کےابواب میں سنہرے حروف
سے لکھےجانےکےقابل ہے،یہ ان کی زندگی بھرکےتجربات ومشاہدات کاحاصل تھا،اس
واقعہ (۱۹۸۸؁ء ) کوقریب  بتیس سال ہونےجارہےہیں،مفتی صاحب کےاس جملہ کی
صداقت  ہردن  مشاہدہ  میں ہے،اختصاص توشایدمجھےحاصل نہ ہوسکالیکن
میرےاشتغال بالفقہ  کاسفرآج  تک

موقوف نہیں ہوا،مفتی صاحب کےاس ایک جملہ نےمیری زندگی کی ترتیب بدل ڈالی۔

میری پہلی تالیف "منصب صحابہ”-مفتی صاحب کاانکاراوراطمینان

 حضرت مفتی صاحب سےوابستہ ایک اوریادگارواقعہ جومیری تصنیفی وتحقیقی
زندگی میں سنگ میل کادرجہ رکھتاہے،۱۹۸۹؁ء کاہے،جب میں دارالعلوم دیوبندسے
فارغ ہوکروہاں معین المدرس تھا،میں نےافتاپڑھنےکےزمانےمیں اپنی پہلی
تالیف "منصب صحابہ ” مرتب کی ،میرٹھ میں فرق باطلہ کےبعض افرادسے میری
علمی مڈبھیڑنے اس کتاب کامواد تیارکیا ،جس کی بنیادی فکرحضرت حکیم
الاسلام قاری محمدطیب صاحب ؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبندکےایک مضمون سے
لی گئی ہےجو(غالباً۱۹۵۸؁ء  میں) رسالہ دارالعلوم میں کئی قسطوں میں شائع
ہواتھا،اوراس مضمون کی طرف رہنمائی استاذمکرم  بحرالعلوم حضرت
مولاناوعلامہ محمدنعمت اللہ اعظمی صاحب استاذحدیث دارالعلوم دیوبندسےملی
تھی  ،معین المدرسی کےزمانےمیں اس کتاب کی اشاعت کےبعض اسباب
پیداہوئے،تواس پرتقریظ    کےلئےمیں نےاپنےاساتذہ سےرجوع کیا،اسی ضمن میں
میں نےحضرت مفتی صاحب ؒ کےآستانہ  پرحاضری دی اورتقریظ کی  خواہش
کااظہارکیا،اتفاق سے وہ سال کاآخری حصہ تھا،اوران دنوں اسباق کےعلاوہ بہت
سے اسفاراور پروگراموں کابھی  ان پربوجھ تھا،لیکن  حضرت مفتی صاحب
نےازراہ شفقت میری خواہش کوقبول  فرمایا،آپ اس وقت بھی کسی پروگرام
کےلئےہی پابہ رکاب تھے، فرمایاکہ کتاب کامسودہ دے دو،میں  سفرمیں اس
پرایک نظرڈالوں گا،دودن کے بعدآکرملاقات کرو،دودن کےبعدحسب الحکم جب حاضر
ہواتومجھےدیکھتے ہی فرمایاکہ میں نےتمہارے مسودہ کاابتدائی حصہ
دیکھاہے،مگر مجھےاس کی بنیادسے ہی اتفاق نہیں ہے ،اس لئےکہ اگرتمہاری بات
مان لی جائےتوعلماء دیوبند کی پچاس سالہ خدمات پرپانی پھرجائے گا۔۔۔

میں نےکتاب میں صحابہ کےمعیارحق ہونےکی تشریح لکھی تھی ،اوراس کومذاہب
اربعہ کی روشنی میں مدلل کیاتھا،پوری کتاب میں کہیں بھی اکابردیوبندمیں
سے کسی بزرگ کانام یاان کی کسی عبارت کااقتباس  نقل نہیں کیاگیاتھا،اورنہ
فریق مخالف میں سے کسی کانام یاان کی کسی عبارت کااقتباس شامل
کیاگیاتھا،مسئلہ کوخالص مثبت ،علمی اورغیرجانبداراندازمیں پیش کرنےکی
کوشش کی  گئی تھی ،تاکہ لوگ اس مسئلہ کومناظرہ اورمقابلہ کی عینک نکال
کرخالص علم وتحقیق کی روشنی میں  دیکھیں۔۔۔اس موضوع پراس اندازمیں شایداس
سے پہلےکوئی

 کتاب منظرعام پرنہیں آئی تھی ،مفتی صاحب کوشایدیہ نیاانداز مطالعہ
پسندنہیں آیا۔۔۔۔

حضرت مفتی صاحبؒ  دارالعلوم  دیوبندمیں  ایک بلندحیثیت عرفی کےمالک تھے
،میرے استاذتھے ،میں ان پراعتماد کرتاتھا،اس لئےان  کےاس ارشادسےتھوڑی
دیرکےلئے مجھےلگاکہ جیسےمیرے پاؤں تلےزمین نکل گئی ہو،گوکہ میری تحقیق کی
بنیادعلماء متقدمین کی عبارتوں پرتھی ،جس کی پشت پر خودترجمان مسلک
دیوبندحضرت حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب ؒ کی تفکیروتشریح  موجودتھی
،لیکن مفتی صاحب کامطمئن  ہونابھی میرے حق میں ضروری تھا، ۔۔۔میں نےنہایت
ادب واحترام سے عرض کیا کہ   علماء دیوبندکی کس کتاب میں معیارحق کی
تشریح کی گئی  ہے؟جومیری یہ تشریح اس سے متناقض ہے،کتابوں میں معیارحق کی
صرف اصطلاح استعمال کی گئی ہے،اوراس کا مفہوم ذہنی اب تک ہماری کسی کتاب
میں صفحۂ قرطاس پرمنتقل نہیں ہوا،جب کہ  معیارحق کےاثبات سے قبل اس
اصطلاح کی توضیح وتشریح ضروری ہے،اگرحضرت والاکے علم میں کوئی کتاب
ہوتورہنمائی فرمائیں ۔۔۔۔میری  معروضات کوحضرت مفتی صاحب ؒنےبہت توجہ
کےساتھ سنا،اورتھوڑے تأمل کےبعدکل آنےکےلئےارشادفرمایا، ابھی وہ کسی سفر
سے آئے تھے ،اور آرام کرناچاہتے تھے ،میں بہت مایوسی کےساتھ اپنی قیامگاہ
پر واپس آیا،اورتھوڑی دیرکےبعددارالعلوم کےکتب خانہ  کارخ کیا،تاکہ اس
مسئلہ پرمزیدمطالعہ وتحقیق کرسکوں،پورے چوبیس گھنٹے میرے نہایت بےقراری
میں گذرے ، مفتی صاحب نےمجھے دوسرے دن عشاء کےبعدکاوقت دیاتھاجب وہ کھانا
تناول فرماتے تھے،میں نےاس تعلق سے جوممکنہ  اعتراضات تھے،ان کوسامنےرکھ
کرمختلف عبارتیں  ایک الگ کاغذپرجمع کی تھیں ،اگلےدن میں حاضرخدمت
ہواتوحضرت دسترخوان پربیٹھ  چکےتھے،اوربہت خوشگوارموڈمیں تھےمیں نےگذشتہ
روز کی گفتگوکےتناظرمیں کچھ وضاحتی گفتگوپیش کرنی چاہی ،حضرت مفتی صاحب
ؒنےمجھےروکتے ہوئے فرمایاکہ اپنی اصل کتاب سناناشروع کرو،میں نے کتاب
شروع کردی ،مفتی صاحب نےکوئی اعتراض نہیں کیابس خاموشی کےساتھ متوجہ
رہے،مفتی صاحب کاکھانا ختم ہوا،توفرمایاکہ بس ،اب اگلاحصہ کل اسی وقت ،اس
طرح میں نے پوری کتاب  کی خواندگی  حضرت مفتی صاحب کےکھانےکےوقت قریب دس
دنوں میں مکمل کی ،اوراس اثناءمفتی صاحب نےایک آدھ جگہ جزوی مشورہ کے
علاوہ کوئی کلام نہیں فرمایا،خواندگی مکمل ہونےکےبعدآپ نےفرمایاکہ میں اس
پرتقریظ نہیں مقدمہ لکھوں گا،چنانچہ آپ نےاس پرقریب بارہ(۱۲) صفحات
کاوقیع مقدمہ تحریرفرمایا،جس میں کتاب پراپنے اعتمادکا اظہار
فرمایا،اورحقیرمؤلف کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔

"منصب صحابہ”پرمفتی صاحب کامبسوط مقدمہ

بطورنمونہ مقدمہ کایہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

"الغرض یہ ایک مناقشاتی موضوع بن گیاہے،ضرورت تھی کہ اس مسئلہ پر

ردو قدح سےعلیٰحدہ ہوکرمثبت اندازمیں کوئی مختصرکتاب لکھی جائے،تاکہ

 کھلےذہن کےلوگ اس کامطالعہ کریں ،اورٹھنڈےدل ودماغ سےاس مسئلہ

 پرغورکریں ۔

مجھےخوشی ہےکہ ہمارے دارالعلوم دیوبندکےہونہارفاضل جناب مولانااختر

امام عادل سمستی پوری جوفی الحال دارالعلوم دیوبندمیں تدریس کی مشق کررہے

ہیں، اورمعین المدرسین کی حیثیت سے پڑھارہےہیں،انہوں نےایسی کتاب

 لکھی ہےجس کی عرصہ سے خواہش تھی ،میں آج کل ایک عارضی بیماری میں

 مبتلاہوں جس کی وجہ سے میں اسےبنظرغائرتونہ دیکھ  سکاہوں ،مگرمیں نےپوری

 کتاب سنی ہے،اورمیں پورےوثوق کےساتھ یہ بات کہہ سکتاہوں کہ اس

کتاب میں جس طرح اس مسئلہ کی تحلیل کی گئی ہے،اورجس دلچسپ اندازمیں

 دلائل قاری  کےذہن نشیں کرنےکی کوشش کی گئی ہے،ان شاء اللہ یہ کتاب

 غیرمطمئن ذہنوں کےلئےبھی باعث تشفی ہوگی ،اورعام مسلمانوں کےلئے

بھی زیادتی ایمان اورصحابہ کرام کی قدرشناسی کاذریعہ ثابت ہوگی "[1]

پھرحضرت مفتی صاحب ہی نےمجھےمشورہ دیاکہ ہمارےیہاں زبان وادب کےنقطۂ
نظرسے حضرت مولاناریاست علی بجنوری ؒ کی شخصیت بہت اہم ہے،یہ مسودہ ایک
نظران کوبھی دکھلادو،دوسرے دن عصرکےبعدحضرت مولاناریاست علی بجنوری کی
خدمت میں حاضرہوااوراپنایہ مسودہ برائے تقریظ ان کی خدمت میں بھی  پیش
کیا، حضرت الاستاذمولانا بجنوری ؒ نےبھی نہایت محبت کےساتھ تقریظ لکھی
،حضرت بجنوریؒ کی تقریظ کاایک اقتباس ملاحظہ کریں:

"الحمداللہ کہ اکابردیوبنداورعلماء دیوبندکےبروقت تنبہ اورتعاقب سے امت

اس بڑے فتنہ سے آگاہ ہوئی  اوراس کازوربھی کم ہوا،اب دارالعلوم دیوبند

کے معین المدرسین عزیزم مولانااخترامام عادل سلمہ اللہ نےایک مفصل

تحریر مرتب کی ہے۔۔۔۔۔۔عزیزم کایہ مفصل مضمون ایک ضرورت کی

تکمیل اور مسلک دیوبندکےایک مخصوص مسئلہ کی قابل اعتمادتشریح ہے”[2]

اس کتاب پرحضرت الاستاذعلامہ محمدحسین بہاری ؒ اورحضرت الاستاذمولانامفتی محمد

 ظفیرالدین مفتاحی ؒ کی تقریظات بھی ہیں ،تفصیل کےلئےاہل ذوق کتاب کی طرف
مراجعت فرمائیں ،کتاب انٹرنیٹ پرموجودہے۔

اس تفصیل سے حضرت مفتی صاحب کی وسعت نظری اورخوردنوازی  کااندازہ
ہوتاہے،اورکس طرح وہ کھلےذہن ودماغ کےساتھ مسائل کامطالعہ کرتے تھے،
اوراگرکوئی بات سمجھ میں آجاتی  تو قبول کرلینےمیں  بھی کوئی دریغ نہیں
ہوتاتھا،اس کابھی اندازہ ہوتاہے۔

 مفتی  صاحب”منصب صحابہ”کوشیخ الہنداکیڈمی سےشائع کراناچاہتےتھے

اس کتاب کی اشاعت کا ایک زریں پہلویہ بھی ہےکہ مفتی صاحب نےکتاب اورموضوع
کی اہمیت کےپیش نظریہ خیال ظاہرفرمایاکہ یہ  کتاب دارالعلوم دیوبندکی شیخ
الہنداکیڈمی سے شائع ہوتواس کی استنادیت میں اضافہ ہوگااور دارالعلوم کی
علمی وفکری نمائندگی بھی ہوگی  ‘اورغالباًحضرت مولاناریاست علی صاحب ؒ
کےپاس مجھےبھیجنےکا مقصد یہی تھا،حضرت مولاناریاست علی صاحب ؒان دنوں
دارالعلوم دیوبندکےناظم تعلیمات بھی تھے ،اورشیخ الہنداکیڈمی
کےڈائریکٹربھی ،حضرت مفتی صاحب کی یہ تجویز ان کی عالی ظرفی ،وسیع القلبی
اورچھوٹوں کوآگے بڑھانےکی شاندار مثال ہے،حضرت مولانابجنوری ؒ نےبھی اس
تجویزکوقبول کرلیاتھا،اورظاہرہےکہ میرے لئے اس سے بڑی خوش نصیبی
کیاہوسکتی تھی ،میں توسوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ حضرت مفتی صاحبؒ میری ایک
معمولی تحریرکواتنی اہمیت دیں گے

لیکن سوء اتفاق جس ناشرنےطباعت کی تیاری کی تھی ،اورکتابت وغیرہ کےسارے
مراحل مکمل کئےتھے،میں نےجب اس کےسامنےیہ تجویزرکھی تووہ اس کتاب سے
دستبردارہونےپر راضی نہ ہوا،بلکہ یکگونہ  فتنہ کی شکل پیداکردی ،اوراتنی
عجلت کامظاہرہ کیاکہ  اس نےخریداری کی بکنگ کےلئےایک پوسٹرشائع
کردیا،اورکتاب کےمنظرعام پرآنےسے قبل ہی  کتاب کی بڑی تعدادبک ہوگئی
۔۔۔۔۔حضرت مفتی صاحب ؒ مجھ پراعتمادکرتے تھے ،اورمیرا بھلاچاہتے تھےاس
لئےپرامیدتھےکہ میں ان کی تجویزکوہرصورت میں قبول کروں گا،انہوں
نےدارالعلوم کی دیواروں پریہ پوسٹر دیکھےتوان کوصدمہ پہونچا،پھرمیں
حاضربارگاہ ہواتوبےحد رنج کااظہارفرمایااورکہاکہ تم نے ایک سنہراموقع
کھودیا۔۔۔۔

شیخ الہنداکیڈمی کےاسسٹنٹ ڈائریکٹرکی ملازمت کامشورہ

اس کتاب کی بناپرحضرت کومجھ سے حسن تعلق اورحسن ظن   اس قدربڑھ گیاتھاکہ
جب میری معین المدرسی کی مدت اختتام پذیرہونےلگی (شعبان سے قریب ایک ماہ
پیشتر)تومجھ سے فرمایا کہ  دارالعلوم دیوبندمیں شیخ الہنداکیڈمی کوایک
اسسٹنٹ  ڈایریکٹرکی ضرورت ہےجواس کےعلمی اورقلمی کاموں میں معاونت
کرے،ابھی اسی ہفتہ شوریٰ کی میٹنگ ہونےوالی ہے،تم اس کےلئےایک درخواست دے
دو،میں نےعرض کیاکہ  کیاقلمی خدمات کےساتھ مجھے تدریسی خدمات کابھی موقعہ
مل سکےگا؟مفتی صاحب نےفرمایاکہ نہیں،یہ قلمی کام کاعہدہ ہے،میں نےعرض
کیاکہ آپ نےہی ہمیں نصیحت کی ہےکہ فراغت کےبعدکم ازکم دس سال تک تدریسی
خدمت کرنا ضروری ہے،اس کےبغیرعلم میں پختگی نہیں آتی،مفتی صاحب
نےفرمایا،درست ہے،ایساکروکہ جزوی تدریس کی شرط کےساتھ درخواست
دےدو،شایدقبول کرلیں ۔۔۔بہرحال میں نےحضرت  مفتی صاحب ؒکےحکم پردرخواست
دی ،مگرشایدوہ قبول نہ ہوسکی ،کہ ایک شخص دوشعبوں میں کام نہیں
کرسکتاتھا،۔۔۔دیوبندسے رخصت ہوتے وقت مفتی صاحب سے الواداعی ملاقات
کےلئےحاضرہواتومفتی صاحب نےتسلی دی اورفرمایاکہ” امیدہےکہ اللہ پاک  اس
سے بہترصورت میں تمہیں دیوبندواپس لائیں گے "

وابستہ رہ شجر سے امیدبہاررکھ

دیوبندسےنکل جانےکےبعدبھی  مفتی صاحب سے میں مسلسل مربوط رہاکہ اس لئےکہ
"وابستہ رہ شجر سے امیدبہاررکھ ”میں نےہمیشہ اپنےبزرگوں کی جوتیوں میں
رہنااپنےلئےباعث فخرسمجھا۔

دارالعلوم حیدرآباد میں میری ملازمت کی بات چیت

دیوبندسے میں سیدھےمدرسہ سراج العلوم سیوان (بہار)آگیاتھا،یہاں عربی ششم
تک تعلیم تھی ،افتاکی ذمہ داری اورجمعہ کی خطابت بھی مجھےدی گئی تھی
،لیکن یہاں کےماحول میں بڑی گھٹن تھی ،میں نےمفتی صاحب کوخط لکھاتوانہوں
نےمجھ سے پوچھے بغیرہی میرے لئےدارالعلوم حیدرآبادوالوں سے بات کرلی ،ایک
زمانہ میں دارالعلوم حیدرآبادکےذمہ داران ہرکام میں مفتی صاحب سے مشورہ
کرتے تھے ،اورمفتی صاحب کی رائےفیصلہ کن قرارپاتی تھی،اختتام سال پرمیں
دیوبندحاضرہواتومفتی  صاحب نےفرمایاکہ دارالعلوم حیدرآبادکےلوگ آئےتھے،ان
کوایک صاحب قلم مفتی کی ضرورت تھی ،میں نےتمہارے لئےبات کرلی ہے،رمضان
کےبعدسیدھے دیوبندآجاؤ،ان کاایک وفدآئےگاان کےساتھ

چلےجانا[3]۔

علمی رہنمائی

حیدرآبادسے بھی مسلسل میرارابطہ آپ سے قائم رہا،بعض علمی مشورے بھی آپ سے
لیتاتھا،ایک بارمجھےفقہی مصطلحات کےلئےانگریزی لغت کی ضرورت تھی ،توآپ
نےہی معجم لغۃالفقہاء (مرتبہ :ڈاکٹرمحمدرواس قلعہ جی وڈاکٹرحامدصادق
قنیبی ،مطبوعہ دارالنفائس بیروت ،۱۴۰۵؁ھ/ ۱۹۸۵؁ء  )کی طرف میری رہنمائی
فرمائی ،اس کتاب سے میں نےاسلامی قانون کےتقابلی مطالعہ کےموقعہ پرکافی
استفادہ کیا،حضرت مفتی صاحب ؒ کوانگریزی زبان کابھی بہترمذاق تھا۔اللہ
پاک ان کی روح کواعلیٰ علیین میں جگہ عنایت فرمائےآمین ۔

جامعہ ربانی کاقیام –مشکلات،مشورےاورہدایات

حیدرآبادکےزمانۂ قیام میں بعض محرکات کےتحت جب میں نےاپنےوطن سمستی
پورمیں ایک دینی مدرسہ قائم کرنےکاارادہ کیا،تواس موقعہ پربھی میں نے
مفتی صاحب کو پل پل سے باخبرکھا،اورآپ سے ضروری مشورے اورہدایات کاطالب
رہا،چنانچہ ابتدامیں جب میں نے(۱۹۹۶؁ء میں)مدرسہ کاپلان بنایا،تووہ
بڑاپلان تھا،مفتی صاحب نےاس پرنکیرکی ،اور بالآخروہ پلان بعض سازشوں
کےتحت سولہ(۱۶)ماہ کےبعد فیل ہوگیا(جس کی ایک تلخ تاریخ ہےجوان شاء اللہ
کبھی زیرتحریرآئےگی )اس کی اطلاع میں نےحضرت مفتی صاحب  کودی توآپ
نےمجھےتسلی دی ،حوصلہ بڑھایااورتحریرفرمایا:

"برادرمکرم ومحترم جناب مولانااخترامام عادل صاحب زیدفضلہ وعلمہ

                                سلام مسنون

آپ کاخط ملا،جملہ احوال کاعلم ہوا،غورکرنےکےبعدآپ کےلئےبہتریہی

 معلوم ہوتاہےکہ آپ کوئی متبادل ادارہ قائم کریں ،اوراپنےعلمی مشاغل بھی

 جاری رکھیں ،مگرادارہ قائم کرنےکی صورت میں زمام کاربدست خودرکھیں ،

ورنہ پھروہی حشر ہوگاجوہوچکا[4]۔

بحمدہ تعالیٰ آپ پرمصارف کاکوئی خاص بوجھ نہیں ہے،اس لئےآزادرہ کرکام

انجام دے سکتے ہیں ،میں دعاکرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کےکاموں میں برکت

 عطافرمائیں ۔ابھی آپ ناتجربہ کارہیں ،حوادث سے نہ گھبرائیں ،کسی بھی اہم

 مقصد کوحاصل کرنےکےلئےکٹھنائیوں سے گذرناپڑتاہے،تب جاکرمنزل

 ملتی ہے،اورملازمت توملازمت ہے،اس میں جوروبنناہی پڑتاہے،اورزمانہ کی

 ناموافقت کاشکوہ ہمیشہ بڑے لوگ کرتے رہے ہیں [5]،کشتی موجوں سے ٹکراکر

ہی ساحل مرادپرپہونچتی ہے۔

یہاں کےاحوال بحمدہ تعالیٰ اچھے ہیں ،دعوات صالحہ میں یادرکھیں ،بندہ بھی

 دعاگوہے۔
  والسلام
                                  سعیداحمدپالنپوری

۲۰/ ۴/ ۱۹ھ

مفتی صاحب نےیہ خط مجھے۲۰/ربیع الثانی۱۴۱۹؁ءمطابق ۱۳/اگست ۱۹۹۸؁ء  کو
تحریرفرمایا،اوربھی کئی اکابرکومیں نےخط لکھاتھا،اورسب نےہی تقریباًیہی
بات لکھی ،بالآخر اس خط کی تاریخ تحریرسےدوماہ کےاندر۸/جمادی الثانیہ
۱۴۱۹؁ھ مطابق یکم اکتوبر ۱۹۹۸؁ء کو شہرسے دورمنورواشریف میں نہایت سادگی
کےساتھ جامعہ ربانی کاافتتاح عمل میں آیا،اوراس کی اطلاع بھی حضرت مفتی
صاحب کودی گئی ،توآپ نےاظہارمسرت فرمایا،اوریہ خط تحریرکیا:

                ” برادرمکرم ومحترم زیدلطفہ             سلام مسنون

آپ کادو(۲)رجب کامکتوب ہم دست ہوا،جامعہ ربانی کےافتتاح سے بہت

مسرت ہوئی ،ان الرقیٰ فی البدایۃ المتواضعۃ   معمولی آغازہی

میں کامیابی کارازمضمرہے، پہلےجوآپ نےماسٹرپلان بنایاتھاوہ ایک سنہرا

خواب تھااوراس کاانجام آپ  دیکھ چکے،وہ طریقہ صحیح نہیں تھا،جیساکہ میں

نےاس وقت آپ کولکھاتھا،اورغالباًوہ میرالکھناآپ کوناگواربھی ہواتھا،مگر

حقائق بہرحال حقائق ہوتے ہیں ،اورامانی کبھی بھی حصول مقصدکاذریعہ نہیں

 بنتے۔

اب آپ اس نونہال کی آبیاری کریں ،ان شاء اللہ بہت جلدیہ

مبارک درخت ثمربارہوگا۔۔۔۔۔رہےعلاقہ کےاحوال جوآپ نےلکھے

ہیں،وہ کوئی قابل تعجب اورلائق حیرت نہیں ہیں ،اگرلوگوں کےیہ احوال

نہ ہوں ،توماضی میں انبیاء کرام کیوں مبعوث کئےجاتے،اورحال میں اور

مستقبل میں وارثین انبیاء کی کیاضرورت باقی رہتی ہے۔

آپ کےعلمی کاموں میں اللہ تعالیٰ برکت عطافرمائیں ،ہم ناکاروں

 کےلئےدعافرمائیں کہ کچھ کرسکوں ،والدماجدسے سلام مسنون کہیں ،اور

مدرسہ کی طرف پوری توجہ رکھیں ،پچھلےادارہ جیساحال نہ کردیں ،رہاکبھی

 کسی مناسب وقت میں علاقہ کادورہ ہواتوان شاء اللہ اس سے دریغ نہ ہوگا  ۔

     والسلام
                                     سعیداحمدپالنپوری

۱۵/رجب ۱۴۱۹؁ھ

میری تالیف "قوانین عالم میں اسلامی۔۔”کوجامع انسائیکلوپیڈیاقراردیا

جامعہ ربانی کےقیام کےبعد میری کئی کتابیں منظرعام پرآئیں ،لیکن جب میری
دستاویزی کتاب "قوانین عالم میں اسلامی قانون کاامتیاز”تیارہوئی،تومیں
نےیہ کتاب حضرت مفتی صاحبؒ کی خدمت میں پیش کی ،مفتی صاحب اس کتاب کوپڑھ
کربےحدمسرورہوئے ،اور اس   پردرج ذیل تحریربطورتقریظ وتعارف کےرقم فرمائی
:

"(بعدحمدوصلوٰۃ)جناب   مولانامفتی اخترامام عادل قاسمی زیدمجدہم کی مایہ ناز

کتاب "قوانین عالم میں اسلامی قانون کاامتیاز”پیش نظرہے،دورحاضرمیں

 اسلامی قانون اوراسلامی تمدن کوجس چیلنج کاسامناہےوہ اہل نظرسے مخفی

نہیں ہے،اس سے لوہالینےکےلئےہمیں بڑی تیاری کرنی ہے،مدارس

اسلامیہ کےعام طلبہ اورشعبۂ افتاءکے مخصوص  طلبہ کواسلامی قانون کا

تقابلی مطالعہ کراناضروری ہے،اس سلسلہ میں مراجع کی کمی تھی ،عربی میں تو

خیرکافی موادموجودتھا،مگراردومیں نہ کےبرابرہے،اب بفضلہ تعالیٰ یہ

 مفصل کتاب منصۂ شہودپرجلوہ گرہورہی ہے ۔یہ قیمتی کتاب پانچ (۵)

بابوں پرمشتمل ہے۔

٭پہلےباب میں اسلامی قانون کاتعارف ،خصوصیات وامتیازات ،تدریجی

ارتقاء، مختلف ادواراوران کی خصوصیات کابیان ہے،اورآج تک ہونےوالی

متعددفقہی مساعی پرروشنی ڈالی گئی ہے،نیزاسلام کےبین الاقوامی قوانین

 کاجائزہ لیاگیاہے۔

٭دوسرے باب میں مصنف نےاسلامی فقہ کےخلاف پیداکی گئی غلط فہمیوں

 کا ازالہ کیاہے،اوردنیاکےدیگرقوانین نےجواسلامی قانون سے خوشہ چینی

 کی ہے، اس پرروشنی ڈالی ہے،اورمثالوں سے یہ بات واضح کی ہے۔

٭تیسرےباب میں دنیاکےمشہورغیرمسلم ملکوں کےقوانین کاتعارف کرایا

گیا ہےاوران کی خصوصیات سے بحث کی گئی ہے،اوراسلامی قانون کی بہ نسبت

 وہ کتنے ناقص ہیں اس پرنظرڈالی گئی ہے۔

٭چوتھے باب میں قانون اسلامی پرلکھی گئی بنیادی کتابوں کاتذکرہ ہے،اس

باب میں تقریباًپچیس سو(۲۵۰۰)فقہی مآخذکاذکرآگیاہے۔

٭پانچویں باب میں فقہی اصطلاحات کی فرہنگ ہےجس کی ضرورت عالمی

قوانین کےمطالعہ کےوقت پیش آتی ہے،اس باب میں تقریباًایک ہزار

(۱۰۰۰)فقہی اصطلاحات کاعظیم ذخیرہ جمع کردیاہے۔

اس طرح یہ ایک جامع انسائیکلوپیڈیابن گیاہے،اوریہ تونہیں کہاجاسکتاکہ یہ

 کتاب اس موضوع پرحرف آخرہے،لیکن یہ بات ضرورہےکہ اس موضوع

پرلکھی جانی والی کتابوں میں  یہ کتاب سب سے زیادہ مبسوط اورجامع ہے۔

دست بدعاہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کوقبول فرمائیں اوراس کافیض عام وتام

 فرمائیں ،اورامت کی صلاح وفلاح اوربلندپروازمصنف کےرفع درجات کاذریعہ

 بنائیں (آمین)

                                            سعیداحمدعفااللہ عنہ
پالنپوری

۲۱/صفر۱۴۲۶؁ھ                                              خادم دارالعلوم دیوبند

دیارغیرمیں درس اورسوال وجواب کی عملی تربیت

                اس طرح حضرت مفتی صاحب سے میرے استفادہ کاسلسلہ زمانۂ
مابعدتک جاری رہا،میں چھوٹی سی چھوٹی سے چیزمیں بھی اپنےاساتذہ کی
رہنمائی کاطلبگاررہتا تھا ۔۔۔۔اس ضمن میں ایک  واقعہ قابل ذکرہے،وہ یہ کہ
۱۴۲۶؁ھ /۲۰۰۵؁ء میں رمضان المبارک کےموقعہ پرمیرابرطانیہ
کاسفرہوا،اور”مسجدالرحمن بولٹن”میں رمضان کے آخری عشرہ میں میرے درس قرآن
کاپروگرام طےہوا،اس سےپہلےعشرے میں حضرت مولانامفتی شکیل احمد سیتاپوری
سابق استاذدارالعلوم دیوبنداسی مسجدمیں درس پر فائز تھے،یہ بیرون ملک
کسی باقاعدہ درس کامیراپہلاتجربہ تھا،مجھےمعلوم ہواکہ لندن میں اسٹام
فورڈکی مسجدقبامیں حضرت اقدس مولانامفتی سعیداحمدپالنپوری ؒ تشریف لائے
ہوئے ہیں،اورعیدتک یہیں قیام فرمائیں گے ،میں نےاس ارادے سےکہ حضرت
کےطریق کارسےرہنمائی حاصل کروں سیدھے لندن پہونچا، حضرت  مسجد ہی کےایک
حجرہ میں آرام فرمارہےتھے ،ان کومعلوم ہواتوبہت خوش ہوئے،اپنےمیزبان سے
میرے کھانےپینےکےانتظام کاحکم فرمایا،لیکن میراقیام اسی محلہ میں محترم
جناب یوسف بھائی پٹیل  کےیہاں تھا،وہ بھی میرے ساتھ تھے ،میں نےمعذرت کی
، دوتین دنوں تک میں آپ کےدرس اورسوال و جواب کی مجالس میں  شریک
رہا،پہلےدن ازراہ ادب میں نےپیچھے بیٹھنےکی کوشش کی ،توحضرت نےحکم دے
کرمجھے آگے بلایااوراپنےبازومیں بٹھایا،اور لوگوں سےدوچارتعارفی کلمات
بھی ارشادفرمائے،بعض سوالات کےجوابات  بھی دینےکوکہا۔۔۔۔۔اس طرح ایک
اجنبی ملک میں درس اورسوال وجواب کی عملی تربیت میں نےحضرت مفتی صاحب ؒسے
حاصل کی ۔

                یہ واقعہ اگرچیکہ بہت چھوٹاہےلیکن میرے لئےبہت اہم
ہے،میں برطانیہ میں رہنےوالےمسلمانوں کی نفسیات اوران کےمسائل اورتقاضوں
سے واقف نہیں تھا، ان کوکیسے مطمئن کیاجائے ،کون سی بات ان کےسامنےرکھنی
چاہئےاورکون سی نہیں ،اس کےلئےبھی  بصیرت کی ضرورت ہے،مفتی صاحبؒ وہاں
ایک عرصہ سے تشریف لے جارہے تھے،اوران کی نفسیات اورضرورتوں کواچھی طرح
سمجھتے تھے ،اس لئےمیرے لئےان کاطرزعمل دلیل راہ بنااورمیں
نےبولٹن(برطانیہ) کےدروس میں اس سے کافی استفادہ کیا۔

جوہرنایاب

یہ تمام واقعات حضرت مفتی صاحب کی وسعت قلبی ،خردنوازی ،حسن تربیت ،اور
افرادسازی کی بےنظیرصلاحیت کےمظہرہیں ،آج جب لوگوں کے پاس ان چیزوں کے
لئے وقت نہیں ہے،اوربڑے لوگوں کےاندرچھوٹوں کوآگےبڑھانےکاجذبہ کم سے
کمترہوتاجارہا ہے،مفتی صاحب جیسے انتہائی اصولی اور عدیم الفرصت شخص
کےپاس  یہ چیزیں فراوانی کے ساتھ موجودتھیں ،اورانہی بزرگوں کےطفیل دین
اورعلم کی امانت نسلاًبعدنسل منتقل ہوتی چلی آرہی ہے،امت کی مائیں بانجھ
نہیں ہیں،ضرورت ایسے مربیوں اورمعلموں کی ہےجو ذرہ کو آفتاب اورخاک
کوکیمیابنانےکاہنررکھتے ہوں ،حضرت مفتی صاحب اس دورزوال میں  ایسےہی
جوہرنایاب تھے جواب  ڈھونڈھنےسے نہیں مل سکتا۔

ڈھونڈوگےاگرملکوں  ملکوں  ملنےکےنہیں نایاب ہیں ہم

                جویادنہ آئےبھول کےپھر اےہم نفسووہ خواب ہیں ہم

                                                (شاؔدعظیم آبادی)

فقہی سیمیناروں اوراجتماعات میں شرکت

حضرت مفتی صاحب گوکہ قدیم میخانوں کےبادہ خوارتھےلیکن ان میں شدت اور
خشکی نہیں تھی ،وہ ہراچھی چیزکاخیرمقدم کرتےتھے،مجھے خوب یاد ہے ،غالباً
۱۹۸۸؁ء کی بات ہے،جب میں دارالعلوم دیوبندمیں معین المدرس تھا،دستاویزی
فقہی رسالہ بحث ونظر(پٹنہ) (زیرادارت فقیہ العصرحضرت مولاناقاضی
مجاہدالاسلام قاسمی ؒ ) کےپوسٹردارالعلوم کی دیواروں پرجگہ  بہ جگہ چسپاں
نظر آئے،میں نےخیال کیاکہ اردوکےعام فہم اوردلچسپ   رسالوں
کاتوخریدارنہیں ہے،تمام اردو رسائل خسارہ میں چل رہےہیں ، اس فقہی
دستاویزی رسالہ  کاخریدارکون  ہوگا؟لیکن جب یہ رسالہ منظرعام
پرآیاتوعاشقوں کےہجوم میں وقت کےممتاز علماء وفقہاء بھی نظرآئے،یہی رسالہ
فقہ اکیڈمی اورآئندہ فقہی سیمیناروں کاسنگ بنیاد بنا،اوراس نےپورے ملک
میں فقہی انقلاب کی لہرپیداکردی ،دوسرے فقہی سیمینار(منعقدہ ۱۹۸۹؁ء بمقام
جامعہ ہمدرددہلی )میں  حضرت الاستاذمفتی محمدظفیرالدین مفتاحی ؒ (سابق
مفتی دارالعلوم دیوبند)کےخادم کی حیثیت سے میں پہلی بارشریک ہوا،تواستاذ
مکرم حضرت مولانامفتی  سعیداحمدپالنپوری ؒ بھی تشریف فرماتھے،معلوم ہواکہ
مفتی صاحبؒ بحث ونظرکےتین سال کےخریداربنے۔۔۔

مفتی صاحب اس رسالہ اورحضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ کےمداحوں میں

 تھے،قاضی صاحب ؒ کےکئی سیمیناروں میں  وہ  شریک رہے،بعدمیں بعض وجوہات اورمصالح

 کےتحت انہوں  نے سیمینارمیں شرکت ترک کردی تھی ۔

فقہی مسائل میں اتفاق واختلاف –

ملامت کی پرواہ کئےبغیراپنی رائےکااظہار

حضرت مفتی صاحب کافقہی ذوق کافی بلندتھا،اورنئےمسائل میں بھی ان کاذہن
بہت تیزی کےساتھ چلتاتھا،انہوں نے نکتہ رس ذہن پایاتھا،وہ اصول اورقواعد
کی سخت رعایت کےساتھ نئےمسائل میں اپنی رائےدیتے تھے،ان کےیہاں اسلاف کی
احتیاط بھی تھی ،اورعہدحاضرکی ضرورتوں کاادراک بھی ،ادارۃ المباحث
الفقہیۃ (جمعیۃ علماء ہند)کےاجتماعات میں وہ پابندی سے شریک ہوتے تھے
،بلکہ روح رواں رہتے تھے ،ان اجتماعات میں  ہمیشہ آپ کےخیالات سےاستفادہ
کاموقعہ ملتاتھا، اور مسئلہ کی مختلف شقوں تک رہنمائی ہوتی تھی ، کئی
مسائل میں مجھےان کی رائے سے اتفاق نہیں تھا،اورکئی مسائل میں بہتوں کوان
سے اختلاف رہا،لیکن مفتی صاحب اپنی رائے میں کسی ملامت کی پرواہ نہیں
کرتے تھے ،وہ پوری طاقت سے اپنی بات پیش کرتے تھے،میڈیکل انشورنس ،منیٰ
میں قصرواتمام ،اورتعزیتی جلسے وغیرہ کئی مسائل میں ان کی ایک الگ رائے
تھی ،اورکئی علماء ان کےحامی بھی تھے ،اوربہتوں کواختلاف بھی  تھا،لیکن
ان کی رائےکسی دباؤ کی پابندنہیں تھی ،وہ جواخلاص کےساتھ سمجھتے تھےوہی
بولتے تھے ،خطأوصواب میں کلام ہوسکتاہےان کےاخلاص میں نہیں ،مگراس
کےساتھ وہ وسیع النظرتھے ،اختلاف کرنےوالوں کے ساتھ بھی ان کارویہ
مخلصانہ اورمشفقانہ ہوتاتھا،اس دورمیں ایسی مثالیں کمیاب ہیں ،آج لوگوں
کواپنی رائےپراتنااصرارہوتاہےکہ اس سے اختلاف کرنےوالےکواپنامخالف
تصورکرنےلگتے ہیں ،وہ  اختلاف اورمخالفت کےفرق سے واقف نہیں ہیں ،حضرت
مفتی صاحب اس نقطۂ امتیازکوسمجھتے تھے ۔

حضرت سےآخری ملاقات کامنظر

حضرت سے میری آخری ملاقات ادارۃ المباحث الفقیۃ کےپندرہویں فقہی اجتماع
(۱۹تا۲۱رجب ۱۴۴۰؁ھ مطابق ۲۷تا۲۹مارچ ۲۰۱۹؁ء ،دفترجمعیۃ دہلی )میں ہوئی
تھی،حضرت پروگرام میں تشریف فرماتھے،اوراجلاس جاری تھا،میں آگے بڑھ
کرملاقات کےلئےحاضر ہوا،توبےساختہ اپنی کرسی سےکھڑے ہوگئے ،وہ بیماراور
کمزورتھے، میں نےہرچند اصرارکیاکہ حضرت نہ اٹھیں تشریف رکھیں ،لیکن وہ نہ
مانےاورکھڑے ہوکرمجھ سے معانقہ فرمایا،میں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔۔۔یہ
تھی ہمارے بزرگوں کی تواضع  اوراپنےمعمولی سے معمولی شاگرد کی قدرافزائی
،وہ قدرت کی طرف سے بہت اونچادل ،وسیع ظرف اوربلنداخلاق لےکرآئے تھے،وہ
نفسانیت سے پاک اللہ سے ڈرنےوالےبزرگ تھے ۔

بلاتنخواہ تدریس اورسابقہ تنخواہوں کی واپسی-

مدارس کی تاریخ میں ایک زریں مثال

 آپ کےبلندتقوی ٰ ،احتیاط اورخشیت وانابت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب
اللہ پاک نےآپ پرمالی فتوحات کےدروازے کھول دئیے،اورتجارت وغیرہ کی سہولت
عطافرمادی  توآپ نے ۱۴۲۳؁ھ میں حج بیت اللہ سے واپسی کے بعدہی  دارالعلوم
دیوبند سے تنخواہ لینے کا سلسلہ موقوف کردیا،اور ۱۴۲۳؁ھ سے آخر تک
بغیرتنخواہ کے دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں، بلکہ  شوال
۱۳۹۳؁ھ سے ذی الحجہ ۱۴۲۳؁ھ تک دارالعلوم دیوبند سے جوتیس سال تین ماہ تک
تنخواہ لی تھی، وہ تنخواہ بھی دارالعلوم دیوبند کو واپس کردی ، اسی طرح
ذیقعدہ ۱۳۸۴؁ھ سے شعبان ۱۳۹۳؁ھ تک دارالعلوم اشرفیہ سے جو نو (۹)سال
تنخواہ لی تھی، وہ تنخواہ بھی دارالعلوم اشرفیہ کو واپس کردی ، ایسی
مثالیں ماضی میں بھی خال خال ملتی ہیں ،آج کاتوسوال ہی کیاہے،اس کی
تفصیل  جناب  عادل سعیدی پالن پوری صاحب نےاپنےایک مضمون میں  اس طرح
بیان کی  ہے،:

دارالعلوم اشرفیہ عربیہ راندیر سورت گجرات کو واپس کی ہوئی تنخواہ کی تفصیل:

واپسی کی تاریخ: ۲۸ / اپریل ۲۰۰۳؁ء

٭ مارچ ۱۹۶۵؁ء سے جنوری ۱۹۶۸؁ء تک: مبلغ پانچ ہزار سات سو چالیس روپے فقط

 (۵۷۴۰)۔

٭فروری ۱۹۶۸؁ء سے فروری ۱۹۷۰؁ء تک: مبلغ پانچ ہزار ایک سو پانچ روپے فقط

 (۵۱۰۵)۔

٭مارچ ۱۹۷۰؁ء سے فروری ۱۹۷۲؁ء تک: مبلغ چھ ہزار چھ سو روپے فقط( ۶۶۰۰)

٭مارچ ۱۹۷۲؁ء سے اکتوبر ۱۹۷۳؁ء تک: مبلغ پانچ ہزار آٹھ سو پانچ روپے فقط

 ( ۵۸۰۵)۔

ٹوٹل: مارچ ۱۹۶۵؁ء سے اکتوبر ۱۹۷۳؁ء تک: مبلغ تیئیس ہزار دو سو پچاس روپے فقط

( ۲۳۲۵۰)۔

دارالعلوم دیوبند کو واپس کی ہوئی تنخواہ کی تفصیل

واپسی کی تاریخ: ۹ / صفر ۱۴۲۴؁ھ

٭شوال ۱۳۹۳؁ھ سے ذی الحجہ ۱۴۰۰؁ھ تک: مبلغ تینتیس ہزار دو سو ستر روپے فقط(

 ۳۳۲۷۰ )۔

واپسی کی تاریخ: ۱۷ / ربیع الاول ۱۴۲۴؁ھ

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۱؁ھ: مبلغ دس ہزار آٹھ سو اکیاسی روپے بارہ پیسے فقط (

 ۱۰۸۸۱/۱۲ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۲؁ھ: مبلغ دس ہزار پانچ سو تین روپے اٹھائیس پیسے فقط (

 ۱۰۵۰۳/۲۸ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۳؁ھ: مبلغ گیارہ ہزار چھ سو انہتر روپے چھیتر پیسے فقط (

۱۱۶۶۹‌/۷۶ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۴؁ھ: مبلغ گیارہ ہزار نو سو انچاس روپے ساٹھ پیسے فقط (

 ۱۱۹۴۹/۶۰ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۵؁ھ: مبلغ چودہ ہزار ایک سو اکتیس روپے چوالیس پیسے فقط

( ۱۴۱۳۱/۴۴ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۶؁ھ: مبلغ بارہ ہزار دو سو سولہ روپے تینتیس پیسے فقط (

۱۲۲۱۶/۳۳ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۷؁ھ: مبلغ پندرہ ہزار ایک سو ستانوے روپے باون پیسے فقط

 ( ۱۵۱۹۷/۵۲ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۸؁ھ: مبلغ سترہ ہزار باسٹھ روپے پچاس پیسے فقط( ۱۷۰۶۲

 /۵۰ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۰۹؁ھ: مبلغ بائیس ہزار دو سو ساٹھ روپے اڑتالیس پیسے فقط(

 ۲۲۲۶۰ /۴۸ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۰؁ھ: مبلغ چوبیس ہزار پانچ سو ستر روپے چوبیس پیسے فقط(

۲۴۵۷۰/۲۴ )۔

واپسی کی تاریخ: ۱۹ / جمادی الاولیٰ ۱۴۲۴؁ھ

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۱؁ھ: مبلغ چھبیس ہزار نو سو چھپن روپے اسی پیسے فقط (

 ۲۶۹۵۶/۸۰ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۲؁ھ: مبلغ انتیس ہزار چار سو بیس روپے سولہ پیسے فقط (

 ۲۹۴۲۰/۱۶ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۳؁ھ: مبلغ تیس ہزار گیارہ روپے باون پیسے فقط (
۳۰۰۱۱ /۵۲ )

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۴؁ھ: مبلغ چوالیس ہزار آٹھ سو اڑتیس روپے فقط (

 ۴۴۸۳۸)۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۵؁ھ: مبلغ پینتالیس ہزار سات سو آٹھ روپے فقط (

 ۴۵۷۰۸ )۔

واپسی کی تاریخ: ۱۶ / رجب ۱۴۲۴؁ھ

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۶؁ھ: مبلغ چھیالیس ہزار پانچ سو اٹھتر روپے فقط (

 ۴۶۵۷۸ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۷؁ھ:اڑتالیس ہزار چار سو چوالیس روپے فقط (۴۸۴۴۴
)           ٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۸؁ھ: مبلغ پچپن ہزار آٹھ سو چھیانوے
روپے فقط (

 ۵۵۸۹۶ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۱۹؁ھ: مبلغ اکیاسی ہزار دو سو بیاسی روپے فقط ( ۸۱۲۸۲ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۲۰؁ھ: مبلغ اکیاسی ہزار دو سو بیاسی روپے فقط (۸۱۲۸۲)

واپسی کی تاریخ: ۲۲ / ذیقعدہ ۱۴۲۴؁ھ

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۲۱؁ھ:مبلغ اٹھاسی ہزار تین سو چھپن روپے فقط (۸۸۳۵۶)

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۲۲؁ھ: مبلغ اکیانوے ہزار آٹھ سو چھیانوے روپے فقط (

۹۱۸۹۶ )۔

٭از محرم تا ذی الحجہ ۱۴۲۳؁ھ: مبلغ پچانوے ہزار چار سو چوبیس روپے فقط (

 ۹۵۴۲۴ )۔

ٹوٹل: شوال ۱۳۹۳؁ھ سے ذی الحجہ ۱۴۲۳؁ھ تک: مبلغ نو لاکھ انچاس ہزار آٹھ سو

 چار روپے پچھتر پیسے فقط ( ۹۴۹۸۰۴/۷۵ )۔

دارالعلوم اشرفیہ اور دارالعلوم دیوبند کو واپس کی ہوئی تنخواہ کا ٹوٹل:
مبلغ نو لاکھ

 تہتر ہزار چون روپے پچھتر پیسے فقط ( ۹۷۳۰۵۴/۷۵)

دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم اشرفیہ سے لی ہوئی تنخواہ اسی سال واپس کی، جس

 سال دارالعلوم دیوبند سے تنخواہ لینی بند کی، اور محرم ۱۴۲۴؁ھ سے تا وفات

 دارالعلوم دیوبند میں بغیر تنخواہ کے پڑھا رہے تھے”

(عادل سعیدی صاحب کی تحریرمکمل ہوئی،جوحضرت کےوصال کےبعدحال ہی میں کسی
واٹس ایپ سےمجھےحاصل ہوئی )

ولادت سےوفات تک -بہ یک نظر

حضرت مفتی صاحب کی ولادت ۱۳۶۰؁ھ مطابق ۱۹۴۰؁ء میں موضع کالیڑہ ضلع بناس
کانٹھا(شمالی گجرات )میں ہوئی ،کالیڑہ پالنپورسے تقریباًتیس میل
کےفاصلےپرواقع ہے،گاؤں میں مکتب کی تعلیم مکمل کرنےکےبعداپنےماموں
مولاناعبدالرحمن صاحب کےساتھ دارالعلوم چھاپی میں داخل ہوئے،وہاں اپنے
ماموں اوردیگراساتذہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ،چھ ماہ کےبعدحضرت
مولانانذیرمیاں پالنپوری ؒ کےمدرسہ پالنپورچلےگئے،اوروہاں چارسال تک
مولانا مفتی محمداکبرمیاں پالن پوری ؒاورمولاناہاشم بخاری ؒ سے عربی کی
ابتدائی اور متوسط کتابیں(شرح جامی تک ) پڑھیں ،اس کےبعداعلیٰ تعلیم
کےلئے۱۳۷۷؁ھ / ۱۹۵۸؁ء میں مدرسہ مظاہرعلوم سہارن پورمیں داخل ہوئے،یہاں
آپ نےتین سال   تعلیم حاصل کی ،۱۳۸۰؁ھ میں آپ دارالعلوم دیوبندمیں داخل
ہوئے،اور ۱۳۸۲؁ھ /۱۹۶۲؁ء میں دورۂ حدیث شریف سےفارغ ہوئے اوراول پوزیشن
حاصل کی،یہ دارالعلوم دیوبند کا سوواں(۱۰۰) سال تھا،فراغت کےبعددوسال تک
افتاء کا کورس کیااورحضرت مفتی سیدمہدی حسن صاحب شاہجہاں پوری ؒ  سے
فتویٰ نویسی کی مشق کی ۔

فراغت کےبعد ذیقعدہ ۱۳۸۴؁ھ سے دارالعلوم اشرفیہ عربیہ راندیر، سورت،
گجرات میں تدریسی خدمات کاسلسلہ  شروع کیا، اور شعبان ۱۳۹۳؁ھ تک مسلسل نو
(۹)سال دارالعلوم اشرفیہ میں پڑھایا،شوال  ۱۳۹۳؁ھ /نومبر۱۹۷۳؁ء میں  آپ
کاتقرر دارالعلوم دیوبند میں مدرس کی حیثیت سے  ہوا،اوراس وقت سے تاوفات
تقریباًسینتالیس (۴۷)دارالعلوم دیوبند میں  تدریسی خدمات انجام دیں ،جن
میں آخری دس سال آپ دارالعلوم دیوبندکےسب  سےباوقارمنصب شیخ الحدیث و
صدرالمدرسین کےمنصب پرفائزرہے۔وفات ۲۵/رمضان المبارک ۱۴۴۱؁ھ مطابق ۱۹/مئی
۲۰۲۰؁ء بروزمنگل بوقت چاشت قریب سات بجےممبئی کےایک اسپتال  میں ہوئی
،اوراسی دن شام میں جوگیشوری کےقبرستان میں مدفون ہوئے،اناللہ واناالیہ
راجعون ۔

آپ کی وفات صرف دارالعلوم دیوبندکانہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کاسانحہ ہے
،آپ کےجانےسے  ایساخلاپیدا ہواہے ،جس کاپرہوناآسان نہیں ہے،اللہ پاک آپ
کی مغفرت فرمائے اوردرجات بلندفرمائےاورہمیں آپ کےنقش جمیل پرچلنےکی
سعادت عطا فرمائے آمین

ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سےہوتاہےچمن میں دیدہ ورپیدا

اخترامام عادل قاسمی

                                                  جامعہ ربانی
منورواشریف سمستی پور بہار

                                ۲۹/رمضان المبارک ۱۴۴۱؁ھ مطابق ۲۳/مئی
۲۰۲۰؁ء

____________

[1]- منصب صحابہ ص ۲۵، ۲۶ مؤلفہ اخترامام عادل قاسمی، ۱۴۰۹؁ھ

[2]- منصب صحابہ ص ۹، ۱۰

[3] -اس سے آگے کی تفصیل میں نےحضرت مولاناحمیدالدین عاقل حسامی صاحب ؒ
کےتذکرہ میں تحریرکی ہے۔

[4] -پہلےمیں نےجب مدرسہ قائم کیاتھاتواس کےاہتمام وانتظام کی پوری ذمہ
داری مقامی طورپرایک عالم کےحوالے کردی تھی ،اورخودبرائے نام مہتمم
تھا،اوردارالعلوم حیدرآبادکی تدریسی خدمات میں مصروف رہا،ادھر ان صاحب نے
چندشرپسندوں کےساتھ مل کرمدرسہ کوبرباد کردیا۔۔۔اس مکتوب  میں اسی جانب
اشارہ ہے۔

[5] -میں کئی علمی کام کرناچاہتاتھا،مگرملازمت کی وجہ سے رکاوٹیں پیش آتی
تھیں ،اورہاتھ پاؤں باندھ کرصرف مفوضہ کام لئےجاتے تھے ،حضرت مفتی صاحب
نےاسی جانب اشارہ فرمایاہے،مفتی صاحب کابھی یہی خیال تھاکہ ملازمت کرتے
ہوئےآپ کوئی بڑاعلمی کام نہیں کرسکتے اورنہ اس کوپذیرائی مل سکتی ہے۔

Comments are closed.