Baseerat Online News Portal

نابغہ روزگار شخصیت تھے مفتی سعید نوراللہ مرقدہ

 

شيخ الحديث دار العلوم حضرت الأستاذ مفتی سعيد احمد صاحب پالن پوری – رحمہ اللہ علیہ – کی علمی وعملی زندگی کی ایک جھلک.

# کچھ یادیں کچھ باتیں.

 

#از قلم: محمد عطاءاللہ داؤدالقاسمی

ریسرچ اسکالر جامعہ ام القری مکہ مکرمہ

 

عالم بالا کے فیصلے سے کسی کو مفر نہیں، موت کا ایک وقت مقرر ھے، ہر کسی کو اس کا مزہ چکھنا ھے،”كل نفس ذائقة الموت "(آل عمران:١٨٥)

مکہ میں رمضان کی چھبیسویں ،جبکہ ہندوستان میں رمضان کی پچیس اور عیسوی 19_5_2020م تاریخ تھی، بعد نماز فجر واٹس آپ کے زریعے خبر ملی کہ ، حضرت اس دنیا ں کو چھوڑ چکے ہیں،

بچھڑے وہ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

ایک شخص پورے شہر کو ویران کرگیا

انا للہ و انا الیہ راجعون، بھت دیر تک افسوس میں ڈوبا رہا، بار بار میسیج کو پڑھتا رہا، آنکھیں نم اور دل سے آہیں نکل رہی تھیں ،کہ سالار قافلہ کی علمی شھادت ھوگئی، ایک روشن دماغ تھا نہ رہا، ایک کامیاب معلم ومربی ہمارے درمیان سے اٹھ گئے، ایک مخلص ناصح،ایک عظیم محدث، ایک گوہر نایاب فقیہ جو حقیقتہ فقیہ النفس تھے، رخصت ھوگئے،

اللہ نے آپکو جو کسبی اور وہبی صلاحیتیں دی تھیں بے مثال تھی؛ ہر فن سے دلچسپی ہر علوم سے لگاؤ، نحو وصرف منطق وفلسفہ، اصول فقہ، اصول حدیث، ہر موضو ع پہ آپ نے قلم اٹھایا، ہر فن کے زلف برہم کو آپ نے سنوارا، دوران درس آپ ایک مجتہدانہ شان میں نظر میں آتے، آپ ایک اصولی، متکلم اور فقیہ شخص تھے، دیکھنے میں بارعب، باوقار،کثیف اللحیہ، سر پہ عمامہ اور ہمیشہ جبہ میں ملبوس رھتے، جسم و جثہ کے اعتبار سے بھی باکمال شخصیت کے مالک تھے،

آپ اپنے ہر قول وعمل سے نئی نسل کیلئے متفکر رھتےتھے، انکی باتوں سے نصیحتوں سے تقریروں سے پتہ چلتا تھا کہ کس قدر قوم وملت اور علمی تخلف کے تئیں متفکر ہیں،آپکے وجود سے علمی حلقہ میں ایک ولولہ ایک شوربپا تھا، انداز درس نرالا، افہام وتفھیم کے ہر گڑ سے واقف تھے،

 

*#درس وتدریس میں آپکا نمایاں مقام*

 

2009 م1430هجري میں استاذ محترم سے براہ راست دار العلوم دیوبند کی عظیم پرشکوہ دار الحدیث میں بخاری شریف جلد اول اور ترمذی شریف جلد اول پڑھنے کا شرف حاصل ھوا، آپ ایک عظیم محدث،تھے، حدیث کی باریکیوں اور فنون سے گہرا لگاؤ تھا، روایت کے ساتھ ساتھ جب احادیث پہ درایہ گفتگو کرتے تو گھنٹوں گزرجاتا، کبھی کبھی متعینہ وقت سے آدھا آدھا گھنٹہ زائد گفتگو کرتے چلے جاتے کچھ پتہ نہیں چلتا،بخاری شریف کے کئی مسائل میں آپ کی رائے محدثین کی شروحات سےہٹ کر ھوتی،

مثلا: حضرت موسی علیہ السلام اور خضر کے واقعات میں آپ کی رائے یہ تھی کہ خضر نہ نبی تھے نہ رجل صالح بلکہ میری رائے ھے، کہ مَلک ارضی میں سے ہیں جسے اللہ تعالی نے تکوینی نظام کیلیے پیدا فرمایا ھے، اس پر وہ دلیل بھی دیتے تھے اور دو تین تجرباتی واقعہ بھی بیان کرتے تھے، اس طرح دیگر مختلف مقامات پر آپ کی رائے سب سے الگ ھوتی، بخاری کے درس میں اولا آپ ترجمة الباب. پہ بحث کرتے اور احادیث الباب اور ترجمة الباب میں جو باریکی مطابقت ھوتی اس پہ گفتگو کرتے، اور فرماتے بخاری شریف کے درس میں یہی اصل سمجھنا هوتا ھے،اور ترجمہ الباب کی تشریح کے بعد امام بخاری کی فقاہت کو طلبہ کے سامنے رکھتے اور فرماتے ” یہاں سے امام بخاری کی فقاہت شان چھلکتی ھے،.”

جب بخاری شریف کا درس شروع ھوا، پہلی حدیث پہ جب انکی گفتگو سنی، آپ کے طرز استدلال اور ترجمة الباب اور حدیث کے مابین مطابقت جو آپ نے بیان کیا ا سے سنکر دل باغ باغ ھوگیا ،بخاری شریف کا پہلا باب ھے، كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم امام بخاری نزول وحی کا طریقہ ذکر کرتے ھیں اور پہلی حدیث لاتےہیں إنما الأعمال بالنيات،

دونوں میں مطابقت کیا ھے،؟

مفتی صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے : کہ وحی کی دو قسمیں ہیں ایک وحی متلو،( جسکی تلاوت کی جائے، دوسرا وحی غیر متلو( جسکی تلاوت نہیں کی جاتی ھے) یعنی احادیث ، لہذا جو احادیث صحیحہ ثابت ھوں، لہذا إنما الأعمال بالنيات والی حدیث وحی میں سے ھے یہ مطابقت ھے،

یہ ایک مثال ہم نے پیش کی بخاری شریف کے بیشتر مقامات پہ آپنے امام بخاری کی آراء سے اختلاف کیا، اور کھل کر فرماتے اس جگہ ہم ان سے اختلاف کرتے ہیں،اب تو مکمل انکے دروس تحفة القاري کے نام سے 12 جلدوں میں چھپ کر آگئی، سال 2009 بخاری کا پہلا سال تھا بلکہ اس سے پہلے آدھے سال شیخ الحدیث مولانانصیر خان کی علالت کے بعد شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز کئے گئے تھے،

ترمذی اول میں مفتی صاحب زیادہ زور مسائل سمجھانے میں دیتے تھے اور خواص طور پہ احناف کے دلائل کو طلبہ کے سامنے بڑی دقت سے رکھتے، اور دوسرے ائمہ کے استدلال بھی پوری امانت سے رکھتے، اور فرماتے فقہی اختلاف کا دار مدار نص فھمی کا اختلاف ھے،

وہ طلبہ سے برملا فرماتے، سنو! ہمارے درمیان اور دیگر ائمہ کے درمیان جو اختلاف ھے وہ نص فھمی کا اختلاف ھے،

اور مجھے یاد ھے فرماتے :97.50٪ ساڑھے ستانوے فیصد مسئلہ میں چاروں ائمہ متفق ھیں جو نصوص سے ثابت ھیں اور واضح ھے صرف ڈھائی فیصد مسائل میں نصوص فھمی کا اختلاف ھے جس میں کسی ایک کی تقلید کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، لیکن چاروں برحق ہیں، درس میں شافعی طلبہ بھی رکھتے کسی کسی مسئلے میں فرماتے شافی مسلک میں کیا کوئی شافعی طالب بتائے، البتہ اہل حدیث اور جماعت اسلامی سے اختلاف ھے وہ فکری اختلاف ھے، وہ اپنی بات پہ مبنی رھتے،

انکے مزاج میں تصلب تھا جس کو وہ حق سمجھتے اس پہ ڈٹ جاتے، تصویر اور ویڈیو گرافی کے مسائل میں انکا دیگر علمائے کرام سے شدید اختلاف تھا، لہذا انہیں کے حکم سے کیوں کہ وہ صدر المدرسین بھی تھے، دارالعلوم دیوبند کے احاطہ میں جگہ جگہ کوچہ آویزاں کیا گیا تھا،

دار العلوم کے احاطے میں تصویر کھینچنا اور فوٹو گرافی سخت منع ھے،؛ Not Allawed photo graphy in darul Uloom area،خلاصہ یہ کہ قول وعمل میں تضاد نہیں تھا جو کہتے تھے ویسےہی عملی شکل میں نظر بھی آتے،

تاہم اس مسئلے سے دوسرے کو اختلاف بھی ھوسکتاھے،

آپ ایک فقیہ النفس شخصیت تھے، مسائل استنباط کرنے میں خدا داد صلاحیت تھی، ہر چھوٹی چھوٹی گفتگو پر دلیل پیش کرتے،طلبہ دورہ حدیث کی تعداد اسوقت 900 تھی ہر کوئی یہ چاھتا تھا کہ اساتذہ کے مسند درس کے قریب ہم بیٹیھیں،

ایک دن مفتی صاحب تک بات پہنچی تو اس مسئلے پہ بولے، دیکھو سامنے کے تین یا چار صف طلبہ کے نمبرات کو دیکھتے جوتے ادارہ تعلیمات والے طے کرتے ہیں یہ تو متعین ھے اسمیں کسی کو دخل اندازی کا جواز نہیں چار صف کے علاوہ باقی سب آزاد ہیں جو پہلے کلاس میں پہچیگا جو جہاں بیٹھےگا اس کا حق جوگا، اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے حضرت الاستاد نے جو دلیل دی تھی؛ وہ مزے کا ھے،

ھدیث میں ھے : "منى مناخ من سبق ”

عن عائشة رضي الله عنها قلنا : يا رسول الله ألا نبني لك بيتا بمنى يظلك . قال : لا ، منًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ .(رواه الترمذي: رقم الحديث:881)

ایام حج میں منی و مزدلفہ میں حجاج کرام کو آزادی ھوا کرتی تھی جو جہاں پہلے اپنی اونٹنی کو بیٹھادے اپنا خیمہ گاڑ لے وہ اسکی جگہ ھوگی (گرچہ مرور زمانہ کی وجہ سے حالات تبدیل بونے کی وجہ سے اب پہلے سے طے ھوتا حج کمیٹی اسے ترتیب دیتی ھے)

اس سے استدلال کرتے ھوے مفتی صاحب نے بتایا کہ کلاس میں بھی یہی اصول کارفرما جوگا، اللہ اکبر،

سلام کے مسائل پر آپ فرماتے سلام کرنا سنت ھے اور جواب دینا واجب لیکن یہ ایسی سنت کو جسکا ثواب واجب سے زیادہ ھے سلام کے باب میں، یہ تو چند مبالیں تھیں، علمی لطیفے، درس میں جوب سناتے، عبارت خوانی میں اگر طبعیت کے خلاف ھوتی تو فرماتے، "رھنے دے اس سے اچھا میں خود پڑھ لوں گا”

 

*گھریلو تربیت کا نرالا انداز* :

آپ اپنی زندگی کے اکثر معمولات گھریلو ھوں یا ما بین الاساتذہ یا کسی اور کے ساتھ طلبہ سے شیر کرتے تھے، اور واضح بھی کردیا کرتے تھے اس سے سیکھو،

گویا آپ اپنی عملی زندگی سے بھی طلباء کی تربیت فرماتے تھے، حفظ قرآن کا اپنا واقعہ سنا یا کہ میں شروع میں حفظ نہیں کیا بلکہ دارالعلوم دیوبند آکر افتاء و تعریب کے سال میں حفظ قرآن مکمل کیا، اسکا فائدہ علمی زندگی میں محسوس کر رھاگوں، الحمد للہ،

اپنے گھر کے واقعہ بیان کرتے کہ جب میری شادی ھوی میرے اہلیہ حافظہ قرآن نہیں تھی میں نے اپنی نگرانی میں اسے حفظ کروایا، پھر جتنے بچے ھوے سب کو میری اہلیہ نے حفظ کروایا،

ماشاءاللہ مفتی صاحب کو اللہ نے کثیر الاولاد بنایا تھا، آپکے 11/ 12 لڑکے ہیں فرماتے تھے جب بچوں کی شادی ھوی تو جو بہو حافظہ نہیں ھوا کرتی تھی شروع کے تین سال تک گھر میں ان سے کوئی کام نہیں لیا جاتا تھا، نہ کھانا بنا تی نہ شوہر کا کپڑا دھوتی صرف اور صرف انکو حفظ مکمل کرنا ھے، واقعی گھریلو. ماحول کو اس انداز سے تربیت کا کارخانہ بنانا اور آنے والی دلہن کے ساتھ اس طرح کا رویہ شاید کہیں کہیں سننے کو ملے،

 

**بچوں کے درمیان وظیفہ مقرر کرنا* :

 

مفتی صاحب اپنے بچوں کی تربیت اس انداز سے کرتے تھے کہ جو جس میعار کا ھوتا اسی اعتبار سے انکو ماہانہ خرچ کیلیے روپیہ ملتا، کوئی ثانویہ میں ھے کوئی، مولوی کے سال میں پڑھ رھا ھے، کوئی عالمیت کے سال میں ھے، تو اسی انداز سے وہ سب کو مدرسے کے اخراجات طے کرتے،

سال کے اخیر میں دوران درس وہ طلبا سے نصیحت کرتے کہ اب ایک ماہ کے بعد تم فارغ ھو جاؤگے تو سنو!

طلباء کی تین قسمیں ھیں ایک اعلی قسم کا طالب جو ذہین ھیں اور گھریلو حالات اچھے ہیں وہ اپنی تعلیم مزید آگے رکھنا چاھتے ہیں، انکو چاھیے کہ تخصصات میں جائے اور جوب ترقی کرے،

دوسرا قسم متوسط قسم کا طالب جو فراغت کے بعد کہیں درس وتدریس میں لگ جانا ھے،

تیسرا جو اب کہیں اپنا کاروبار میں لگ جائیگا یا کہیں عملی میدان میں لگ جائیگا،

اسکے لئے میرا مشورہ ھے کہ پہلے تم جماعت میں چلہ لگا ؤ پھر اسکے بعد جہاں تک ھوسکے دین پر عمل کرو، یہ بات میں اسلئے کہ رھا ھوں اب تمہارا سابقہ زیادہ تر تبلیغی جماعت کے ساتھیوں سے پڑیگا،

ایک زمانہ سناش، ایک پیدرانہ شفقت، رکھنے والے ماہر مربی تھے آپ.

*تصنیفی وتالیفی کاموں کی ترغیب* :

آپ ایک عظیم محقق، بےمثال شارح حدیث، اور لاجواب مفسر قرآن تھے، تحقیق و تالیف کے میدان میں آپکا سب سے نمایاں کارنامہ شاه ولي الله محدث دہلوی کی مایہ ناز کتاب حجة الله البالغة کی شرح رحمہ اللہ الواسعہ، ھے چانچ جلدوں پر مشتمل ھے، اولا اسکے تین مخطوطہ آپ نے جمع کی ایک مخطوطہ آپ پاکستان سے اسوقت کے حساب سے ڈیرھ لاکھ میں خریدی، پھر تینوں کو جمع کرکے اسکی شرح لکھی جسنے علمی حلقہ میں ایک ہلچل پیدا کردی، ہر کسی نے اسے دل کی آنکھوں سے سجایا اور ہر مکتب فکر کے لوگوں نے اسے قبول کیا، اور علمی حلقہ کا ایک خلا پر ھوگیا،

اس کتاب میں سب سے اہم بات آپ کے باب کے شروع میں جو گفتگو کی ھے وہ بڑا زبردست ھے، جو اصل کتاب کی شرح کا مقصد ھے، اور جسے فکر ولی اللہی کا شگوفہ پھوٹتا اور علمی خوشبو مہکتا نظر آتاھے،

تحفة الألمعي شرح سنن الترمذي : درس ترمزی آپکا مشھور درس تھا، اس میں دورہ حدیث کے طلباء کے علاوہ آنے والے مہمان دیگر کلاس کے طلبہ بھی شریک ھوجایا کرتے تھے، دار الحدیث کا کشادہ حال بھی تنگ ھوجاتا تھا،

انہیں دروس و تقاریر کا مجموعہ ھے، جو تمام طریقے سے محقق ھوکر تصنیفی قالب میں تیار ھوکر 8 جلدوں میں منظر عام پر آگئی ھے،

تحفة القاري : یہ بھی آپ کی اردو شروحات میں بھترین بخاری کی شرح جو بارہ جلدوں میں شائع ھو کی ھے،

اور تفسیر میں ھدایت القرآن، ایک بیش قیمتی خزانہ ھے،

اسکے علاوہ چھوٹی بڑی مختلف موضوعات پہ آپ نے قلم اٹھایا، اور پورا پورا حق ادا کیا،

طلبہ سے مخاطب ھوتے کہ بیس سال پڑھو اور بیس سال پڑھاؤ اسکے بعد تھوڑی تھوڑی علم کی خوشبو آئیگی،

اور اگر تصنیف وتالیف کے کام میں لگو گے تو علم میں اور فن میں اضافہ ھوگا، اقرأ باسم ربک… کی تفسیر میں آپ درس وتدریس اور مطالعہ اور تأليف کی طرف اشارہ فرماتے، قرآن بحر بیکراں ھے، ہر طرح کے مسائل اہل علم اپنے ذوق کے اعتبار سے استنباط کرتے ہیں.

 

*مولانا سے آخری بالمشافہ ملاقات* :

2009م میں دورہ حدیث سے فراغت کے بعد کبھی ملاقات نہیں ھوی تھی، تعلیمی ایام روز بروز گزرتا گیا اللہ تعالی کے فضل وکرم سے نیز انہیں بزرگوں سے پڑھنے اور انہیں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا صلہ ھے کہ دورہ حدیث کی سند سے میرا داخلہ 2012م میں جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں ھوا،

پھر 2016 کے ما رچ میں مشائخ جامعہ ام القری کےسا تھ ہندوستان کے اہم مدارس کے دورہ میں ندوہ و جمعیت علماء ہند کے بعد دارالعلوم کی زیارت ھوی،دار العلوم دیوبند میں مہمانوں کا قیام تھا، عصر بعد شیخ کی تقریر مسجد رشید میں ھوی بعدہ اسی روز عشاء بعد 14 ویں تاریخ کی شب مولانا عارف جمیل صاحب- استاذ دارالعلوم دیوبند – کی ترتیب سے مولانا مفتی رحمہ اللہ علیہ سے تفصیلی ملاقات ھوی واضح رہے اس وقت جامعہ ام القری کے مایہ ناز استاذ فضيلة الشيخ الدکتور علي صالح محمد المحمادي – حفظه الله -مدرس معهد الحرم المكي الشريف اور أحمد محمد الخيري – المكي اور مولانا عبد الشکور صاحب المفتاحی، (بنگلور) اور رفیق درس مولانا خالد عبد القیوم الندوی لکھنوی، حافظ عرفان عبد الرؤف نیپالی تھے،

رات 10 بجے تقریباً مفتی صاحب کے گھر پہنچے آپ نے مہمانوں کا باھر آکر استقبال کیا پھر فرش پر ہی سب حضرات تشریف رکھے جو حلقہ دیوبند کے بزرگوں کا متواضعانہ و درویشانہ عادت ھے، دوران گفتگو اولا شیخ نے سب سے کہا اپنا اپنا تعارف پیش کیجیے، داہنی طرف سے سبھی لوگ اپنا اپنا نام اورموجودہ عمل بتایا، جب شیخ سے پوچھنے لگے تو میں شیخ کا تعارف کرانے لگا مفتی صاحب برجستہ بول پڑے کیا میں آپ سے پوچھا ھوں،؟ جس سے پوچھا ھوں وہ بتائے، تو مولانا عارف جمیل صاحب قطع کلامی کرتے ھوے بولے حضرت مشائخ کے کو لیکر جامعہ ام القری سے لیکر آئے ھیں وہ زیادہ انکے متعلق جانتے ہیں وہ انکے استاذ ھیں ، اور دیوبند کے فارغ ھیں، اس پر مفتی صاحب نے خوشی کا اظہار کیا، اور تعارفی بات چیت کے بعد ہم نے اپنی شاگردی کا مفتی صاحب کے ساتھ اظہار کیا اور کہا کہ آپ کے درس بخاری میں میرا سب سے زیادہ نمبر تھا جس پر آپ نے پوزیشن والے طلباء کو انعام بھی دیا تھا،اور دورہ حدیث میں ششماہی میں الحمدللہ میری دوسری پوزیشن بھی تھی کافی خوش ھوے،اور دعائیں دی چائے نوشی کی محفل سجی بسکٹ، نمکین، چائے سے مہمانوں کا استقبال کیا، اپنا پورا تعارف پیش کیا، اور تصنیفی کاموں کے تعلق سے مشائخ کے سامنے اپنا سابقہ اور آئندہ کے خاکے رکھے،

مشائخ ام القری حضرت کی اعلی منصبی دوسری طرف سادگی کو دیکھکر بے ساختہ بول پڑے "آپکا دیکھر خدا یاد آنے لگا”

یہی نہیں راستے بھر بار بار اسکی سادگی اور علمی تفوق کا تذکرہ کرتے،

حضرت کی تدفین : آپ جیسا کہ معلوم ھوا ممبئ کے جوگیشوری قبرستان میں 2020/5/19. م پچیسویں رمضان شب قدر والی راتوں کے انوار و برکات سمیٹتے جسے علی الصبح بوقت چاشت اس دار فانی سے کوچ کرگئے اور ممبئی ہی میں کرونا وائرس اور لاک ڈان کی وجہ سے محض 15 سے 20 لوگوں کے ہاتھوں سپر خاک هوے،

لوگ چاہ کر بھی شریک جناز ہ نہ ھوسکے

پھول کیا ڈالوگے تربت ہر میری

خاک بھی تم سے ڈالا جائیگا کے مصداق ٹھہرے. اخیر میں دعا گوں ھوں کہ اللہ مفتی صاحب کو کروٹ کڑوٹ جنت نصیب کرے. اور بروز قیامت صدیقن شھداء صالحین کے صف میں کھڑا کرے، لاکھوں کی تعداد میں انکے شاگر یقیناً سب انکے حق میں دعا گوھونگے،

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

مثلِ ایوانِ سحَر مرقد فرُوزاں ہو ترا

نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.