علم حدیث کا آفتاب غروب ہوگیا!….

عبید الرحمن ابن مفتی عمر صاحب جونپوری
مدرس جامعہ عربیہ تلوجہ نیو ممبئی
زبدۃالعلمااستاذالمحدثین فخرالاماثل حضرت مفتی محمد سعیدصاحب پالنپوری نوراللہ مرقدہ وبرداللہ مضجعہ کی حادثہ موت کی لرزہ خیزخبر نے دل و دماغ کو معطل کردیا ہے
حضرت مفتی صاحب اپنے عہد کی عبقری شخصیت تھی آپ جہاں ایک طرف علوم قاسمی کےنامورامین تھے تو دوسری طرف اسرارولی اللہی کے شارح عظیم تھےعلمی گتھیوں کےسلجھانےمیں آپ ایک عظیم مرجع کی حیثیت رکھتے تھےابھی رمضان سےپھلےبارہ مئ سےمتعلق حدیث کےمصداق میں بڑی بےسندبات پھیل گئ تھی اور باعث تشویش بن گئ تھی حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نےاوائل رمضان ہی میں اسکاصحیح مصداق بڑی شرح وبسط کےساتھ بیان فرمایاجس سےبہت ھی اطمینان ہوا ٠٠فجزاه الله عناواحسن الجزا.آپ اپنےاکابرکےاقداراورانکےمشرب ومسلک کےسچےعاشق اورداعی تھے جملہ علوم پرآپکی گھر ی نظرتھی خصوصاً علم حدیث سےخاص لگاؤتھاوقت کےنہایت پابند اوراپنےاعلی مقاصدکوبروۓ کارلانےمیں اپنی مثال آپ تھےعلم ظاہر کے ساتھ ساتھ علم باطن میں بھی آپ اپنےاکابرکےسچےوارث تھےچنانچہ زمانہ طالبعلمی میں اپنی باطنی تشنگی دورکرنےکیلئےحضرت شاہ عبدالقادرصاحب رائے پوری رحمہ اللہ کی عرفانی مجالس سےاستفادہ کرتےتھے جبکہ حضرت شیخ الحدیث مولانازکریارحمہ اللہ سےبھی بیعت وارادت کا تعلق تھاحضرت شیخ رحمہ اللہ کی رحلت کےبعدحضرت مفتی مظفرحسین صاحب رحمہ اللہ کے دامن ارادت کوتھامااورمنازل سلوک طےکرتےرہےحضرت مفتی مظفرحسین صاحب نےآپکواجازت بیعت سے بھی سرفراز فرمایا آپکے سیکڑوں تلامذہ ملک اوربیرون ملک میں ایسےہیں جن سےاللہ تعالی نےدین کاانقلابی کام لیا ہےاورلےرہےھیں۰اسی طرح آپ کاتصنیفی کارنامہ بھی تاریخ کےسنہرےاوراق میں آب زرسےلکھنےکےقابل ہےجن میں سب اہم کارنامہ,,حجۃاللہ البالغہ,, کی شرح ,,رحمۃاللہ الواسعہ,, آپکی شاہکار تصنیف ہےجس نے علماء راسخین کی نظروں میں آپ کی علمی حیثیت پر چار چاند لگادیا غرضیکہ آپ نے پوری زندگی زخار ف دنیوی اور مال ومتاعِ فانی کی حرص سے بالکل آزاد ہو کر محض رضاء معبود برحق کواپنا نصب العین بنایا اور زندگی کی تمامترتوانائیاں علم و عمل کی پاکیزہ راہ میں نچھاور کردیا آپ ان شاہ بازان بلند پرواز میں سے تھے جن کی نگاہیں زمین کی پستیوں کے بجائے آسمان کی بلندیوں میں اپنا نشیمن تلاش کرتی ہیں آپ ان مردان جانباز میں سے تھے جو دین حق کی سر بلندی کے لئے اپنی جاہ وعزت اپنے مال و منال اور اپنے جسم و جان کو قربان کردینا اتنا ہی پرکیف اور پر لطف سمجھتے ہیں جتنا دوسرے لوگ تن پروری اور عیش کوشی کو آپ نے مخدومیت و مقصودیت کی نشست گاہ بلند و رفیع کی جانب نگاہ ہوس نہ اٹھائیں بلکہ دنیا کی عزت و جاہ اور مال و منال خود آپ کے قدموں میں خادم بن کر آئیں آپ اس شعر کے حقیقی مصداق تھے.
خدا یاد آۓ جن کو دیکھ کر وہ نور کے پتلے
نبوت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل رحمانی
یہی ہیں جنکے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہیں کاکام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہر گز نہ کپڑوں کو لگے پانی
اگر خلوت میں بیٹھے ہوں تو جلوت کا مزہ آۓ
اور آئیں اپنی جلوت میں تو ساکت ہو سخن دانی
آپ کی موت بھی کئ وجوہ سے قابل رشک ہے ایک تو آپ کی موت مسافرت کی حالت میں آئی یہ خود ایک بہت بڑی فضیلت کی چیز ہے دوسرے یہ کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں آئی تیسرے یہ کہ آپ پوری زندگی تعزیتی اجلاس اور تعزیتی پروگرام کے سخت مخالف رہے یقیناً آپ کی یہی آرزو ہوگی کہ میرے مرنے کے بعد میرے تئیں کوئی تعزیتی پروگرام اور تعزیتی محفل منعقد نہ ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ آرزو پوری فرمادی چنانچہ آپ کا سفر آخرت ایسے پر خطر حالات میں پیش آیا کہ آپ محبین چاہتے ہوۓ بھی کوئی تعزیتی پروگرام منعقد نہ کر سکے اس طرح آپ (عاش سعیدا ومات سعيدا) کے حقیقی مصداق بنے اور ان شاء اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد بھی آپ کو اعلی علیین میں جگہ نصیب ہوئی ہوگی اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان، متعلقین،منتسبین، محبین کو صبر جمیل عطا فرمائے امت کو ان کا نعم البدل نصیب فرمائے. آمین
Comments are closed.