Baseerat Online News Portal

مولانا اجتبی حسن قاسمی : ایک صالح اور با صلاحيت عالم دین

محمد سرفراز عالم قاسمی
اسسٹنٹ پروفيسر، ایم.ٹی.ٹی.کالج مدھےپور، مدھوبنی
عارف باللہ حضرت اقدس الحاج ماسٹر محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم کے چھوٹے داماد ، مدرسہ عارفیہ سنگرام مدھوبنی کے مٶقر استاد عربی و ناٸب مہتم ، حضرت مولانا اجتبی حسن قاسمی 22 شوال 1441ھ مطابق 15 جون 2020 کو بمشکل تمام کوٸ 45 کی عمر میں انتقال کر گۓ۔إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔
سال بھر قبل آپ پہ فالج کا حملہ ہوا، علاج و معالجہ کے بعد طبیعت روبہ صحت تھی، مگرکمزوری حددرجہ تھی، کسی کام سے دربھنگہ گۓ،واپس لوٹتے وقت راستے میں ہی اچانک دل کا دورہ پڑا اور رحلت فرماگۓ۔ نماز جنازہ، آپ کے خسر محترم نے پڑھاٸ اور اپنے گاٶں کے قبرستان میں مدفون ہوۓ۔

راقم الحروف کی کچھ یادیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ اشرفیہ عربیہ پوہدی بیلا میں اپنی طالب علمی زندگی کی یادداشت کوٸ 2000 کے آس پاس کی ہوگی، پوہدی نانیھال ہونے کی وجہ سےابتدائی تعلیم تو میں نانی مرحومہ کے یہاں ہی رہ کر پڑھنے آتاتھا، مدرسہ میں داخلہ نہیں تھا، بہت چھوٹا سا تھا، مولانا اجتبی صاحب مدرسہ کی مسجد کے ایک کنارے میں پڑھاتے تھے، اور احقرکو بلا کر بہت سی باتیں کیا کرتے تھے، نہ جانے کیا باتیں تھی، وہ تو کچھ یاد نہیں، مگر نورانی چہرہ، کشادہ پیشانی، ہلکی وخوبصورت داڑھی، سفید ہلکی عربی رومال کاندھے پر اور وجہیہ شکل وصورت آج بھی آنکھوں کے سامنے گردش کررہاہے۔
پھرایک طویل عرصے بعد 2011 میں دیوبند میں ملاقات ہوٸ،احقر دارالعلوم دیوبند میں سال ہفتم عربی میں تھا، ایک اور ساتھی تھے محمد انوارالحق، جو دارالعلوم وقف دیوبند میں، دورہ حدیث شریف میں تھےاور پوہدی مدرسہ کے بھی ساتھیوں میں تھے، آپ ہم سب کے ساتھ پارک میں بیٹھ کر، مدرسہ کی تعلیمی ومالی حالات، نۓ فضلا کا اپنے علاقے میں کام نہ کرنے کی وجوہات،طلبا کا اسلامی وضع قطع سے دوری جیسے عنوان پر بہت دیر تک گفتگو کی۔
پھر 2018 میں پوہدی مدرسہ کے جلسہ میں ملاقات ہوٸ، بیماری کی اثرات کی پوری طرح جسم پرنمایاں تھے، مختصر سی وقت میں صرف خبر وخیریت دریافت کی جا سکی۔

ابتدائی احوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی پیداٸش ضلع مدھوبنی کے ”ارریا سنگرام“ میں ہوٸ، آپ کے والد ماجد الحاج ماسٹر محمد مرتضی صاحب بقید حیات ہیں، سرکاری اسکول کے ریٹائرڈ ٹیچر ہیں، شرعی وضع قطع اور صوم و صلوة کے پابند، بزرگوں کے قدرداں اور مدرسہ عارفیہ سنگرام کے ناظم اعلی ہیں۔اللہ تعالی نےحج کی سعادت بھی نصیب فرمائی ہے۔
ابتدائی تعلیم مدرسہ عارفیہ سنگرام سے حاصل کرنے کے بعد جامع العلوم کانپور چلے گۓ، وہاں متوسطات کی تکمیل کی اور اعلی تعلیم کے لۓ دارالعلوم دیوبند کارخ کیا اور پنجم عربی داخل ہوۓ اور چار سال رہ کر دورہ حدیث شریف سے فارغ ہوۓ۔ فراغت کے بعد آپ نے قرآن کریم حفظ کی۔آپ کے دارالعلوم دیوبند کے ساتھیوں میں مفتی محمد ہاشم صاحب، مولانا محمدعاصم صاحب، مولانا تقی صاحب، مولانا ہاشم صاحب روپسپور، مولانا قوی الرحمن صاحب، مولانا جمیل صاحب اجرہٹہ، مولانا جمیل اختر صاحب کھورمدنپور وغیرہ ہیں۔

تدریسی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فراغت کے بعد خانقاہ امدایہ اشرفیہ تھانہ بھون اور اس کے بعد راجستھان میں چند سال تک تدریس کے بعد علاقے کا مشہور ومعروف ادارہ مدرسہ اشرفیہ عربیہ پوہدی بیلا ضلع دربھنگہ آگۓ، یہاں 1997 سے 2007 تک تقریبا دس سال تک استاد رہے۔
آپ اسباق میں عبارت فہمی پر بہت زور دیتے، حفظ اور فرفر روانی کے ساتھ عبارت خوانی کی تاکید کرتے، احقر نے آپ سے دینی تعلیم کارسالہ کے چند حصے، زاد سفر، نحومیر، شرح مأة عامل، بوستاں سعدی، دینیات اور ابتدائی فارسی وعربی کی مختلف جماعتوں میں پڑھیں۔ آپ کہتے تھے کہ میں طالب علم کو اس کی پیشانی سے سمجھ لیتاہوں کہ وہ سبق سمجھا ہے یا نہیں، نحومیر پڑھاتے وقت ہمیشہ کہتے کہ یہ سب دورہ حدیث تک کام آٸیگا۔ ہر سبق پہ کہتے کہ یہ حافظ کی طرح روانی کے ساتھ یاد ہونی چاہۓ، مغرب کے بعد طلبا نحومیر کی خصوصی نگرانی کرتے۔
عربی اول میں مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ کے استاد مولانا بشارت کریم صاحب امتحان لینے آۓتھے، ان کے ساتھ ایک اور کوٸ ممتحن تھے، (نام یاد نہیں) مولانا نے ہماری جماعت کے بارے میں فرمایا کہ پوری نحومیر آپ اس جماعت سے زبانی سن سکتے ہیں، ہم سب یہ سن کر اور بھی گھبراگۓ۔ کہ نہ معلوم کیا اور کہاں سے سوالات کریں گے، یہ امتحان کا ایک فطری عمل تھا، چند مخصوص طلبا تھے جن پر آپ بہت اعتماد کرتے تھے۔

دیگر ذمہ داری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اسباق شروع ہونے سے قبل ترانہ اور دعا میں طلبا کو جمع کرانے کی آپ کی ذمہ داری ہوتی، پہلے گھنٹہ بجواتے اور پھر ہاتھ میں چھڑی لے کر نکل پڑتے، صف بندی اور سلیقہ سے لاٸن میں کھڑے ہونے کی تربیت، دعاٸیں، سارے کلمے اور بعد میں پھر کچھ نصیحت کرتے، جو انہیں اکثر بڑے طلبا سے شکایت رہتی کہ وقت پر خود بخود کمروں سے نہیں نکلتے ہیں، اور پھر سلیقہ سے اپنی کلاس کی طرف رخصت ہونے کی تاکید کرتے۔
جمعرات کے دن ایک گھنٹہ ناشتہ سے قبل مختلف روز مرہ کی دعاٶں کا ہوتا تھا، ابتدائی جماعت میں بہت سی دعائيں آپ ہی کی اس کلاس میں احقر نے یاد کی۔ ہم طلبا کی ہفتہ واری انجمن کے ایک سال نگراں بھی رہے، آپ بہت خوش خط تھے، عمدہ صفاف ستھری آپ کی تحریر ہوتی۔

مدرسہ عارفیہ سنگرام، مدھوبنی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ عارفیہ سنگرام مدھوبنی علاقے کا ایک قدیم دینی ادارہ ہے، آپ کے والد گرامی اس کے ناظم ہیں۔ 2007 میں آپ اپنے والد گرامی کی پیرانہ سالی، علاقے کے اصحاب خیر کی گزارش، اور مدرسہ کی ضرورت کی وجہ سے یہاں تشریف لاۓ، آپ کی تقرری کی درخواست بھی آپ کی طرف سے مولانا محمد عاصم صاحب قاسمی ناٸب ناظم مدرسہ اشرفیہ عربیہ پوہدی بیلا نے تحریر کی، تب سے اب تک آپ بحیثیت استاد و ناٸب مہتمم اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔

اوصاف حمیدہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا بہت خوش اخلاق، ملنسار، شاید ہی کھبی کسی سے آپسی رنجش جیسی کوٸ بات ہوٸ ہو، بہت نرم خو، نرم طبیعت، طلبا کے حق میں نہایت خیرخواہ تھے۔
اس ناچیز نے متعدد بار اپنے اوپر آپ کی شفقت کو محسوس کیا، ایک ”ناخوشگوار واقعہ“ کے بعد مولانا نے احقر کو بلاکر جو تسلی بھرے الفاظ کہے تھے، آج بھی کانوں میں اس کی حلاوت او دلوں میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے، مولانا کو چاۓ اور پان کا ذوق تھا، چاۓ بازار سے منگواتے اور پان کا سارا سامان اپنے پاس رکھتے تھے، اکثر اس خدمت کے لۓ احقر کو ہی طلب کرتے تھے، ہمیشہ کہتے کہ ابھی سے دل میں ٹھان لو کہ مجھے عالم بننا ہے، چاہے کتنے ہی رکاوٹیں کیوں نہ آۓ، احقر کے نانا مولانا محمدحسین صدیقی موضع پوہدی بیلا، صاحب نسبت بزرگ تھے۔اور نانی مرحومہ حکیم الامت حضرت تھانوی کے خلیفہ سراج الامت حضرت مولانا سراج احمد امروہوی رحمہ اللہ سے بیعت تھیں، تعلیم یافتہ اور عابدہ، زاہدہ خاتون تھیں، اس کا ذکر کرتے ہوۓ متعدد بار احقر نے مولانا سے بھی سنیں۔
آپ کا عقد مسنونہ علاقے کے بافیض، مسلم اور مستجاب الدعا بزرگ مخدوم گرامی قدر عارف باللہ حضرت اقدس ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہ کی چھوٹی صاحبزادی سے ہوٸ۔ آپ اور آپ کی اہلیہ دونوں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے مسترشد خاص اور مولانا سراج احمد امروہوی کے خلیفہ مولانا ڈاکٹر محمد زاہد صاحب امروہوی رحمہ اللہ سے بیعت تھے۔

مولانا کا ایک دلچسپ مزاح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیساکہ معلوم ہوا کہ مولانا کو چائے کی عادت تھی، اسی لۓ آپ کے پاس ایک ”تھرمس“ تھا، جس میں بازار سے چائے منگواتے تھے، اس کے اوپر کاحصہ پلاسٹک اور اندرونی حصہ شیشہ کا تھا جو بہت گول خوبصورت اور بہت چمکدار تھا صفائی کے بعد معلوم پڑتا کہ اور بھی اس میں روشنی آگٸ ہے، چاۓ نکالتے وقت اس کے اندر کچھ قطرہ جمع ہوجاتا جس کی صفائی ضروری ہوتی تھی،
ایک مرتبہ اسے کھول کر صفائی کررہےتھے کوٸ ابتدائی جماعت کا طالب علم تھا اسے تھرمس کا اندرونی حصہ دکھاتے ہوۓ کہا یہ کیاہے ؟ اسنے کہا : نہیں معلوم، مولانا نے کہا کہ یہ ”بھینس کا انڈا“ ہے،
پہلے تو وہ طالب علم انکار کیا، پھر شش و پنج میں مبتلا ہوگیا، پھر مولانا نے مکرر سہ کرر کہا بلأخر اس کو یقین ہوگیا، جب بھی کوٸ پوچھتا تو وہ کہتا ہاں ہم نے ”بھینس کا انڈا“ دیکھا ہے، مولانا اجتبی صاحب نے ہمیں دیکھایا ہے۔ اس سے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کا خاندانی پس منظر اور فیملی بیک گراؤنڈ کادیب بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آپ کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ، پانچ بیٹیاں، اور دیگر رشتہ دار ہیں، آپ کا اس قلیل العمر میں دارمفارقت دینا، یقینا ہم سب کے لۓ ایک عظیم صدمہ کا باعث ہے۔اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول فرماکر اسے آپ کے لۓ صدقہ جاریہ بنائے، اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرماۓ۔ آمین۔

Comments are closed.