مولانا رحمت اللہ کیرانوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

اسجد عقابی
تاریخ اسلام میں ایک ایسا سنہرا دور بھی آیا تھا جب تن تنہا ایک شخص کا نام سن کر عیسائیت کے نام نہاد بادشاہوں کے قلعوں کی مضبوط دیواریں ہل جایا کرتی تھیں۔ جن کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ نے عیسائیوں کی نیندیں حرام کردیں تھیں۔ بعینہ اسی طرح انیسویں صدی میں ملک ہندوستان میں ایک ایسی عظیم شخصیت نے جنم لیا، جن کے نام سے عیسائی راہبوں اور کلیسا کے رکھوالوں کے ہوش اڑ جایا کرتے تھے۔ جن کی آمد کی اطلاع پر عالم عیسائیت کا سب سے بڑا پادری ( فنڈر) راتوں رات شہر چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوگیا۔ یہ اس زمانہ کی داستان ہے جب لندن کے پارلیمنٹ میں ہندوستان کو عیسائیت کے رنگ میں رنگنے کے لئے قانون پاس کیا جاچکا تھا۔ جب دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزی فوج کی پشت پناہی میں پادری مسلمانوں کے مذہب کو للکارا کرتے تھے۔ جب فنڈر کی لکھی ہوئی کتاب ( میزان حق) کو معیار سمجھا جانے لگا تھا۔ ہندوستان کے باشندوں کو عیسائیت مذہب قبول کرنے کیلئے ورغلانے کے علاوہ ڈرانے دھمکانے کا دور شروع ہوچکا تھا۔ جب دہلی کی شاہجہانی مسجد کو گرجا میں تبدیل کرنے کی خبر جنگل کے آگ کی مانند پھیل چکی تھی۔ جب سرکاری ملازمین کیلئے پادریوں کی مجلسوں میں شرکت ضروری قرار دی جاچکی تھی۔ یہ سب کچھ ہورہا تھا اور ایسے وقت میں ہورہا تھا جب برائے نام ہی سہی لیکن دہلی کے تخت پر سلطنت مغلیہ کا آخری چراغ بہادر شاہ ظفر اپنے آخری ایام اور نتائج کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ پادریوں کی اس دیدہ دلیری اور انگریزی فوج کی پشت پناہی کی وجہ سے مسلمانوں میں شکوک وشبہات پیدا ہونے شروع ہوگئے تھے۔ عام مسلمان خود کو بے سہارا سمجھنے لگے تھے۔ ہندوستان میں اندلس کی تاریخ دہرانے کی مکمل تیاری کی جاچکی تھی ایسے وقت میں کیرانہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہونے والے رحمت اللہ کیرانوی نے عیسائیت کے شیش محل کو چکنا چور کیا ہے۔ لن ترانیاں بکنے والوں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کیا ہے۔ اور ہزاروں انگریزوں کے سامنے آگرہ کے مناظرہ میں اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے ابطال کو ثابت کیا ہے۔
ولادت با سعادت
آپ کی ولادت باسعادت مظفر نگر میں واقع قصبہ کیرانہ میں مولوی خلیل اللہ عرف خلیل الرحمٰن کے گھر 1817 میں ہوئی۔ آپ کیرانہ کے سب سے معزز گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ آپ کے اجداد میں حکیم بینا ( حکیم عبد الکریم) کو مغلیہ سلطنت کے فرمانروا اکبر نے کیرانہ اور اس کے ملحقات کی جاگیر عطا فرمائی تھی۔ آپ کا علاقہ آپ کے وسیع و عریض محلات کی بنا پر ( دربار کلاں) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آپ نسباً عثمانی ہے۔ آپ مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمعصر تھے۔
تعلیم و تربیت
آپ کے والد محترم عالم دین تھے اور آپ کا پورا گھرانہ دینی ماحول میں ڈھلا ہوا تھا۔ عبادت و ریاضت سمیت علم و فضل کی چاشنی ہر فرد بشر کے سینہ میں موجزن تھی، ایسے ماحول میں نشو و نما پانے والے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے شوق و ذوق کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم، قرآن مجید اور فارسی کی ابتدائی کتابیں گھر پر ہی پڑھیں۔ حصول علم کے شوق نے آمادہ سفر کیا اور آپ مرکز علم و ادب دہلی کی درسگاہ تک جا پہنچے۔
دہلی میں آپ نے مدرسہ محمد حیات میں داخلہ لیا اور ایک حجرہ میں رہتے ہوئے حصولِ علم میں مگن ہوگئے۔ کچھ دنوں بعد جب آپ کے والد محترم دہلی تشریف لائے اور یہاں مہاراجہ ہندو راؤ کے میر منشی مقرر ہوئے تو آپ نے مدرسہ کے قیام کو چھوڑ کر والد ماجد کے ساتھ سکونت اختیار کرلی۔ دہلی میں قیام کے دوران آپ چند رفقاء کی معیت میں مفتی سعد اللہ مرادآبادی کے حلقہ درس میں شامل ہونے کیلئے لکھنؤ روانہ ہوگئے۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے مفتی سعد اللہ مرادآبادی کے درس میں پابندی سے شرکت کی اور آمد کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکمل انہماک سے تحصیل علوم کیلئے خود کو وقف کئے رکھا۔
علم طب یہ آپ کے خاندان میں صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ چنانچہ سلطنت مغلیہ کے فرمانرواؤں کے علاج کیلئے آج کے اجداد بلائے جاتے رہے ہیں۔ اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آپ نے وقت کے مشہور حکیم استاد حکیم فیض محمد سے علم طب حاصل کیا۔
درس وتدریس
1256 ہجری میں تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے وطن مالوف کیرانہ لوٹ آئے۔ یہاں محلہ کی مسجد میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔ چھوٹے طلباء کے علاوہ کچھ بڑے طلباء بھی استفادہ کیلئے آنے لگے تھے۔ اگرچہ آپ کا زمانہ تدریس بہت مختصر رہا ہے لیکن ان ایام میں بھی آپ نے بے شمار ذی استعداد طلباء کی جماعت تیار کرکے اشاعت اسلام کی خاطر ملک کے طول و عرض میں پھیلا دیا تھا۔ اللہ جب کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو اس کیلئے وسائل بھی خود فراہم کرتا ہے۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا زمانہ تدریس بہت مختصر رہا جس کی بنا پر آپ نے عیسائیت کے تقریباً تمام علوم پر دسترس حاصل کی تھی۔ اسی طرح حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے دوسرا کام لینا مقصود تھا تو ان کیلئے دوسرے ذرائع پیدا کئے۔
عیسائیت کا سیلاب
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستانیوں کو عیسائیت کے رنگ میں رنگنے کیلئے باضابطہ لندن پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی اور پھر کمپنی کی سرپرستی میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پادریوں کی فوج ٹڈی دل کی مانند ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ یہ پادری جہاں جاتے انہیں مکمل طور پر انگریزی فوج کے ذریعہ تحفظ فراہم کیا جاتا تھا۔ عیسائیت کی تبلیغ کے نام پر انہوں نے مذہب اسلام، شعائر اسلام اور حتی کہ پیغمبر اسلام کی ذات مقدسہ کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی خاموشی یا پھر انگریزوں کے خوف نے ان پادریوں کو مزید حوصلہ بخشا اور دن بدن ان کی سرگرمیاں تیز ہوتی چلی گئیں۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر انگریزی فوج کی پناہ میں عیسائی مبلغین اسلام کے فرزندوں کو للکارا کرتے تھے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اچانک دہلی کی شاہجہانی مسجد کو گرجا گھر میں تبدیل کرنے کی خبر جنگل کے آگ کی مانند پھیل گئی اور یہ سب کچھ پادریوں کی خباثت کا نتیجہ تھا۔ اس مہم کو مزید تقویت بخشنے کیلئے لندن سے سب سے بڑے پادری ( فنڈر) کو ہندوستان بھیجا گیا۔ جس نے آگرہ کو اپنی قیام گاہ بناکر پورے ملک میں ہورہے مشنری کام کو انجام دینا شروع کیا۔ اس کی سوچ سے کہیں زیادہ اس کی زبان خراب تھی۔ اس نے ہندوستان کو دوسرا اندلس بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی ان تمام حالات سے باخبر تھے۔ اسی درمیان پہلے آپ نے پادری فنڈر کی کتاب (میزان الحق) کا جواب ( ازالہ الاوہام) کے نام سے لکھا۔ لیکن یہ فتنہ اس تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ اس کے سد باب کیلئے یہ کافی نہیں تھا۔ آپ دہلی پہنچے اور یہاں سے اپنے رفیق خاص ڈاکٹر وزیر خان کی معیت میں پادری فنڈر کے چیلنج کو قبول کرنے کیلئے آگرہ جو عیسائی پادریوں کا قلعہ تھا وہاں پہنچ گئے۔ آگرہ پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ پادری فنڈر گھر پر نہیں ہے۔ آپ نے اس کے آنے کا انتظار کیا۔ بالمشافہ ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے خط و کتابت کے ذریعہ اپنے مقصد سے آگاہ کیا۔ پادری فنڈر کو ہر قسم کا تحفظ فراہم تھا۔ اس نے اسی جوش میں اپنی شرطوں کے ساتھ مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے مناظرہ کیلئے رضامندی ظاہر کردی۔
اعلان مناظرہ
انگریزی فوج کی پشت پناہی کے باوجود اگرچہ کئی مقامات پر مسلمانوں نے عیسائیت کے سیلاب کو تہہ و بالا کیا تھا لیکن اس سطح پر نہیں جو مقصود تھا۔ بعد کے زمانے میں شاہجہاں پور میں امام محمد قاسم نانوتوی نے پادریوں کے چھکے چھڑا دیئے تھے۔ لیکن پادری فنڈر کے چیلنج کو اس کے عہد میں کسی نے قبول نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس میں رعونت کبر و غرور حد درجہ پیدا ہوگیا تھا۔ شہر آگرہ میں مسلمانوں کی تعداد قابل ذکر تھی۔ علماء کی بڑی جماعت موجود تھی۔ لیکن پادریوں کا یہ ریوڑ بے لگام آگرہ سے پورے ملک میں دندناتے ہوئے گھوم رہا تھا۔
مناظرہ کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔ یہ وہ مناظرہ تھا جو ہندوستان کا مستقبل طے کرنے والا تھا۔ اس مناظرہ کی اطلاع پورے ملک میں پھیل گئی تھی، حتی کہ سات سمندر پار بیٹھے سلطنت برطانیہ کے اعلی عہدے داران بھی اس سے واقف تھے۔ یہ مناظرہ اس بات کو طے کرنے والا تھا کہ ہندوستان میں عیسائی مذہب قبول کرلیا جائے گا یا پھر ہندوستان کے غیور مسلمان اسے قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے مناظرہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کا مجمع ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس مناظرہ میں آگرہ کے چند مسلمانوں کے علاوہ انگریزی فوج اور انگریزی عہدے داران موجود تھے، جن کی مکمل تعداد تقریباً پانچ سو تک تھی۔
مناظرہ 10 اپریل 1854 کو آگرہ میں شروع ہوا، مناظرہ کے آغاز میں پادری فنڈر نے اپنی رعونت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، یہ مناظرہ دراصل مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے کہنے پر ہورہا ہے، جبکہ اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہے۔ مناظرہ نسخ، الوہیت مسیح، نبوت محمدی اور قرآن بر حق، ان موضوعات پر ہوگا۔ مناظرہ کا باضابطہ آغاز ہوا، دلائل پیش کئے گئے۔ وہ پادری حضرات جو بزعم خود علم کے پہاڑ تھے، ایک اکیلے مولوی رحمت اللہ کیرانوی کے سامنے بغلیں جھانکنے پر مجبور ہونے لگے۔ مناظرہ اپنے تمام اصول و ضوابط کے مطابق پورے دن جاری رہا بلکہ وقت سے زیادہ دیر تک بحث ہوتی رہی۔ پہلے دن کا اختتام ہوا لیکن اس اختتام میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے تورات میں تحریفات کے اتنے دلائل پیش کئے کہ پادری فنڈر کو علی الاعلان کئی جگہوں پر تحریفات کا اقرار کرنا پڑا تھا، اور پھر دوسرے دن مناظرہ شروع ہوا۔ لیکن آج یہاں حالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔ اب پادری فنڈر اور اس کے ساتھیوں کے پاس لن ترانیوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہ گیا۔ مسئلہ نسخ، الوہیت مسیح کہیں بھی ان کو جواب نہیں بن پارہا تھا۔ اس بوکھلاہٹ میں پادری فنڈر نے قرآن مجید کی غلط تلاوت کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کی، جس پر مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے فوراً گرفت فرمائی۔ توریت و انجیل میں تحریفات کے اقرار کے بعد پادریوں میں باہمی چپقلش بھی عوام کے سامنے واقع ہوگئی۔ بارہا عوام نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دلائل کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن پادری حضرات مارے شرم کے خاموشی اختیار کئے بیٹھے رہے ہیں۔ اس طرح مناظرہ کا دوسرا دن مکمل مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے نام رہا۔ مناظرہ کیلئے پانچ عنوانات طے کئے گئے تھے لیکن محض دو موضوع پر ہی بات ہوسکی، کیونکہ اس کے بعد پادری فنڈر میں مناظرہ کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔ آپ نے آگرہ میں پادری فنڈر کو نہیں بلکہ عیسائیت کے اس بھوت کا سر کچل دیا تھا، جو ہندوستانی مسلمانوں پر برے آسیب کی مانند چھا گیا تھا۔
اس مناظرہ کی گونج پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ مسلمانوں کو ایک ایسا مرد مجاہد مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی شکل میں نصیب ہوا تھا جس نے عیسائیت کے ابطال کو ان کے قلعہ میں جاکر ثابت کیا تھا۔ مسلمان خود کو محفوظ تصور کرنے لگے تھے۔ عیسائیت کی تبلیغ جس زور و شور سے جاری تھی یکایک اس پر لگام کس دی گئی تھی۔ پادری فنڈر شکست کے بعد بغیر اطلاع دیئے لندن فرار ہوگیا۔ اس کی شکست سے ناراض حکمرانوں نے اسے لندن میں عہدہ سے معزول کردیا تھا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی کو اللہ نے ایسے دور میں پیدا کیا تھا جب عیسائی مذہب نے ہندوستان میں اپنے پیر پھیلانے شروع کر دیئے تھے۔ مولانا نے اس بات کو بہت سنجیدگی سے لیا اور فراغت کے بعد چند سالوں تک محلہ کی مسجد میں درس وتدریس کے علاوہ خصوصی طور پر عیسائیت اور اسلام کے موضوعات کا مطالعہ شروع کیا۔ آپ نے ہر ممکنہ طور پر اسلام پر اعتراضات کے جوابات کو تحریری شکل میں محفوظ رکھا۔ اور باضابطہ عیسائیت کے رد میں کتابیں لکھیں۔ پادری فنڈر کی کتاب جسے مذہب اسلام کے خلاف سب سے مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا آپ نے اس کا جواب ( ازالہ الاوہام) لکھ کر اس کی حقیقی حیثیت کو ثابت کیا تھا۔ بعد میں سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ کی درخواست پر اپنی معرکہ الآرا کتاب ( اظہار الحق) تصنیف فرمائی، جسے آج تک عیسائیت کے ابطال میں سب سے معتبر کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
( جاری)
http://www.asjaduqaabi.com/2020/07/blog-post_15.html
Comments are closed.