پیکر زہد و تقویٰ قاضی حبیب اللہ قاسمی مدہوبنی

پیکر زہد و تقویٰ قاضی حبیب اللہ قاسمی مدہوبنی
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
صوبہ بہار کے شمالی علاقے میں جن شخصیات نے جہد مسلسل، آہ سحر گاہی، عزیمت واستقامت،اور دعوت واصلاح،اور علم وعمل کے ذریعے علمی،اصلاحی اور تربیتی نقوش چھوڑے ہیں ان میں ایک نمایاں مقام حضرت مولانا قاضی حبیب اللہ صاحب قاسمی مدہوبنی کا بھی ہے ، جن کے علم کی کرنوں سے، معرفت کے نور سے، دعوت وتبلیغ کی برکتوں سے،اصلاح وتربیت کی شعاعوں سے پورا شمالی خطہ منور اور روشن ہوا ہے۔
قاضی حبیب اللہ صاحب پیکر علم وعمل تھے،عبادت وریاضت اور زہد و تقویٰ کے مجسمہ تھے، وہ ایک جید اور بافیض عالم تھے، علوم کی گرہیں کھولنے والے بہترین مدرس اور استاذ تھے، دلوں میں علم دین کی شمع روشن کرنے والے اوراسلامی شریعت پر عمل کا جذبہ پیدا کرنے والے ایک عظیم مربی تھے، عوام کو اسلامی شاہراہ پر گامزن کرنے والے شیریں بیان واعظ اور خطیب تھے، قدیم وجدید مسائل پر گہری نظر رکھنے والے باشعور فقیہ بھی تھے۔۔اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان تمام کمالات کے باوجود وہ نہایت متواضع، بے نفس،انسانیت نواز ، خرد نواز اور شفقت ومحبت کے پیکر بھی تھے، درویشانہ صفات اور قلندرانہ خصوصیات ان کی ذات کا حصہ تھی،استغنائیت اور بے نیازی ان کی شخصیت کا استعارہ تھا،ان خصوصیات اور کمالات کا اثر تھا کہ ان کا فیض ہواؤں کی طرح علاقہ میں عام ہوا، شفاف نہروں کی طرح ان کی تربیت نے سوکھی زمینوں کو سیراب کیا،بادلوں کی طرح دیہات کے صحرا میں ان کا علم موسلادھار برسا اور اسے شاداب کرگیا،
زندگی کی راہوں میں فقر اور تنگ دستی مایوسیوں کے اندھیروں میں غرق کردیتی ہے’انسان کا وجود ہمیشہ کے لیے گمنام ہوجاتاہے، یا انسانیت کی راہ سے بھٹک کر تباہی کی وادیوں میں داخل ہوجاتا ہے، لیکن جب زندگی کا نصب العین سامنے ہوتا ہے’،مقاصد کی عظمت کا شعور ہوتا ہے’، وقت اور لمحوں کی حیثیت کا ادراک ہوتا ہے، اوروجود کی پشت پر عزم واستقلال کا اثاثہ ہوتا ہے’،حوصلوں کی کائنات ہوتی ہے’تو راستے کے مصائب خوشگوار صبا میں بدل جاتے ہیں، مایوسیوں کے اندھیرے بھی امنگوں کے چراغ سے چھٹ جاتے ہیں، قدم قدم پر زخمی کرنے والے سنگریزے بھی پاؤں کے لئے پھول بن جاتے ہیں، نصب العین کے حصول کے تصور میں ایک دیوانہ ان سنگلاخ راہوں کو ایک دھن اور ایک جنون میں عبور کرتا چلا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے’کہ منزلیں اس کے قدموں میں ہوتی ہیں،آسمان عظمت کی بلندیاں اس کے سامنے سجدے کرتی ہیں،
حضرت قاضی حبیب اللہ صاحب مدہوبنی کی زندگی انہیں کرداروں کا زندہ نمونہ تھی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، انھوں نے عظمتوں کی منزلوں کو اپنی صلاحیتوں اور اپنے کمالات کے علاوہ بے پناہ جد وجہد ،بے مثال صبر واستقامت اور حیرت انگیزدھن اور تڑپ کے زینوں سے سر کیا ہے’،ان کی پشت پر بلند وبالا شخصیات کا سایہ نہیں تھا،معاشی خزانوں کا سرمایہ نہیں تھا، ارتقاء کی راہوں پر لے جانے والی کوئی مادی شے نہیں تھی، انہوں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں وہاں،غربت تھی،تنگ دستی تھی، مفلوک الحالی کی سخت چلچلاتی ہوئی دھوپ تھی، فقر کے سائے تھے، والد کی شفقت ومحبت کا درخت ٹوٹ کر گر چکا تھا، ظاہری سہاروں کا کوئی سائبان نہیں تھا ،رشتے میں ایک خالو محترم تھے جو وقتاً فوقتاً گھر کے اخراجات دیکھ لیتے تھے، ان حالات میں ان کا حوصلہ تھا جس نے مایوسیوں کے سمندر سے نکال کر علم کے جزیرے تک پہونچایا، ایک دیوانگی تھی اور علم کی تڑپ تھی جس نے انہیں علمی ماحول کا پتہ دیا، ترقی کی شاہراہ دکھائی اور گاؤں کی اس بے کیف فضا سے نکال کر یوپی کے بنارس ضلع کے ایک مدرسے میں پہونچا دیا۔
ہمتیں جوان ہوتی ہیں تو قدم بے خوف وخطر اٹھ پڑتے ہیں اور جب قدم اٹھتے ہیں تو طوفان بھی راستہ دیدیتے ہیں، یہاں بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا کئی سالوں کی بے بسی کے بعد قسمت نے یاوری کی،قدرت مہربان ہوئی اور انہیں ایک ماضی قریب کے عظیم علمی و فکری مینار، جلیل القدر مربی ورجال ساز ہستی حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی نوراللہ مرقدہ کی صورت میں ایک استاذ،ایک سرپرست اور ایک رہنما مل گیا، اور انھوں نےاپنی صالح طبیعت،اور
اطاعت شعاری کے باعث بہت جلد اس شخصیت کی توجہ حاصل کرلی، اور اس مرد قلندر کی تربیت میں رہ کر آپ کی زندگی نے علم کے ساتھ ساتھ روحانیت کے مقامات بھی طے کرلئے، تعلیمی اخراجات کے مسائل بھی کافی حد تک حل ہوگئے، ایک سال بعد جب حضرت والا مدرسہ دینیہ غازی پور آئے تو اس مرد قلندر کی محبت آپ کو بھی یہیں کھینچ لائی، اور ظرف کی وسعت کے بقدر آپ کا قلب فیضیاب ہوکر علم کا خزانہ بن گیا۔
ایک کیمیا گر کے یہاں خام پتھر آیا اور اس کی بے نظیر تربیت اور تراش خراش سے علمی افق پر جگمگا اٹھا،
قاضی صاحب یتیم تھے باپ کا سایہ نہیں تھا حضرت اعظمی علیہ الرحمہ سے انہیں استاذ کی شفقت ملی اور ساتھ ہی ساتھ باپ کی محبت بھی، اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ انھوں نے اس تعلق کو بیٹے کی طرح زندگی کے آخری دم تک نبھایا، اور اپنے اجتماعی معاملات سے لیکر ذاتی اور خانگی امور تک میں وہ حضرت سے مشورہ لیتے رہے اور ان کی رائے پر عمل کرتے رہے، حضرت مولانا اعظمی علیہ الرحمہ کی علمی،اصلاحی اور تبلیغی توجہات بہار کے اس پسماندہ علاقے کی طرف زیادہ تھی اسی طرح کے ایک دعوتی سفر کی روداد میں حضرت نے اپنے اس محبوب شاگرد کی اطاعت شعاری اور وفاداری کا بڑے والہانہ انداز میں ذکر کیا ہے’،اور اس بیدار بخت شاگرد کے متعلق انتہائی سحر انگیز اسلوب میں اپنے احساسات کا اظہار کیا ہے ، استاذ وشاگرد کے مابین الفت ومحبت کی یہ تحریری تصویر اہل شوق کے لئے کسی قیمتی سرمایہ سے کم نہیں ہے’حضرت مولانا علیہ الرحمہ لکھتے ہیں،، شہر سے متصل ایک جگہ بھوارہ نامی ہے’ یہاں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں،اور سب بنکر ہیں، میری مدرسی کی ابتدا بنارس جامعہ اسلامیہ سے ہوئی،وہاں بھوراہ کا ایک کمسن،سیدھاسادا خاموش اور بظاہر احوال نہایت غریب طالب علم قدوری کی جماعت میں پڑھتا تھا اس کی خاموشی کی وجہ سے اس کی طرف خصوصی التفات نہ تھا ایک دن اس نے سبق میں قدوری کی عبارت پڑھی ،نہایت صاف اور شستہ اور صحیح! اب اس طالب علم کی طرف پہلی بار توجہ ہوئی،احوال دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ یہ بچہ یتیم ہے’ماں موجود ہے دو بھائی اس سے چھوٹے اور ہیں،اس کے خالو اس غریب خاندان کی کفالت کرتے ہیں،اورماں اپنی قوت بازو سے کام لے کر خرچ کے انتظام میں حصے لیتی ہے یہ معلوم کرکے طبیعت پر بہت اثر ہوا،میں نے اس کی تعلیم وتربیت کا خاص انتظام کیا،پھر دوسرے سال میں غازی پور آگیا،
تو یہ طالب علم بھی آگیا اور یہاں سے دوسال پڑھ کر دارالعلوم چلا گیا اس سے تعلق برابر قائم رہادیوبند سے فراغت کے بعد بھوراہ میں مدرسہ فلاح المسلمین میں تقرر کی بات ہوئی میں غازی پور میں ضرورت کا ذکر کیا تو اس باوفا اور حوصلہ مند مولوی نے اس کا ذکر تک نہیں کیاکہ مدرسہ فلاح المسلمین میں زیادہ تنخواہ کم از کم غازی پور کی دوگنی پر تقرر ہورہا ہے،خاموشی سے مدرسہ دینیہ غازی پور میں قلیل تنخواہ پر کام شروع کردیا ، غالباً تین سال تک وہاں رہا،پھر مجھ سے گھر کے کچھ حالات بتائے جس سے اندازہ ہوا کہ اب اسے اپنی ماں کے ساتھ رہنا ضروری ہے،نیز اب تک اپنا گھر نہ ہونے کی وجہ سے نکاح بھی نہیں کیا تھا،اب ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا ہے ضرورت ہے کہ گھر کی آبادی کا بھی سامان کیا جائے،چنانچہ میری اجازت کے بعد یہ گھر چلا گیا نکاح کے معاملات میں برابر مشورہ لیتا رہا،ایک جگہ محلہ میں ہی نکاح کی بات پختہ ہوگئی اور نکاح کی تاریخ میری فرصت کی رعایت سے مدرسہ دینیہ کے امتحان ششماہی کے قریب متعین کی گئی،امتحان کے موقع پر ایک ہفتہ پہلے سے تیاری کے لئے اسباق بند ہوگئے،میں نکاح کی تاریخ سے ایک ہفتہ پہلے بھوارہ پہونچ گیا،بہار میں شادیاں کیا ہوتی ہیں؟ خرافات کی طغیانی امنڈ پڑتی ہے’اس عزیز نے سب لوگوں سے صاف صاف کہہ دیا
کہ اس نکاح کے ذمہ دار مولانا ہیں ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں ہوگا،میں نے ایک ہفتہ پہلے پہونچ کر مسلسل وعظ کا سلسلہ شروع کردیا، جس کا اثر وہاں بہت اچھا پڑا، اور سادگی کے ساتھ نکاح کی تقریب انجام پا گئی،اس کے بعد پھر بار بار بھوارہ جانا ہوایہ اس جگہ کا پہلا طالب علم تھا جو عالم بن کر آیا تھا، پھر تو اس نے طلبہ کا سلسلہ قائم کردیا، اب اس جگہ بیسیوں عالم تیار ہوچکے ہیں،اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم میں برکت رکھی،یہ شخص اب بھی مجھ سے ویسا ہی تعلق رکھتا ہے’جیسا پہلے تھا جیسی ایک بیٹا اپنے باپ سے رکھتا ہے،اس سابق طالب علم اور موجودہ عالم کو آپ نے پہچانا؟ یہی مولانا حبیب اللہ سلمہ ہیں (علوم و نکات جلد اول صفحہ 352 حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی)
اس اقتباس میں قاضی صاحب کی علمی، عملی، اصلاحی،
تدریسی، اور زہد و قناعت کی خوبصورت تصویر کے ساتھ ساتھ ان کی وفاپرستی، احسان شناسی، دینداری، اور صداقت وامانت،
اخلاص وللہیت، شریعت کے رنگ میں رنگے ہوئے مزاج ومذاق اور باد صبا کی طرح ہر سو زندگی کی سوغات عطا کرنے والے ان کے فیضان کا شاندار عکس دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے،
قاضی حبیب اللہ صاحب کی زندگی اسلامی علوم کی حفاظت اور دین اسلام کی دعوت اور تشنگان معرفت کی تربیت کے لیے وقف تھی، انھوں نے امارت شرعیہ بہار کے پلیٹ فارم سے بے شمار افراد کے مسائل حل کئے، ہزاروں خاندانوں کے تنازعات کو اسلامی شریعت کی روشنی میں حالات اور ماحول کی نزاکتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اس طرح سے حل کیا کہ وہ منحرف راستوں سے محفوظ ہوگئے، بے شمار پیش آمدہ مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کی، آپ امارت شرعیہ بہار کی طرف سے اس علاقے کے قاضی تھے چنانچہ منصب قضا کی سطح سے آپ کی علمی، فقہی، ملی،دینی اور اصلاحی خدمات کا دائرہ انتیس سالوں پر پھیلا ہوا ہے۔
قاضی صاحب کے سماجی اور عائلی معاملات میں مضبوط اور مستحکم فیصلوں نے جہاں عوام میں شریعت کے قانون اور اسلامی دستورپر اعتماد ویقین کی فضا قائم کی وہیں مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی خطہ میں اور علاقے میں استحکام عطا کیا اور ارتقاء کی معراج سے آشنا کیا ہے،اس حوالے سے قاضی صاحب کا کارنامہ انتہائی زریں اور ناقابل فراموش ہے۔
قاضی صاحب کی صلاحیت اور زبردست استعداد،اور ان کے کردار کی بلندی کے باعث فلاح المسلمین بھوارہ کی انتظامیہ نے فراغت کے بعد ہی فیضان عام کرنے کی پیشکش کردی تھی مگر استاذ محترم اور اپنے محبوب مربی کی ایما پر آپ نے غازی پور مدرسہ دینیہ کو ترجیح دی، تاکہ علمی وتدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب استاذ ومربی سے فیض کا سلسلہ بھی جاری رہے، مگر حالات کے تقاضوں سے مجبور ہوکر آپ نے اپنے علاقے کا رخ کیا اور ادارہ مذکورہ میں تدریسی خدمات انجام دینی شروع کر دیں، یہ ادارہ بہار کے سرکاری بورڈ سے منسلک ہے اور یہ بات ہر فرد جانتا ہے کہ سرکاری اداروں میں تعلیم کے علاوہ ساری چیزیں عالی شان پیمانے پر ہوتی ہیں ،اور تعلیم بھی برائے علم ہوتی ہے تربیت کا تصور وہاں نہیں پایا جاتا ہے دنیا کی ہر چیز کی طرح اس میں بھی استثناء ہے، مگر عمومی صورت حال وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
مگر یہ قاضی صاحب کا اخلاص تھا،ان کی تڑپ تھی،ان کی دھن تھی، امانت کا احساس تھا، علمی و تدریسی ذمہ داریوں کی فکر تھی جس نے اس خود غرض ماحول کو بھی بے غرض،بے لوث اور احساس ذمہ داری کی فضا میں بدل دیا، چنانچہ ان کی ان تھک جد وجہد سے اس ادارے نے بہت جلد علمی معیار اور بلند مقام حاصل کرلیا، اور علم و تحقیق کے علاوہ تربیتی میدان میں بھی اس نے زریں نقوش چھوڑے، قاضی صاحب اس مدرسہ کے اخیر تک صدر المدرسین تھے،اور اس منصب کے پیش نظر انھوں نے مدرسے کی تعمیر وترقی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر لحاظ سے اسے ترقی کے بام عروج پر پہونچایا،
ان کارناموں کا اثر تھا اور بے لوث خدمات کا نتیجہ تھا کہ پورے اطراف میں عوام دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئی اور اپنے فرزندوں کو مدارس کی تعلیم کے لئے مخصوص کیا یہاں تک کہ پورا علاقہ علم وفضل کی بہاروں سے لہلہا اٹھا،
اس دنیا میں ہر چیز فانی ہے بلکہ پوری کائنات ہی بے ثبات ہے،یہاں کسی چیز کا وجود اس کے فنا کی تمہید ہے،زندگی اور موت کا یہ سفر اول روز سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا،دنیا کے دوسرے انسانوں کی طرح قاضی صاحب بھی حیات مستعار لے کر آئے تھے حیات کا سفر اب مکمل ہوچکا تھا ،سر شام قدرت نے جو چراغ روشن کیا تھا اب اس کی سحر ہوچکی تھی،
اس لیے اہل دنیا کو ایک متعین مدت تک فیضیاب کرکے
علم وفضل کا یہ چراغ بھی 30/جولائی 2020ءمطابق 8/ذی الحجہ
1441ھ بروز جمعرات ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ،ایک دنیا سوگوار ہوئی، علاقے میں علم کی بساط سمٹ گئی، اہل علم کی مجلسیں سونی ہوگئیں، افق علم وفضل کا ایک تابناک ستارہ نہیں بلکہ ماہتاب ٹوٹ کر گر گیا، میخانہ معرفت میں ویرانیوں کی دھول اڑنے لگی، ہر طرف اداسیوں کے گہرے سائے پھیل گئے،کہ ایک شخصیت تھی جو رخصت ہو گئی، ایک کارواں تھا جو کوچ کرگیا، ایک بہار تھی جس نے رخت سفر باندھ لیا، ایک زندگی کا قافلہ تھا جو موت کے سفر پر چلا گیا،مگر اہل نظر جانتے ہیں کہ اس مادی دنیا میں زندگی کی سوغات بانٹنے والے کبھی نہیں مرتے وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں،قاضی صاحب نے بھی زندگی بھر زندگی کی تقسیم کی ہے’،کبھی علم کی صورت میں تو کبھی تربیت کی صورت میں،
کبھی اسلامی تعلیمات کی شکل میں تو کبھی عبادات وانسانیت کی شکل میں،اس لئے ان کی شخصیت اب بھی زندہ ہے اور صدیوں تک لوگوں کے ذہنوں میں،دماغوں میں،اور دلوں میں زندہ رہے گی۔۔
بھلا سکیں گے نہ اہل زمانہ صدیوں تک
مری وفا کے مرے فکر وفن کے افسانے
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی
8767438283
Comments are closed.