آہ!وہ نادیدہ بھی مانند دیدہ تھا:حضرت مولانا موسیٰ صاحب ماکروڈ رحمۃ اللہ علیہ
بانی ومہتمم دار العلوم مرکز اسلامی انکلیشور ،گجرات

خلیل احمد بن مفتی رشید احمد فریدی
متعلم جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ،ڈابھیل
آگیا حکم ِخدا لبیک کہہ کر چل دیا اپنی آغوش کرم میں اب خدا نے لے لیا
یوم حسرت
ایک دن صبح فجر کی نماز کے لئے مسجد کی طرف جاہی رہا تھا کہ ’’واٹساپ‘‘ پرایک ایسی خبر موصول ہوئی کہ قدم رک سے گئے ،زبان ساکت ، پیروں تلے گویازمین کھسک گئی کیونکہ گذشتہ شب ہی قاری مفید الاسلام صاحب ترکیسری دامت برکاتہم کی زبانی سناتھا کہ حضرت مولاناموسیٰ صاحب ماکروڈؒ(دامت برکاتہم) بیمار چل رہے ہیں اور اسپتال میں ایڈمٹ ہیں ،سن کر بڑاافسو س ہوا اور دل ہی دل میں ندامت اور حسرت اندر سے کھائے جارہی تھی۔
چوںکہ گذشتہ سال رفیق محترم مولوی زکریا بن ریاض بڈھا داحودی،جو دورہ حدیث شریف کی تعلیم مکمل کر نے کے لئے وہاں گئے تھے، ان سے بہت ساری باتیں سننے اور جاننے کو ملی تھی، جس سے دل میں شدیدتقاضہ تھاکہ حضرت کی ملات کروںگا؛مگر آپ کادیدار تو نہ ہوسکا لیکن ساتھی کے الفاظ اور ان کی نقل و حرکت کی ترجمانی نے مولانا کو میرے لئے دیدہ کردیا ۔
آج حضرت مولانا موسیٰ صاحب دامت برکاتہم کے بجائے ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ لکھتے ہوئے دل میں اضطراب اور بے قراری کی عجیب کیفیت محسوس ہورہی ہے ؛لیکن خلاق ازل نے روز اول سے ہی موت وحیات کا فیصلہ فرماکر اپنی قدرت کی نشانی بیان فرمائی ہے :کل نفس ذائقۃ الموت۔بس اس آیت کریمہ نے آگے سوچنے سے انکار کردیا ۔
میری حضرت والا سے نہ کبھی ملاقات رہی نہ شناسائی؛ لیکن صدیقی مولوی زکریا اور قاری محمدوصی اختر صاحب مدظلہ(مدرسہ مرکز اسلامی انکلیشور کے ایک استاذ) کی وساطت سے یہ مختصرکاوش پیش خدمت ہے۔
ولادت و ابتدائی تعلیم
آپ کی ولادت ضلع بھروچ کے ایک چھوٹے سے’’دیوا‘‘نامی قریہ میں ۹؍ذی الحجہ ۱۳۵۸ھ -۲۲؍ نومبر؍ ۱۹۳۹ء بروزبدھ ہوئی۔
نیز ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں میں حاصل کی او ر طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم کے مقتضی پر بحسن و خوبی عمل کیا۔
حلیہ
میانہ قد،نورانی چہرہ ،گھنی داڑھی ،انکھوں پر عینک،سر پر پانچ پلی ٹوپی ،پر گوشت ہاتھ جسم مائل بہ فربہی ،جھکی نظریں آپ کے وجود کو ذہن میں گردش کرادیتی ہے۔
درجات علیا کی تعلیم
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے بعد دینی تعلیم کی اہمیت اور اس کی طرف لگن نے مولانا کو اور آگے پڑھنے پر آمدہ کیا ،چناںچہ درجۂ عا لمیت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے گجرات کا مشہورومعروف ادارہ ’’مدرسہ محمدیہ عربیہ جامعہ حسینیہ راندیر، سورت‘‘میں اپنے چچا زاد بھائی حضرت مولاناسلیمان صاحب ماکروڈ ؒکی نگرانی میں داخلہ لیا اور مسلسل جد و جہد اور کد و کاوش کے بعد ۱۹۶۰ء میںدرجہ ٔ عا لمیت ختم کرکے وہیں سے سند فراغت حاصل کی ۔
پھراپنے مشفق استاذ مدبرگجرات حضرت اقدس مولانامحمدسعیدصاحب راندیری ؒ کے تعمیل حکم میں دوسال دارالعلوم دیوبندکارُخ کیا اور وہیں رہ کر حصول برکت کی خاطر قراء ت کی تعلیم حاصل فرمائی ، بخاری شریف ومسلم شریف وغیرہ حدیث شریف کی کتابیں اور دیگرہنربھی سیکھا۔
دارالعلوم مرکز اسلامی کا قیام
چوںکہ مدارس و مکاتب دین و ایمان کی حفاظت کے بہت بڑے قلعے ہیں، آج ہندوستان ،خصوصاً گجرات میں جو دینی حمیت اور اکابر کی توقیر و تعظیم اور طلبہ و اساتذہ کومحبت کی نگاہ سے دیکھنے کا جذبہ دکھائی دیتا ہے، وہ سب انہی مدارس اسلامیہ کی بنیاد پر ہے، اسی وجہ سے آپؒ کے مربی و مشفق جناب مولانا محمد سعید صاحب راندیر ی ؒنے مشورہ دیا جس پر آپ نے عمل کرتے ہوئے ایک مدسہ قائم کیا، جو رفتہ رفتہ بہت سے مشکلات اور قربانیوں کے بعد آج دنیامیں ’’دار العلوم مرکز اسلامی،انکلیشور ‘‘کے نام سے معروف و مشہور ہوا، یقیناً آپؒ کی قربانی اور جد و جہد نیز رات کو خالق حقیقی سے راز و نیاز کی باتوں نے مختصر سے عرصہ میں اس ادارہ کووہ مقبولیت حاصل ہوئی جو دوسرو ں کے حصہ میں بہت کم آیا کرتی ہیں۔
الحمد للہ! اس ادارے کے سینکڑوں فضلا ملک و بیرون ملک میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ،نیز اس کا انگریزی شعبہ’’مرکزاسلامی ایجوکیشن اینڈری سرچ سینٹر‘‘نے بہت ہی قلیل مدت میں اتنا مقبول و مشہور ہوا کہ اس کی تعلیم کوانگریری کے لئے معیاری قرار دیا جانے لگا ۔اور گذشتہ سال اسکواور بھی ترقی کے لئے راہیں ہموار ہوگئیں ۔
کسب معاش
فراغت کے بعد چند سال کے لئے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ۔اس گوشہ کو بھی تشنہ نہ چھوڑا اور زندگی میں کاروباری اعتبار سے بھی ترقی وتجربات حاصل کئے ۔
شادی خانہ آبادی
حدیث پاک ’’النکاح من سنتی فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی،وتزوجوا ،فانی مکاثر بکم الامم ومن کان ذا طول فلینکح،ومن لم یجد فعلیہ بالصوم ،فان الصوم لہ وجاء‘‘(ابن ماجہ :۱۳۴،باب ما جاء فی فضل النکاح)کو کون نہیں جانتا ہوگا؛ چناںچہ مولانا مرحوم نے بھی مذکورہ حدیث شریف کے پیش نظر اپنی خالہ زاد بہن سے نکاح کرلیا ،یہ تقریب سعید مؤرخہ۳؍ذی الحجہ ۱۳۷۷ھ -۳۰؍ مئی ؍۱۹۶۰ء بروز دو شنبہ بعد نماز ظہر منعقد کی گئی۔
سماجی خدمات
جس طرح ایک انسان کو زندگی گذارنے کے لئے دینی تعلیم کی اشد ضرورت ہوتی کہ اس کے بغیر انسا ن اسلامی تعلیمات اور احکام قرآن کی بجاآوری میں صفر نظر آتا ہے، اسی طرح دنیاوی تعلیم کی بھی بقدر ضرورت احتیاج ہوا کرتی ہے ،جس کی بنا پر انسان اپنی زندگی کے اہم امور یعنی حکومتی و دیگر کاموں میں دوسروں کا محتاج نہ ہو، اسی کے پیش نظر مولانامرحوم نے ایک ’’اسلامک اسکول‘‘بھی قائم فرمائی ،جس کی زندگی کے اخیر لمحات تک برابر خدمت انجام دیتے رہے۔
مکاتب کا قیام
کہاوت مشہور ہے کہ ’’جب بنیاد ہی ٹیڑھی ہو تو لامحالہ عمارت بھی ٹیڑھی ہی ہوگی ‘‘اسی طرح اگر بچوں کی مکتب کی تعلیم اور ابتدائی زمانہ اگر صحیح طریقہ اور پاکیزہ ماحول میں پرورش پائے گا تو اس زندگی میںبھی صراط مستقیم پر گامزن رہے گی ۔ ایسا نہیں تھا کہ مولانا مرحوم نے صرف موجودہ نسل کی تعلیم کے لئے کوشاں تھے بل کہ آنے والی نسل نو کے بھی دین اسلام کی صیانت و حفاظت کی خاطر بھی بڑی بڑی قربانیاں دیں،اس کے لئے تقریباً چار مکاتب قائم فرمائے اور تادم حیات اس کی بھی نگرانی فرماتے رہے ۔
معاشرہ میں رہنے کا طریقہ
حضرت مولانا موسیٰ صاحب رحمۃ اللہ ہمیشہ فارغ ہونے والے طلبہ کو مغرب کے بعد ’ نورانی قاعدہ‘‘ پڑھاتے تھے اور پوری ترتیب ساتھ سکھاتے تھے کہ کس طرح مدرس بننا ہے اور استاذ کو کیسا رویہ رکھنا چاہئے ،نیز نکاح کس طریقہ سے پڑھایا جائے ،خطبہ میں کیا کیا پڑھا جائے اس کی بھی عملی مشق کرواتے، دو فرضی گواہ اور وکیل کو متعین کر کے خطبہ نکاح وغیرہ بھی سنتے تھے۔
ظریفانہ مزاج
آپ کی طبیعت بہت ہی ظریفانہ واقع ہوئی تھی ،ہرایک کے ساتھ خوش دلی اور د ل لگی کرتے، ہر اجنبی آدمی بھی اپناپن محسوس کرتا تھا ،نیز طلبہ کے ساتھ شفقت و محبت اور ہمدردی کے علاوہ خوش مزاجی اور ہنسی مذاق کرنے کی عادت تھی، جس سے تمام طلبہ خوش و خرم رہا کرتے تھے۔
بارہاں ایساہواہے کہ ایک شخص حضرت کے پاس بڑے غصے میں آتاہے،خوب برابھلاکہتاہے؛مگرحضرت بالکل خاموشی سے اس کی کڑوی کسیلی باتیں سنتے رہتے ،جب اس کے دل کی بھڑاس نکل جاتی،تو پھر حضرت مسکراکر فرماتے کہ بھائی بیٹھ جاؤ،خادم سے فرماتے کہ مہمان کو پانی پلاؤ ،چائے پلاؤ! یہ میرے بہت ہی خاص دوست ہیں ،ابھی کچھ ناراض ہوگئے ہیں،اس طرح میٹھی میٹھی باتیں کرکے اس شخص سے ایسے گھل مل جاتے کہ جب وہ جانے لگتاتو حضرت سے معافی مانگتاہوا اورمسکراتاہواجاتا۔
صفائی ستھرائی کا نظام
حضرت کا معمول تھا ہر نماز کے وقت طلبہ کو کچھ نہ کچھہ نصیحت فرماتے ، خصوصاجمعہ کے دن اکثر فجر کے بعد نصیحت کا معمول رہا کہ جمعہ کا دن کیسے گذارا جائے ،ہفتہ اور زندگی کیسے گذاری جائے ،نیز تمام طلبہ کو مدرسہ میں نماز پڑھنے کی ہدایت دیتے ، فضول خرچی کرنے والوں کو تنبیہ فرماتے اورجمعہ کے دن خاص طور پر’’ رکشا‘‘کے ذریعہ مدرسہ کے احاطہ میں چکر لگاتے تھے کہ کون اب تک غسل سے فارغ نہیں ہوا کون فارغ ہوگیا ۔
سیر و تفریح
یہ تو بہت سارے اکابر و علما کا طریقہ رہا ہے کہ بعد نماز عصر سیر و تفریح کے لئے چہل قدمی کرتے ہوئے کھیت،باغات وغیرہ کی طرف جایا کرتے ، جس سے جسم کو خالص ہوا اورصحت ملے ، حضرت مولانا موسیٰ صاحبؒ بھی جمعیۃ علمائے ہند گجرات کے صدر بلبل گجرات جناب حضرت مولانا رفیق احمد صاحب بڑودوی دامت برکاتہم کے ساتھ تفریح کے لئے جایا کرتے تھے ۔
طلبہ کی چھٹیوں کے متعلق
مقامی طلبہ کے علاوہ دار الاقامہ میں مستقل رہنے والے طلبہ کبھی بیماری یا کسی اور مجبوری کے تحت چھٹی کی درخواست کرتے تو بخوشی دے دیتے ،خاص طور پر شادی شدہ طلبہ کو تو فوراً ہی رخصت دے دیتے تھے،اور وہ فرماتے تھے ’’میرے مدرسہ میں صرف بچہ پانچ وقت کا نمازی بن کر چلا جائے وہ میرے لئے نجات کا ذریعہ ہے‘‘۔
مولانا کا اکابر سے اصلاحی تعلق
آپ کا ایک لمبے عرصہ تک حضرت تھانوی کے خلیفہ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب سے اصلاحی تعلق رہا انکی وفات کے بعد حضرت مولانا معین الدین صاحب گونڈوی ؒ سے رہا پھر انکی وفات کے بعد فقیہ عصر حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم العالیہ سے رہا تھا نیز آپ دامت برکاتہم نے مولاناؒ کو خلافت سے بھی نوازا ،فللہ الحمد ۔
تعلیم کی اہمیت
تما م ہی طلبہ کو نصیحت فرماتے تھے، خصوصاً امتحان کے زمانہ میں تو بہت ہی زیادہ نصیحت کیا کرتے تھے، اور طالب علم کے علاوہ اساتذہ کو بھی خوب نصیحت کرتے اور کہتے ’’کہ کوئی بھی طالب علم فیل نہ ہو‘‘اس کی خاص توجہ رکھتے اگر بالفرض کوئی طالب علم فیل ہوجاتا تو اس کو نہیں ڈانٹتے تھے۔
کھانے کی نگرانی
مولانا کا یہ عام معمول تھا کہ ہر دو دن میں مطبخ میں آتے اور کھانے کے متعلق دریافت کرتے نیز روزانہ صبح کے وقت بھی چائے نوشی کے وقت نگرانی کے لئے مطبخ میں تشریف لاتے اور معاینہ فرماتے ۔نیز طلبہ سے بھی پوچھ لیا کرتے کہ چائے کیسی ہے؟ کھانا کیسا بن رہا ہے ؟ یہ تھی طالبان علوم نبوت کی نگرانی و نگہبانی کہ ان کی ایک ایک ضرورتوں کا خیال فرماتے اور کبھی دل کو اطمینان نہ ہوتا تو خود ہی چکھ کر دیکھ لیا کرتے تھے ۔
طلبہ کا علاج و معالجہ
مدرسہ میں جب کبھی کوئی طالب علم بیمار ہوجاتا تو اسکے لئے اسپتال لے جانے کا انتظام اور وہاں کا خرچہ کبھی اپنے ذمہ لے لیتے اور کبھی مدرسہ پر رہتا ، گذشتہ سال کافی طلبہ کرام بیمار ہو گئے تھے ،جس میں ایک طالب علم کا انتقال بھی ہوگیاتھا، اس کا سار خرچ اپنے ذمہ لے لیا اور پھوٹ پھوٹ کر روتے اور کہتے جاتے ’’میرے ہی بچہ کا انتقال ہوگیا ‘‘کبھی ظہر کے بعد یا عصر کے بعد یا وقت ملنے پر کسی نہ کسی طالب علم کو پوچھ لیا کرتے ’’کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا نا ‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں طلبہ کے متعلق بہت ہی ہمدردی رکھی تھی۔
مولانا کے تمغات
یوں تو مولانا کو بہت سارے تمغے ملے ہوں گے مگر ایک جلسہ جو گذشتہ سال ۴،۵،۶؍ اکتوبر؍۲۰۱۹ء کو منعقد ہو ا تھا ،جس میں دار العلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم خلیفہ فقیہ الامت ؒ اور ممبر آف پارلیامنٹ جناب حضرت مولانا بدر الدین اجمل صاحب دامت برکاتہم نیز ملک کے مؤقر دینی اداروں سے کبار علمائے کرام تشریف لائے ہوئے تھے سب کے سامنے مولانا کو تمغہ دیا گیا ،جس کی تصویر بھی گردش کر رہی ہے
آپ ؒکے بیٹے کا حادثہ
پونے دو سال قبل حضرت والاؒ کے صاحبزادے مولانا اسماعیل صاحب شہیدؒ کاایک حادثہ میںانتقال ہوگیاتھا، اپنے بیٹے کے غم فراق میں بہت روتے اور ہمہ وقت اسی طرف دھیان رہتا ،بار بار یاد کر کے آنکھیں نم ہوجایا کرتی ۔اور کیوں نہ ہو اسلئے کہ وہی ’’او ولد صالح یدعو لہ‘ ‘کا مصداق بننے والا تھا ۔
وفات و نماز جنازہ
آخر کار مختصر سی علالت کے بعد اس وبائی وطن کو چھوڑ کو آپنے آبائی وطن کی طرف مؤرخہ۱۴؍ذی الحجہ؍۱۴۴۱ھ – ۵؍ اگست ۲۰۲۰ء کو کوچ کرگئے اناللہ وانا الیہ راجعون،اللہم اغفر ہ وارحمہ وسکنہ فی الجنۃ ،اور حضرت مولانا قاری محمد یعقوب صاحب فلاحی صدر القراء دار العلوم مرکز اسلامی نے نماز جنازہ پڑھائی ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ،سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے ،اور پسماندگان کو بھی صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرمائے اور مدرسہ ہذا کو نعم البدل عطا فرمائے ،آمین ۔
Comments are closed.