نقوش حق۔۔۔ مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی کا خاندانی پس منظر(۳)

مولانا عبدالمعید قاسمی
مولانامحمد متین الحق اسامہ قاسمیؒ اپنے دیگر امتیازات کے سا تھ میدان خطابت کے بھی کامیاب شہسوار تھے،کسی بھی میدان میں مقررہ ہدف اور منزل تک پہو نچنا ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے ،اور وہاں تک بتدریج رسائی ہوپاتی ہے۔بلند مقام نہ بازار میں بکتا ہے، نہ تحفہ میں ملتا ہے،نہ کہیں رکھا ہواہوتا ہے کہ یک بارگی اسے اپنے دسترس میں کر لیا جائے ،بلکہ وہ مسلسل سعی و کاوش کا ماحصل ہوتا ہے۔ محنت اور تگ و دو کے ذریعہ مقررہ ہدف کوحاصل کرلینے کانام کامیابی ہے ،اور اگر یہ حصول یابی محنت ،خلوص دل ، اورقوم و سماج کے مفادات کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ہو تو یہ خدمت بھی ہے اور نیک نامی کا با عث بھی ہے۔مولانا اسامہؒ ان تمام جہات اور صفات کے ساتھ میدان خطابت میںبھی سرخ رو ہوئے۔لیکن یہ مقام بلند انہیں یوں ہی نہیں مل گیا،اس خداداد خوبی اور وہبی ملکہ میں انہوں نے جلاء پیدا کرنے کے لئے لگاتار محنت کی اور جی جان سے لگے رہے۔اس میدان میں انہوں نے دل بھی جلایا اور دماغ بھی کھپایا۔ ان کی زند گی پر نظر ڈالنے سے ایک نہ تھکنے والے انسان کی تصویر ابھرتی ہے۔ کامیاب خطیب کتب و رسائل کی ورق گردانی بھی کرتا ہے اور انسانوں کی نفسیات کامطالعہ بھی کرتاہے،ساتھ ہی اُسے حالات وواقعات اوران کے مضمرات پرپینی نظربھی رکھنی پڑتی ہے۔کسی بھی موضوع پرکامیابی کے ساتھ اظہارخیال اسی وقت ممکن ہے جب وہ موضوع علمی، فکری،نظری اور عملی طورپر دسترس میں ہو،اور مشاہدہ و تجربہ کے ذریعہ اس کی تہ تک رسائی بھی حاصل کی جا چکی ہو، محض گھن گرج یا اپنی بات اور آواز کو سننے والوں کے کانوں تک پہنچادینا خطابت نہیں ہے۔کامیاب خطیب اپنی باتوں کی ترسیل اتنی خوبصورتی کے ساتھ کرتا ہے کہ باتیں بھی سننے والوں کے دلوں میں اترتی ہیں،اور وہ خود بھی ان کو اپنا ہمنوا بنا کر ان کے دلوں پر راج کرتاہے ۔خطابت لب و لہجہ اور ٹھوس مواد کی بہترین سفارت کاری کا نام ہے۔ہم اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ان کی شخصیت اور سرگزشت کے تحت کریں گے ۔اس پر تھوڑی سی روشنی ،ان کے خاندانی پس منظر کے ذکر و تذکرہ کے دوران ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اسباب و عوامل،جن کا انہیں اس فن میں طاق بنانے میں’’نقش اول‘‘کے طور پر بنیادی کردار ہے، نظر میں آجائیں ۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ ان کے زمانہ طفولیت سے ہی ان کے گھر گھر انے کی کئی شخصیتیں واعظ اور مقرر کے طورپر معروف تھیں۔جن میںایک ان کے نانا (ان کی والدہ کے حقیقی ماموں )مولانا عبد الوحید صدیقی رحمۃ اللہ علیہ تھے،جو فتح پور شہرکی مشہور مسجد دلالان میں ہر جمعہ خطاب کرتے اور ہرروز بعد نماز فجر درسِ قرآن دیتے تھے، اور شہر کے مقامی جلسوں میں بھی اصلاحی گفتگو کرتے تھے ۔اسی طرح ان کے خالو،جو ان کے خسر بھی تھے، مولانا سید نفیس اکبرقاسمی رحمۃ اللہ علیہ ،سابق شیخ الحدیث جامعہ عربیہ ہتھوراباندہ،علم و فضل میں ممتاز ہونے کے ساتھ تقریرو خطابت میںبھی ید طولی رکھتے تھے ۔یہاں تک کہ گھر کی پردہ نشیں خواتین کا بھی معمول تھا کی وہ آمدورفت رکھنے والی عورتوں کو نماز روزہ کی تلقین کرتیں اور غیر شرعی رسوم و رواج کی اصلاح کے لئے قرآن و حدیث کی باتیں بتاتیں اور سبق آموز واقعات سناتیں،اورکبھی کبھی گھر ہی میں پند و نصائح کی محفل بھی آراستہ ہوجاتی تھی۔ان سب کے ساتھ ان کے والد ؒ ماجدخودایک کامیاب مقرر تھے۔ایسے مقرر جو سنے بھی جاتے ہیں،یاد بھی رکھے جاتے ہیں اور جن کا پر کشش انداز بیاں ،نستعلیق گفتگو،شیریں بیانی،زمانہ کی ہزاروں گردشیں گذرنے جانے کے باوجود بھی، کانوں میں تازہ رس گھولتی رہتی ہے۔اس طرح مولانا اسامہ ؒ کو شروع سے اس سلسلہ میں بھی ایک ہموار زمین اور ساز گار ماحول ملا ۔
ان کے والد ماجد مولانا مبین الحق قاسمیؒنے ۱۹۵۸میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد، تقریرو خطابت اور مناظرہ کے فن میں مزید آگہی کے لئے ’’دار المبلغلین پاٹا نالہ لکھنؤ‘‘ میں داخلہ لیا ۔اُس وقت امام ِاہل ِسنت مولانا محمدعبد الشکور رحمۃ اللہ علیہ با حیات تھے،گو کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے ان کی سر گرمیاں موقوف ہوگئی تھیں۔دارالمبلغین سے بھی ان کا واجبی سا تعلق باقی رہ گیا تھا،لیکن یہی کیا کم تھا کہ ان کا سایہ عاطفت قائم تھا،اور تبرکاََہی سہی لیکن براہ راست ان سے فیضیاب ہونے کے مواقع دستیاب تھے۔ ۱۹۶۲ میں ۸۹ سال کی عمرمیںان کی وفات ہوئی۔دنیا جانتی ہے کہ امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ نے مدح صحابہ اور عظمت صحابہ کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔انہوں نے اس موضوع پر ذکرو بیان کے لئے ہندستان کے طول و عرض میں تاریخی جلسوں کی داغ بیل ڈالی،پورے ملک میں اس کے لئے زمین ہموار کرنے اور سازگار ماحول بنانے میں کامیاب قیادت کی ایک تاریخ سازمثال قائم کی ،اور اس محاذ پر کام کرنے کے لئے افراد سازی اور رجال کاری کا مجددانہ کارنامہ انجام دیا۔مولانا مبین الحق رحمۃ اللہ علیہ جس زمانہ میں وہاں پہونچے،اس وقت امام اہل سنت ؒ کی مہم کی حصو ل یابیوں اور ’’دار المبلغین ‘‘کے رنگ و آہنگ کی گونج پورے ملک میں تھی۔اس فن اور موضوع سے مناسبت اور دار المبلغین کی فتوحات کی کشش انہیں یہاں کھینچ لائی۔ اس وقت دارالمبلغین میں متعدد اہم ہستیاں امام اہل سنت کی اہم ترین مہم کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کررہی تھیں، جن میں مولانا عبد السلام،مولانا عبدالحلیم اور مولانا محمد صدیق لکھنوی رحمھم اللہ قابل ذکرہیں۔مولانا مبین الحق قاسمیؒنے ان ستودہ صفات ہستیوں کی با فیض صحبت میںخطابت اور مناظرہ کی باریکیوں کو سمجھا،اوریہاں کے آزمودہ کا راساتذہ کی نگرانی میں تدریبی کورس کے تحت انہیںتقابلی مطالعہ،ردو ابطال اور الزامی جوابات اور اس طرح کے دیگر اہم امور پر غور و خوض کا بہترین موقع اور ماحول دستیاب ہوا،جس کاانہیں خوب خوب فائدہ ہو ا،اور یہ رنگ و آہنگ ان کی نجی گفتگو،درس و تدریس اور وعظ و تقریر میں نمایاں بھی رہا۔اس دوران مولانا محمد صدیق لکھنوی ؒ کی با فیض صحبت نہایت ثمر آور ثابت ہوئی۔ان کے نرم ملائم لب و لہجہ کی شگفتگی اور شیریں بیانی کی چاشنی ابھی بھی اُن کو سننے والوں کے ذہن میں تازہ ہے۔مبلغ اور مقرر کی حیثیت سے ان کا دور دور تک آنا جانا تھا ،فتح پور بھی ان کا آنا ہوتا تھا،کان پور والے تو دل و جان سے ان کے گرویدہ تھے۔وہ بھی ان پر جان چھڑکتے تھے۔ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ کان پور کے جلسے ان کے بغیر سجتے اور جمتے ہی نہیں تھے۔مولانا مبین الحق قاسمیؒنے ان نرم گرم چشیدہ دیدہ وروں کے دل میں جگہ بھی بنائی اور ان سے بہت کچھ حاصل بھی کیا۔ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ عنفوان شباب ہی میں ایک شان دار مقرر کی حیثیت سے ان کی شناخت بن گئی۔ان کی تقریریں مؤثر اور دلچسپ ہوتیں،موضوع کی گہرائی کے ساتھ بر محل اشعار اور ظرافت آمیز واقعات سے وہ اور بھی دو آتشہ ہو جاتیں ۔ مولانا محمدمتین الحق اسامہ قاسمی ؒ شروع ہی سے اپنے والد ماجد ؒ کو ایک مقبول اور محبوب مقررکے طور پر دیکھتے چلے آرہے تھے،جس سے ان کی فطری قوت گویائی کوبر وقت آب و خوراک بھی فراہم ہوئی اوربہتر طور پر نشوو نما بھی ہوئی،اوراہل نظر کی جانب سے ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ‘‘کے پیش نظر خوش آئند مستقبل کی بشارتیں دی جانے لگیں ۔
سابقہ سطروں سے معلوم ہو چکا ہے کہ مولانا مبین الحق قاسمی ؒ فتح پور میں پلے بڑھے،دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کی تکمیل کی جس سے علمی استناد اور وقارمستحکم ہوا، اس نسبت ِقاسمیت نے رسوخ علم کے ساتھ جہد و عمل کے مورچہ اور محاذپر ڈٹ کرکام کرنے عزم و حوصلہ عطا کیا ،دار المبلغین لکہنؤ کی تربیت سے ُ’’ چھپ کر وار کرنے والوں ‘‘سے نمٹنے کے گر معلوم ہوئے ،اس سے نطق و بیان میں شیرینی و سلاست کے ساتھ ایک خاص قسم کی دھار بھی ہم آمیز ہوگئی،یہ دھارخطابت کو اور زیادہ سحر انگیز اور پرکشش بنادیتی ہے۔ اب وقت آگیا تھا کہ اس ’’روشنیِ حق ‘‘کی شعاعیں کسی خاص خطہ میں مرکوز ہوکرظلمت شب کے ختم ہونے اور ’’نور حق‘‘کی جلوہ گری کی نوید سنائیں ۔ اس کے لئے قدرت نے اترپردیش کے خطہ اودھ کے سب سے بڑی آبادی والے مشہور زمانہ شہر کان پورکو منتخب کیا، اوریہاں کے عظیم اور قدیم تعلیمی ادارہ جامع العلوم میں تقرری کے لئے اپنے ایک خاص بندہ کو ،جو علم و فضل اور تقویٰ و طہارت میں اکابر و اصا غر ہر ایک کامنظور نظر اور مرکز توجہ تھا،ذریعہ بنایا۔جسے دنیا آج بھی فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کی تجویز پر مولانا مبین الحق قاسمی ؒ کان پور آئے ،اور ایسا آئے کہ یہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ ۱۹۶۲کے آس پاس انھوں نے جامع العلوم میں مسند درس و تدریس کو سنبھالا،اور ا س وقت تک سنبھالا جب تک سنبھالنے کی قوت رہی۔جب فالج کی وجہ سے خود کو سنبھالنے کا یارا نہ رہا تو کم و بیش چھتیس سالوں پرمحیط درس و تدریس کا سلسلہ موقوف ہو گیا ،لیکن قیام مدرسہ ہی میں رہا۔ جامع العلوم کی تاریخ اتار چڑھاؤ سے بھری ہوئی ہے،لیکن اس ادراہ کی خوبیِ قسمت کہئے یا کان پور والوں پراللہ کی خاص مہربانی کہ یہاں ایک سے ایک یکتائے زمانہ ہستیاں بھی جلوہ افروزہوتی رہیں ۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ چودہ برس جامع العلوم میں رہے۔ان کے بعد جامعہ انتہائی خستہ اور کس مپرسی کی حالت میںپہونچ گیا۔اس کے بعد ۱۹۵۳ میں فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ،کان پور والوں کے اصرار ،اور اپنے پیر و مرشد شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر مظاہر العلوم سہارن پور سے یہاں آئے ۔اور خستہ حال مدرسہ کو سنبھالا اور دوسال میں باقاعدہ دورہ حدیث شریف کا اجراء فرمادیا۔حضرت فقیہ الامت بارہ سال تک یہاں رہے۔ ۱۹۶۵ میں یہاں سے انہیں باصرار دارالعلوم دیوبند بلایا گیا۔حضرت فقیہ الامت کے قیام کان پور کے اسی دور زریں میں مولانا مبین الحق قاسمی ؒ نے جامع العلوم میں حضرت فقیہ الامت کے دست و بازو بن کر معیار تعلیم و تربیت کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی علمی قابلیت ،ہمہ جہت صلاحیت کی بدولت ناظم تعلیمات،شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین کے عہدوں پر فائز ہوئے۔
یہ چیز روز روشن کی طرح عیاں،اور باخبر لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ جامعہ محمودیہ اشرف العلوم ،اشرف آباد جاج مؤ کان پور،جیسے معیاری تعلیمی ادارہ کاقیام ،حسن انتظام،قلیل مدت میں اس کا بام عروج پر پہونچنا اور ایک مستند تعلیمی و تحریکی مرکزکے طور پر اس کی شناخت مولانا محمد متین الحق اسامہ ؒ کے یاد گار کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ ہے،لیکن ان کے اس اہم کارنامہ کاپس منظر اور اس کے کچھ اہم پہلواور گوشے جومخفی ،یا زیادہ تر لوگوں کے علم میں نہیں ہیں ،ان پر مختصراََ روشنی ڈالی جارہی ہے۔
جاج مؤ کان پور کا وہ علاقہ ہے جس کی، چمڑے کی صنعت اور ٹینریوں کی کثرت کی وجہ سے، اپنی ایک الگ شناخت اور حیثیت ہے۔ اشرف آباد اس کا ایک محلہ ہے۔ اس محلہ کی مسجد میں قلی بازار کے مولانا عبد المجید قریشیؒ امامت کرتے تھے۔مشہور قاری محمد یعقوب انہیں کے فرزند تھے،جو پاکستان چلے گئے تھے،کافی عرصہ تک ان کی قرأت صبح سویرے پاکستان ریڈیو سے نشر ہوا کرتی تھی۔اشرف آباد مسجد کے امام صاحب کے انتقال کے بعد ایک اچھے امام کی تلاش تھی۔عموماََ متمول علاقہ کی مساجد کے با ذوق اور قدر داں منتظمین اچھے امام کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔اس کے لئے ضمیر لاری اور مسجد کے دیگر ذمہ داروں نے کا ن پور کے معروف اور مخلص عالم دین مولانا وصی الدین احمد رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۱۹۱۶،وفات۲۰۰۵) سے رابطہ کیا ۔ان کی طبیعت میں بے نیازی اور خدمت دین کا مخلصانہ جذبہ تھا،انہوں نے کہا کہ میں جامعہ اسلامیہ قلی بازار میں پڑھاتا ،اور اپنے محلہ کی رسّی والی مسجدمیں امامت کرتا ہوں ،یہ غریبوں کا محلہ ہے،اگرچہ وہاں تنخواہ زیادہ ملے گی،لیکن میں انہیں چھوڑ نہیں سکتا ہوں۔ پھرفقیہ الامت مفتی محمود حسن قدس سرہ کی خدمت میں درخواست پیش کی گئی تو ان کی نگاہ دوررس نے مولانا مبین الحق قاسمیؒ کا انتخاب کیا ،اور کہا کہ ’’جاؤ اللہ آپ سے کام لے گا‘‘حضرت مفتی صاحب قدس سرہ نے جس اعتماد کے ساتھ ان کا انتخاب کیا ،اسی اخلاص کے ساتھ انہوں نے اس پر لبیک کہا۔مولانا مرحوم کادن جامع العلوم پٹکا پور میں گزرتا تو رات اشرف آباد جاج مؤ میں گذرتی تھی۔تین وقت کی نمازیں مغرب،عشاء،فجر پڑھانے کا معمول تھا،دو وقت کی نماز مولانا عبد الحلیم پڑھاتے تھے۔اس وقت جاج مؤ ایک دور افتادہ بستی تھی،آج کی طرح آمدورفت کی سہولیات بھی دستیاب نہ تھیں۔ مولانا مرحوم عصر کی نماز جامع العلوم میں پڑھ کر پھول باغ چوراہا کے پاس آجاتے، کھڑکھڑا وغیرہ جو سواری ملتی اس سے وہاں پہو نچتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سواری کے انتظار میں مغرب کی اذان ہو جاتی۔یہی پریشانی وہاں سے واپسی میں ہوتی ۔اسی وجہ سے حضرت مفتی صاحب قدس سرہ نے یہ نظام بنایا تھا کہ مدرسہ سے باہر رہنے والوں کا پہلا گھنٹہ خالی رکھا جائے۔الغرض ایثارو قربانی کی ایک طویل داستان ہے۔نظام قدرت بھی یہی ہے کہ سونا بھٹی میں تپتا ہے پھر کندن بنتا ہے،دانہ خاک میں ملتا ہے پھر گلزار ہوتا ہے۔اسی طرح خلوص اور خاموشی سے کی گئی محنت رنگ ضرور لاتی ہے۔مولانا مرحوم نے صرف امامت اور خطابت پر اکتفا نہیں کیا ۔بلکہ اس علاقہ کی تعلیمی ،تربیتی اور اصلاحی ضرورتوں کا سمجھااور اس کے لئے عملی اقدامات کئے۔چنانچہ اسی مسجد میں ’’اشرف العلوم ‘‘ کے نام سے مدرسہ قائم کیا،تاکہ ملت کے نونہالوں کو اردوزبان،دینیات اور قرآن کریم کی صحیح تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ یہ مکتب نما مدرسہ چلتا رہا،لیکن کوئی کلی کب کھل کر شگفتہ پھول بن جائے ،اور کوئی ذرہ کب رشک انجم بن جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ایک وقت ایسا آیا کہ مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی ؒ،اپنے بزرگ ہمدم مولانا انوار احمد جامعیؒاور دیگر رفقاء کے ساتھ اسی ’’مدرسہ اشرف العلوم ‘‘ میں خیمہ زن ہوگئے۔اور اُس مرددرویش نے اُن کے والد کو یہاںکے امام و خطیب کے طور پر منتخب کرتے وقت جو کہا تھا ’’جاؤ اللہ آپ سے کام لے گا‘‘ اُ س کی تعبیر کا وقت آ گیااور ’’ جامعہ محمودیہ اشرف العلوم ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔’’اشرف العلوم ‘‘مولانا مبین الحق قاسمی ؒ کے قائم کردہ مدرسہ کے طور پر ان کی یاد گار ہے،او ر ’ ’ محمودیہ‘‘اُ س مرد درویش کی طرف نسبت ہے جس کی بات ’’قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید‘‘ کا مصداق ثابت ہوئی،یعنی فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ۔اور یہ عظیم ادارہ اپنی تمام تر ترقیات ،حیثیات اور خصوصیات کے ساتھ مولانا محمد متین الحق قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی الوالعزمیوں کا شاہکارہے۔ اور قوم و ملت کے لئے ان کی فنائیت کی یاد دلاتا رہے گا۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما (جاری) رابطہ نمبر9918780959
Comments are closed.