Baseerat Online News Portal

میرے محسن،میرے مربی:قاضی شریعت حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ۔۔۔۔۔۔خصوصیات وامتیازات

مفتی نعمت اللہ محمد ناظم قاسمی
ریسرچ اسکالر :ام القری یونیورسٹی،مکہ مکرمہ

چچا محترم، میرے مشفق مربی، مشہور محدث و مفسر، قاضیٔ وقت حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری ۱؍ ستمبر 2020کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی مالک حقیقی سے جا ملے، انا للہ و إنا إلیہ راجعون۔ آج ان کی وفات سے جہاں اپنے سر سے ایک گھنے سایہ کے ہٹ جانے کا درد ستا رہا ہے، وہیںیہ حادثہ امت ہندیہ اسلامیہ کے لئے ایک عظیم خسارہ سے کم نہیں، کیونکہ حضرت کے جیسی ہمہ جہت اور مختلف النوع صلاحیت کی حامل شخصیت بہت کم پیدا ہوتی ہیں، آپ کی وفات کے بعد آپ کے ہزاروں شاگردان، متعلقین نے مختلف انداز میں آپ کو خراج عقیدت پیش کیے اور آپ کی مغفرت اور رفع درجات کے لئے دست بدعاء ہیں، دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری ؒ کی نمایاں امتیازات و خصوصیات کو اگر جمع کیا جائے تو مندرجہ ذیل باتیں ایسی ہیں کہ جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
۱- علمی گہرائی و گیرائی:
زمانہ طالب علمی سے ہی آپ ممتاز رہے، دار العلوم دیوبند میں اعلیٰ امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو درس نظامی کی شروع سے اخیر مرحلہ تک کی تمام کتابوں کی تدریس کا موقع عنایت کیا، دسیوں سال تک مدرسہ رحمانیہ سوپول میں آپ مسند حدیث پر بخاری شریف کا درس دیتے رہے، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطالعہ اور کتب بینی کا خصوصی ذوق عطا فرمایا تھا، کتاب کی صرف ورق گردانی نہیں بلکہ سطر بہ سطر اور لفظ بہ لفظ مطالعہ فرماتے اور علمی شہ پاروں کو قلمبند بھی کرتے، ان ہی وجوہات سے آپ کا علم گہرا بھی تھا اور تازہ دم بھی، علمی مصادر و مراجع پر آپ کی گہری نگاہ تھی۔
۲- کلام الٰہی سے والہانہ تعلق:
قرآن کریم کی تلاوت آپ کی زندگی کا محبوب مشغلہ تھا، عام دنوں میں تو اس کی کثرت فرماتے ہی، جب قرآن کریم کا محبوب مہینہ رمضان آتا تو اس مہینہ میں آپ خصوصی طور پر اس کا اہتمام کرتے اور اپنے اوقات کا اکثر حصہ اس مبارک عمل میں گزارتے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے تفسیر قرآن کا اعلیٰ ذوق دیاتھا، اس لئے ہمیشہ آیات کے معانی و مفہوم، شان نزول، اور اس سے متعلق احکام پر آپ کی نظر ہوتی، ہم لوگوں کو ہمیشہ مترجم قرآن (ترجمہ شیخ الہند، بیان القرآن وغیرہ) میں تلاوت کا حکم دیتے تاکہ جہاں مفہوم واضح نہ ہو وہاںترجمہ و تفسیر کی مدد سے قرآن فہمی کا ذوق پیدا ہوسکے، تفسیری ذوق آپ کے اندر کس قدر تھا اور آپ طلبہ میں قرآن فہمی کے کس قدر متمنی رہتے تھے اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ مدرسہ رحمانیہ سوپول میں تدریسی اوقات کے علاوہ سوپول کی جامع مسجد میں بعد نماز فجر مدرسہ کے اعلیٰ درجات کے طلبہ کو درس تفسیر دیتے۔ کلام الٰہی کی بکثرت تلاوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآنی آیات سے استدلال کاایساذوق دیا تھا کہ جس کا اظہار مختلف علماء کرام کرتے رہے ہیں، میں نے اپنے مخلص مربی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی کو بارہا آپ کی اس خداداد صلاحیت کا تذکرہ کرتے سنا ہے، آپ باضابطہ حافظ قرآن تو نہیں تھے مگر قرآنی آیات سے بروقت استدلال کی صلاحیت اعلیٰ درجہ کے حفاظ سے بھی آپ کو ممتاز رکھتی تھی۔
۳- محدثانہ ذوق:
علم حدیث سے آپ کا بے پناہ تعلق تھا، کتب حدیث کی تدریس کے وقت علوم نبوت سے آپ کے جذبۂ دروں میں پایا جانے والا اکرام و احترام کھل کر سامنے آتا، باوضو، و با ادب حدیث کی مجلس میں محدثانہ شان کے ساتھ تشریف فرماتے اور کلام رسول کو قلبی محبت اور شیریں زبان سے ادا کرتے، ترغیب و ترہیب سے متعلق احادیث کی تشریح کے وقت اس کا اثر آپ کے چہرے سے عیاں ہوتا، اخیر عمر میں آپ نے فقہی مسائل کو حدیث نبوی سے مربوط کرنے کا ایک اہم علمی و تاریخی کارنامہ انجام دیا، یہ کتاب ’’أدلۃ الحنفیۃ فی المسائل الفقہیۃ‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں عالم عرب سے طبع پذیر ہوکر علمی حلقوں کو سیراب کر رہی ہے۔
۴- فقیہانہ مزاج:
اللہ رب العزت نے آپ کو فہم و فراست اور نصوص شرع سے استنباط مسائل کا اعلیٰ ذوق دیاتھا، ایک باکمال فقیہ اور قاضی کے لئے جہاں نصوص شرع پر گہری نگاہ کی صلاحیت مطلوب ہے، وہیں اپنے زمانہ اور ماحول سے بھی واقف ہونا ضروری ہوتا ہے، حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری میںیہ دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں، یہی وجہ ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی کی علمی مجلسوں میں آپ کی گفتگو کو بغور سنا جاتا، اور آپ کی رائے کو اہمیت دی جاتی … کار قضاء سے آپ چار پانچ دہائیوں تک جڑے رہے، ہزاروں فیصلے آپ نے اپنے قلم سے کئے، جو آج اس راہ کے مسافروں کے لئے خضر طریق کا درجہ رکھتے ہیں۔
دار القضاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں مرافعہ کی مسلوں کو آپ خاص طور پر دیکھتے اور اپنی فقہی بصیرت سے ایسا حل پیش کرتے کہ فریقین اس پر راضی ہوجاتے۔
۵- داعیانہ و مصلحانہ کردار:
آپ کا ایک سب سے اہم بنیادی امتیاز مسلم معاشرہ میں داعیانہ و مصلحانہ کردار کا تھا، آپ بکثرت دعوتی اسفار کرتے، اس راہ کی آبلہ پائی میں آپ نے زندگی صرف کردی، ہر چھوٹے بڑے دعوتی پروگرام میں شرکت اپنے لئے ذخیرۂ آخرت سمجھتے، اور اس راہ کی مشقتوں کو بخوشی قبول کرتے، حسب ضرورت پیدل اور بیل گاڑی سے لے کر ہوائی جہاز تک کا سفر آپ نے اس مقصد کے لئے کیا، کوشش کرتے کہ میزبان کے لئے بوجھ نہ بنیں، اس لئے قرب و جوار کا سفر اخیر اخیر عمر تک بس سے بھی کرلیتے، اور فرماتے کہ ملت کا ایک ایک پیسہ قیمتی ہے۔
دعوتی سفر پر جب کسی علاقہ میں پہونچتے تو سب سے پہلے وہاں کے حالات سے باخبر ہوتے، اگر گاؤں میں مسلمان کسی بھی مسئلہ کو لے کر آپس میں مختلف ہوتے تو دونوں فریقین کو جمع کرکے اصلاح کی کوشش فرماتے، بعض دفعہ اس کے خاطر کئی مجلسیں لگانی پڑتیں، اللہ رب العزت نے حکم و مصلحت اور گفتگو میں ایسی قوت سے نوازا تھا کہ فریقین مطمئن ہوکر آپسی اختلافات کو ختم کرنے پر رضامند ہوجاتے، آج امت اس عظیم مصلح سے محروم ہوگئی۔
۶- تواضع و سادگی:
ہم نے اسلاف کی سوانح میں ان کی سادگی کے جو قصے پڑھے، اپنی ان ہی آنکھوں سے وہی سادگی اور تواضع حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری ؒ میں دیکھی، یہ سادگی اور تواضع آپ کی زندگی کے تمام شعبے میں دیکھی جاسکتی ہے، رہنا، سہنا، کھانا، پینا، زبان و قلم، تحریر و تقریر ، آپ زندگی کی تواضع سے عبارت تھی، لباس و پوشاک سے سادگی جھلکتی ہی تھی، گھر میں خورد ونوش میں بھی بہت سادگی پر عمل پیرا تھے، صبح کے ناشتہ میں رات کی بچی ہوئی روٹی اور چائے بلا تکلف نوش فرماتے، ان کے لئے اگر دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے لگائے جاتے تو ناپسندیدگی کا اظہار کرتے، ہاں اگر کسی مہمان کی ضیافت مقصود ہوتی تو پھر اسے قبول فرماتے۔ زندگی انتہائی سادگی سے گزاری اور ہم لوگوں کو ہمیشہ اس کی تاکید فرماتے رہے۔
۷- باکمال مربی:
افراد سازی اور رجال کار کی تیاری ایک ایسا ہنر و وصف ہے کہ ہر کسی کو اس کی صلاحیت نہیں ہوتی، حضرت مولانا کا بنیادی وصف رجال سازی کا تھا، آپ کی تربیت میں رہ کر نہ جانے کتنے پتھر ہیرے بنے اور نہ جانے کتنے گل گلستان اور دبستان میں تبدیل ہوئے، آپ ہمیشہ تربیت کے پہلو پرتوجہ دیتے، کم عمر بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ نوجوان اور عمردراز لوگوں کی بھی تربیت حسب موقع فرماتے رہے، آپ کی تربیت کا علمی موضوع اگرچہ کار قضاء رہا، اور اپنی زندگی میں دسیوں بڑے بڑے تربیت قضاء کے پروگرام میں آپ بحیثیت مربی شریک رہے، سینکڑوں نوجوان فضلاء مدارس آپ کی تربیت سے مستفید ہوکر کار قضاء سے مربوط ہوئے، اور اس راہ کے مسافر بنے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں رجال سازی کا کارنامہ انجام دیا، اور ایک اچھا انسان بننے کے لئے جن خصوصیات اور اعلیٰ اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے ان کی طرف توجہ دلائی۔ طلبہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی دینی و اخلاقی تربیت کے لئے ہمیشہ فکر مند رہے، علماء کو ادب اختلاف کی تربیت دیتے اور اپنی بات مثبت انداز میں کیسے رکھی جائے اس کی طرف توجہ دلاتے، علماء اور عوام کی مجلسوں میں گفتگو کا معیار کیا ہو اس کی رہنمائی فرماتے۔
۸- ماہر تدریس و تفہیم:
آپ نے زندگی کا اکثر حصہ تدریس میں گزارا، اس لئے طویل تدریسی تجربہ کی بنیاد پر تفہیم کا ایسا اصول اپناتے کہ کند سے کند ذہن طالب علم بھی سبق کو سمجھ لیتا، عربی زبان و ادب کی تدریس کا آپ کو خاص ملکہ تھا، عربی زبان سیکھنے کے لئے آپ قرآن و حدیث سے طلبہ کومربوط کرتے اور عربی گرامر کے اجراء کے لئے شرعی خصوصی کو اختیار فرماتے، طلبہ کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے ایسی مثالوں سے اپنی بات کو واضح کرتے کہ جن کا سمجھنا شرکاء درس کے لئے آسان ہوتا۔
۹- علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت کی فکر مندی:
موجودہ زمانہ میں جب کہ اسلامی علوم کی طرف توجہ بہت کم دی جارہی ہے، آپ اس سلسلہ میں ہمیشہ فکرمند رہے، نئی نسل کو اسلام کے بنیادی احکام ومسائل سے واقف کرانے کے لئے دینی مکاتب کے قیام کو وقت کی انتہائی اہم ضرورت بتاتے، ہر جگہ بڑے بڑے اعلیٰ تعلیمی مدارس و جامعات کے مقابلہ میں گاؤں گاؤں، محلے محلے میں مضبوط، پائیدار دینی مکاتب کے قیام کو زیادہ اہمیت دیتے، اسلامی علوم کی نشر و اشاعت کا یہی جذبہ تھا کہ جب جہاں جاتے طلبۂ مدارس سے ان کی تعلیم کے بارے میں دریافت کرتے، ان سے علمی سوالات پوچھتے، ہم لوگوں کو بار بار یہ نصیحت فرماتے کہ ہمیشہ اپنی ذات سے دوسروں کو علمی فائدہ پہونچائیے، علم بانٹنے سے گھٹتا نہیں ہے، علم جو آپ نے سیکھا ہے اگر دوسروں کو سکھائیں گے نہیں تو پھر وہ علم زنگ آلود ہوجائے گا، چنانچہ ہم لوگ دیکھتے کہ گاؤں میں جب آپ تشریف فرما ہوتے تو جہاں تفسیر،حدیث اور کتب فقہ کی اعلیٰ کتابیں طلبہ کو پڑھاتے وہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اپنے فیض سے محروم نہیں رکھتے۔
10- خشیت الٰہی:
حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ کی شخصیت کی یہ ایک منفردانہ شان تھی کہ جہاں آپ علم کے کوہ گراں تھے وہیں عمل کے اعلیٰ مقام پر بھی فائز تھے، آپ نے اپنے اخلاف کے لئے علم و عمل کا ایسا منفرد سنگم اور خوبصورت امتزاج پیش کیا کہ آج مرحوم کی زندگیہمارے لئے یہ ایک آئیڈیل اور قابل تقلید نمونہ ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں عمل کا پہلو علم پر بھی بعض دفعہ فائق نظر آتا تھا، اور اس حقیقت کا بہت سے اہل علم نے اپنے تعزیتی تحریر میں اظہار بھی کیا ہے۔
نوافل، دعائیں، درود شریف، اذکار ماثورہ کا اہتمام آپ کی زندگی میں بکثرت ملتا ہے، آپ کی زبان ذکر الٰہی سے ہمیشہ تر رہتی تھیں، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو صبر اور نماز کی تلقین کی اور انہیں نصرت الٰہی کے طلب کے لئے ذریعہ بنانے کا حکم دیا گیا ’’فاستعینوا بالصبر و الصلاۃ‘‘۔ حضرت مولانا کی زندگی اسی فرمان الٰہی کا نمونہ تھی، جب بھی کوئی واقعہ ہو، خوشی یا غم کا موقع ہو آپ سجدہ ریز ہوکر رب کریم کی بارگاہ میں دست بدعاء ہوجاتے، سفر میں نکلنے سے پہلے خاص طور پر دو چار رکعت نماز ضرور ادا کرتے، ہم لوگ جب بیرون یا اندرون ملک کہیں کے سفر پر جاتے تو الوداع کرتے وقت پورے اہل خانہ کو جمع کرکے بڑی گریہ و زاری کے ساتھ دعاء فرماتے۔
علم و عمل، اخلاص، للّٰہیت، تواضع و انکساری اور جہد مسلسل کا یہ عظیم پیکر آج ہمارے درمیان موجود نہیں رہے، مگر ان کے باقیات صالحات زندہ جاوید ہیں، ان کے لگائے گئے علم و تربیت کے ادارے یقیناً ان کے لئے صدقۂ جاریہ کے درجہ میں ہیں،جہاں سے جب تک قرآن و حدیث کی تعلیم ہوتی رہے گی اس کا اجر انہیں ملتا رہے گا۔
دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو، اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت کرے اور ان کے سینچے ہوئے علمی باغات پھلتے پھولتے رہیں، اور ان کی خوشبو ان تک پہونچتی رہے۔

 

Comments are closed.