Baseerat Online News Portal

انسان دوست رہنما نہیں رہا

 

از- محمد مجيب (ایڈیٹر ریڈیوکویت)

 

خلیجی ملک کویت کے پندرہ ویں امیر شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح اپنے پندرہ سالہ دور اقتدار کے بعد آج وطن سے دور امریکا کے ایک اسپتال میں مالک حقیقی سے جاملے۔

 

شیخ صباح الاحمد اپنے بھائی شیخ جابرالاحمد الصباح کی وفات کے بعد  29 جنوری سن2006ء کوحکمراں بنے تھے۔

آپ کویت کے 15ویں حکمراں اور ملک کے آئینی دور کے پانچویں امیرتھے۔

 

وطن، قوم، خطے، اور عالم عرب اور عالم اسلام ہی نہیں پوری دنیا کے لیے آپ نے ہمیشہ امن واستحکام، ترقی وخوشحالی، فلاح وبہبود اور عظمت ورفعت کا خواب دیکھا اور اپنی پوری زندگی اس کو  شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے دامے درمے سخنے کوشاں رہے۔

 

پندرہ برسوں پر محیط ان کے دور حکومت کو کویت کی ترقی وخوشحالی کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل رہے گا۔

 

آپ کا دل نہ صرف اپنی قوم ، خطے اور مسلم دنیا بلکہ پوری انسانیت کے لیے دھڑکتا تھا۔

گزشتہ صدی کے پانچویں عشرے کے نصف میں اپنے وطن کی ہمہ گير خدمات میں ہاتھ بٹانے کے لیے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے انسان دوست رہنما کا پورا زمانہ بے شمار سیاسی، سفارتی، ترقیاتی، اور انسانی وفلاحی کامیابیوں کا مظہر ہے۔

 

مرحوم امیر شیخ صباح الاحمد الصباح کے دور حکومت کا طرۂ امیتاز انسان دوستی ، سماجی فلاح وبہبود اور اپنے عوام کی مکمل خوشحالی رہا۔

اپنی تمام تقریروں میں شیخ صباح نے محبت اور ہمدردی کا درس دیا اور اپنے عوام کو نفرت، آپسی منافرت سے دور رہنے کی ترغیب دی۔

کویت کی شہری آبادی کی بعض نزاکتوں اور آس پاس کے تشویشناک حالات کے مد نظر انہوں نے اپنے عوام کو ہمیشہ فرقہ واریت سے دور رکھا اور باہم بھائی چارے کے ماحول کو فروغ دیا۔

 

بچپن، تعلیم اور عہدے:

شیخ صباح احمد صباح 1928ء میں پیدا ہوئے، آپ کویت کے سابق حکمراں شیخ احمد الصباح کے چوتھے فرزند تھے۔

 

کویت کے مبارکیہ اسکول میں ابتدائي تعلیم حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے مختلف عرب ممالک کا سفر کیا اور اپنے والد کی ہدایت پر سیاسی تجربے اور مہارت کے لیے متعدد ممالک کے دورے کیے، 19 جولائی  1954ء م کو آپ نے عملی میدان میں قدم رکھا۔

 

اس وقت  شیخ عبداللہ سالم صباح کویت کے حکمراں تھے۔   شیخ عبداللہ نے آپ کو سرکاری اداروں کی کمیٹی کا رکن بنایا۔ 1955ء میں آپ کو سماجی امور کے ادارے کا سربراہ مقرر کیا گيا۔ اس کے بعد سن1957ء میں آپ ادارۂ نشریات کے سربراہ مقرر کیے گئے۔

 

یہاں تک کہ 1961ء میں کویت کی آزادی کے اعلان کے بعد بننے والی پہلی حکومت میں آپ  وزیر ترقی بنے نیز دستور ساز تاسیسی کونسل کے رکن مقرر کیے گئے۔ 1963 ء میں وزیر خارجہ بنے۔ 2003ء کو آپ وزیراعظم بنے اور شیخ جابر احمد صباح کے انتقال کے بعد جنوری 2006ء میں امیر کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔

 

عالمی خدمات:

 

مرحوم شیخ صباح الاحمد  کے دور میں عرب اور بین الاقوامی فیصلوں میں کویت مؤثر محرک رہا۔ 

 

آپ نے ایک ماہر، قابل اور تجربہ کار رہنما کی حیثیت سے عرب، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کویت کے کردار کو مزید نمایاں ، تابناک اور مؤثر بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔

 

آپ کی قیادت میں کویت نے بہت سی اہم علاقائی اور بین الاقوامی کانفرنسوں کی میزبانی کی جو مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی مفادات کے لیے ثمرآور ثابت ہوئیں۔

 

مرحوم امیر نے کویت کو ایک ایسے جدید ملک میں تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھایا جو تعاون، بھائی چارے، محبت والفت، علم وہنرمندی،تجارت وسرمایہ کاری، آزادی ورواداری، جمہوریت اور آئین کےاحترام جیسی خوبیوں کا پیکر رہے۔

 

ان  کی قیادت میں کویت نے قومی اور انسانی پالیسیوں پر عمل کیا اور اہل کویت ہی نہیں بلکہ عالم عرب ومسلم اقوام اور دنیا کے دیگر ممالک کے دلوں میں محبت ، پیار اور احترام کے بیج بوئے۔

 

مرحوم امیر کے دور میں کیے گئے انسانی وفلاحی کاموں اور فیصلوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر کویت کا فلاحی وانسانی چہرہ مزید نمایاں ہوا اور اقوام متحدہ نے کویت کو عالمی انسانی مرکز اور مرحوم امیر شیخ صباح احمد صباح  کو عالمی انسانی قائد کے خطاب سے نوازا۔

 

بنیادی تنصیبات ، اور زندگی کے اہم وسائل کی قلت کا سامنا کررہے متعدد عرب ممالک ہوں، افریقہ کی غربت کی دردناک صورتحال ہو،  تنازعات کی آگ میں جلتے ممالک کے مشکلات میں گھرے عوام ہوں، قدرتی آفت کی مار جھیل رہے انسان ہوں، غرض ہر وقت اور ہرجگہ آپ کا مدد کا ہاتھہ بلا امتیاز بڑھتا رہا۔

 

امت مسلمہ کے مسائل اور مرحوم امیر:

مسلم امہ کے مسائل پر مرحوم امير شیخ صباح الاحمد کی خصوصی توجہ رہی، بطور خاص فلسطینی مسئلے اور فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے ہونے والی کوششوں میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا اور  بین الاقوامی محفلوں میں فلسطینیوں کی آواز رہے۔ فلسطینیوں کی مالی مدد کی بات آئی تو آپ نے فلسطینیوں کے لیے کویت کے عطیات میں لگاتار اضافہ کیا۔

شامی بحران کی وجہ سے مشکلات میں پھنسے شامی عوام کے لیے بھی آپ نے غیر معمولی عطیات فراہم کروائے اور اس کے لیے مختلف بین الاقوامی ڈونرس کانفرنسوں کی صدارت کی۔

 

جنوری 2014ء میں کویت کی میزبانی میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں شامی عوام کے لیے کویت نے سب سے زیادہ عطیات دینے کا اعلان کیا۔

 

اسی طرح  دنیا بھر میں کویت کا مدد کا ہاتھہ ہمیشہ دراز رہا۔

شیخ صباح الاحمد کی قیادت میں کویت نے  اپنے انسانی فرض کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔

 

 دنیا کا کوئی بھی ملک اگر قدرتی آفت کا شکار ہوا تو مرحوم امیر کویت نے مدد کے لیے پہل کی اور ملک کے فلاحی اداروں بالخصوص ہلال احمر سوسائٹی کو متاثرین تک  پہنچنے کا حکم دیا۔

 

بات برصغیر ہندوپاک میں آئے زلزلے کی ہو، انڈونیشیا، سری لنکا اور ہندوستان کی سونامی کی ہو یا دنیا کے مختلف علاقوں میں آنے والے زلزلوں، طوفانوں، سیلابوں، وباؤں، یا تنازعات، جنگوں اور خانہ جنگیوں کی، ہر گھڑی  میں کویت نے اپنا انسانی فرض نبھانے اور ان آفتوں کے متاثرین کو راحت پہنچانے  کی حتی الامکان کوشش کی۔

 

 یہی نہیں اس چھوٹے لیکن فراخدل ملک نے علاقائی وعرب سطح پر ہی نہیں دنیا کے دیگر حصوں میں بھی بوقت ضرورت محبت ،امن ومصالحت اور بھائی چارے کا پیغام عام کرنے کی کوشش کی۔

 

عراق، شام، سوڈان، لبنان، لیبیا، اور یمن جیسے برادر ملکوں اور مالی ، اور دیگر افریقی ممالک میں  جب خانہ جنگیاں، آفتیں، اور انسانی مسائل اوربحران مزید بڑھے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کو سخت حالات کا سامنا ہوا تو کویت کا یہ کردار مزید مستحکم اور عام ہوا، اور کویت کی فراخدلی اور عطا و دادودہش میں اضافہ ہوا۔

 

ان انسانی خدمات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے  کویت اور اس کے قائد ورہنما شیخ صباح الاحمد  الجابرالصباح کو داد تحسین پیش کی اور دنیا کے انسان دوست رہنما کے خطاب سے سرفراز کیا۔

 

مصالحانہ خدمات:

ہمیشہ تبسم بھکیرتی شیخ صباح الاحمد کی شخصیت عرب اور غیر عرب ممالک کے سربراہوں میں ہردل عزیز تھی۔ شیخ صباح بھائیوں میں شیرازہ بندی کے قائل تھے۔

اسی لیے جب بھی عرب ممالک کے رشتوں میں کوئی ناسازگار صورتحال پیش آتی، آپ مصالحانہ کوششوں کے لیے  سرگرم ہوجاتے تھے۔

2011ء میں مرحوم شیخ صباح الاحمد کی دعوت پر کویت میں عرب اقتصادی سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ اتحاد کے لیے آپ کی کوششوں کا غماز ہے۔

اس اجلاس کے دوران جب آپ نے محسوس کیا کہ چند برادر ممالک کےسربراہوں کے درمیان کسی قسم کا اختلاف ہے تو آپ نے ان تمام کو ایک ٹیبل پر جمع کیا اور اختلافی مسائل کا تصفیہ کیا۔

اسی طرح حالیہ برسوں میں خلیجی ممالک کے مابین پیدا ہونے والی تلخیوں کے ازالے کے لیے شیخ صباح الاحمد نے تمام تر کوششیں کیں اور متعلقہ فریقوں کو اختلافات ترک کرکے اور برادرانہ تعلقات کو بچانے کی ترغیب دی۔

اگر یمن کی بات کریں تو جنوبی اور شمالی یمن کےاتحاد کے لیے کی گئی کوششوں میں بھی آپ نے کلیدی کردار ادا کیا ۔

اسی طرح آپ نے  فلسطین میں آپس میں منقسم فلسطینی دھڑوں کو تقسیم ختم کرنے اور فلسطینی عوام اور فلسطینی کاز کے لیے متحد ہونے کی ترغیب دی۔

شیخ صباح نے 91 برس عمر پائی اور پوری عملی زندگی میں  بے شمار سیاسی، سفارتی اور سماجی کامیابیاں اپنے نام کیں۔

Comments are closed.