Baseerat Online News Portal

احکامِ وراثت اور ہمارا رویّہ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

احکامِ وراثت اور ہمارا رویّہ

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 

جماعت اسلامی ہند ، حلقۂ دہلی ، ابو الفضل انکلیو مقامی جماعت کی خواتین نے خواہش کی کہ میں آن لائن ان کے سامنے احکامِ وراثت بیان کروں _ میں نے اس کی تعمیل کی _ میری گفتگو کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے :

 

1 _ مسلم سماج میں دین کا جو حکم سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے وہ وراثت کا ہے _ کوئی مسلمان نماز نہ پڑھے ، یا روزہ نہ رکھے ، یا مال دار ہونے کے باوجود زکوٰۃ نہ ادا کرے تو اسے بُرا سمجھا جاتا ہے ، لیکن وہ وراثت نہ دے تو سماج اسے بُری نظر سے نہیں دیکھتا _

 

2 _ قرآن مجید میں تقسیمِ وراثت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے _ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دین کے دیگر احکام کی صرف اصولی اور بنیادی باتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں ، ان کی تفصیلات و جزئیات احادیث سے معلوم ہوتی ہیں ، لیکن میراث کے تفصیلی احکام قرآن مجید ہی میں بیان کردیے گئے ہیں _

 

3 _ وراثت کے جملہ احکام سورۂ النساء میں مذکور ہیں _ آیات 7 تا 10 میں اس سے متعلق چند بنیادی باتیں ذکر کی گئی ہیں اور ہر حال میں تقسیمِ وراثت پر ابھارا گیا ہے _ آیات 11 و 12 میں مستحقین کے حصے بیان کیے گئے ہیں _ آیت 13 میں اس حکم پر عمل کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے اور آیت 14 میں اس پر عمل نہ کرنے والوں کو جہنم کی درد ناک سزا کی وعید سنائی گئی ہے _ آیت 176 میں بھی وراثت کے بعض احکام مذکور ہیں _

 

4 _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وراثت میں عورتوں کا بھی حصہ ہے _ (النساء :7) دنیا کے تمام مذاہب اور تمام تہذیبوں نے اس معاملے میں عورتوں کی حق تلفی کی ہے _ یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے اس کا حق تسلیم کیا ہے اور اس کی ادائیگی کی تاکید کی ہے _

 

5 _ قرآن کا حکم ہے کہ مالِ وراثت چاہے جتنا کم سے کم ہو ، یا چاہے جتنا زیادہ سے زیادہ ، اسے لازماً تقسیم ہونا چاہیے (النساء :7) مفسرینِ کرام نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر ایسا سامان ہو جو صرف مردوں کے استعمال کا ہو ، عورتوں کے کام کا نہ ہو تو بھی لازماً اس کی تقسیم ہونی چاہیے _

 

6 _ قرآن کہتا ہے کہ ہر مستحق کا حصہ متعین کردیا گیا ہے _ اسی کے مطابق ٹھیک ٹھیک تقسیم ہونی چاہیے _ اس میں کمی یا زیادتی کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے _ اور یہ تقسیم اختیاری یا ترجیحی نہیں ، بلکہ لازمی ہے _ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کردہ ہے :نَصِیْباً مَفْرُوْضاً (النساء :7)

 

7 _ وراثت کی تقسیم کسی شخص کے مرنے کے بعد ہی ہوسکتی ہے ، اس کی زندگی میں نہیں _ البتہ زندگی میں وہ کسی کو ہبہ یا وصیت کرسکتا ہے _

 

8 _ وراثت کی تقسیم میّت کی تجہیز و تکفین کے مصارف نکالنے ، قرض ادا کرنے اور وصیت پوری کرنے کے بعد باقی مال میں کی جائے گی _

 

9 _ مستحقینِ وراثت چاہیں تو اپنی مرضی سے کسی دور کے رشتے دار یا متعلق کو مالِ وراثت میں سے کچھ دے سکتے ہیں _ (النساء :8) اسی طرح کوئی مستحقِ وراثت اپنی آزاد مرضی سے اپنا حصہ چھوڑ سکتا ہے یا وراثت کے کسی دوسرے مستحق یا غیر مستحق کو دے سکتا ہے _

 

10 _ وراثت کی تقسیم کسی شخص کے انتقال کے بعد جلد از جلد ہوجانی چاہیے ، البتہ کسی سبب سے اس میں کچھ تاخیر بھی کی جاسکتی ہے _

 

11 _ تقسیمِ وراثت کی بنیاد رشتے پر ہے ، نہ کہ ضرورت پر _ شریعت نے رشتے داروں کے دائرے ( Circles) بنا دیے ہیں _ میت کا کوئی قریبی رشتے دار ہو تو وہ وراثت کا مستحق ہوگا ، دور کے رشتے دار کو وراثت نہیں ملے گی ، چاہے وہ جتنا بھی ضرورت مند ہو _

 

12 _ میّت کے وہ رشتے دار وراثت کے مستحق ہوتے ہیں جو اس کے انتقال کے وقت زندہ ہوں _ جن کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا ہو وہ مستحقِ وراثت نہیں ہوسکتے _ مثلاً کسی شخص کے 3 بیٹے ہوں ، ایک بیٹے کا انتقال اس کی زندگی میں ہوجائے تو اس شخص کے انتقال کے وقت مرحوم بیٹے یا اس کی بیوہ اور بچوں کا حصہ نہیں لگے گا _

 

13 _ جن مستحقین کے حصے قرآن مجید میں بیان کردیے گئے ہیں وہ ‘اصحاب الفرائض’ کہلاتے ہیں _ دوسری کڑی ‘عصبہ کی ہے _ فقہاء نے میّت سے رشتے کی قربت اور دوری کے اعتبار سے ان کے مراتب متعین کردیے ہیں _ تیسری کڑی’ ذوی الارحام’ کی ہے _ پہلے وراثت اصحاب الفرائض میں تقسیم کی جائے گی ، اس کے بعد اگر کچھ مالِ وراثت بچے گا تو وہ عصبہ میں تقسیم ہوگا _ وہ نہ ہوں تو ذوی الارحام کو دیا جائے گا _

 

14 _ ماں ، باپ ، بیوی ، شوہر ، بیٹا ، بیٹی کسی بھی صورت میں وراثت سے محروم نہیں ہوتے _

15 _ بیٹی أصحاب الفرائض میں سے ہے ، لیکن اگر بیٹا بھی ہو تو بیٹی عصبہ بن جاتی ہے اور دونوں کو 2:1 کے تناسب سے وراثت ملتی ہے _

 

16 _ بعض صورتوں میں مرد اور عورت کو برابر وراثت ملتی ہے _ مثلاً اگر میّت کی اولاد بھی ہو اور ماں باپ بھی زندہ ہوں تو ماں باپ ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا _

 

17 _ جن صورتوں میں عورت کو مرد کے مقابلے میں نصف ملتا ہے اس کی وجہ اسلام کا نظامِ معاشرت ہے _ اسلام نے خرچ کرنے کی ذمے داری عورت پر نہیں ڈالی ہے ، بلکہ مرد کو اس کا ذمے دار بنایا ہے _ عورت جو کچھ پاتی ہے وہ اس کے پاس محفوظ رہتا ہے ، جب کہ مرد جو کچھ پاتا ہے اسے اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ پر خرچ کرنا ہوتا ہے _

 

18 _ کسی شخص کے کئی بیٹے ہوں ، ایک بیٹے کا انتقال اس کی زندگی میں ہو جائے تو اس شخص کے انتقال کے وقت مرحوم بیٹے کی بیوہ اور بچوں کا حصہ نہیں لگے گا ، لیکن وہ شخص اپنی زندگی میں بیوہ بہو اور یتیم پوتوں اور پوتیوں کو جتنا چاہے ہبہ کرسکتا ہے ، یا ایک تہائی کے بہ قدر وصیت کرسکتا ہے _ اگر ایسا نہ ہوا تو بھی یتیم بچوں کی کفالت کی ذمے داری چچا پر عائد ہوتی ہے _

 

19 _ احکامِ وراثت سے مسلم سماج بالکل بے گانہ ہے _ اسے نہ اس کی خبر ہے اور نہ اس کے اندر اس پر عمل کا جذبہ پایا جاتا ہے _

 

20 _ ضرورت ہے کہ مسلم سماج میں بیداری لائی جائے اور قرآن مجید کے اس اہم حکم پر عمل کرنے کے لیے اسے تیار کیا جائے _

Comments are closed.