"شکیلہ اختر کے افسانے میں احساس محرومی اور زندگی پر اس کے نفسیاتی اثرات "

از قلم :_شیبا کوثر (آرہ ،بہار)۔
بہار کی خواتین افسانہ نگار وں میں شکیلہ اختر ایک معتبر اور اہم نام ہے۔ ان کو جو شہرت اور مقبولیت ملی،وہ کم خواتین افسانہ نگار وں کو ملی ۔بہار کی خواتین افسانہ نگار وں میں شکیلہ اختر سب سے زیادہ کامیاب افسانہ نگار تسلیم کی جاتی ہیں ۔
فن اور زبان و بیان پر ان کی گرفت کافی مضبوط ہے ۔پچپن سالہ ادبی زندگی میں انہوں نے جو ادبی کارنامے انجام دئے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ اور انکی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج صوبہ بہار میں بہت سی خواتین افسانہ نگار اپنے فن کا جوھَر دکھا رہی ہیں ۔
شکیلہ اختر پام ویلا شاہ ٹولی ،ارول،ضلع جہان آباد میں1916 میں پیدا ہوئیں ۔ان کے والد محمّد توحید تھے وہ ایک ذی علم گھرا نے سے تعلق رکھتی تھیں ۔جہاں ہمہ وقت علم و ادب پر گفتگو ہوتی رہتی تھی ۔جس کی چھا پ انکی شخصیت پر بھی پڑی آس پاس و گھریلو ماحول سے متاثر ہوکر وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئیں۔ اس زمانے کے مشہور و ادبی رسائل "نیر نگ خیال” "ساقی ” "عصمت ” "ادبی دنیا "اور "کلیم "وغیرہ ان کے زیر مطا لعہ تھے ۔ان کے ادبی ذوق کی تعمیر و تشکیل میں میر ،مومن ،غالب اور اقبال کی شاعری کے ساتھ انگریزی، جغرا فیہ اور تاریخ ادب کی تعلیم سے بھی وہ فیضیا ب ہوئیں ۔
شکیلہ اختر کی شادی اردو کے معروف نقاد ،محقق شاعر اور افسانہ نگار ڈاکٹر اختر اورینوی سے24 مئ 1933 کو ہوئی ۔
شادی کے بعد شکیلہ کی زندگی کا ایک بیشتر حصّہ پٹنہ میں اختر اورینوی صاحب کی سرکاری رہائش گاہ واقع چھجو باغ پٹنہ میں گزرا ۔یہاں ملک کے مشا ہیر اہل علم کی برابر آمد و رفت رہتی تھی جن کی میز بانی کا شرف انہیں حاصل رہتا تھا ۔مشا ہر علم کی ادبی گفتگو کا انکی تخلیق پر گہرا اثر پڑا ۔ملازمت سے شکبد وش کے بعد بھی تا دم تحریر مرگ اختر صاحب اسی کوٹھی میں مقیم رہے اور شکیلہ ان کی تیمار داری میں مشغول رہتیں ۔ ظاہری زندگی خاصی آسودہ حال تھی مگر بے اولادی کا غم ہمیشہ انہیں افسردہ کرتا رہا ۔اختر صاحب کی وفات مارچ (1977) کے بعد وہ سری کرشنا پوری پٹنہ کے ایک فلیٹ میں رہا ئیش پذ یر تھیں اور جب تک صحت نے ساتھ دیا پٹنہ کی ادبی محفلوں اور سمینار وں کو اپنی موجود گی سے وقار بخشتی رہیں۔
شکیلہ اختر کے ادبی سفر کا آغاز کب ہوا یہ کہنا بھی دشوار ہے ۔اس سلسلے میں خود انکے بیانا ت بھی خاصہ کنفیوژن پیدا کرتے رہے ہیں ۔مختلف بیانا ت کا تجزیہ کرنے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے ابتداء میں انہوں نے کچھ غزلیں یا تفریحی مضا مین لکھے ہوں مگر ان کا پہلا افسانہ "رحمت "(1936) میں ادب لطیف لاہور میں شایع ء ہوا ۔شکیلہ اختر اگرچہ بہار کی پہلی افسانہ نگار ہیں مگر فی طور پر وہ جس مقام و مرتبے کی حامل ہیں وہ انہیں ایک کامیاب ترین اور بلند پایہ افسانہ نگار ثابت کرتے ہیں۔ان کے افسانے کے پہلے مجموعہ "در پن "کی اشا عت مکتبہ اردو لاہور سے کم وبیش اسی زمانے میں ہوئی اس مجموعے میں کل چو دہ افسانے ہیں ۔شکیلہ اختر کا ادبی سفر 1936سے شرو ع ہو کر 1986میں ختم ہوتا ہے اس دور ان انہوں نے تقریباً 70 افسانے تحریر کئے جو مختلف ادبی رسائل میں شایع ء ہو کر کافی مقبول و معروف ہوئے۔ شکیلہ اختر کو عورتوں کی نفسیات پر زبر دست دسترس حاصل تھا ۔عورتوں کی نفسیات پر لکھے گئے افسانوں میں ان کے افسانے”باسی بھا ت ” آ نکھ مچولی ،ٹوٹی ہوئی گڑیا ،پیاسی نگاہیں ،آگ اور پتھر ،تلاش منزل ،اور فیس پا وڈر وغیرہ نمایا ں ہیں ۔
شکیلہ اختر اپنے تمام افسانوں میں کردار نگاری ،ماجرا سازی اور فضا آفرینی میں ماہر نظر آتی ہیں وہ اپنے افسانوں میں اپنے قاری کو کہیں اور کبھی پیچھے چھوڑنے پر یقین نہیں رکھتی ہیں اور شعوری طور پر یہ کوشش کرتی ہیں کہ ان کا قاری ان کی کہانی کا کوئی کردار بن کر ساتھ چلے۔شاید یہی وجہ ہے کہ شکیلہ اختر کی کہانیاں آج بھی پڑھی جاتی ہیں اور وہ کسی بھی زاو ئے سے فرسودہ محسوس نہیں ہوتیں ۔
شکیلہ اختر نے جس عہد میں افسانے لکھے وہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔لہذا انکے افسانو ں میں کہیں کہیں ترقی پسند تحریک کے اثرات ملتے ہیں ۔لیکن پرو فیسر عبد المغنی اس کی۔ تر دید کر تے ہیں کہ ___
"شکیلہ اختر کو ترقی پسندی سے کوئی واسطہ نہیں وہ پورے معنی میں ایک گھریلو افسانہ نگار ہیں اپنے دور کی دوسری خواتین کے مقابلے میں ان کا امتیا زی و صف یہی ہے کہ وہ اپنے حدود سے واقف ہیں اور اپنی قوتوں کو سمٹیے ہوئ ہیں "۔
تصا نیف :
(1)”درپن "(افسانوی مجموعہ جس میں کل چو دہ افسانے ہیں )مکتبہ اردو لاہور 1937
(2) ” آنکھ مچولی” (افسانوی مجموعہ جس میں کل گیارہ افسانے ہیں)۔مطبوعہ ممبئی1940_
( 3) "ڈا ئن "(افسانوی مجموعہ جس میں کل بارہ افسانے ہیں ) مطبوعہ پٹنہ2 195۔
(4)” آگ اور پتھر "(افسانوی مجموعہ جس میں تیرہ افسانے ہیں ) مطبوعہ الہ آباد 1947۔
(5)” تنکے کا سہارا "(تین ناولٹ بشمو ل تنکے کا سہارا ) مطبوعہ لکھنئو 1975_
(6)” لہو کے مول "(افسانوی مجموعہ جس میں کل بارہ افسانے ہیں ) مطبوعہ پٹنہ78 19.
(7) ” آخری سلام "(افسانوی مجموعہ جس میں کل پندرہ افسانے ہیں ) مطبوعہ لکھئنو۔1989.
اعزازات:
(1) اردو کی خدما ت کے لئے بہار اردو اکا د می پٹنہ نے پہلا انعام دیا ۔
(2) اتر پردیش اردو اکا د می نے کئی کتابوں پر انعامات سے نوازا ۔
(3) بہار اردو اکا د می نے کئی کتابوں پر انعامات دئے ۔
(4)1982 سے سابق گور نر بہار جناب اخلاق الر حمن قدوائ نے تا زندگی 400 روپیہ ما ہوار رائٹر و ظیفہ جاری کروایا۔
موضوع سے متعلق افسانے کا جائزہ:۔
ان کے افسانے کے موضوعات اور قصّوں کا پس منظر ہماری روز مرہ کی زندگی کا نشیب و فراز ہے ۔وہ بڑے سلیقے سے افسانوں میں برتنے کی کوشش کرتی ہیں۔ان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے کرب کو وسعت دے کر اسے ہمہ گیر بنا د ینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہیں۔اس کی ایک مثال "آنکھ مچولی "۔ہے آپ بیتی کے انداز میں یہ افسانہ شکیلہ اختر کی اپنی کہانی بھی ہے ۔اور ان کے جیسی دوسری خواتین کی بھی ۔
آئیے اب شکیلہ اختر کی مشہور کہانی ” آنکھ مچولی”
کا ایک جائزہ پیش کرتی ہوں ۔
"یہ کہانی ایک عورت کے ما ں بننے کی شدید خواہش کو پیش کرتی ہے ۔ فیض کی اہلیہ پروین بارہ سالوں کی ازداواجی زندگی میں اولاد کے لئے ترس رہی ہے ۔اس کی زندگی کی تنہائیا ں اور اداسیا ں اسے مایوسیوں کے اندھیرے میں گھیرے ہوئی ہیں ۔ وہ پڑوس کے گھوس بابو کے چھوٹے بیٹے گلاب کو اپنے پیار اور ممتا کی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے ۔ گلاب کی اپنے گھر میں کوئی قدر و قیمت نہیں ، معمولی معمولی غلطیوں کے لئے اسے ڈانٹ سننی پڑتی ہے ،اسے سہم سمٹ کر رہنا پڑتا ہے ۔پروین کی گود میں اسے بہت سکون ملتا ہے پر وین بھی اسے اپنی اولاد کی طرح چاہتی ہے ، پھر یکا یک کی کرن جھلملاتے دکھائی دیتی ہے پروین امید سے ہے فیض بہت جتن کرتا ہے کہ وہ خوش رہے ، اس کے ارد گرد خوبصورت چیزوں کا ڈھیر لگا دیتا ہے تا کہ پروین کی تخلیق پر اس کے ماحول کی خوبصورتی اثر انداز ہو ۔خوبصورت ہستے مسکراتے بچوں کی تصویروں کو دیکھ کر پروین کے دل میں ممتا ہمک اٹھتی ہے ، مگر قد رت کو پروین کی یہ خوشی منظور نہیں تھی ، پروین کا حمل ضا ئع ہو جاتا ہے ایک بار پھر وہ اداسی کی بے پناہ تاریکیوں میں گم ہو جاتی ہے ۔ ما ں بننے کی . خواہش ایک عورت کی شدید ترین خواہش ہوتی ہے جب تک عورت کی تکمیل نہیں ہو جاتی وہ خود کو ادھوری رہتی ہے ۔
یہاں عورت کے اس نفسیا ت کو پیش کیا گیا ہے ۔چوں کہ شکیلہ اختر ذاتی طور پر اس تجر بے سے گزریں ،اس لئے ان کی پیش کش جاذب اور اثر انگیز ہے
شکیلہ کے یہاں نہ صرف یہ کہ رومان بلکہ انسانی نفسیات
اور سماجی معاملات کے ان پہلو ؤں کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے جن کا تعلق صنف نازک سے ہوتا ہے ۔قصّہ پن کی دلچسپ اور بیان کی سادگی کے لحاظ سے وہ
پریم چند سے زیادہ قریب ہیں ۔لہو کے مول ،آگ اور پتھر ،ننگی آنکھیں اور اعتراف وغیرہ۔
ان کے نمائندہ افسانے ہیں ۔شکیلہ اختر کے افسانو ں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے بعد بہار کی خواتین افسانہ نگاروں نے اس میدان میں تیزی سے اپنے قدم بڑھائے ہیں ۔
اردو کے اہم ناقدوں نے انکی انفرادیت تسلیم کی ہے یہاں صرف ایک رائے پیش کرتی ہوں ۔
"ڈاکٹر عبدالمغنی لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ مطالعہ حیات بہت صاف ،سیدھا اور فطری ہے اس مطالعہ کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں نہ تو عصمت چغتائی کی طرح جنسی انحراف کا تعا قب ہے نہ حجاب اتیاز۔ علی کی طرح صوفیانہ فلسفہ طرز ی اور اور نہ ہاجرہ مسرور کی طرح اشتر ا کی پیچ و خم۔ شکیلہ اختر براہ راست اور خالص اردو معاشرت کے احوال و کو ا لف کا نقشہ پوری وفاداری اور یکسوئ کے ساتھ کھینچ دیتی ہیں ۔”
شکیلہ اختر کا آخری اور چھٹا مجموعہ "آخری سلام "ہے جس میں 15افسانے شامل ہیں اس مجموعہ کا آخری افسانہ "آخری سلام "ہے ۔ اس افسانے کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید شکیلہ اختر جس وقت یہ افسانہ تحریر کر رہی تھیں اپنی زندگی سے شاید مایوس ہو چکی تھیں اور اس کہانی کے اہم کردار رادھا رانی کی درد بھری کہانی میں وہ خود اپنی زندگی کی جھلک دیکھ رہی تھیں ۔
شکیلہ اختر اور ان کے ہم عصر افسانہ نگار :،
شکیلہ اختر کے ہم عصر افسانہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے ان کے عہد سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگاروں میں سجاد حیدر یلدرم ،سلطان حیدر جوش ،نیاز فتح پوری ،سدر شن ،سہیل عظیم آبادی ،اختر اور یںنو ی ،اختر حسین رائے پوری ،علی عباس حسینی ،ممتاز مفتی ،کر شن چندر ،سعادت حسن منٹو ،حیات اللّه انصاری ۔عصمت چغتائی ،خدیجہ مستو ر ،ہاجرہ مسرور ،احمد ندیم قاسمی ،خوا جہ احمد عبّاس ،راجند ر سنگھ بیدی ،قرت العین حیدر، ممتاز شریں ،جوگندر پال ،غلام عبّاس ،رام لعل ۔جیلانی بانو ،رضیہ سجاد ظیر، بلونت سنگھ ، جمیلہ ہاشمی ،رضیہ رعنا،شا ہدہ حا جی پوری، ایجاز شاہین، نصرت آرا ، وغیرہ ۔زیادہ اہم ہیں ۔شکیلہ اختر کے سب سے بز رگ اور معتبر ہم عصرو ں میں پریم چند کا نام بھی لیا جا سکتا ہے ۔در اصل شکیلہ اختر پریم چند اسکول کی ہی پروردہ افسانہ نگار ہیں ۔ان کے بیشتر افسانے سماجی زندگی کے آئینہ دار ہیں مگر انہوں نے رومانی افسانے بھی تحریر کئے ہیں،اپنے رومانی افسانے میں اگر کر شن چندر کشمیر کی فضا آفرینی کرتے نظر آتے ہیں تو وہیں شکیلہ اختر بہار کے گاؤں اور قصبوں کی فضا میں رومانیت کی تلاش و جستجو میں سرگرداں دکھائی دیتی ہیں ،یہ رومانیت پسندی ممکن ہے ان کے حصّے میں پرو فیسر اختر اور نیو ی کی قربت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہو ۔
آخری ایام :_
شکیلہ اختر کی ازداواجی زندگی یوں تو میاں بیوی کی والہا نہ محبّت کے باعث بڑی پر سکون اور اطمینان بخش گزری لیکن ان کی زندگی میں ایک زبردست خلا بھی رہا۔اس لئے کہ انکی زندگی کے چمن میں تا دم آخر محبّت کا کوئی پھول نہ کھل سکا ،اس محرومی کا احساس شکیلہ اختر کو ہمیشہ ناگ بن کر ڈ ستہ رہا ۔انکے شوہر پرو فیسر اختر اورینوی ان کو از حد پیار کر تے تھے لیکن جب بھی شکیلہ اختر کی آنکھوں میں آنسو ں کے قمقمے روشن دیکھتے تو خود بھی اداس ہو جاتے تھے ۔اختر اورینوی کو مصوری کا بھی بہت شوق تھا وہ اپنی زندگی کی اس محرومی کو برش کے سہارے پیش کرتے تو انکی بنائی ہوئی تصویروں میں انہیں ہمیشہ شکیلہ اختر کی نم آنکھیں نمایا ں طور پر نظر آتیں اور وہ خود بھی آبد یدہ ہو جاتے۔ مانو ں جیسے وہ کہنا چاہتے ہوں کہ ۔۔۔۔
ہم تو اپنے غم سے بے نیاز ا نہ گزر جاتے مگر
ان کے چشم نم سے اپنے غم کا اندازہ ہوا ۔
(قمر زاہد ی )
شکیلہ اختر کا انتقال 10 فروری 1994 کو ہوا ۔اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود وہ اپنی زندگی کی تنہائیوں سے بیزار ہو چکی تھیں ۔انہوں نے جب آخری سانس لی تو
بہار کی ادبی محفلیں بیحد غمگین ہو گئیں ۔
مختصر یہ ہے کہ ایک گھریلو ماحول میں شکیلہ اختر
تربیت ہوئی۔انہوں نے اس دور میں افسانہ لکھا ،جب لڑکیوں کا لکھنا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔
انہوں نے اردو ادب میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی اور بعد کی نسلوں کے لئے بھی راہیں ہموار کیں ۔
(ختم شد )۔
Comments are closed.