Baseerat Online News Portal

علم و عمل کی جامع شخصیت: حضرت مولانا ہارون الرشید صاحبؒ

ڈاکٹر نورالسلام ندوی

موت سے کسی کو رستگاری نہیں ، اس کا ایک دن معین ہے جو دنیا میں آیا ہے موت اس کا مقدر ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیسی کیسی شخصیتیں نگاہوں سے رخصت ہو گئیں، کیسے کیسے اہل علم ، عالم، فاضل ، دانشور اور ادیب کو موت نے لقمہ اجل بنالیا۔قلب وجگر پر کیا گزری،اسے الفاظ میں ڈھالنامشکل ہے۔ سینے میں ان کے داغ اور دل میں ان کی یادوں کے نقوش تازہ ہیں۔ مخدوم گرامی حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب قاسمی 14-15 فروری 2021 کی شب داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی جدائیگی کا غم بالکل جدا ہے، وہ بہار کی خاک سے اُٹھے اور یہیں آسودہ خاک ہوئے ۔ ان کی عمر تقریباً 85 سال کی تھی ، انہوں نے بھرپور زندگی گزاری، لمبی عمر پائی، مختصر علالت کے بعد مالک حقیقی سے جا ملے، خدائے وحدہ لاشریک انہیں جنت کا مکیں بنائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے
خاندانی احوال
حضرت مولانا ہارون الرشید بن محمد طاہر حسین بن امانت حسین بن صفدر خاں کی ولادت یکم جنوری 1939 کو ہوئی ۔ان کا وطن جمال پور ، دربھنگہ ہے ، یہ بستی دربھنگہ ضلع کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ یہ مشہور ندی کوسی کے مغربی باندھ سے متصل پچھم واقع ہے۔ اس سے آگے سہرسہ ضلع کا حلقہ شروع ہوتا ہے ۔ دربھنگہ مہاراج کی زمین داری اسی سرحد میں آکر ختم ہوتی تھی ۔ یہاں کے باشندے نسلاً شیخ اور میزاجاً خان ہیں۔ خان کا یہ معزز خطاب دربھنگہ مہاراج نے یہاں کے باشندوں کو بہادری کی بنیاد پر عطا کیا تھا ۔ مولانا کی پیدائش کے چند سالوں کے بعد ہی والدہ محترمہ دنیا سے چل بسیں، اس وقت ان کی عمر محض تین سال تھی، اسی سال آپ کی دادی کا بھی انتقال ہوا تھا ۔ جب تھوڑا بڑے ہوئے اور عمر کی بارہویں سال میں داخل ہوئے تو والد محترم جناب طاہر حسین صاحب بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ دادا کے رہتے ہوئے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اس اعتبار سے آپ محجوب الارث ہوئے اور یتیمی کا داغ بھی سہنا پڑا ۔اس عہد میں آمد و رفت کے وسائل بہت محدود تھے، ذریعہ معاش کھیتی اور مال مویشی تھا ، بچوں کواعلیٰ تعلیم کے لئے باہر بھیجنے کا رواج کم تھا ۔
تعلیم و تربیت
جب آپ چارسال کے ہوئے تو مکتب میں بٹھلائے گئے، ناظرہ قرآن اور دینیات کی تعلیم حاصل کی، جب کچھ بڑے ہوئے تو مولانا مقبول احمد کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔ گلستاں، بوستاں اور دووسری کتابیں انہیں سے پڑھیں۔ مولانا مقبول احمد کو اردو اور فارسی کی اچھی استعداد تھی، انہوں نے مولانا کو محنت سے پڑھایا۔آگے کی تعلیم و تربیت کی فکر مندی آپ کے مامو ںجناب امین حسین خاں مرحوم نے کی،وہ بہت تنگدستی کا دور تھا ، والدین کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا ، بڑی مشقت کی زندگی گزر رہی تھی، ان حالات میں امین حسین خاں نے آپ کا داخلہ مدرسہ رحمانیہ سپول میں کروا دیا ۔ یہاں آپ نے چار سال تعلیم حاصل کی، حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ، مولانا شمش الہدیٰ صاحب اور مولانا محمد انوار صاحب سے استفادہ کیا ۔ اس وقت مدرسہ امدادیہ کی تعلیم کا چرچا ہر سو تھا ، 1956 میں آپ نے مدرسہ امدادیہ لہریہ سرائے دربھنگہ میں داخلہ لیا ، لیکن یہاں زیادہ دنوں تک تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔ ایک سال یہاں زیر رتعلیم رہے اور تہذیب ، شرح تہذیب ، کنز الدقائق اور شرح جامی جیسی کتابیں پڑھیں، یہاں آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالرحیم ، مولانا محی الدین، مولانا عبداللہ ختنی خاں، مولانا عبداللہ چمپارنی اور مولانا عابد اللہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
مدرسہ امدادیہ کے بعد 1957 میں جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد تشریف لے گئے، یہاں ایک سال رہے۔ مولانا نظیر احمد سے شرح وقایہ ، مولانا شاہ مرادآبادی سے شرح تہذیب اور سلم العلوم ، مولانا انصارالحق امروہی سے شرح جامی پڑھی۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور یہاں تین سالوں تک رہ کر اکابر اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا اور 1960 میں سند فضیلت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کے اساتذہ میں علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ، حضرت مولانا سید فخر الحسن ، شیخ فخر الدین مرادآبادی ، مولانا نصیر احمد خاں ، مولانا سید اختر حسین ،مولانا قاری محمد طیب ، مولانا محمد نعیم، مولانا سید حسن اور مولانا بشیر احمد خاں کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
حافظہ
حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب پڑھنے میں بلا کے ذہین اور تیز تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بے مثال قوت حافظہ عطا فرمایا تھا ۔ جو سبق ایک بار اچھی طرح پڑھ لیتے یاد ہو جاتا ، اس لئے دوران طالب علمی طلبہ کے درمیان ہمیشہ ممتاز رہے اور اساتذہ کے منظور نظر رہے۔آپ کی یاد داشت بھی غضب کی تھی، جو چیز ایک مرتبہ حافظہ میں آجاتی اس کا گرفت سے باہر نکل جانا مشکل تھا ۔
مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات
جب آپ دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے اس وقت کسی کام سے دہلی جانا ہوا ، یہ وہ دور تھا جب مولانا ابوالکلام آزاد کی پورے ملک میں بڑی شہرت تھی۔بڑے بڑے لوگوں کو ان سے ملنے اور ان کی تقریر سننے کی خواہش ہوا کرتی تھی،مولانا کے دل میں بھی ان سے ملنے کی آرزو تھی۔ ان سے ملنے ان کے بنگلہ تشریف لے گئے۔ اس وقت مولانا آزاد ملک کے وزیر تعلیم تھے اور بے حد مصروف رہا کرتے تھے ۔ ملی ، سماجی، سیاسی اور تعلیمی اجلاس ،کانفرنس اور میٹنگ میں شرکت کی وجہ سے عام لوگوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے۔ مولانا ہارون الرشید صاحب مولانا آزاد کے پاس اس وقت پہنچے جب وہ کسی اجلاس میں شرکت کے لئے جانے کی تیاری کر رہے تھے ، مولانا آزاد نے ان کا استقبال کیا اور چائے سے ضیافت کی ۔ ملاقات مختصر ہوئی لیکن خوشگوار رہی۔ ملک کی تازہ صورت حال اور مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر گفتگو ہوئی۔ یہ واقعہ غالباً 1957 کا ہے۔مولانا کبھی کبھی یہ واقعہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا کرتے تھے۔
جامعہ رحمانی مونگیر میں بحیثیت استاذ
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد دربھنگہ کے ایک عالم مولانا فضیل صاحب راجستھان کے نول گڑھ میں پڑھاتے تھے،اور کتاب کی تجارت بھی کرتے تھے،جس کی وجہ سے ان کا دیوبند آنا جانا تھا،وہ اپنے ساتھ مولانا کو راجستھان لے گئے ۔لیکن وہاں طبیعت نہیں جمی،عمارت کے اعتبار سے مدرسہ بڑا ضرور تھا لیکن ابتدائی تعلیم ہوتی تھی۔وہیں سے انہوں نے دو خط لکھا،ایک خط حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے نام اور ایک خط حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ امیر شریعت بہار کے نام تحریر کیا اور تدریس کے لئے مناسب جگہ کی درخواست کی۔جواب میں قاری محمد طیب صاحبؒ نے آسام میں کسی جگہ کی نشان دہی کی،شرح وقایہ پڑھانے کی ذمہ داری تھی۔دوسرے خط کا جواب امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒنے دیا اور تحریر کیا کہ سردست کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔کچھ دنوں کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر کے ناظم تعلیمات کا خط آیا ،انہوں نے لکھا کہ یہاں مولانا شفیق صاحب کی جگہ خالی ہو رہی ہے،آنا چاہتے ہیں تو آجائیں ۔اس کے بعد آپ جامعہ رحمانی مونگیر تشریف لے گئے۔اس وقت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب ؒ بھی وہاں مدرس تھے۔1960 کے اواخر میں آپ وہاں گئے،اور 1962تک مدرس رہے۔
جامعہ رحمانی مونگیر میں عربی پنجم تک کے طلبہ کو پڑھایا،جلد ہی آپ کا شمار کامیاب اساتذہ کی فہرست میں ہونے لگا،طلبہ آپ کے درس سے بہت خوش ہوتے۔آپ زیادہ دنوں تک یہاں خدمت انجام نہیں دے سکے،اور تقریبا دوسالوں کے بعد جامعہ رحمانی سے علحدہ ہو گئے۔
مدرسہ امدادیہ سے وابستگی
جامعہ رحمانی مونگیر کے بعد آپ مدرسہ رحمانیہ یکہتہ ضلع مدھوبنی چلے گئے،یہ جگہ آپ کو راس نہیں آئی اور چند مہینوں کے بعد وہاں سے واپس آگئے،اور مشہور ادارہ مدرسہ امدادیہ لہریاسرائے دربھنگہ میں بحیثیت استاذ بحال ہوگئے،یہاں آپ نے علم اور دین کی بڑی خدمت کی،آٹھ سالوں تک یہاں آپ نے درس دیا ،علیا درجات کی کتابیں آپ کے سپرد رہیں،آپ نے اپنے درس کا سکہ جمایا،طلبہ آپ کے اسباق میں نہایت دلچسپی اور پابندی سے شریک ہوتے،مدرسہ کے ذمہ دار بھی آپ سے بہت خوش رہتے۔آپ کے علم ودرس کی بڑی تعریفیں ہوتیں۔1969میں آپ نے مدرسہ امدادیہ کو خیر آباد کہ دیا۔
مدرسہ رحمانیہ سوپول سے وابستگی
مدرسہ امدادیہ لہریاسرائے دربھنگہ کو خیر آباد کہنے کے بعد ایک سال گھر پر قیام پذیر رہے۔حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ؒ کی خواہش اور ایما پر 1970میں آپ مدرسہ رحمانیہ سوپول میںآگئے،یہاں آپ نے اردو اور فارسی کے علاوہ حدیث وتفسیر کا درس دیا۔عربی کی ابتدائی درجات سے لے کر دورہ حدیث شریف تک کے طلبہ کو پڑھایا،اللہ تعالی نے افہام وتفہیم کا بہترین ملکہ عطا فرمایا تھا،اردو،عربی اور فارسی تینوں زبانوں پر مکمل قدرت تھی،اپنی صلاحیت،محنت اور ذہانت سے اونچے مقام تک پہنچے،مدرسہ رحمانیہ سوپول کے پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہوئے۔آپ نے اس عہدہ کو وقار کے ساتھ زینت بخشی،یہ وہ دور تھا جب مدرسہ رحمانیہ سوپول کی تعلیم کی شہرت پورے بہار میں تھی،بہار کے اکثر اضلاع کے طلبہ یہاں آکر علم حاصل کرتے،آپ نے نہایت شاندار طریقہ پر ادارہ کی روایت اور تعلیمی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ترقی دی اور آگے بڑھایا۔تقریبا تیس سالوں تک آپ نے یہاں علم وعمل کے جام لٹائے۔2000میں آپ اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔
مدرسہ چشمہ فیض ململ میں
ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ مولانا وصی احمد صدیقی ؒمہتمم مدرسہ چشمہ فیض ململ،مدھوبنی کے اصرار پر تقریبا ایک سال مدرسہ چشمہ فیض ململ اور جامعہ فاطمہ الزہرا ململ میں حدیث اور تفسیر کا درس دیا۔مولانا وصی احمد صدیقی آپ کے خاص شاگردوں میں تھے،اکثر رمضان المبارک کے مہینہ میں عمرہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں دونوں حضرات کی ملاقات ہوتی۔جب مولانا مدرسہ رحمانیہ سے سبکدوش ہو گئے تو مولانا وصی احمد صدیقی نے ان سے حرم شریف میں وعدہ لیا کہ آپ کچھ دنو ں ہمارے یہاں تعلیم دیںاور اس بات پر راضی کر لیا کہ آپ اپنی شرط پر چشمہ فیض ململ اور جامعہ فاطمہ الزہرا ململ کے طلبا و طالبات کو حدیث و تفسیر کا درس دیں۔ آپ پر کوئی پابندی نہیں ہوگی جب چاہیں آپ گھر آجا سکتے ہیں۔2004 سے 2005 تک آپ نے چشمہ فیض ململ میں پڑھایا اور اس انداز سے وہاں رہے اور اس شان سے طلبا و طالبات کو پڑھایا کہ آج بھی سب نام لیتے ہیں۔
گجرات میں شیخ الحدیث
ململ کے بعد گجرات کے مختلف اداروں میں حدیث شریف کا درس دیا ، 2010 میں انکلیشور میں شیخ الحدیث ہوئے اور 2015 تک آپ نے یہاں بخاری شریف کا درس دیا ۔ اس کے بعد مفتی سعید صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اور مفتی اشتیاق صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند کے مشورے سے جامعہ نورالعلوم گٹھامن، پالن پور ، گجرات کے شیخ الحدیث ہو گئے۔ یہاں آپ نے بخاری شریف کے علاوہ حدیث کی دوسری کتابوں کا بھی درس دیا ۔ تین سالوں تک حدیث کی خدمت کی اور طالبان علوم نبوت کو علم حدیث کے اسرار و رموز سے مستفید کیا ۔ اس ادارہ کے ذمہ دار مولانا کا بڑا احترام کرتے اور آپ کے آرام و راحت کا پورا خیال رکھتے ۔ شہر میں آپ کی بڑی قدر و منزلت تھی ۔
درس و تدریس کا ملکہ
بلا شبہ آپ بڑے باکمال عالم دین تھے، افہام و تفہیم کی بے پناہ صلاحیت تھی۔ کتاب کا علم ہونا اور بات ہے اور کتابوں کو پڑھانا وہ بھی اس طور پر کہ طلبہ کی سمجھ میں نفس مسئلہ خوب اچھی طرح آجائے دوسری بات ہے۔مولانا کو اس معاملہ میں مہارت حاصل تھی ، آپ پڑھاتے نہیں تھے بلکہ گھول کر پلادیتے تھے ۔ پیچیدہ سے پیچیدہ عبارت اور دقیق سے دقیق مسئلہ کو اس طرح آسان بنا کر پیش کرتے کہ غبی طالب علم کی سمجھ میں بھی آسانی سے آجاتا۔ مولانا کی عبارت خوانی بھی غضب کی تھی، عبارت ایسی کرواتے کہ نحوی اور صرفی فرق واضح ہوجاتا، لفظوں کی تحقیق اور جملوں کی ترتیب کو دل نشیں انداز میں بتاتے، ایسا محسوس ہوتا کہ الفاظ نئے نئے معنی کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ ایک جملے کو مختلف انداز سے برتنے کا سلیقہ بھی بتلاتے جاتے۔
حدیث و تفسیر کے درس کے دوران ایک ایک جملہ پر مفصل بحث فرماتے، حدیث اور آیت کے ذیل میں اس سے متعلق مسئلوں کی وضاحت کرتے، دوران درس ایسے علمی نکات بیان فرماتے جو عمر بھر کے مطالعے اور کتابوں کے کھنگالنے سے بھی نہیں حاصل ہوتے۔کوئی بھی فن ہو ، کسی بھی قسم کا مسئلہ ہو، آپ اس کی ایسی دل نشیں تشریح کرتے کہ’’ از دل خیزد و بردل ریزد ‘‘کا مصداق ہوتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ مشکل سے مشکل کتاب جسے عموماً اساتذہ پڑھانے سے کتراتے یا گھبراتے ، مولانا اپنے ذمہ لے لیتے اور پھر اس طرح پڑھاتے کہ مشکل کا بھوت سر سے اتر جاتا۔یہ مولانا کا کمال تھا کہ انہوں نے عربی درجات کی ابتدا سے انتہا تک تقریباً تمام فنون کی کتابیں جو درس نظامی میں رائج ہیں پڑھایا۔ طلبہ جب آپ کے درس سے نکلتے تو شاداں و فرحاں نکلتے، انہیں محسوس ہوتا کہ میں نے کچھ پایا ہے،دوسرے لوگ بھی ان کے چہروں کو دیکھ کر محسوس کرتے کہ طلبہ کچھ سیکھ کر درس سے نکلے ہیں ۔مولانا کے پڑھانے کا انداز البیلا اور جداگانہ تھا ، بسااوقات طلبہ کی گوش مالی بھی کرتے اور جزرو توبیخ بھی ۔
عربی زبان و ادب پر عبور
مولانا کو عربی زبان و ادب پر بھی عبور اور درک حاصل تھا ۔ مدرسہ رحمانیہ سپول میں حدیث اور تفسیرکے علاوہ عربی زبان و ادب کی کتابیں بھی مولانا سے متعلق تھیں۔ سبعہ معلقہ اور حماسہ کے بہت سارے اشعار آپ کو زبانی یاد تھے اور دوران گفتگو اس کا برمحل استعمال کرتے تھے۔ مولانا نے ہندو پاک کے علاوہ عرب کے ادیبوں اور شاعروں کو بھی خوب پڑھا تھا ۔ عربی زبان بولنے اور لکھنے پر قدرت رکھتے تھے، عربی اشعار کی ایسی دلچسپ اور دل نشیں تشریح کرتے کہ طبیعت مچل جاتی۔ گوکہ مولانا نے عربی زبان میں مقالات و مضامین کم لکھے لیکن مولانا کو اس کی اچھی استعداد تھی ۔
حدیث و تفسیر پر عبور
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی زندگی کا بیشتر حصہ حدیث و تفسیر کی خدمت میں بسر ہوا ۔ حصول علم کے بعد تبلیغ علم سے منسلک ہوجانا خدا کی بہت بڑی نعمت ہے اور وہ بھی علم حدیث اور علم تفسیر پڑھنا اور پڑھانا ہر اعتبار سے باعث خیر ہے ۔مولانا جہاں بھی رہے ، جس ادارے سے بھی منسلک رہے حدیث اور تفسیر کی کتابیں پڑھاتے رہے۔ طویل تدریسی تجربات کی بنیاد پر مولانا کو اس فن میں مہارت حاصل ہو گئی تھی۔ جب حدیث شریف کا درس دیتے تو گویا علم و فن کے موتی رولتے، مولانا کی زبان نہایت صاف ، سلیس اور رواں تھی۔ ایک رو اور تسلسل میں پڑھاتے تھے ، پورے وقار اور تمکنت کے ساتھ ۔
ادبی و شعری ذوق
گرچہ مولانا کی شہرت عر بی ادب اور حدیث و تفسیر کے کامیاب استاذ کی حیثیت سے تھی لیکن سچی بات یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کے معاملے میں بھی مولاناکم نہ تھے۔ زبان و بیان پر گرفت بڑی مضبوط تھی، کون سا لفظ کہاں استعمال کرنا ہے اس کا ہنر خوب معلوم تھا ،یہی وجہ ہے کہ مولانا کی تقریر ہو یا تحریر سننے یا پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاکہ بات دلوں میں اترتی چلی جا رہی ہے۔ مولانا نے اردو کے بڑے بڑے ادیبوں کو پڑھا تھا ۔ مرزا غالب اور علامہ اقبال کے اشعار نوک زبان رہتے اور جب جیسا موقع و محل ہوتا استعمال کرتے۔ غالب اور اقبال کے اردو اور فارسی اشعار کی ایسی عمدہ تشریح کرتے کہ طبیعت باغ باغ ہو جاتی ۔ اگر ان کی مجلس میں اہل علم و ادب موجود ہوتے اورطبیعت میں نشاط ہوتی توشعر و شاعری اور ادب کی ایسی بحث چھڑتی کہ اہل محفل خوب محظوظ ہوتے۔ مولانا اپنی ادبی گفتگو سے مجلس کو گلزار بنائے رکھتے تھے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ مولانا کے مطالعہ میں اردو کے بڑے بڑے مزاح نگار بھی تھے ۔ رشید احمد صدیقی ، پطرس بخاری ، کنہیا لال کپور وغیرہ پر جب گفتگو ہوتی تو نہایت جامع تبصرہ کرتے۔ ایک موقع پر انہوں نے مجھے پطرس بخاری کے ایک مزاحیہ مضمون پر ایسا قیمتی نوٹ لکھوایا کہ پڑھنے کے بعد لگتا تھا کہ کسی بڑے ادیب اور ناقد نے لکھا ہے ۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ مولانا سخت مزاج ہونے کے باوجودبھی مزاح فرمایا کرتے تھے،ان کی طبیعت میںمزاح کا عنصر پایا جاتا تھا ،گفتگو پر لطف اور پرمزاح ہوا کرتی تھی۔
مولانا نہ صرف یہ کہ شعرفہمی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے بلکہ انہیں شعرگوئی کا بھی ملکہ تھا، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے شاعری بہت کم کی۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر فہمی اور شاعری کا ذوق تھا۔ جب دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے اس وقت مولانا حسین احمد مدنی کے انتقال پر انہیں منظوم خراج عقیدت پیش کیا، جو الجمعیہ کے خصوصی شمارہ ’’شیخ الاسلام نمبر‘‘ میں شائع ہوا۔ جب کبھی طبیعت میں نشاط ہوتی تو کچھ اشعار کہہ دیتے ،لیکن انہوں نے اس کو لکھنے اور شائع کرنے کا اہتمام کبھی نہیں کیا۔ اگر مولانا اپنے اشعار کو نوٹ کرتے تو شاید اشعار کا ایک بڑا حصہ جمع ہوجاتا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ادب اردو میں ان کو زبان وبیان پر بڑی قدرت تھی۔ آپ بڑے نکتہ رس ادیب تھے۔ اگر مولانا کی دلچسپی اورمشغولیت کا محور صرف شعرو شاعری ہوتا تو پایہ درجہ کے شاعر ہوتے۔ لیکن آپ نے اس جانب کبھی توجہ مبذول نہیں کی۔والد محترم جناب عبد السلام صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا نے شاعری کا بہترین ذوق پایا تھا،ابتدائی دنوں میں اشعار کہا کرتے تھے،انہوںنے مولانا کا یہ شعر سنایا،ملاحظہ ہو:
وطن آسودہ کیا سمجھے مشقت راہ غربت کی
یہ ان سے پوچھئے جن کو سفر میں شام ہو جائے
اسلوب تحریر
مولانا کا اسلوب اور طرز تحریر سلیس اورشگفتہ تھا۔ مشکل اور دقیق زبان سے احتراز کرتے، یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مشکل تحریر لکھنا آسان ہے، لیکن آسان تحریر لکھنا بہت مشکل ہے۔ مولانا اس مشکل فن سے خوب اچھی طرح آگاہ تھے۔ آپ کی تقریر اور تحریر دونوں میں بہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔آپ وہی زبان استعمال کرتے جو سامع کے لئے قابل فہم ہوتی۔ آپ کی تقریر و تحریر کا یہ امتیاز بلکہ اختصا ص ہے کہ زبان ایسی استعمال کرتے جو عام انسان کی فہم سے اوپر نہ ہو تی ا ور اہل علم و ادب کے معیار سے نیچے نہ ہوتی۔
یہ ضرور ہے کہ مولانا نے کم لکھا اور باضابطہ تصنیف و تالیف کی جانب توجہ نہیں دی، تدریسی اور تنظیمی مشغولیتوں نے اس جانب فارغ ہوکر کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے جو کچھ بھی لکھا وہ ادبی لحاظ سے گراں قدر ہے۔ آپ کی تحریر و تقریر پر مولانا سیدمنت اللہ رحمانی امیرشریعت رابع رحمۃ اللہ علیہ کی گہری چھاپ ملتی ہے۔ آپ امیر شریعت کے تربیت یافتہ اورفیض یافتہ ہیں۔ حضرت امیرشریعت رابعؒ کی زبان نہایت آسان اور نہایت معیاری ہوا کرتی تھی اور آپ لوگوں آسان زبان میں لکھنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ اپنے زیر تربیت افراد سے باضابطہ اس کی مشق کرواتے تھے۔ مولانا ہارون الرشید صاحب کو حضرت امیر شریعت سے گہری عقیدت تھی اور بہت دنوں تک ان کی صحبت میں رہے، سفروحضر میں بھی ساتھ رہے۔ حضرت مولانا خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے مربی حضرت امیرشریعت ہمیشہ آسان زبان استعمال کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ حضرت امیرشریعت رابع رحمۃ اللہ کے حکم سے آپ نے نقیب کے لئے’’اللہ کی باتیں‘‘ کاکالم لکھا کرتے تھے۔ 1961 سے 1962 تک مسلسل دو سالوں تک آپ نے یہ کالم لکھا۔ یہ مضامین مرتب ہوکر ’’آداب زندگی‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں منظر عام آچکا ہے۔ مولانا کی تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’زندگی محض کھانے کمانے اور دنیا کی بوالعجیبوں میں وقت گنوانے کا نام نہیں۔ بلکہ زندگی ایک حقیقت ہے، جو اپنے پیچھے ایک مقصد عظیم رکھتی ہے۔ جس کو سامنے رکھ کر ایک کامیاب، صالح اورامن و سکون کی زندگی گذاری جاسکتی ہے اور جس کو بھلاکر زندگی کی حسین حقیقت کو خواب و سراب کی طرح بے حقیقت اور خیالی بنایا جاسکتاہے۔‘‘
یہی زندگی مسرت یہی زندگی مصیبت
یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ
نقیب کے علاوہ الجمعیۃ دہلی، تذکرہ دیوبند، ماہنامہ حنفیہ لاہور وغیرہ کے لئے بھی آپ نے مضامین لکھے۔ مضامین لکھنے کا ذوق طالب علمی کے زمانے سے تھا، طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کے مضامین اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے تھے۔
تقریر و خطابت
مولانا بہترین مقرر اور خطیب تھے۔ جب خطاب فرماتے تو سامعین کے دلوں کو مسحور کرلیتے، وہ تقریر کیا کرتے موتی رولتے تھے۔ آغا شورش کا شمیری نے ایک جگہ لکھا ہے :
’’تقریر کا ملکہ تووہبی ہی ہوتا ہے، لیکن تقریر محض ملکہ ہی نہیں، تقریر نام ہے مواد کا اورمواد سب کا سب کسبی ہوتاہے، جو شخص خالی الذہن ہوگا تقریر کا ملکہ رکھنے کے باوجود بھی کبھی خطیب یا مقرر نہ ہوسکے گا۔ تقریر علم چاہتی ہے اور لحظہ علم سے جوان ہوتی ہے۔ پھر تقریر محض علم ہی نہیں اس کوزبان کی ضرورت ہے اور علم و زبان کا خطاب میں ڈھلنا اوصاف بالا کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘
امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا تقریر کے متذکرہ بالا اوصاف سے متصف تھے۔ مولانا کا شمار بہترین خطیبوں میں ہوتا تھا۔ خطابت کے لئے دور دراز علاقوں میں مدعو کئے جاتے تھے۔ ریاست بہار کے باہر متعدد ریاستوں میں آپ نے اپنی تقریر کے جلوے بکھیرے ہیں۔ پیشہ ور مقرروں کی طرح آپ کی تقریرگھن گرج اور چیخ و پکار سے پاک ہوتی، لہجے کا زیرو بم اور الفاظ کا اتار و چڑھاؤ مناسب انداز میں کرتے۔ تسلسل کے ساتھ گفتگو کرتے، موضوع کی رعایت کرتے، آپ نے اپنی تقریروں سے کتنوں کی اصلاح کی، بدعات و خرافات کا قلع قمع کیا،کتنی برائیوں سے لوگوں کو دور کیا۔ آپ ہر موضوع پر تقریر کی صلاحیت سے بہرہ مند تھے۔ موقع، محل اور حالات کے مطابق موضوع کا انتخاب کرتے اور دکھتی نبض پرہاتھ رکھتے۔ آپ نے اپنی تقریروں سے سماجی اصلاح کا بڑا کام لیا اور اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کمال عطا فرمایا تھا۔ ان کی تقریروں میں گہرے مطالعہ اور علم کا عکس نمایاں ہوتا۔ آپ میںجامعیت کے ساتھ سامعین کے دلوں پر اثر انداز ہونے کی پوری خوبی تھی۔
ملی اور تنظیمی خدمات
بنیادی طور پر آپ ایک بافیض استاذ تھے اور پوری زندگی مدرسہ میں قال اللہ اور قال رسولؐ کی تعلیم دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ملی و تنظیمی خدمات سے بھی منسلک رہے۔ آپ کے اندر قومی و ملی خدمات کا جذبہ تھا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاسیسی اجلاس میں امیرشریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے ہمراہ شریک ہوئے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے پیغام کو عام کرنے کے لئے امیرشریعت رابعؒکے حکم و ایما سے مختلف شہروں کا دور کیا ،جب یکساں سول کوڈ کے خلاف مسلم پرسنل لابورڈ نے تحریک چلائی تو اس میں سرگرم حصہ لیا۔ بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ،پٹنہ اور بہار مدرسہ ایجوکیشن بوڈ،پٹنہ کے ممبر رہے۔ امارت شرعیہ سے بڑا مضبوط اور گہرا رشتہ تھا،مجلس شوری کے ممبر تھے، آپ امارت شرعیہ کی فکر و تحریک کو پروان چڑھانے میں پیش پیش رہتے تھے۔
سیاست اور حالات حاضرہ سے آگاہی
حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب بابصیرت اور دوراندیش عالم دین تھے۔ مدرسہ کی چہار دیواری میں رہتے ہوئے بھی قومی اور عالمی حالات سے کبھی بے خبر نہیں رہے۔ سیاست اور حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ جس طرح مولانا امور دین سے واقف تھے اسی طرح امور دنیا سے آگاہ تھے۔ گرچہ انہوں نے عملی سیاست سے ہمیشہ کنارہ کش رہے لیکن سیاست کی باریکیوں کو خوب اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی سیاسی بازیگری کے شکار نہیں ہوئے۔ حالات حاضرہ اورسیاست پر جب گفتگو کرتے تھے تو اچھے اچھوں کو پسینہ چھوٹ جاتا۔ حالات و واقعات پر نظر رکھتے، اس کاتجزیہ کرتے، اس پر اپنی رائے دیتے اور تبصرہ کرتے۔ مولانا اقبال کی شاعری کے بڑے مداح تھے۔ وہ اقبال کے اس شعرکے مصداق تھے۔
جدا ہو دین سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی
مطالعہ کا شوق
مولانا مطالعہ کے رسیا تھے، جب بھی وقت ملتا مطالعہ میں مشغول ہوجاتے۔ نئی نئی کتابوں کے بارے میں معلوم کرتے رہتے تھے، جب کوئی نئی کتاب آتی تو اسے خرید کر مطالعہ کرتے۔ مطالعہ کی یہ عادت سفر و حضرمیں یکساں قائم رہتی۔ سفرمیں بھی مطالعہ کرتے، مطالعہ کی عادت نے علم میں گہرائی و گیرائی پیدا کی۔ عمر کے آخری ایام میں بھی مطالعہ کا ذوق و شوق اسی طرح برقرار تھا۔ خالی بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے جو بھی وقت ملتا مطالعہ میں صرف کرتے۔ مطالعہ کی وسعت نے علم میں جمال اورنکھار پیدا کردیا تھا۔ اردو ، عربی اور فارسی تینوں زبانوں کی کتابیں آپ کے مطالعے میں رہتی تھیں۔ آپ کی گفتگو اور تقریر وسیع مطالعہ کا پتہ دیتی۔
اخبار بینی کا ذوق
اخبار بینی کا ذوق آپ کو طالبعلمی کے زمانے سے تھا۔ آپ اخبار میں لکھتے بھی تھے اور پابندی سے اخبار کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ آپ جہاں رہے اخبار آپ کے مطالعہ میں ضرور رہا، اخبار کا اداریہ ضرور پڑھتے، فرمایا کرتے تھے، اداریہ سے اخبار کی پالیسی کا پتہ چلتاہے۔ جب آپ گجرات میں تھے، اس علاقے میں اردو کا اخبار نہیں آتا تھا ،آپ دوسرے شہرسے اخبار منگواتے تھے۔ جمالپور میں بھی اخبار پابندی سے نہیں آتا ہے، آپ سپول یا دربھنگہ آنے جانے والوں سے اخبار منگواتے۔ ایک وقت تھا جب بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے قصبات اور گاؤں میں اخبارات نہیں پہونچا کرتے تھے اس وقت آپ ریڈیو رکھتے تھے اور پابندی سے نیوز سنا کرتے تھے ۔ اخبار بینی کا یہ عالم تھا کہ جب تک آپ ہوش و حواس میں رہے اخبار پڑھتے رہے۔
غیر ممالک کے اسفار
مولانا نے کئی ممالک کا دعوتی و علمی سفر کیا۔سعو دی عرب،عمان ،شارجہ،ابو ظہبی،صنعاء،پاکستان کا دورہ کیا۔پاکستان کے سفر میں حضرت مولانا رفیع احمد عثمانی کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی۔صنعاء کے سفر کے دوران اصحاب کہف کے غار پر حاضری کی سعادت ملی،بیت المقدس جانے کی بڑی خواہش تھی لیکن موقع نہیں مل سکا۔28سالوں تک مسلسل عمرہ کا سفر کیا۔آپ اپنے اسفار کے دلچسپ حکایات اور واقعات بیان کرتے،سفر کے تجربات اور مشاہدات سے دوسروں کو مستفید کرتے۔
مزاج و انداز
مولانا خاص مزاج و انداز کے انسان تھے۔ ان کا اپنا رکھ رکھاؤ تھا، اپنا تیور تھا، بڑے سخت مزاج تھے۔ جلال کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے لوگ سنبھل کر ان سے گفتگو کرتے تھے۔ مزاج کے خلاف کوئی بات قطعاً برداشت نہیں کرتے تھے اور اس میں اپنے اور پرائے کا کوئی خیال نہیں کرتے تھے۔ ان کے مزاج کی وجہ سے لوگ کھل کر یا بے تکلف ہوکر بات چیت نہیں کرپاتے تھے۔ دوسری جانب ان کی شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ اپنے سے کم تر کو بھی برتر سمجھتے تھے اور ان کا بڑا احترام کرتے، بلکہ بسااوقات اپنے عزیزوں کے احترام میں اس قدر کسرنفسی کا مظاہر ہ کرتے کہ سامنے والے کو خجل ہونے لگتی۔ مولانا نے عجیب وغریب مزاج پایا تھا، پل میں تولہ اور پل میں ماشہ۔مزاج و انداز کا یہ تغیر حلقہ ارادت مندوں کو قریب ہونے میں مانع ہوتا اور شایدمزاج ہی کی وجہ سے انہوں نے دوسروں سے الگ اپنی راہ پکڑی۔ بڑی عجیب شخصیت تھی ان کی۔ موم سے زیادہ نرم اور لوہے سے زیادہ سخت، بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
بے باکی و صاف گوئی
مولانا بڑے بے باک اور صاف گو تھے، جس بات کو حق بجانب سمجھتے تھے اسے ڈنکے کی چوٹ پرکہتے تھے۔ خواہ سامنے والا کوئی ہو، آپ نہ تو کسی کی دھونس سے ڈرنے والے تھے اور نہ ہی کسی کے رعب سے متاثر ہونے والے تھے۔ ان کی بے باکی اور حق بیانی مشہور رہی ہے۔ آپ نہایت جری ،بے باک اور حالات سے ٹکڑلینے والے تھے۔ اقبال کا یہ شعر آپ پر صادق آتاہے:
آئین جو اں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
مہمان نوازی
آپ بڑے مہمان نواز تھے،دسترخوان بڑا وسیع تھا، مہمانوں کی ضیافت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ خود سے ضیافت کرتے، خواہ مہمان کوئی ہو۔ آپ کے غائبانہ میں بھی کوئی آتا تو اس کی ضیافت ہوتی۔ کوئی مسافر یاراہ گیر دروازہ پر قیام کرتا توآپ اس کو اپنامہمان بنالیتے۔اخلاق و کردار کے بلند مقام پر فائز تھے۔ اسلام میں اچھے اخلاق کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔آپ کی زندگی بہتر اخلاق و کردارکا مظہر تھی۔ جب کسی سے ملتے تو نہایت شفقت و محبت سے پیش آتے، خیریت دریافت کرتے اور ان کی ضیافت کرتے۔ ضیافت کا یہ عالم تھا کہ جس رات مولانا کا انتقال ہوا ہے اس دن تقریباً دو بجے میں پٹنہ سے دربھنگہ پہونچا اور سیدھے وویکانندہاسپٹل دربھنگہ گیا، جہاں مولانا زیرعلاج تھے، جب میں وہاں پہنچا تو الحمدللہ مولانا ہوش وحواس میں تھے، انہوں نے مجھے پہچان لیا، میںنے کہا کہ پٹنہ سے آپ کی عیادت کے لئے آیا ہوں۔ یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے صاحبزادے مولانا سفیان احمد سے کہا کہ مولانا کی ضیافت کراؤ۔ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص اللہ اور روزقیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمانو ں کی ضیافت کرے۔مولانا اس حدیث کے عملی نمونہ تھے۔ ضیافت میں کبھی جانے انجانے اور اپنے پرائے کا خیال نہ کرتے بلکہ ہرایک کی ضیافت کرتے۔
ورع و تقویٰ
آپ کی شخصیت ہشت پہلو تھی، متنوع خصوصیات و امتیازات کے مالک تھے۔ تقویٰ و طہارت، کسرنفسی اورتواضع کی مثال تھے۔ جوکام کرتے محض اللہ کے لئے، آپ کی دوستی اور دشمنی محض اللہ کے لئے ہوتی، الحب للہ وبغض للہ۔ آپ تہجد گذار بھی تھے، رات کو اللہ کے حضور گراگرانے والے اور رونے والے تھے، نماز باجماعت کا اہتمام کرتے، عمر کے آخری سال میں بھی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نمازپڑھتے، حالانکہ آپ کو آرام کی ضرورت ہوتی اور چلنے پھرنے میں دشواری ہوتی پھر بھی آپ جماعت کا اہتمام کرتے۔ مسجد میں کبھی کسی کو خلاف شرع کام کرتے دیکھتے تو فوراً ٹوکتے، اسے شرعی مسئلہ بتلاتے، جب آپ دیکھتے کہ گاؤں اور سماج میں کوئی نیا مسئلہ چل نکلا ہے اور وہ خلاف شرع ہے تو آپ اس موضوع پر تقریر کرتے اور لوگوں کو اصل مسئلہ بتاتے۔ شریعت کے معاملے میں آپ کسی سے سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔، شہرت و ناموری سے دور رہتے، زبان ذکراللہ سے تر رہتی، یہ اللہ والوں کی نشانی ہے۔
خواتین کی تعلیم پر زور
آپ خواتین کی تعلیم کے پُر زور داعی اور مبلغ تھے۔ اکثر اپنی تقریروں میں لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کراتے تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ ماں کی گود بچوں کا پہلا مکتب ہے۔ اس لئے عورتوں کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ اگر ماں پڑھی لکھی، تعلیم یافتہ اور مہذب ہوگی تو بچوں کی پرورش و پرداخت بہتر طور پر کرسکتی ہے۔ بچہ سب سے پہلے اپنی ماں سے سیکھتا ہے۔ اگر وہی جاہل اور ان پڑھ ہوگی تو بچہ کیا سیکھے گا۔ اسلام نے حصول تعلیم کے سلسلے میں مرد و عورت کے درمیان کوئی تفریق روا نہیں رکھی ہے۔ دونوں شریعت کے مکلف ہیں اور دونوں کے لئے دین کا بنیادی علم سیکھنا ضروری ہے۔ اس تعلق سے آپ ہمیشہ فکر مند اور کوشاں رہا کرتے تھے۔
مدرسہ رحمانیہ نسواں کا قیام
اسی جذبے کے تحت آپ نے اپنے گاؤں جمالپور، ضلع دربھنگہ میں مدرسہ رحمانیہ نسواں قائم کیا جو لڑکیوں کی دینی تعلیم کا معیاری ادارہ ہے۔ ہمارے معاشرہ میں خواتین کو تعلیم دلانے کا رجحان کم ہے۔ الحمدللہ اب مسلم معاشرہ بیدار ہورہا ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے۔ ۱۰؍محرم ۱۴۱۵ھ کو آپ نے مدرسہ رحمانیہ نسواں کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے میں حفظ قرآن پاک، دینیات، صنعت و حرفت کی تعلیم اور بچیوں کو امورخانہ داری کی تربیت دی جاتی ہے۔ بڑی تعداد میں لڑکیاں یہاں سے تعلیم حاصل کرکے نکل چکی ہیں۔ جب مدرسہ رحمانیہ نسواں قائم ہوا تھا اس وقت پورے علاقے میں لڑکیوں کی دینی تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ اللہ کے فضل سے اس ادارے نے بڑی حد تک اس کمی کو پورا کیا ہے۔ اب یہ ادارہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ لڑکوں کی تعلیم کے لئے آبادی سے دور تعلیم القرآن کے نام سے ایک عمارت قائم کی گئی ہے جہاں طلباء کو حفظ قرآن اور دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آپ اس ادارے کے بانی اور ناظم تھے۔ اس وقت آپ کے صاحبزادے مولانا سفیان احمد اس ادارہ کو چلارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تعلیم کے اس باغ کو لہلہاتا رکھے۔(آمین)
خصوصی احوال
مولانا کی جہد مسلسل سے عبارت زندگی کئی جہتوں پرمحیط ہے اور ہرجہت فکر و عمل کی شمع سے روشن ہے۔ آپ صاحبِ نظرعالم دین تھے، باکردار انسان تھے، دوراندیش اور روشن ضمیر تھے، انہوں نے بڑی جدوجہد کی، بڑی مشقتیں برداشت کیں، اللہ تعالیٰ نے اس کا بہترین بدلہ دیا، دین و دنیا دونوں سے نوازا۔ پانچ بار زیارت بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ 2008 ء میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کیا۔28سالوں تک مسلسل عمرہ کیا۔
مولانا سفر سے گھبراتے نہیں تھے بلکہ ان کو سفرسے انس تھا۔ پیرانہ سالی میں بھی سفر کرتے، مولانا کو دیکھ کر ہم جیسے جوانوں کو ان پر رشک آتا۔ سفر میں اپناسامان خود اٹھاتے، دوسروں کا احسان لینے سے بچتے، مزاج میں استغنیٰ تھا، دل میں کشادگی تھی، فکر میں بلندی تھی، نظرمیں جمال تھا، چہرہ پر جلال تھا، چال میں وقار تھا، گفتگو میں تاثیر تھی، لباس میں سادگی تھی، علم میں گہرائی تھی، عمل میں مواظبت تھی،خود ستائی سے نفور تھا، علم و عمل کے پیکر تھے، تہذیب و شرافت کے علم بردار تھے، سلف صالحین کی یادگار تھے۔
ڈھونڈوں گے ہمیں ملکوں ملکوںملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

Dr. Noorus Salam Nadvi
Diamond Lodge, Sabzi Bagh,
Bankipur,Patna-800004
Email : [email protected]

Comments are closed.