Baseerat Online News Portal

حق مغفرت کرے۔۔۔۔۔

(مفتی اعجاز ارشد قاسمی کی وفات پربعجلت لکھی گئی تحریر)
ڈاکٹرابراراحمداجراوی
وہی ہوا جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا، وہی خبر وحشت اثر کانوں سے ٹکرائی جس کو سننے کے لیے نہ دل تیار تھا اور نہ آنکھیں جس کو سن کر اشکوں کا نذرانہ پیش کرنے کی تاب رکھتی تھیں۔ بیس برسوں کا ساتھ چھوٹ گیا، یادوں باتوں کا سلسلہ تھم گیا،متحرک و نوجوان مفتی اعجاز ارشد قاسمی بھی ابدی نیند سوگئے اور اس جہاں کے مستقل باسی ہوگئے جہاں ہم سب کو جانا ہے۔
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
ایک دن پہلے ۱۶؍اپریل کومفتی صاحب کی علالت کی خبر ملی اور اگلے ہی دن علالت و مرض کے سارے مرحلے طے کرکے وہ خالق حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے، دنیا کے ہر کام کی طرح انھوں نے یہاں بھی عجلت کی،بے باک اور بے خوف نہ خودرکے اور جھجکے ، نہ دوسروں کو انتظارو استقبال اور عیادت و مزاج پرسی کی مہلت دی اور ساعتوں میں برسوں کا سفر مکمل کرلیا۔موت کی خبر سن کر دل کو سخت دھکا لگا، اعجاز عرفی صاحب نے بتایا تو میرا کلیجہ پھٹ گیا، ایسا لگا کہ جیسے مفتی صاحب نہیں، میں خود مرچکا ہوں، بالکل سن ہوگیا،سانسیں تھم گئیں، رگوں میں خون منجمد ہوگیا، کاٹو تو خون نہیں،کئی روز سے بیمار ہونے کے باوجود اٹھ کر بیٹھ گیا، واٹس ایپ آن کیا تووفات اور تعزیت کا ایک سلسلہ تھا،ارے یہ کیا ، آج ہی تو فیس بک پر ان کی علالت اور صحت یابی کے لیے ہم نے پوسٹ لگائی تھی اور آج ہی یہ خبر۔۔۔۔۔۔کلیجہ منہ کو آگیا۔
سوچتا تھا کہ جب دل کو سکون و قرار نصیب ہوگااور غم و الم کے خوف ناک بادل چھٹ جائیں گے تب تفصیل اور ترتیب سے کچھ لکھوں گا، پرانی یادوں کو کریدوں گا اور کچھ کام کی باتیں لکھوں گا، مگر سوشل میڈیا کی دنیا عجیب ہے ، پل بھر میں خبریں گشت کرتیں اور چند ہی ثانیوں میں اپنی افادیت کھو دیتی ہیں، یہاں کوئی چیز تازہ نہیں رہتی،اس مارکیٹ کا ہر سامان باسی ہے، خبریں پل بھر میں اپنی تازگی سے محروم ہوجاتی ہیں، صبح کی خبر شام تو دور کی بات ہے، دوپہر تک آتے آتے فراموشی کی نذر ہوجاتی ہے۔راقم کی طبیعت بھی دوروز سے علیل ذرا معمول سے ہٹی ہوئی تھی، سوچا کہ سر دست مختصر تحریر لکھ کر فیس بکیائی؍سوشل میڈیائی دوستوں کی ضیافت یا ان کی رفع شکایت کرہی دینی چاہیے۔ مفتی صاحب سے( جو جے این یو سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد باضابطہ ڈاکٹر بن گئے تھے)، میرے اتنے گہرے اور قدیم مراسم تھے ،جس کی تفصیل سینکڑوں صفحات کی متقاضی ہے، دیوبند کی ہر گلی نکڑ ، وہاں کی دکانیں ، مہمان خانہ، دار جدید، رواق خالد سبھی پر ان کے تعلقات اور ملاقات کی چھاپ پڑی ہے۔ کبھی مہمان خانے میں گپ شپ تو کبھی ان کے دار جدید والے مختصر حجرہ میں راتوں رات ادھر ادھر کی باتوں میں مشغولیت، کبھی ملکی اور قومی مسائل حاضرہ پر تبادلۂ خیال، تو کبھی مضمون لکھنے لکھانے کی باتیں۔کبھی دیوبند کی سیاست حاضرہ اور دار العلوم کے احوال، طلبہ اور متعلقین کی باتوں پر ہنسی مذاق کی پھلجھڑی، کبھی عصر بعد دار العلوم کے مشرقی جانب ، کھیتوں کی ہریالی میں باتیں کرتے چلے جارہے ہیں۔یہ لیجیے کوئی گھنٹہ خالی ہے تو شعبۂ کمپیوٹر میں آدھمکا، شام کے وقت سعیدیہ کی جلیبی اور چائے نوشی کے مزے، صبح کو بریانی اور تہاڑی کی رنگ برنگی پلیٹیں اڑانے میں مختلف چھوٹے ہوٹلوں اور طعام خانوں کا ساتھ۔ ایک پوری دنیا ہے جس کی تفصیل پھر کبھی۔ان شاء اللہ
میںبشارت العلوم کھرمادربھنگہ میں بھی ان کو دیکھ چکا تھا،میں قرآن شریف کا دور کرہا تھا، وہ عربی درجات میں تھے، ان کے مضامین اور تحریریں قومی تنظیم میں پڑھتا رہتا تھا،وہ عربی پنجم پڑھ کرامیدوں کا مرکز دار العلوم میں داخلہ لے چکے تھے، میں جب دار العلوم گیا تو وہ فارغ ہوچکے تھے، میں ان سے بہت جونیر تھا ، علم میں بھی اور عمر میں بھی، مگر علاقائی یکسانیت کی وجہ سے قربت فطری بات تھی اور جب فراغت کے بعد وہاں کے تخصصات کے شعبوں میں داخل ہوا توزیادہ فراغت نصیب ہوئی اور یہ قربت مزید بڑھ گئی اور لکھنے لکھانے کی جو آگ سرد پڑی ہوئی تھی وہ موقع پاکر بھڑک اٹھی۔ میں دوسروں کی بات نہیںکرتا ، مگر اپنی بیتی سناتا ہوں کہ میرے اندر جو لکھنے پڑھنے کی جو تھوڑی بہت لگن ہے ، یہ آگ لگانے میں انھی کا اہم رول ہے۔بلکہ یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ اس زمانے میں جتنے فضلا اور طلبہ کے اندر لکیریں کھینچنے کا شوق پیدا ہوا، اس کی پشت پر مفتی صاحب کی تحریروں اور ان کی شہرت کا ہی اثر ہے۔ خربوزہ خربوزہ کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے کے مصداق طلبۂ دار العلوم کی ایک بڑی تعداد نے ان کے مضامین اور تحریروں سے متاثر ہوکر لکھنا پڑھنا اور چھپنا چھپانا شروع کیا ہے۔ مراسلہ لکھنا، مضمون تیار کرنا ، پھر اخبارات میں بغرض اشاعت ارسال کرنا یہ سب مفتی صاحب کی تحریروں سے تاثر کا ہی نتیجہ تھا۔شہرت و ناموری حاصل کرنا فطری بات ہے،سبھی کو اپنا نام پکی روشنائی میں دیکھنے اور مضمون نگار بننے کی خواہش ہوتی ہے۔ ہم لوگوں سے وہ بہت سینیراور تحریر کی دنیا میں شہرت کی بلندیوں پر متمکن تھے، ان کے مضامین اور اخبارات میں ان کے مضامین دیکھ کر ہمارے اندر بھی لکھنے اور سیکھنے کی زبردست تحریک پیدا ہوئی اور اس خفیہ جذبے نے وہ شدت اختیار کی کہ ’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی‘۔ ان کے کئی جملے، کئی مرکبات اورکئی شان دار تعبیرات ہم نے مستعار لیں اور اپنی کج مج تحریروں میں ان کا استعمال کیااور ان پر اپنا قبضہ جمالیا۔ ابتدا میںکچھ مضامین اور مراسلات پر ان سے نظر ثانی بھی کرائی، مگر مفتی صاحب خوردوں کی حوصلہ افزائی کے معاملے میں اتنے فراخ دل تھے کہ وہ تحریر میں زیادہ قطع و برید سے گریز کرتے تھے، بس کچی پینسل سے کہیں پر کچھ گھٹا بڑھاکر تحریر جوں کی توں واپس کردیتے تھے۔میرا اردوادب خصوصا عربی کی طرف رجحان تھا اور فراغت کے بعد تکمیل ادب عربی کے شعبے میں داخل تھا، اس لیے تحریر اور رموز املا و اوقاف کے معاملے میں میری باتوں پروہ اعتماد کرتے اور اس کوبلا چون و چرا تسلیم بھی کرلیتے تھے، ان کا مجھ پریہ اعتماد اتنا مضبوط ہوا کہ انھوں نے اپنی پہلی باضابطہ کتاب’ من شاہ جہانم‘ کی پروف خوانی اور نظر ثانی کا کام میرے ہی حوالہ کردیا اور میری تمام اصلاحات کو انھوں نے بسرو چشم قبول کیا اور کتاب جب چھپی تو از راہ شفقت نظرثانی میں میرا نام بھی لکھ دیا۔ یہ بات ہم عصروں میں کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
ان سے دور رہ کر بھی ان کے نزدیک رہا اور کبھی ایسا مرحلہ بھی آیا کہ نزدیک رہ کر بھی دوری کا احساس ستاتا رہا، یہ دنیا انھی عجائبات سے بھری ہوئی ہے اور آدمی کی زندگی انھی تغیرات و انقلابات سے عبارت ہے۔ ان کی زندگی ایک مشن تھی، ان کا ایک وژن تھا،سب سے تعلق رکھنا ، سب سے ملناان کا محبوب مشعلہ تھا، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سبھی کو ساتھ لے کر چلنے میں خواہی نخواہی بہت سے اپنے پیچھے چھوٹ جاتے ہیں، کچھ لوگ بھیڑ کا حصہ بھی تونہیں بننا چاہتے، سبھی کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔کچھ حدوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ان کے ساتھ بھی بارہا ایسا ہوا، انھوں نے پورا ایک قافلہ ترتیب دیا تھا،پورا ایک ہجوم ان کے ساتھ تھا، دیوبند سے لے کر دلی تک ان کی زندگی اسی مردم شناسی اور قافلہ سازی سے عبارت تھی، مگرافسوس کہ یہ قافلہ بنتا اور بکھرتا رہا۔ وہ خود ایک میدان سے دوسرے میدان میں قدم رکھتے رہے، ان کا اس فلسفہ پر یقین تھا کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی،یا یہ کہہ لیں کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں، وہ اسی اصول پر کاربند تھے اور ہر لمحہ ہر پل نئی نئی اسکیمیں تیار کرتے، نئے نئے پروگرام ترتیب دیتے اور ساتھیوں کو اپنا ہم نوا میں دل و جان سے لگے رہتے تھے۔ دیوبند میں رہے تو اسلامک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نام کی تنظیم بنائی، جو شروع میں بہت متحرک رہی، اس کے پلیٹ فارم سے مدھوبنی ضلع میں کئی کام یاب پروگرام بھی ہوئے،بی جے پی کے عہد حکومت میںمسجد کے خلاف بننے والے سیاہ قانون کے خلاف پر امن احتجاجی مارچ اور کل ہند مقابلۂ مصمون نویسی کا انعقاد اور اعزازات وانعامات کی تقسیم ،زیرو مائل مدھوبنی کے صحن مسجد میں تقریری مقابلہ،یہ تینوں پروگرام تو ہر خاص و عام کے ذہنوں کی اسکرین پر ثبت ہوں گے،یوں تو اس تنظیم نے کئی معرکے عبور کیے، اس نو مولود اور کم عمر تنظیم کے یہی دو تین اہم کارنامے ہیں، جن سے ناچیز واقف رہا ہے، مگر اللہ جانے کیا ہوا کہ کم عمری میں ہی اس تنظیم کو بھی گہن لگ گیا، یہ زیادہ دنوں تک سرگرم نہ رہ سکی، اسباب و وجوہ بہت ہیں اور یہاں اہل نظراور اہل علم کی محفل ہے، کچھ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں،اس تنظیم کے سکریٹری غفران ساجد صاحب نے لکھا ہے اور مزید تفصیل سے لکھنے کا انھوں نے وعدہ بھی کیا ہے،اس لیے اس قضیہ کو یہیں چھوڑتا ہوں،مفتی صاحب دیوبند کی صبح و شام کو الوداع کہا اوردلی گئے تو وہاں ایک نئی تنظیم اسلامک پیس فاؤنڈیشن کی داغ بیل ڈالی، میں دیوبند میں بھی ان کے شانہ بشانہ رہا، کئی مشوروں اور نشستوں میں شامل رہا، اور کچھ عرصہ توقف کے بعد دلی میں بھی وہی رفاقت کا عہد بہار لوٹ آیا، مگر ناچیز چوں کہ تنظیمی اور تحریکی عہدوں سے ادور بھاگتا ہے، اس لیے کبھی عہدہ و منصب کی لالچ نہ رہی اور نہ ہی کبھی طلب، دونوں تنظیموں میں سے کسی میں بھی میں رسمی طور پر شامل نہ رہا، حالاں کہ میرا مزاج بھی ذرا تحریکی رہا ہے، اس لیے دونوں تنظیموں کے پلیٹ فارم سے منعقد ہونے والے پروگرام اور سیمنار میں آزادنہ طور پر ہر طرح شریک رہا اورمفتی صاحب کی خواہش پر اپنا مقدور بھر تعاون بھی پیش کرتا رہا۔
مرحوم کے انتقال سے تحریکی اور تنظیمی میدان میں ایسازبردست خلا پیدا ہوگیا ہے، جس کی تلافی بہت مشکل ہے، اس دور قحط الرجال میں وہ حرکت وعمل کی قابل رشک تصویر تھے، انھوں نے تحریک و تنظیم، تصنیف و تالیف، جس میدان میں بھی قدم رکھا بہت جلد اپنی شناخت قائم کرلی۔ ان سے میرے تعلقات کی عمر سال دو سال نہیں پورے بیس سال ہے، وہ دیوبندمیں ہمارے سینئیر تھے اور جب ہم نے ۲۰۰۰ء میں دار العلوم دیوبند کے درجۂ ششم میں داخلہ لیا تھا، شاید اسی سال سال یا اس کے کچھ ماہ بعد وہ اپنی مادر علمی دار العلوم دیوبند لوٹ آئے تھے اور وہاں کے شعبۂ کمپیوٹر میں نگراں کے طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے، مگر جب انھوں نے عصری تعلیم کے لیے دلی کی جامعات کا رخ کیا تو پھر ہم دونوں کلاس میٹ رہے۔گریجویشن ساتھ ہی کیا، بی اے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے مکمل کرنے کے بعد وہ ایم اے کرنے کے لیے دلی یونی ورسٹی چلے گئے، مگر جب پی ایچ ڈی کے لیے انھوں نے جے این یو میں داخلہ لیا تو پھر ہم دونوں کی پرانی رفاقت از سر نو بحال ہوگئی،عنوان کی تلاش و تعیین،گائیڈ کا انتخاب، پی ایچ ڈی کی خاکہ سازی اور مواد کی تحصیل سے لے کر مقالہ جمع کرنے تک یہ رفاقت برقرارر ہی اور ہم دونوں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی ایک ساتھ ہی دی گئی۔ مرحوم کو مبدأ فیاض نے ذہانت و فطانت کے ساتھ بے انتہا مقبولیت اور ہر دلعزیزی کی دولت سے بہرہ ور کیا تھا، وہ جس مجلس میں جاتے اور جس سے بھی ملتے ،کسی بھی مذہب یا مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا ہوتا، وہ مسلم ہوتا یا غیر مسلم، دین دار ہوتا یا دین بے زار، عالم ہوتا یا تاجر ان کی شخصیت کی رعنائی، چہرے کی زیبائی اور طرز تکلم کا گرویدہ ہوجاتا اور یہ رشتہ اٹوٹ بن جاتا تھا۔ وہ دار العلوم دیوبند سے علاحدگی کے بعدمستقل طور پر دلی میں مقیم ہوگئے تھے اور پیس فاؤنڈیشن آف انڈیا کے پلیٹ فارم سے تحریکی اور ملی کاموں میں کافی سرگرم تھے، اس دوران انھوں نے مختلف سیاسی رہ نماؤوں سے بھی مستحکم تعلقات قائم کرلیے تھے، ہر سیاسی پارٹی سے ان کا رشتہ بہت خوش گوار تھا، خاص طور سے کانگریس پارٹی کے رہ نماؤوں سے ان کی بہت اچھی بنتی تھی، دلی کی سابق وزیر اعلی آں جہانی شیلا دیکشت سے کافی قریب تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ ان کے عہد حکومت میں نہ صرف دلی حکومت کے سرکاری سہ لسانی میگزین’دلی‘کے کئی سال تک جز وقتی ایڈیٹر رہے، بلکہ وہ دلی وقف بورڈ کے مؤقر رکن بھی رہے اور وقف بورڈ کے پلیٹ فارم سے مساجد اور ائمۂ مساجد کے مسائل کے حل کے لیے مستحسن خدمات انجام دیں۔مدھوبنی سے لے کر دیوبند اور پھر دلی تک ان کے ساتھ ملاقات، تعلقات اور بات چیت کا ایک طویل سلسلہ ہے،یادوں کی طلسماتی اور تحیر خیز دنیا ہے، جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
میں جب تک جے این یو میں رہا، ان سے تعلقات کی باد بہاری چلتی رہی، وہ جے این یو میں CIL کے شعبۂ اردو میں رجسٹرڈ تھے، مگر جے این یو میں پڑھنے پڑھانے کا انداز مدرسی اندازکا نہیں ہے۔یہ ایک عالمی دانش گا ہ ہے، جس میں ہر وقت علم و ادب کے خوش گوار جھونکے چلتے رہتے ہیں، اس مے خانے میں جس کا جی چاہے جی بھر کر جام لنڈھائے اور جو چاہے عیش و عشرت کی داد دے اور موج مستی کرے۔اپنا مستقبل آباد کرلے یا اپنی دنیا برباد کرلے،یہاں کوئی روک ٹوک نہیں۔ کوئی پابندی اور دار و گیر نہیں۔ ایک کھلا ماحول اور ایک کھلی فضا اس یونی ورسٹی کا نشان امتیاز ہے۔ یہاں نہ حاضری کی پابندی ہوتی ہے اور نہ کلاس میں صد فی صد شرکت کی۔ مفتی صاحب چوں کہ ایک کثیرالعلائق اور کثیرالمشاغل آدمی تھی، اسی لیے بہت مصروف رہا کرتے تھے، انھیں علم و ادب کی جرعہ نوشی کے ساتھ سیاست اور تحریک کے میدان کی بھی پیمائش کرنی تھی، اس لیے انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر اس یونی ورسٹی کا انتخاب کیا تھا، تاکہ باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی ، پی ایچ ڈی بھی مکمل ہوجائے اورکھل کر میدان سیاست میں طبع آزمائی کا بھی موقع ملتا رہے۔ سو انھوں نے جے این یو کے اس پانچ چھہ سالہ عرصہ کا خوب اور جی بھرکر استعمال کیا، کبھی مہینہ دو مہینہ میں جی میں آیا توگھومتے پھرتے چلے آئے ،اساتذہ سے ملاقات کرلی،دیوبند اور علاقے کے دوستوں کے ساتھ محفل جمالی، لگے ہاتھوں اسکالر شپ والا فارم بھردیا اور باقی کا کام ناچیز ہی کردیتا۔میں اسکالر شپ والا فارم پر ان کے گائیڈ خواجہ محمد اکرام الدین سے دست خط کراتا اور ایڈمن بلاک میں جاکر جمع کردیتا اور ہفتہ عشرہ میں روپیہ ان کے اکاؤنٹ میں کریڈٹ ہوجاتاتھا۔ وہ فور وہیلر سے آتے تھے، اس لیے ادھر ادھر دفاتر کا چکر کاٹنے میں بڑی آسانی رہتی تھی، یوں بھی جے این یو پورا ایک جنگل ہے، ایک دفتر سے دوسرے دفتر جانے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ مفتی صاحب کی کار اس مرحلے کو آسان بناتی تھی۔ وہ خود گاڑی ڈرائیو کرتے تھے اور پچھلی سیٹ پر اکثر میں اور ڈاکٹر عبد الرحمن قاسمی بیٹھتے تھے۔ میں تو ذرا شرمیلا قسم کا آدمی ہوں، اس لیے کسی فرمائش کے اظہار خصوصا خورد و نوش کے معاملے میں اپنی خواہش کے اظہارمیں بڑی کوفت ہوتی ہے، میرے سامنے جو پروس دیا جائے سکون سے کھالیتا ہوں،مفتی صاحب کا مزاج حاتم طائی والا تھا،سخاوت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اس لیے وہ جب آتے تھے تو اس دن کا کھاناجو اکثر ظہرانہ پر مشتمل ہوتا، انھی کے ساتھ ہم لوگ یونی ورسٹی کی کسی کینٹین میں کھاتے تھے۔ کھانے کا مینو عبد الرحمن بھائی ہی طے کرتے تھے، جو اکثر مچھلی یا چکن مٹن سے عبارت ہوتا تھا۔ رحمان صاحب بھی کھانے پینے کے حوالے سے بڑے نفیس واقع ہوئے ہیں۔ وہ ہاسٹل میں کم اور ڈھابوں میں زیادہ نظر آتے تھے۔ مگر مجھے یہ بات زیادہ پسند نہیں تھی کہ ہاسٹل کا عمدہ ، سادہاور صحت بخش کھانا چھوڑ کر کینٹین کا مشکوک کھانا کھایا جائے، حالاں کہ وہاں کے کینٹین اور ہوٹل میں بھی عمدہ اور سستا کھانا مل جایا کرتا ہے، جے این یو اس معاملے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا، یہاں اب بھی ہر جگہ ایمان داری دیکھنے کو ملتی ہے۔ کبھی مفتی صاحب سے کہتا کہ ہاسٹل بھی چلیے، وہیں کا کھانا کھائیں گے، مگر وہ دوسروں کی خاطر اکثر ٹال دیتے تھے،وہ کئی بار کئی دوستوں کو ساتھ لے کر میرے ہاسٹل بھی آئے، جس دن بریانی بنتی تھی، اس دن میں انھیں ضرور یاد کرتا تھا، وہ ایک دوبار رات میں تشریف بھی لائے اور ہاسٹل کی بریانی کھاکر روانہ ہوئے۔
کہیں لکھ چکا ہوں کہ ہم دونوں نے ایک ساتھ ہی پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کیا،میری فیلوشپ جولائی ۲۰۱۴ء میں ہی بند ہوچکی تھی اور میرا پہلے سے ایک طے شدہ ہدف تھا کہ فیلو شپ بندتو پی ایچ ڈی بھی بند، کھیل ختم پیسہ ہضم کا فارمولا میرے پیش نظر تھا، جولائی ۲۰۱۵ء میں ہم نے مقالہ جمع کرنے کا تہیہ کرلیا، مفتی صاحب سے بھی ہم نے اپنے اس عندیہ کا اظہار کیا تو ان کا ماتھا بھی ٹھنکا کہ ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں ہے، مفتی صاحب بہت ذہین و فطین شخص تھے، مواد مل جائے تو وہ راتوں رات مقالہ اور مضمون لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، چناں چہ انھوں نے من ہی من میں میرے ساتھ مقالہ جمع کرنے کا عزم کرلیا، جب میں نے فون کیا کہ فلاں تاریخ کو یونی ورسٹی آرہا ہوں تاکہ مقالہ جمع کرسکوں تو انھوں نے کہا کہ میں بھی مقالہ فائنل کر رہا ہوں، آپ کے ساتھ ہی مجھے بھی مقالہ جمع کردینا ہے۔خیر مقررہ تاریخ کو میں یونی ورسٹی پہنچ گیا،گائیڈ سے ملاقات کی، انھیں تمام ابواب دکھائے،پی ایچ ڈی سے متعلق بقیہ دفتری کام کی تکمیل کی، مفتی صاحب کو فون کیا تو وہ بھی مقالہ کے ساتھ موجود تھے، ان کا موضوع مدارس کی صحافت تھا، خاکہ میں نے ہی بنایا تھا، مگر دیکھا کہ انھوں نے اس خاکہ میں اتنے رنگ بھرے ہیں کہ میں حیران رہ گیا، میں نے جو کام دو برس میں مکمل کیا تھا، وہ دو تین ماہ میں اس سے زیادہ اور اچھا کام کرچکے تھے، میرا مقالہ ضخامت کے اعتبار سے بھی بہت مختصر تھا، مفتی صاحب کا مقالہ صحاح ستہ کی یاد دلاتا تھا۔ مقالہ جمع کرتے ہی اب وائیوا کی دوڑ بھاگ شروع ہوگئی، مقالہ جمع کرنے کے بعد سال بھر چھ مہینہ لگ جاتا ہے، تب جاکر وائیوا ہوتا ہے اور پھر ڈگری ایوارڈ ہوتی ہے، مفتی صاحب یہاں بھی بازی مار لے گئے اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے بہت جلد وائیوا بھی کرالیا، حالاں کہ اسی سال یعنی ۲۰۱۶ء میں کنہیا اور افضل گرو والا مشہور زمانہ معاملہ پیش آیا تھا اور اس یورش کی وجہ سے پوری یونی ورسٹی معطل تھی، ہر جگہ پولیس کے پہرے تھے، مین گیٹ سے لے کر شعبہ تک پولس کی قطار تھی، سارے دفاتر پر تالے لٹک رہے تھے، پڑھائی بند تھی،مگر ہمارے ساتھ مفتی صاحب نے بھی ان دشواریوں کے دریا کو عبور کرتے ہوئے وائیوا کی تکمیل کی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری اپنی جھولی میں ڈالی۔
لوٹ کے بدھو گھر کو آیا کے مصداق میں مدھوبنی بہار اپنے وطن واپس آگیا، مفتی صاحب دلی کے ہوکر رہے، للیتا پارک لکشمی نگر میں ان کا اپنا مکان تھا، دلی ہی ان کا گھریا وطن ثانی تھا اور وہی ان کی جولان گاہ بھی تھی، دلی چھوڑنے کے بعد تعلقات میں وہ جوش بھی باقی نہ رہا اور پھر اس دوڑ بھاگ والی دنیا میں کون کس کی خبر لیتا ہے۔ لگ بھگ ایک دو سال تک تعلقات پر سرد مہری کی کیفیت رہی، میں بھی ذرا گوشہ نشیں ہوگیا تھا، مجھے بھی اچھی ملازمت کی تلاش تھی، کبھی دلی تو کبھی جھارکھنڈ تو کبھی اپنی ہی ریاست میں تلاش معاش میں سرگرم رہا، مجھے تو مفتی صاحب کی زیادہ خبر نہ رہی کہ وہ ایک بے نیاز، مستغنی اورذرا خوددار قسم کے آدمی تھے، مگر یہ ان کا بڑکپن تھا کہ وہ مجھے یاد کرتے اور دوسروں سے میری خبر خیریت دریافت کرتے رہے،کئی بار فون کرکے میری نجی اور معاشی زندگی کے بارے میں بھی پوچھا، مگر میں فون کرنے کے معاملے میں بہت غافل واقع ہوا ہوں، میں کبھی کبھار واٹس ایپ پر میسیج کردیتا ، فون کرنے کی توفیق نہ ملتی۔۲۰۱۸ء میں ایک بارانھوں نے فون کیا، تو اس دن طویل بات چیت ہوئی،یہی کوئی گھنٹہ بھر، دوستوں کا حال چال دریافت کیا، اپنی کتابوں کی اشاعت کی خبر دی، میری کتابوں کی اشاعت پر تحسینی کلمات کہے اور یہ وعدہ کیا کہ جب بھی گھر آیا تو کتابیں لیتا آؤں گا، ۲۰۱۹ء میں رہیکا کالج جوائن کیا تو اس کی بھی ان کو خبر لگ گئی، فون کیا اور تصدیق چاہی، تو اور خوش ہوئے، کہا کہ مجھے کیوں نہیں بتایا، میں نے یہ سمجھ کر نہیں بتایا کہ انٹرنیٹ جیسے جام جہاں کے وجود میں آنے کے بعد کون سی ویکنسی یا کون سی بات کس سے پوشیدہ رہتی ہے۔ پل میں ایک سرے کی خبر دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہے۔
ان دنوں مستقل ملازمت کے تعلق سے وہ بہت سیریس تھے،بہار یونی ورسٹی سروس کمیشن میں اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے انھوں نے اپلائی بھی کیا تھا، ابھی دسمبر جنوری میں ہی انھوں نے فون پر گھنٹوں بات چیت کی تھی،ایک طویل مضمون’علمائے دیوبند کا ادبی ذوق‘ بھی مجھے میل پر بھیجا تھا کہ اس میں کچھ اصلاح و اضافہ کی گنجائش ہو تو دیکھ لیں، ادبی رسائل کے ای میل طلب کیے تھے اور ان میں کئی مضامین بغرض اشاعت ارسال کیے تھے، خوش بھی تھے کہ کئی جگہ سے اشاعت کا کنفرمیشن بھی مل گیا تھا،ماہ نامہ معارف کے ایڈیٹر سے تو تو میں میں بھی ہوگئی تھی، وہ شاید فضلائے دار العلوم پر مبنی مفتی صاحب کی تحریر کو ناقابل اشاعت کہ چکے تھے،مگر وہ کچھ اور ہی موڈ میں دکھے،وہ نماز پڑھ کر سلام پھیرنے کی منزل تک پہنچ چکے تھے، اس فانی دنیا کو ہی آخری سلام کرنا چاہتے تھے، انھیں اپنی منزل کا سراغ مل گیا تھا،اس لیے وہ آنا فانا عرش و فرش کا مرحلہ طے کر گئے۔
اب دیکھیے نا کہ دو روز قبل ان کی علالت کی خبر ملی، فیس بک پر ہم نے بھی ان کی صحت یابی کے لیے احباب سے درخواست کی، مگر چند گھنٹوں بعد ہی وہ ہم سب سے رخصت ہوگئے۔ان کی لاش بذریعہ ایمبولنس ان کے آبائی وطن چندرسین پور لائی گئی، اگلے روز نماز جنازہ اور پھر ان کی تدفین عمل میں آئی، لوگ کرونا کے خوف سے پاس جانے سے کترا رہے تھے، مگر میں ہمت کرکے ان کے آخری دیدارکے لیے تابوت کے پاس پہنچا، ان کے جنازے کوکچھ دور تک کاندھا دیا اور پھر منوں مٹی کے نیچے ان کے نورانی چہرے کو اسی خالق کے سپرد کردیا، جس کی وہ امانت تھا۔ان للہ مااخذ وما اعطی۔باتیں اور بھی ہیں، مگر قلم میں اتنی سکت کہاں؟دماغ کچھ دینے کو تیار نہیں، قلم لکھنے کو آمادہ نہیں، ایک سکتہ طاری ہے،رہ رہ کر ان کا خوب صورت سراپا اور نورانی چہرہ سامنے آجاتا ہے، وہ میر ے روم روم میں سمائے ہوئے تھے اور اتنی قربت تھی کہ ان کی موت کا آج بھی یقین نہیں ہورہا ہے۔ آنکھوں میںاشک تو ہیں مگر آستین نہیں ۔یہی دعا ہے کہ حق تعالی ان کی مغفرت کرے ۔رمضان کی برکت و رحمت کے سایے میں انھیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب کرے،اب انھیں کسی اور چیز کی نہیں، صرف دعاؤں کی ضرورت ہے اور اسی درخواست کے ساتھ اس تحریر پر فل اسٹاپ لگاتا ہوں۔

Comments are closed.