Baseerat Online News Portal

تم کیا گئے کہ رونق ہستی چلی گئی

امیرشریعت حضرت مولاناسیدمحمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
تحریر: محمد غزالی قاسمی سیتامڑھی
3 اپریل ڈھائی بجے بذریعہ واٹس ایپ یہ اندوہناک خبر ملی کہ ساتویں امیر شریعت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے جنرل سیکرٹری حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب اس جہان آب و گل سے ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگئے، اس وحشت خبر کو اچانک اور بغیر کسی آہنی آمادگی کے سن کر دل دھک سے رہ گیا استعجاب و غم و اندوہ کے ملے جلے جذبات کے درمیان کچھ دیر ہکا بکا سا رہ گیا اور ایسا لگا جیسے کسی نے نہ صرف میرا بل بلکہ پوری سرمایۂ حیات لوٹ لیا ہو دل کی گہرائیوں میں بار بار یہ خیال گردش کرنے کاش یہ خبر غلط ہو لیکن دیگر ذرائع سے یہ تحقیق ہوگئی کہ حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب ہم مسلمانان ہند کو یتیم اور روتا بلکتا ہوا چھوڑ کر اپنے رب کے جوار رحمت میں چکے گئےاناللہ وانا الیہ راجعون یوں تو کئی روز سے یہ خبر آرہی تھی کہ حضرت امیرشریعت کافی بیمار چل رہے ہیں لیکن ایسی امید نہیں تھی کہ وہ داغ مفارقت دے جا ئنگے،یوں تو شب وروز کے ہنگامے میں نہ جانے کتنوں کے بارے میں یہ خبر ملتی ہے کہ وہ ہم سے رخصت ہوگئے بہت سوں کے چھوٹ جانے سے دل شدید رنج و الم بھی محسوس کرتا ہے لیکن ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جن کی وفات دلوں پر بجلی سی گرداے جن کا آفتاب زندگی مشرق میں غروب ہوتو مغرب والے اندھیرا محسوس کریں اور جن کی یاد ان لوگوں کے دل میں بھی ایک ہوک پیدا کردے باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے اس دنیا کی ہر شخصیت خواہ وہ کتنی دلکش ،کتنی پر بہار ،کتنی ہر دلعزیز اور کتنی ہی زندگی افروز ہو بالآخر اسے ایک نہ ایک یہاں سے جانا ہے آگے اور پیچھے کا فرق ضرور ہے لیکن ہم میں سے کون ہے جو یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے آیا ہو لیکن ایسے لوگ خال خال ہوتے ہیں جن کی وفات کا صدمہ کسی ایک فرد یا انجمن کو نہیں بلکہ پوری ملت کو ہوتا ہے جن کی جدائی سے ہر مسلمان اپنے دل میں ٹیس محسوس کرے اور جن کے آٹھ جانے سے وہ لوگ بھی اشک بار ہوں جو کبھی زندگی میں مرحوم کی صورت نہ دیکھ سے ان کی وفات کی خبر سن کر ہر مسلمان تڑپ اٹھا ہے جس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کی محبت کی ادنیٰ رمق بھی موجود ہے ۔
امیر شریعت کے انتقال کے ساتھ ہی ایک اہم علمی، ادبی ، سماجی، سیاسی اور تحریکی باب بند ہو گیا۔ آپ کے انتقال پر پورے ملک و بیرون ملک میں غم کی لہر چھا گئی ہے۔
2015 میں حضرت کا انتخاب ساتویں امیر شریعت کےلئے ہوا اور جب امیر شریعت چن لئے گئے تو امارت کے کاموں میں تیزی آئی اور بہت سارے کام جو زیرالتوا تھے سب کو عملی جامہ پہنایا اور امارت کے بنیادوں کو مضبوط کیا
امیر شریعت نے 1974ء سے 1996ء تک بہار قانون ساز کونسل کے ارکان کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 1991 کے بعد سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے موجودہ سجادہ نشین اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست رہیں، آپ کے دادا مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوۃ العلماء ہیں۔ اس خانقاہ کے روحانی سلسلہ میں شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی بہت ہی اہم کڑی ہیں۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ رحمانی 30 کے بانی بھی ہیں، وہ پلیٹ فارم جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلیٰ تعلیم و قومی مقابلاجاتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے۔ [1] اس ادارے سے ہر سال NEET اور JEE میں 100 سے زائد طلبہ منتخب ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا سید ولی رحمانی عوامی تقریر، اپنی شخصیت و ملی مسائل میں جرأت صاف گوئی و بےباکی اور دونوں ہی شعبوں میں تعلیم کے لیے مشہور ہیں تھے۔
مولانا محترم متعدداداروں کے سربراہ رہے اورکئی پلیٹ فارم سے اہم خدمات انجام دیں، کئی تحریکوں کے روح رواں رہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ، امارت شرعیہ، خانقاہ رحمانی کے پلیٹ فارم سے متعد خدمات انجام دیں۔
رحمانی فاؤنڈیشن اوررحمانی تھرٹی آپ کی سماجی اورعملی خدمات روشن مثال ہیں۔ آپ کی جرات ضرب المثل تھی،جرات وعزیمت والد بزرگوارؒ سے ورثہ میں ملی تھی۔ ان کی اولوالعزمی سے ملت کو نئی توانائی اور نیاحوصلہ ملتا رہا، رحمانی تھرٹی کے ذریعے آپ نے نئی تعلیمی بیداری پیداکی اوراس کے نتائج ملک بھرمیں محسوس کیے جارہے ہیں۔
متعددکتابوں کے مصنف ،صحافی ،سیاسی اورقانونی امورپردرک رکھنے والے تھے۔ ساڑھے پندرہ لاکھ افرادآپ کے ہاتھ پربیعت ہوئے۔
حضرت امیرشریعت ایک بے باک اور صاف گو شخصیت کے حامل انسان تھے وہ با ت جو عام قائدین دبی زبان یا اشارے کنایے میں کرتے ہیں بلکہ بسااوقات بند کمروں میں بھی کرنا پسند نہیں کرتے وہی بات آپ بر سرعام کرتے ہیں، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں ، کسی سے مرعوب ہونا آپ نہیں جانتے تھے ،ڈر اور خوف آپ کو چھو کر بھی نہیں گزرتا، دل کی بات دل والوں کے سامنے بلا کسی خوف و تردید کے کہ دیتے ، معاملہ خواہ اہل اقتدار واختیار کا ہو یا اہل ثروت و قوت کا آپ کی زبان وہی بولتی جسے آپ سچ جانتے ہوں اس معاملہ میں آپ کا مسلک یہ رہاہے۔
حضرت امیر شریعت جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں بھی تھے۔
جامعہ رحمانی، خانقاہ مونگیر بہار کا سب سے بڑا دینی، تربیتی اور اصلاحی ادارہ ہے جس نے دین علم کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کی رہنمائی کی ہے۔اس ادارہ کو ملک کی آزادی سے قبل 1927 میں ریاست بہار کے ضلع مونگیر میں قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمتہ اللہ علیہ نے چھوٹے سے مدرسہ کی شکل میں قائم کیا تھا۔مولانا محمد علی مونگیری کی یادگار جامعہ رحمانی، خانقاہ مونگیراس زمانے میں بہار کے اندر قادیانیت آہستہ آہستہ پھل پھول رہا تھا جس کے زد میں مونگیر بھی تھا لہٰذا مولانا محمد علی مونگیری نے فرقہ قادیانی کے خاتمہ اور دین حق کی تائید و تبلیغ کے لیے اس ادارہ کا قیام کیا.ان کے بعد اس ادارے کی باگ ڈور مولانا علی مونگیری کے صاحبزادے اور امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نے سنبھالی اور آپ کی غیر معمولی جدوجہد سے ایک چھوٹے سے مدرسہ نے جامعہ کی شکل اختیار کر لی اس ادارہ اور یہاں کے بزرگوں نے جنگ آزادی سے لیکر ملک کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں اہم خدمات انجام دئے ہیں.یہاں جامعہ اور خانقاہ دو منفرد و متحرک ادارے ہیں۔ جامعہ دینی و شرعی تعلیم کا قلعہ ہے تو خانقاہ بزرگوں کی آماجگاہ ہے جہاں اہل ایمان تزکیہ نفس کی حفاظت کے لیے آتے ہیں۔یہ دونوں ادارے اہل دل کی دنیا ہے، بھارت کی بیشتر ملی، دینی، شرعی اور علمی تحریکیں اسی خانقاہ کی چٹائی پر اور اسی جامعہ رحمانی میں انجام پائیں ہیں.امارت شرعیہ کے امیر شریعت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا سید ولی رحمانی کی سرپرستی میں بام عروج پر رہا۔
جامعہ رحمانی کے موجودہ نظام تعلیم میں جدید تکنیک یعنی کمپوٹر پراجکٹر اور انٹرنیٹ سے استفادی کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر عربی اور علوم الہٰیہ کے تعلیم میں ان جدید آلات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں جدید انداز درس کے ساتھ نئی نسل کے ذہن و مزاج کے تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
اس ادارہ نے بھارت اور ملت اسلامیہ کو بڑا سے بڑا جید عالم دین، مفسر قرآن، مفکر ملت، خطیب، انشاء پرداز، اور ادیب عطا کئے جن کی صلاحیت کا ڈنکا ملک کی سرحد کو پار کرتے ہوئے بیرون ملک میں بھی بجا۔ان کی خدمات میں جامعہ رحمانی کو عروج بخشنا، رحمانی کمپیوٹر سینٹر کا قیام، رحمانی بی ایڈ کالج، رحمانی 30 کو قائم کرنا قابل ذکر ہے۔
مولانا اس دنیا میں نہیں رہے اور کس کو یہاں ہمیشہ رہنا ہے لیکن یہ ان کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ وہ مرنے کے بعد اپنی جرأت گفتار اور اپنی عوامی مقبولیت کے طفیل تادیر زندگی رہیں گے مرنے کے بعد وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو زندہ رہتے ہوئے مرنے کے بعد زندہ رہنے کا سامان کر جاتے ہیں اور اپنے بعد زندہ رہنے والوں کے دلوں میں یادوں کے بہت سے نقوش ثبت کر جاتے ہیں خدائے کریم ان کے درجات بلند فرمائے،ان کے پس ماندگان اور تمام شاگردوں اور اہل تعلق کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین
حیات انساں ہے شمع صورت،ابھی ہے روشن ابھی افسردہ
نہ جانے کتنے چراغ یوں ہی جلا کریں گے ،بجھا کریں گے
رابطہ نمبر۔7991166284

Comments are closed.