مولانا سعد الدین تار بلی:بانی امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر

غلام نبی کشافی سرینگر
میرا آج کا یہ خاص مضمون جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے بانی امیر مولانا سعد الدین تاربلی کے بارے میں ہے ، اور یہ مضمون میں نے اس لئے لکھا ہے کہ میری ان سے ذاتی عقیدت و محبت تھی ، اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو مضمون پسند آئے گا ، اور اسے اپنے دوستوں کے ساتھ بھی ضرور شئیر کریں گے ، نیز بعض مصروفیات کی وجہ سے میرا آج کوئی اور مضمون آنے والا نہیں ہے ۔
مولانا سعد الدین مرحوم (1912ء__1999ء) بانی امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر ایک فعال اور انقلابی صفات کی حامل شخصیت کا نام ہے ۔
میں نے ان کو بچپن میں صورہ میں کئی بار آتے جاتے دیکھا تھا ، لیکن ان کا تعارف پہلی بار مجھے سابق امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر نذیر احمد کاشانی مرحوم ، جن سے میرے اچھے دوستانہ تعلقات تھے ، نے کرایا تھا ، اور ان کا ایک واقعہ بھی سنا دیا تھا ، جسے بعد میں میں نے انہی کے قلم سے ایک کتاب میں پڑھا تھا ، اور اس واقعہ میں یہاں انہی کے الفاظ میں نقل کرتا ہوں ۔
’’مائسمہ میں مرکزی دفتر تھا ، ایک دن پہلی بار محترم المقام امیر جماعت اسلامی ہند کی جانب سے محترم المقام امیر جماعت اسلامی جموں و کشمیر جناب سعد الدین صاحب مرحوم کو دہلی ان کے ہاں آنے کا دعوت نامہ ملا ، تاریخ مقرر کی گئی تھی ، شاید ہفتہ کے اندر اندر دعوت نامہ ملنے کے بعد وہاں پہنچنا تھا ، محترم سعد الدین صاحب وہاں جانے کو تیار نہیں ہوئے ۔
ہمیں خوشی تھی کہ ہمارے امیر محترم دہلی کے امیر جماعت صاحب سے ان کی دعوت پر ملاقات کرنے جائیں ، مگر کیا کیا جاتا ، آپ تیار نہیں ہوتے ، تاریخ قریب آنے لگی ، مگر آپ انکار پر بضد رہے ، ہم وجہ پوچھتے ہیں ، مگر آپ راز کی بات نہیں بتاتے ، آپ سنجیدہ تھے ہی ، آخر ایک دن ہم تینوں ( عاشق کشمیری ، عبد الاحد بٹ اور خود کاشانی ، جو اس واقعہ کے جشم دید گواہ بھی تھے ) نے آپ کا گھیراؤ کیا اور آپ کو مجبور کیا کہ آپ نہ جانے کی وجہ بتائیں ؟ محترم ہمیں پیار و محبت کی نظروں سے دیکھنے تھے ، ہمیں بھی ان کے ساتھ عقیدت تھی ، اور ہے بھی ، باقی بھی رہے گی ۔ ( ان شاءاللہ)
آخر پر محترم ہمارے اصرار پر راز کی بات بتانے پر مجبور ہوئے ، آپ نے وجہ یوں بتائی ، میرے پاس صرف ایک کوٹ ہے ، جو میں اس وقت پہنے ہوئے ہوں ، یہ بھی کافی میلہ ہوچکا ہے ، قمیص پاجامہ بھی میلا ہے ، کوٹ کی صفائی کراؤں تو پہنوں کیا ؟ یہ بات سن کر ہم پر بجلی سی گری ، ہم نے ایک کوشش کی ، ہمارا ایک رفیق ٹنکی پورہ سرینگر کا رہنے والا پرانے کپڑوں کا کارو بار کرتا تھا ، ہم اس کو ملے اور راز کی بات کہی ، موصوف نے ہمیں ایک پرانا سوٹ ( کوٹ پتلون) دیا ، ہم نے اس کی قیمت ادا کی ، وہ سوٹ قدرے اچھا تھا ، پھر ڈبل اجرت پر اس کی ڈرائی کلیننگ کروائی ، دوسرے دن ہم نے اپنے امیر محترم کو یہ سوٹ پیش کیا ، پھر آپ تاریخ مقررہ پر وہی سوٹ پہن کر دہلی محترم المقام امیر جماعت اسلامی ہند سے ملاقات کرنے روانہ ہوئے ۔‘‘
( حکیم غلام نبی ، حیات و خدمات : ص 65-66 ، ایڈیشن 2003ء ، سرینگر )
اس ایک واقعہ سے مجھے اندازہ ہوا کہ جو افراد عبقری اوصاف کے حامل ہوتے ہیں ، اگر ان کی زندگیوں میں غربت و تنگدستی کا بھی مرحلہ آتا ہے ، تو وہ اپنی حالت کو ظاہر نہیں کرتے ، اور کسی کو محسوس بھی ہونے نہیں دیتے ہیں ۔
مولانا سعد الدین تاربلی کی پیدائش 1912ء میں اپنے ننھیال اوڑی میں ہوئی تھی ۔ انہوں نے اپنے چچا بدر الدین تاربلی کی زیر نگرانی قرآن حفظ کیا تھا ، اور انہی سے دینی تربیت بھی پائی تھی ، اور اپنی طالب علمی ہی کے زمانے میں مولانا مودودی کے ماہانہ رسالہ ترجمان القرآن کو پڑھنا شروع کیا تھا ، اور پھر ان کا لٹریچر پڑھ کر ان سے متاثر و متعارف ہونے کے بعد ان سے مراسلت کی اور ادارہ دار الاسلام پٹھانکوٹ کا ممبر بننے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔
اس طرح سے مولانا سید مودودی سے قلبی تعلق اور ان کے لٹریچر سے متاثر ہوکر مولانا سعد الدین تاربلی کے اندر ایک طرح سے فکری انقلاب آگیا ، چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اپنے دو ساتھیوں مولانا غلام احمد احرار مرحوم اور مولانا قاری سیف الدین مرحوم کے ساتھ پہلی بار ” جماعت اسلامی ہند ” کا جو پہلا کل ہند اجتماع اپریل1945ء بمقام دار الاسلام پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا تھا ، میں شرکت کی تھی ، اور اس سلسلہ میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس سے پہلے یہ تینوں افراد مولانا سید ابو الاعلٰى مودودی کو صرف پڑھتے آئے تھے ، مگر اس اجتماع میں ان کو مولانا مودودی کی تقریر روبرو سننے کا موقع ملا تھا ، جس سے وہ تینوں بہت متاثر ہوئے ، اور انھوں نے پھر کشمیر میں واپس آ کر با ضابطہ دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا اور 1946ء میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی بنیاد ڈالی ، اور اس کے پہلے بانی امیر مولانا سعد الدین تاربلی بنے تھے ، اور پھر اس کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کی تکلیفوں ، آزمائشوں اور گرفتاریوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور ان صاحبان و دیگر فعال افرادکے بارے میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے کئی اہم کتابیں بھی شائع کی ہیں ، جن میں پوری تفصیلات موجود ہیں ۔
کسی بھی شخصیت کا علمی ، فکری اور عبقری حیثیت سے ابھرنے کا دور اس وقت شروع ہوجاتا ہے ، جب اس کی زندگی میں قربانیوں کے سلسلہ کا آغاز ہوجاتا ہے ، اور ایک انسان کی سب سے دو بڑی قربانیاں مال اور جان کی ہوتی ہیں ، چونکہ ایک انسان کی زندگی میں خود کو اور اپنے اہل و عیال کو پالنے کے لئے روز گار خاص کر سرکاری ملازمت کا ہونا کیا اہمیت رکھتا ہے ؟ شاید اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ 1953ء میں جب کشمیر کے وزیر اعظم اور وزیر تعلیم شیخ محمد عبداللہ تھے ، تو ان سے مولانا سعد الدین تاربلی کا بعض تحریکی معاملات کو لیکر مناقشہ ہوا ، جس کے نتیجے میں انہوں نے مولانا سعد الدین تاربلی کو ملازمت سے برطرف کر دیا تھا ۔
آج کے دور میں اگر کسی شخص کو ملازمت سے برطرف کیا جائے ، تو وہ اسے اپنی اور اپنی فیملی کے لئے موت تصور کر لے گا ، اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا ، لیکن جن لوگوں نے اپنے مال و جان کا سودا اپنے رب سے کیا ہوتا ہے ، وہ ان قربانیوں سے گھبرایا یا حوصلہ ہارا نہیں کرتے ، بلکہ اس طرح کی قربانیاں ان کو اپنے عظیم مقاصد کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہیں ۔
مولانا سعد الدین مرحوم کو میں نے پہلی بار سیاہ کوٹ پینٹ اور سر پر سیاہ رنگ کی قراقلی پہنے ہوئے صورہ اس مقام پر کئی بار راہ چلتے ہوئے دیکھا تھا ، جہاں آج آج اسکول اور مسجد الرحمۃ واقع ہیں ، اور مجھے اس وقت وہ ایک لمبے قد کے ایک پر وقار اور صاحب وجاہت شخصیت کے طور پر نظر آتے تھے ، اور ان کے چہرے پر وجاہت و متانت اور درمیانہ درجے کی سفید داڈھی نمایاں طور پر نظر آ رہی تھی ۔
لیکن پھر میں 1985ء کے بعد ان کے بارے میں بعد جاننے لگا تھا ، ان کی ایک دو کتابیں بھی پڑھی تھیں ، اور ان کے بارے میں ان کے ساتھیوں سے بھی معلومات حاصل کرتا تھا ۔
لیکن جب زندگی کے آخری پڑاؤ پر ان پر فالج کا حملہ ہوا ، اور وہ صاحب فراش ہوگئے ، تو اس کے بعد میں ان سے ملنے عمر کالونی لال بازار جہاں وہ اپنے ایک بیٹے ان کا نام کلیم اللہ تھا ، کے ہاں رہتے تھے ، میں اکثر وہاں جایا کرتا تھا ، اور وہاں جو بھی ان سے ملنے آتا تھا ، اس کو ملاقات کا موقع ضرور دیتے تھے ، اور میں نے اس شدید فالج کی حالت میں بھی ان کو اذکار و اوراد میں مشغول پایا اور جو بھی کوئی اپنی کسی پریشانی یا کسی تکلیف کا ذکر کرتا تھا ، تو وہ ہر ایک کو صرف قرآن کی کسی مخصوص سورت کو پڑھنے کی تلقین کرتے تھے ، اور مجھ کو بھی کئی بار قرآن کی بعض سورتوں کی خصوصیت کے ساتھ تلاوت کرنے کے لئے فرمایا تھا ۔
مولانا سعد الدین تاربلی صاحب کرامت بزرگ بھی تھے ، اور اس سلسلہ میں مولانا نذیر احمد کاشانی اور دوسرے افراد ، جو مولانا سعد الدین تاربلی کے قریب رہے تھے ، نے ان کے بارے میں کئی ایسے واقعات بتائے تھے ، جو ان کو روحانی کمالات اور صاحب کرامت بزرگ ہونا ثابت کرتے ہیں ۔
مولانا سعد الدین تاربلی کا 14 مارچ 1999ء میں طویل علالت کے بعد لال بازار سرینگر میں اپنے فرزند کلیم اللہ کے گھر میں اسی سال کی عمر میں انتقال ہوا ، اور انہیں ایک مقامی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا ۔
واضح رہے میں ذاتی طور پر کبھی جماعت اسلامی سے وابستہ نہیں رہا ، لیکن صورہ میں جماعت اسلامی کے جو ہفت وار اجتماعات ہوتے تھے ، ان میں کبھی کبھی شرکت کرنے ضرور جایا کرتا تھا ، جماعت کے چوٹی کے مرحوم علماء و اراکین سے میرا رابطہ یا ملاقاتوں کا سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا ، جیسے مولانا غلام نبی نوشہری ، مولانا قاری سیف الدین ، مولانا نذیر احمد کاشانی ، حکیم غلام نبی ، سید علی شاہ گیلانی ، مولانا محمد یوسف شاہ ( سید صلاح الدین ) مولانا غلام احمد بٹ ، محمد صدیق وغیرہ ، سے میری اچھی خاصی قربت اور جان پہچان رہی ہے ، باوجود یہ کہ میرا رجحان مولانا ابوالکلام آزاد کی کتابوں کی طرف تھا ، اور پھر مولانا وحید الدین خان کا لٹریچر پڑھنے سے مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے تصور دین سے اختلاف تھا ، لیکن میں اپنے علاقے میں جماعت اسلامی ہی کے اجتماعات کو پسند کرتا تھا ، اور میں اکثر وقت مولانا قاری سیف الدین اور مولانا نذیر احمد کاشانی کے ساتھ ایک ایک دو دو گھنٹوں تک ملاقاتوں میں گزارتا تھا ، کاشانی صاحب میرا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ، اور میں جب ان کے سامنے قرآن کے بعض علمی نقاط پر بات کرتا تھا ، تو وہ خندہ پیشانی سے سنتے اور میرا حوصلہ بڑھاتے تھے ۔
مولانا سعد الدین تاربلی سے میرا قلبی لگاؤ اس وجہ سے بھی تھا کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے ان کی شہرہ آفاق تفسیر سورہ فاتحہ ” ام الکتاب ” کا کشمیری ترجمہ ” ام القرآن ” کے نام سے کیا تھا ، اور جون 1939ء کو مولانا ابوالکلام آزاد نے خود اس ترجمہ کا بالواسطہ مطالعہ کرکے اشاعت کی اجازت دی تھی ۔
جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی طرف سے 2002ء میں ” مولانا سعد الدین ، حیات وخدمات ” کی ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا تھا ، اور یہ کتاب 319 صفحات پر مشتمل ہے ، اور اس کتاب میں 46 مضامین شامل ہیں ، اور اس کتاب کے مطالعہ سے نہ صرف مولانا سعد الدین تاربلی کی حیات وخدمات کے بارے میں اچھا خاصا تعارف ہوجاتا ہے ، بلکہ جماعت اسلامی کن نشیب و فراز سے گزری ہے ؟ اس کے بارے میں بھی کافی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے ۔
اس مضمون کو ترتیب دیتے وقت میں نے چند ضروری باتوں کے حوالے سے اس کتاب کا بھی استفادہ کیا ہے ، اور نوجوانوں کو اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔
میں ذاتی طور پر غیر متعصب انسان ہوں ، اور میرے دل میں اختلاف رائے کے باوجود تمام دینی شخصیات ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی دینی جماعت سے ہو ، کی محبت ، عزت اور احترام کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ اور اس کا ثبوت وہ تمام تحریریں ہیں ، جو میں وقتاً فوقتاً لکھتا رہتا ہوں ۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان تمام مرحومین کی تمام مساعی جمیلہ قبول ا، ان کی لغزشوں کو معاف اور جنت الفردوس میں ایک ساتھ جگہ نصیب فرمائے ۔
Comments are closed.