آن لائن گیم کھیلنے کاشرعی حکم

 

از: قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

8080697348

یکم جنوری ۱۹۸۳ء کو انٹرنیٹ کی ایجاد ہوئی، جس نے دنیا کو ایک نئی دنیابناکر پیش کیا، زندگی  جینے کا ایک نیاطرز متعارف کرایا، ١٩٩۰ء میں انٹرنیٹ کی دنیا کو اس وقت بڑی کامیابی ملی جب ماہرین نے ورلڈ وائیڈ ویب (www)کو ایجاد کیا۔اس کے ذریعہ سے مختلف ویب سائٹس اور بلاگس بنا کر اس میں مزید سہولتیں پیدا کی گئیں۔انٹرنیٹ کو موبائل  سے جوڑدیاگیا، اس طرح موبائل فون جو صرف بات چیت کرنے کاذریعہ تھا، اس میں نیٹ کی سہولت آنے کی وجہ سے پوری دنیا اور اس میں  رونما ہونے والے واقعات، احوال وکوائف، دوست واحباب سے بات چیت ، ان کی زیارت  اوردیدار،حتیٰ کہ کھیل کود اورموسیقی  وغیرہ  بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ  انجا م دئے جانے لگے۔انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی نصف سے زائد آبادی یعنی ٥١فیصدآبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔یعنی ٥.٤بلین لوگ  نیٹ کی دنیا میں جیتے ہیں اور اس میں تیزی سے اضافہ بھی ہورہاہے۔

آج صورت حال  یہ ہے کہ ہر گلی کوچے پر، چوراہے اور نکڑپر، پارکوں اور دالانوں میں ، بالکونیوں اور فٹ پاتھوں پر ہمارے نوجوان صبح وشام؛  بلکہ ہر آن موبائل ہاتھ میں لیکر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ان میں سے اکثر وبیشترآن لائن گیم کھیلتے ہیں۔پَب جی، فری فائر، کال آف ڈیوٹی، کیروم، لوڈو، ڈریم الیون، ایم پی ایل،رومی،کرکٹ، فٹ بال،ریسینگ، ڈرائیونگ،فائٹنگ اور سوڈوکووغیرہ نامی ہزاروں ایپس اور گیمس  ہیں۔جن میں انفرادی اوراجتماعی طورپرکھیلاجاتاہے،یونہی دل لگی کے طورپراورجوا، سٹہ وغیرہ کے طورپربھی کھیلاجاتاہے۔

٢۰١٣ء کی رپوٹ کے مطابق اُس وقت دنیا میں ۷۰۰ملین لوگ آن لائن گیم کھیلتے تھے،ان میں سے ٤۶فیصد خواتین ہیں اور٥٤فیصد مرد حضرات تھے۔ایک دوسری  رپورٹ کے مطابق ٢۰١٥ء میں دو  ارب سے زیادہ لوگ  آن لائن گیم کھیلنے لگے، ان میں سے ڈیڑھ ارب ایشیاء کے لوگ تھے۔٢۰٢۰ء میں ڈھائی ارب سے زیادہ لوگ آن لائن گیم کھیلنے لگے،اندازہ ہےکہ یہ تعداد ٢۰٢٣ءتک تین ارب تک پہونچ جائے گی۔

 ہمارے ملک ہندوستان میں ٢۰٢١ء میں٣١۰ملین یعنی ٣١کروڑ لوگ آن لائن گیم کھیل رہے ہیں۔٢۰٢٢ء تک یہ تعداد ٣۷۰ملین یعنی ٣۷کروڑ تک پہونچنے کا اندازہ ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ کیاشریعت اسلامی میں آن لائن گیم کھیلنے کے کیا اصول وضوابط ہیں۔ شرعی حکم کے لحاظ سے آن لائن کھیلوں   کی تین قسمیں ہیں:

(١) ایساکھیل جس میں کوئی فائدہ نہ ہو:

          آن لائن ایساکھیل کھیلنا جس میں  ذہنی، جسمانی،دنیاوی  یا اخروی  کوئی  فائدہ نہ  ہو، خواہ  انفرادی  ہویااجتماعی ، شرط کے ساتھ ہو یا بغیرشرط کےنیزوہ جوا، قمار، بے حیائی، قتل  وغارت گری، ماردھاڑ،جھوٹ  اور دھوکے پرمشتمل  ہو، کیوں کہ اس کا اثر انسانی ذہنیت پر پڑتاہے اور اسی چیز کووہ نیٹ کی دنیاسے باہرآکر بھی  اپناتاہے۔تولغووفضول،لہو ولعب،  ضیاع وقت اور ذہنی تخریب کی وجہ سےایساکھیل  کھیلنا حرام اور ناجائز ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ: اورجوبے فائدہ باتوں سے دوررہتے ہیں۔(سورۃ المؤمنون:3)۔آیت میں لغو سے مراد ہے بے فائدہ کام ، اس میں گناہ بھی شامل ہے،اور وہ باتیں بھی شامل ہیں ، جو انسان کو اس کے فرائض سے غافل کردینے والی ہیں ، وہ باتیں بھی جو بے فائدہ ہوں اور ایسے کام بھی جو بے محل ہوں ۔قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے۔ترجمہ: اور بعض لوگ ( اللہ سے ) غافل کردینے والی باتیں خرید تے ہیں ؛ تاکہ بغیر سمجھے بوجھے اللہ کے راستہ سے ہٹادیں اور اس کا مذاق اُڑائیں ، ایسے ہی لوگوں کے لئے رُسوا کن عذاب ہے ، (سورۃ لقمان:6)۔ لہو کے معنی ایسی بات یا چیز کے ہیں ، جو انسان کو غافل کردے ؛ اس لئے وہ تمام باتیں اس میں شامل ہیں ، جس میں دین و دنیا کا کوئی فائدہ نہ ہو (آسان تفسیر قرآن  مجید)۔روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ فرماتےہیں:حضرت حسن ؒ روایت ہے کہ غافل کردینے والی باتوں سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ کی عبادت اور اس کو یاد کرنے سے روکے۔(روح المعانی:11 / 66)

دوسری طرف نبی کریم ﷺ نے انسان کو ہر اس چیز سے منع کیا ہے جس سے اس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔(سنن ترمذی:2317)حضرت ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں کہ مالایعنی سے مراد یہ ہے کہ جس میں دنیاوی  یااخروی  کوئی فائدہ  نہ ہو،نہ  دین ودنیا کی کوئی   ایسی ضرورت ہو، جس کے بغیر زندگی گزارناممکن ہو۔(مرقاۃ المفاتیح:7/3040)۔فتاویٰ کی مشہور کتاب درمختار اور اس کی  شرح ردالمحتارمیں ہےکہ ہر قسم کےغیرمفید کھیل  کود حرام ہیں، حضرت ابن مسعو د رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ اس سے نفاق پیداہوتاہے۔ (الدرالمختارمع ردالمحتار:۶/۳۴۸)

(٢)    ایساکھیل جس میں کچھ دنیاوی فائدہ ہو:

ایساکھیل  جس میں کوئی  اخروی یاذہنی طورپر کوئی  فائدہ تو نہ  ہو؛ لیکن دنیاوی فائدہ ہو، یعنی اس سے کمائی  حاصل  ہوتی  ہو تو اس کی  دوصورتیں ہیں:

(الف) ایساکھیل جس کے کھیلنے کی وجہ سے پیسہ حاصل ہوتاہو،لیکن اس کی  شکل  یہ  ہو کہ سبھوں نے پیسہ  جمع کیا، لیکن ساری رقم یا متعینہ  رقم جیتنے والےیا والوں کوملے گی،بقیہ کھلاڑیوں کو کچھ نہیں  ملے گایا جتنا جمع کیا تھا اس سے کم ملے گا، تو یہ شکل جائز نہیں ہے، ایساکھیل کھیلناحرام ہے،کیوں کہ  یہ قمار ا ور جوئے پر مشتمل ہے، جو حرام  ہے۔قرآن کریم میں ہے، ترجمہ:اے ایمان والو ! بے شک شراب ، جوا ، مورتیاں اور فال نکالنے کے تیر گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں ، ان سے بچو ؛ تاکہ تمہارا بھلا ہو، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوے کے ذریعہ دشمنی اورنفرت پیدا کردے ، نیز تم کو اﷲ کے ذکر اور نماز سے باز رکھے ، تو کیا تم ( شراب اور جوئے سے ) باز آجاؤ گے ؟(سورۃ مائدۃ:۹۰-۹١)

اسی طرح انعام اگر یکطرفہ ہو،دوطرفہ نہ ہومثلا اگر رشید اورحمید نے کھیلا اورحمید نے کہا کہ تم جیت گئے  تو میں تم  کو انعام  دوں گا،تو یہ جائز ہے،  لیکن اگر اس میں یہ بھی ہو کہ اگر میں نے جیتاتو تم  کو دینا پڑے گا، یا رشید نے از خود بولاکہ اگر تم جیتوگے تومیں دوں  گا، یہ دوطرفہ شرط ہے ، یہ جائز  نہیں ہے؛البتہ اگر کھلاڑیوں کے علاوہ کوئی تیسرافرد یاجماعت،یونین،یاکمپنی یا ایپ والا انعام کے طورپرپیسہ دےتو یہ سب کے لئے جائز ہے۔(درمختارمع ردالمحتار: 6/402، حلال وحرام:241)

(ب) محض کھیلنے یعنی ایپ استعمال  کرنے کی  وجہ  سےکمپنی کچھ پیسہ دے،جیسے کیرم بورڈ، لوڈو وغیرہ تواگر اس  میں جوااورسٹہ  نہ  ہو، کوئی  بے حیائی  نہ ہو،اس قدر انہماک نہ ہو کہ جس کی وجہ سے وہ حقوق اللہ اورحقوق العباد سے غافل ہوجائے؛ تو  فی نفسہ  ایساکھیل  مباح ہے، اس کی کمائی حلال ہے؛لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ صرف چند منٹ یا چند گھنٹے کھیلنے سے ایک  پیسہ  بھی نہیں ملتاہے،بلکہ کئی کئی گھنٹے کھیلناہوتاہے، اور ہزاروں کی تعداد میں اسکوریا پوائنٹس بنانے پر کچھ پیسے ملتے ہیں۔جو عام طورپرمکمل انہماک کے بغیر نہیں ہوتاہے۔اس لئےحضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھاہے کہ ایساکھیل کھیلنا  جس کا نقصان  فائدہ سے زیادہ ہو،مکروہ ہے؛اس لئے بچنا ضروری ہے۔(تکملہ فتح المہم:4/435)

 (٣)   ایسا کھیل  جس میں ذہنی  ورزش ہو:

ایسا کھیل جس میں ذہنی ورزش ہو۔ جس سے ذہن تیز ہو، جیسے سوڈوکو  وغیرہ  کہ اس میں بعض چیزوں کو دوسرے سے ملاکر یاہٹاکرکوئی  چیزبنانا، یا بعض الفاظ کو جوڑ کرنیا لفظ بنانا وغیرہ ہوتاہے، ماہرین ذہنیات  کاخیال ہے کہ اس سے ذہن تیز ہوتاہے۔ ایساکھیل کھیلنے کی گنجائش ہے، خواہ انفرادی ہویااجتماعی،ایساکھیل لایعنی میں داخل نہیں ہے، بشرطیکہ اس طرح انہماک نہ ہو،  جس سے حقوق اللہ  اورحقوق العباد متاثر ہونے لگیں ، کیوں کہ ایسی صورت میں یہ جائز نہیں  ہوگا۔ہمارے اکابر ؒ نے تعلیمی تاش کھیلنے کی اجازت دی ہے،اس سے اس مسئلہ کو مستنبط کیا جاسکتاہے۔چنانچہ  حضرت  تھانوی ؒ نے لکھاہے : اگر ہار جیت نہ  ہوتو جائز ہے، بلکہ مبتدیوں کے حق میں  شاید مفید ہے۔مفتی کفایت اللہ صاحب نے لکھاہے :تعلیمی تاش بچوں کی تعلیم  کے لئے استعمال کرنا مباح ہے۔(دیکھئے  امداد الفتاویٰ٤/٢٥٣،کفایت المفتی:۹/٢۶۸،فتاویٰ محمودیہ:١٩/٥٣٥)

بہرحال  آن لائن کسی بھی کھیل کے جائز ہونے کے لیےاِن شرائط کاپایاجاناضروری ہے۔(١) وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔(٢)اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی  منفعت (مثلاً کمائی یاذہنی ورزش  وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔(٣) کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔(٤)کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔(٥)کھیل  میں جوا اورسٹہ بازی نہ ہو۔(۶)اگر کھیل میں انعام ہو تو دونوں طرف سے مشروط نہ  ہو، بلکہ یا تو وہ یکطرفہ ہو یا کھلاڑیوں کے علاوہ  کسی دوسرے کی طرف سے ہو۔ (۷)بہرحال چوں کہ کھیل صلحاء کا عمل نہیں ہے،اورعرف میں معززاورسنجیدہ لوگ ایسے کھیلوں کو پسند نہیں  کرتے ہیں؛ اس  لئے جائز ہونے کے باوجود بچنابہتر ہے۔

٭ مضمون نگار دارالقضاء ناگپاڑہ ممبئی کے قاضی شریعت ہیں۔

Comments are closed.