سر سید احمد خان اپنے اخلاقی اور اصلاحی مضامین کی روشنی میں

 

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہ اُردوعین شمس یونیورسٹی ،قاہرہ۔ مصر

علم معاشرت یاعلم تمدن (Sociology) کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان اپنے ماحول اور معاشرے کی پیداوار ہے اور بلاشبہ سر سید احمد خان بلکل ایسے ہی ہیں۔ وہ اپنے زمانے کے حالات سے واقف تھے ، اپنے معاشرے کے حالات سے متاثر ہوئے – وہ انیسویں صدی میں اسلامی ہندوستان کی تاریخ کی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شہرت انہوں نے حاصل کی وہ اس دور میں کسی دوسرے مسلمان کو میسر نہ ہوئی ، ان کو ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ ، تہذیب اور سیاست میں فراموش یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قدیم اور جدید اسلامی فکر کی تاریخ میں ان کا مقام ایک بڑا مقام ہے۔
در حقیقت ہندوستان میں کئی صدیوں تک مسلمانوں کی ایک اسلامی ثقافت رہی اور ان کو ایک ہزار سال تک سیاسی اثر و رسوخ حاصل رہا ، لیکن یہ مغل ریاست کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوا اور 1857ء میں ہندوستان میں آزادی کے انقلاب کی ناکامی کے بعد ، مسلمانوں کے حالات بگڑ گئے ، ان کی طرز زندگی خراب ہوگئی، وہ اسلام کے پیغام سے منحرف ہو گئے اور ان میں گمراہ کن اور جھوٹے نظریات اور نقصان دہ خیالات در آئے – مسلمانوں کے بگڑتے ہوئے حالات دیکھ کر سر سید گھبرا گئے اور علاج کے طریقوں اور نجات کی راہوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کے اس مشکل دور میں قیادت کرنے والے اور تحریک چلانے والے پہلے شخص تھے-
ہندوستان میں وہ سب سے پہلے یورپی معاشرے اور مغربی تہذیب کے علوم اور ادب سے متاثر ہوئے اور مغربی علوم اور فنون کے پھیلاؤ کے لیے سب سے پہلے تعلیم کے میدان میں اپنے کام کے علاوہ اسلامی تشخص کی پاسداری اور اسے محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اپنی کوششوں کو ایک ہی میدان تک محدود نہیں رکھا بلکہ انگریزی حکومت کے ساتھ بات چیت اور مسلمانوں اور انگریزوں کو قریب لانے اور ان کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی کارروائیاں بھی کیں تاکہ انگریز مسلمانوں پر ظلم و ستم کا خاتمہ کریں اور مسلمان مغرب کے علوم و فنون سیکھنا شروع کردیں – دوسری طرف ، سماجی میدان میں بھی ان کی کوششیں اور جدوجہد تھیں۔وہ ہندوستان میں معاشرے کے تمام پہلوؤں میں اصلاح اور تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے اوّلین لوگوں میں تھے ، وہ فرسودہ رسم و رواج کو چھوڑ نے توہمات سے دور رہنے، ترقی کے لیے تعلیم پر توجہ د?نے کے ساتھ ساتھ یورپی اور جدید تہذیب سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دے رہے تھے۔ وہ اپنے مضمون (وحشیانہ نیکی)میں کہتے ہیں:
‘‘شائستہ ملک کی مثال صورت بنانے والے سنگ تراش کے کارخانے کی سی ہے۔۔ نا مہذب ملک کی مثال منڈے پہاڑوں کی سی ہے’’
ایک اور مضمون میں بھی کہتے ہیں:
‘‘دیکھو ہندوستانیوں نے اپنی غفلت سے اپنا علم بھی ضائع کر دیا اور اپنی قومی عزت کو بالکل برباد کردیا۔’’
سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی ناگفتہ بہ صورت حال سے واقف ہونے کے بعد قوم کی اصلاح کے لیے شاعری اور ادب میں اصلاح کی ضرورت محسوس کی کیونکہ یہ واحد موثر ذریعہ تھا جس کے ذریعے ان کے خیالات لوگوں تک پہنچائے جاسکتے تھے، اس وقت کے ادباء اور شعراء صرف محبت اور محبت کرنے والوں کی داستانیں لکھا کرتے تھے، اور مسلمانوں کی زندگی پر اس کے پڑنے والے منفی اثرات کے بعد یہ کہانیاں سود مند نہیں رہیں اور بامقصد اصلاح پسند ادب کا ہونا ضروری تھا-
وہ 1869عیسوی میں انگلینڈ کے سفر سے واپس آئے یہ ان کی زندگی کا سب سے اہم سال تھا ، اس میں انہوں نے مغرب کی تہذیب ، اور ان کی زبردست ترقی دیکھی لہٰذا انہوں نے ان کا موازنہ اپنے موجودہ ہندوستانی معاشرے سے کرنا شروع کیا- سرسید نے سماجی اور اخلاقی اصلاحات اور سائنسی ترقی کے لیے کئی منصوبے بنائے۔ انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا ، جو ملک بھر میں پھیل گیا، یہ ایسے موضوعات شائع کرتا جن کا معاشرے کے ہر فرد سے تعلق ہوتا، اور روز مرہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا۔ اس رسالے کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کو متمدن بنانے کی ترغیب دینا ، اور ایسے مغربی علوم پر توجہ دینا تھا جو ان کے سماجی اور تہذیبی معاملات میں اصلاحات لاسکیں ، یہ رسالہ مذہبی نظریات کی ترقی اور توسیع کے لئے بھی کوشاں تھا- سر سید ہندوستان کے مسلمانوں کو مایوسی سے نکالنا چاہتے تھے، ان کو جدید علوم سیکھانا چاہتے تھے، اور مذہب کو عقلی شواہد اور ثبوتوں سے سمجھنا چاہتے تھے-
سرسید نے مذہب ، ادب ، سیاست ، رسم و رواج ، تاریخ ، فلسفہ اور فکر اور علم کے دیگر پہلوؤں پر بہت سے مضامین لکھے۔ بلا شبہ سر سید احمد خان اردو ادب میں مضمون نگاری کے فن کے بانی ہیں- سرسید احمد خان کے اخلاقی اور اصلاحی مضامین سرسید کے سولہ مضامین کے پانچویں حصے میں شائع ہوئے تھے اورمیرے خیال میں یہ پانچواں حصہ بہت اہمیت کا حامل ہے ، یہ حصہ عام طور پر ہندوستان کی تاریخ میں اور خاص طور پر دنیا کے مسلمانوں کیلئے اہم اخلاقی اور اصلاحی موضوعات پر مشتمل ہے- انہوں نے اپنے اخلاقی مضامین میں مسلمانوں میں عام اخلاقی نقائص کو ختم کرنے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سے وہ اپنی عزت اور وقار کھو بیٹھے تھے اور انہوں نے مسلمانوں سے ان اچھے اخلاق کے اظہار کا مطالبہ کیا جن کا مطالبہ خود اسلام نے کیا تھااور چونکہ انگریزوں کی حکومت کے دوران مغربی اخلاقیات اور مغربی تہذیب نے ہندوستان پر ایک زبردست طاقت کے ساتھ غلبہ پایا تھا ، انگریزی تعلیمی نظام ہندوستانیوں کو غلام بنا رہا تھا ، ان میں احساس کمتری پیدا کر رہا تھا ، اسلامی اخلاق اور مذہبی جذبات مر رہے تھے۔ اس لئے سر سید احمد خان نے اپنے مضامین میں اخلاقیات پر زور دیا ، کیونکہ وہ ایک مصلح تھے جو اپنی قوم کے افراد کے لیے نفسیاتی خوشی اور ذہنی سکون حاصل کرنا چاہتے تھے ، اور ان کے لیے ایک محفوظ اور مطمئن زندگی بنانا چاہتے تھے-
انہوں نے اپنے اخلاقی اور اصلاحی مضامین کے ضمن میں جو مضامین پیش کئے وہ ہندوستانی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سے براہ راست وابستہ ہیں ، چنانچہ آزادی ، مساوات ، رواداری ، یکجہتی، اندھی تقلید ، اخلاقیات، فرسودہ رسم و رواج اور ان پر عمل کرنے کے نقصانات ، دنیا سے مذہب کا رشتہ ، خودغرضی ، بات چیت میں اختلاف کے آداب ، دوسری رائے کا احترام۔ قومی اتحاد ، حب الوطنی ، طرز زندگی ، کھانے پینے کا طریقہ ، دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ شائستہ سلوک ، نفاق، ہندوستان میں خواتین کے حالات کی اصلاح اور خواتین کی تعلیم جیسے موضوعات ان میں شامل ہیں- سر سید نے معاشرے میں خواتین کو نظر انداز نہیں کیا ، مختلف موضوعات پر خواتین کی اصلاح پر کئی مضامین لکھے ، جن میں بعض یہ ہیں: خواتین کے ساتھ ہندوستانی معاشرہ کی نا انصافی ، بیوہ کی شادی کو قبول نہ کرنا ، عورتوں کی تعلیم سے بے توجہی ، کم عمری میں لڑکی کی شادی کرنے کا رواج ، یا بوڑھے آدمی سے اس کی شادی کروانا اور اسے میراث کا حق نہ دینا۔ یہ تمام موضوعات بہت اہمیت کے حامل ہیں-
آ کے دیکھیں سرسید نے اپنے مضمون (قومی اتحاد) میں عقیدے اقر خیالات کی آزادی کے بارے میں بات کی، وہ بھی لوگوں کو دوسرے کی رائے اور عقیدے کا احترام کرنے پر زور دیا:
‘‘ہم کو کسی شخص سے اس خیال پر کہ وہ شیعہ ہے یا سنی، وہابی ہے یا بدعتی، لامذہب ہے یا مقلد یا نیچری یا اس سے کسی بدتر لقب کے ساتھ ملقب ہے، جبکہ وہ خدا و خدا کے رسول کو برحق جانتا ہے، کسی قسم کی عداوت ومخالفت رکھنی نہیں چاہئیے، بلکہ اس کو بھی بھائی اور کلمے کا شریک سمجھنا اور اس اخوت کو جس کو خدا نے قائم کیا ہے، قائم رکھنا چاہئے۔’’
ایک اور مضمون میں، جو انسان اپنے رواج اور روایات کو بغیر سمجھے دوسروں کی نقل کرتا ہے، اسے بندر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ سر سید کہتے ہیں:
"اخلاقی اور عقلی قوتوں کی ترقی اِس صورت میں حاصل ہوتی ہے جبکہ وہ استعمال میں لائی جاویں- ان قوتوں کو اوروں کی تقلید کرنے سے کسی بات مشق حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایسے شخص کیلئے بجز ایسی قوت تقلید کے جو بندر میں ہوتی ہے اور کسی قوت کی حاجت نہیں۔ "
ان مضامین کے ذریعے سر سید نے پسماندگی اور منحرف قوتوں سے لڑنے اور اپنے لوگوں کو برے رسم و رواج سے آزاد کرنے کے لیے کام کیا۔ اندھے تعصب، نفاق اور جھوٹ اور دیگر بری عادات کو چھوڑ کر اور اپنے طرز زندگی کو تبدیل کرکے ترقی اور تہذیب کے راستے پر چلنے کا بھی مشورہ دیا۔
"انسان کی بدترین خصلتوں میں سے تعصب بھی ایک بدترین خصلت ہے یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہئے مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل و انصاف کی خصلت جو عمدہ ترین خصائل انسانی ہے اس میں نہیں ہے۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی نکل نہیں سکتا کیونکہ اس کا تعصب اس کے برخلاف بات کے سننے اور سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اسکی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا کیونکہ اس کے مخالفوں کو اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ تعصب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کے حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے اگر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے مگرصرف تعصب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور دیدہ و دانستہ برائی میں گرفتاراور بھلائی سے بے زار رہتا ہے۔ــ”
بلاشبہ سرسید کے مضامین نے اپنا کردار بخوبی انجام دیا اور سرسید کے مقاصد کو بڑی حد تک پورا کیا ، چنانچہ ہندوستانی مسلمانوں کے طرزِ زندگی اور سوچ میں تبدیلی آئی اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں شائستہ ترقی آئی، ان مضامین نے مسلمانوں میں عدم برداشت کی شدت کو کم کرنے اور بری عادات و روایات ، کاہلی اور غلط نظریات پر قائم رہنے جیسی ان منفی چیزوں کو چھوڑنے میں مدد کی جو ان کی کمزوری اور بگاڑ کا سبب بنیں، اسی طرح قومی اور سیاسی احساس بیدار کرنے ، مسلمانوں میں قوم پرستی کے جذبات پیدا کرنے اور افراد میں تعاون کے حوصلے عام کرنے میں بھی حصہ لیا۔
سرسید کے مضامین کی کئی نمایاں لسانیاتی اور اسلوبیاتی خصوصیات ہیں ، مثلا انہوں نے بیشتر اخلاقی اور اصلاحی مضامین میں خطابت کا انداز اختیار کیا اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو مشورے دیئے اور ان کی رہنمائی کی، سرسید نے مختصر جملے اور پیراگراف بھی استعمال کیے تاکہ مضمون پڑھنا قاری پر بوجھ نہ بن جائے ، اس کے علاوہ قرآنی آیات ، عربی امثال ، نبوی احادیث ، محاورے ، فارسی اشعار اور اردو مکالمے بھی استعمال کئے۔
ان کے ایک مضمون سے ایک نمونہ ہے:
"غرضکہ کسی شخص کے دل کو بے کار پڑا رہنا نہیں چاہئے کسینہ کسی بات کی فکر و کوشش میں مصروف رہنا لازم ہے تاکہ ہم کو اپنی تمام ضروریات کے انجام کرنے کی فکر اور مستعدی رہے اور جب تک کہہماری قوم سے کاہلی یعنی دل کو بے کار پڑا رکھنا نہ چھوٹے گا اس وقت تک ہم اپنی قوم کی بہتری کی توقع کچھ نہیں ہے۔ نہایت حکیمانہ قول ہے کہ:
بے کار مباش کچھ کیاکر
گر کر نہ سکے تو کچھ کہا کر”
سر سید احمد خان اپنے مضامین میں کسی بھی موضوع کی تائید ثبوت بھی فراہم کیا کرتے تھے ، اور ان کے مضامین میں مہذب طنز و مزاح بھی موجود ہے ، انہوں نے کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں لکھا بلکہ اپنی قوم کے ان تمام افراد کے لیے لکھا جن کی وہ اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے عام لوگوں کے قریب ہونے کے لیے پر تکلف انداز سے گریز کیا ، وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان کے دل میں جو کچھ ہے اسے اپنے مضامین کے ذریعے دوسروں کے دلوں میں اتار دیں۔ اس لئے انہوں نے سادہ انداز استعمال کیا تاکہ قاری ان کو با آسانی سمجھ سکیں۔
سر سید کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اسلوب ہموار ہوں ، خیال میں گہرائی ہو ، اور بات لوگوں تک واضح شکل میں پہنچائی جائے، اسی لئے وہ قاری کے ذہن کو سمجھنے اور اس کی سوچ کو توڑنے اور ترسیل کے عمل کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے ، اور یہی ہر اچھے مضمون کا بنیادی مقصد ہوتا ہے- ان کی مذہبی پرورش اور ان کی اسلامی ثقافت کی وجہ سے اسلامی مذہبی رجحان ان کے مضامین میں واضح تھا اور ان کے اس عقیدے کی وجہ سے کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کی طرف لوٹنا سنجیدہ اصلاح کا مثالی ذریعہ ہے ، چنانچہ ان کا خیال تھا کہ دینی اصلاح دنیوی اصلاح کی بنیاد ہے۔
اپنے مضمون "ہمیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا احترام کرنا چاہیے ” میں وہ کہہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم قرآن کریم میں دیا ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے۔
"ہم کو نہایت افسوس ہے کہ جب ہم مذہبی پیشواؤں کی کوئی کتاب دیکھتے ہیں تو اس میں ایک مذہب والا دوسرے مذہب کے پیشواؤں کا بری طرح ذکر کرتا ہے، یہ امر مذہب اسلامکے بلکل برخلاف ہے جس مذہب کے جوپیشوا ہیں جب ہم اپنے مذہبی مباحثوں میں ان کا ذکر کریں خواہ وہ لوگ ہندو ہوں یا پارسی عیسائی ہوں یا یہودی یا خود مختلف عقائد کے مسلمانہ ہی ہوں اگر ہمان کے بزرگوں و پیشواؤں کے ساتھ گستاخی سے پیش آئیں گے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اس طرح ہمارے بزرگوں اور پیشواؤں کے ساتھ گستاخی اوربے ادبی سے پیش نہ آئیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ "ولا تسبو الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم” سورۃ الانعام آیت 108
سرسید نے زندگی اور معاشرے کے تمام معاملات سے متعلق بامقصد ادب شائع کیا، ان کی تحریروں میںعقل اور حقیقت پسندی نے جذبات اور تخیل کی جگہ لی۔ ان کی ان ہی خوبیوں اور خصوصیات کی وجہ سے ان کے کئی ہم عصر ادیب ان سے متاثر ہوئے اور سر سید کے مضامین کا اثر ان کے مضامین اور خیالات پرظاہر اور عیاں ہے۔ان میں سے کچھ ادیبوں نے سر سید کے اصلاحی خیالات سے اتفاق کیا اور سر سید کے نظریات کا مختلف طریقوں سے جائزہ لی، ایسے ادیبوں میں الطاف حسین حالی، نذیر احمد دہلوی ، محسن الملک، ذکاء اللہ اور شبلی سرفہرست ہیں اوران میں سے کچھ نے سرسید کی تقلید کی اوران کے نقش قدم پر چلے۔ ان میں چراغ علی اور وحید الدین سلیم قابل ذکر ہیں۔ خلاصہ یہ کہ سر سید کے بعدآنے والے ادیب کسی نہ کسی شکل میں ان سے ان کی تحریروں سے اوران کے نظریات و خیالات سے ضرورمتاثر ہوئے۔
آخر میں کہہ سکتی ہوں کہ کسی بھی معاشرے میں اصلاح اور تبدیلی کا عمل کوئی آسان کام نہیں جو راتوں رات ہوجائے ، بلکہ یہ ایک مشکل عمل ہے ، خصوصا ایسی صورت میں یہ کام انتہائی مشکل ہو جاتا ہے جب کچھ سخت گیر قسم کے لوگ ان کی مخالفت بھی کررہے ہوں۔جیسا کہ سر سید احمدکے ساتھ ہوا۔ سرسید کے بہت سے دشمن ان کے نئے نظریات سے لڑتے نظر آئے اور ان کی دشمنی اس حد تک پہنچ گئی کہ انہوں نے ان پر کفر (بے دینی) کا فتویٰ بھی لگادیا۔ لیکن سر سید ان سے متاثر نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنا اصلاحی کام جاری رکھا ، اور نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوئے ، اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، اوراپنے خیالات کو ظاہر کرنے میں ہمت اور دلیری سے کام لیا۔ وہ اپنے مضمون (مخالفت) میں کہتے ہیں:
"دشمنی اور عداوت، حسد اور رنجش اور ناراضگی کے سوا ایک اور جذبہ انسان میں ہے جو خود اسی شخص میں کمینی عادتیں اوررزیل اخلاق پیدا کرتا ہے اورباوجود اس کے کہ وہ اپنے مخالف کو کچھ نقصان پہنچاوے خود اپنا نقصان کرتا ہے۔ اس انسانی جذبے کوہم مخالفت کہتے ہیں۔ ہم کو بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف اس پچھلے طریقے پر ہمسے مخالفت کرتے ہیں۔ ہم کو اپنی مخالفت ہی روسواء و بدنام ہوتے ہیں اور دنیا انہی کو دروغ گو و کذاب قرار دیتی ہے۔اگران کوہمارے حال پر رحم نے ہے توخودان کو اپنے حال پر رحم کرنا چاہئے – ربنا تقبل منا انک آنت السمیع العلیم- "جس طرح سید احمد خان نے اپنے مضامین میں اچھے خیالات اور اعلیٰ اخلاق پیش کیے ، ان میں اسلامی روایات اجاگر کئے ، اپنے معاشرے کی خطرناک صورت حال کو محسوس کیا اورمسلمانوں کی ایک اچھی اور نئی زندگی کے لیے تڑپتے رہے۔ اسی طرح آج ہمیں بھی محبت کی کہانیوں سے زیادہ با مقصد ادب کی ضرورت ہے ، زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاحات ہونی چاہئیں ، مساوات اور انصاف پر توجہ دینی چاہیے اور انسانی جذبات اور احساسات کو گندگیوں سے پاک کرنا چاہئے-خیال رہے کہ اخلاقی اصول، افراد اور معاشروں کی عمدہ زندگی کا ایسا نمونہ فراہم کرتے ہیں جو ترقی اور خوشحالی کو اخلاق کی بنیادوں اور سچائی کے ستونوں پر قائم کرتا ہے ، اور تمام توحید پرست مذاہب کی طرف سے لائی گئی اقدار کی رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ جس دن افراد اور جماعتوں کے دلوں میں یہ روحانی اقدار اور انسانی معنی پیوست ہو جائیں گے اسی دن موجودہ عالمی مسائل کا حل آسان ہو جائے گا – اور ایسا بین الاقوامی تنازعہ ختم ہو جائے گا جو کمزوروں کی طاقتوں کے استحصال کے لئے کوشاں ہے۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.