Baseerat Online News Portal

غیر منقسم مظفرپور پور کے پہلے مسلم ممبر اسمبلی ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب آواپوری( 1901- 14/ جنوری 1981)

 

مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی

غیر منقسم مظفرپور پور کے پہلے مسلم ممبر اسمبلی ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب آواپوری( 1901- 14/ جنوری 1981)

ولادت :
1901 میں ضلع سیتامڑھی کی مردم خیز بستی آواپور میں شیخ صدیقی خاندان میں ڈاکٹر حبب الرحمن صاحب کی ولادت ہوئی ،
والد بزرگ علی مرحوم بھی تعلیم یافتہ تھے ، اور مظفرپور کے کلکٹریٹ آفس میں کلرک تھے ، بزرگ علی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی اور چار بیٹے عطا فرمائے تھے ، تینوں چھوٹے بیٹے اعلی تعلیم یافتہ تھے ، دوسرے صاحب زادے لطف الرحمن مرحوم ترہت کمشنر کے اسسٹنٹ تھے ، اور انگریزی دور میں اس طرح کے بڑے عہدوں پر بہت کم ہندوستانی ہوتے تھے ، ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب مرحوم بزرگ علی مرحوم کے تیسرے صاحب زادے تھے ، چھوٹے صاحب زادے انجینئر تھے ،

تعلیم :
ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب نے اعلی تعلیم حاصل کی اور پوپری سب ڈویژن میں سب سے پہلے ایلوپیتھک میڈیسین میں سب سے اعلی سند یافتہ ڈاکٹر بننے کا شرف حاصل کیا ، پورے مظفرپور میں بھی اس زمانے ان کی جیسی اعلی ڈگری والے ڈاکٹر چند ہی رہے ہوں گے ،
اس زمانے میں ایم بی بی ایس کی ڈگری نہیں دی جاتی تھی ، یعنی کہ اس نام کی ڈگری انیس سو چھیالیس سے ملنی شروع ہوئی ہے ،
ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب کی ڈگری کا نام ایل ایم پی تھا ، اور بھورے کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر اسی ڈگری کا نام انیس سو چھیالیس میں ایم بی بی ایس کردیا گیا ، اس زمانے میں انگریزی طب میں اس سے اعلی ڈگری شاید ہندوستان میں نہیں ملتی تھی ،
ڈاکٹر صاحب کے لائق و فاضل پڑپوتے عزیزم مولانا سعید الرحمن سعدی قاسمی صاحبابن حافظ خلیل الرحمٰن صابر صاحب ابن نمونہ سلف حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب قاسمی مدظلہ العالی نے بعض بڑے پرانے ڈاکٹروں سے تحقیق کی تو انہوں نے بتایا
کہ ایل ایم پی آج کل کے ایم ڈی ڈاکٹروں کے لیول کا ہوتا تھا ،
بہر حال ایم ڈی کے برابر ہو یا نہ ہو ایل ایم پی ، ایم بی بی ایس کے برابر ضرور ہے ، اور اس زمانے میں ایل ایم پی ڈگری کے بعد ایم ڈی کرنے والے پورے ہندوستان میں شاید چند ڈاکٹر ہی رہے ہوں گے ،

جنگ آزادی میں شرکت:
1942 کی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اور میڈیکل آفیسر کی اپنی سرکاری نوکری سے بھی استعفی دے دیا ،

سیاسی سفر :
ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب آزادی سے قبل مسلم لیگ کے ممبر تھے ،
عوام اور علماء کی نظروں میں بہت مقبول تھے
آزادی کے بعد علاقے کے کانگریسی ذمے داروں نے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو یہ رپورٹ بھیجی کہ اس علاقے میں ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب بہت مقبول ہیں اگر یہ کانگریس میں شامل نہیں ہوئے تو پوپری سب ڈویژن کے قرب وجوار کی بارہ سیٹوں پر کانگریس کا نقصان ہوسکتا ہے، نہرو جی کی ایماء پر کانگرییسیوں نے ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب کو کانگریس میں شامل ہونے کی دعوت دی ،
کانگریسیوں کے مسلسل اصرار ، علماء کے مشورے اور عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے 1951 میں ڈاکٹر صاحب کانگریس میں شامل ہوگئے،
انہیں پوپری پرکھنڈ کا کانگریس صدر اور پوپری نارتھ اسمبلی حلقے سے ۱۹۵۲ میں امیدوار بنایا گیا،

انیس سو باون تا انیس سو باسٹھ پوپری نارتھ ،اور پوپری ساؤتھ نام کی دو اسمبلی نشستیں تھیں ،

شاندار کامیابی
ڈاکٹر صاحب نے اپنے قریبی حریف اور شوسلسٹ پارٹی کے امیدوار رام چرتر منڈل سے دوگنا سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے شاندار کامیابی حاصل کی،
رام چرتر منڈل کو صرف چھ ہزار ایک سو اکہتر (6171)ووٹ حاصل ہوئے تھے ، جب کہ ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب مرحوم کو بارہ ہزار چھ سو نوے(12690) ووٹ حاصل ہوئے تھے ، اتنی شاندار اکثریت سے کامیابی سماج کے تمام طبقوں میں ان کی بے پناہ مقبولیت کی طرف اشارہ کرتی ہے ، اور اتنی شاندار کامیابی حاصل کرنے والے پورے بہار میں بھی چند ہی لوگ تھے ،
اس زمانے میں ضلع مظفرپور کا رقبہ بہت بڑا تھا ، شیوہر ،سیتامڑھی اور ویشالی اضلاع بھی مظفرپور ضلع کا حصہ تھے ،
اس زمانے کے مظفرپور ضلع میں کل اکتیس اسمبلی نشستیں تھیں ، (اور موجودہ زمانے میں شیوہر ،سیتامڑھی ،مظفرپور ، اور ویشالی میں کل اٹھائیس اسمبلی نشستیں ہیں )
ان اکتیس نشستوں میں سے صرف تین نشستوں پر کانگریس نے مسلم امیدوار اتارے تھے ، اور یہ تینوں نشستیں موجودہ زمانے کے سیتامڑھی ضلع میں تھیں ،

1952 میں سیتامڑھی سے کانگریسی مسلم امیدوار
1- پوپری نارتھ سے ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب
2- سونبرسا سے بدر الزماں خان صاحب ،
3- سیتامڑھی ساؤتھ سے راشد انصاری صاحب
ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب مرحوم نے شاندار کامیابی حاصل کی
مگر بدر الزمان خان صاحب اور راشد انصاری صاحب کا میابی حاصل نہ کرسکے
سونبرسا سے بدر الزمان خاں صاحب کو گیارہ ہزار ایک سو پچاس ووٹ حاصل ہوئے اور وہ صرف تین سو سینتیس ووٹوں سے ہارگئے تھے ،ان کے قریبی مخالف آزاد امیدوار تلدھاری پرساد کو گیارہ ہزار چار سو ستاسی ووٹ حاصل ہوئے تھے ،
سیتامڑھی ساؤتھ سے راشد انصاری صاحب کو پانچ ہزار چار سو بارہ ووٹ ملے تھے ،
راشد انصاری صاحب ایک ہزار چھبیس ووٹ سے ہار گئے تھے ،
اس طرح اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اکتیس اسمبلی نشستوں والے ضلع مظفرپور میں ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب مرحوم اکلوتے مسلم ممبر اسمبلی تھے ،
اور اگر دائرہ وسیع کریں اور ترہت کمشنری کے تحت آنے والے تمام اضلاع کا جائزہ لیں ، تو پوری ترہت کمشنری سے ( ترہت کمشنری میں فی الحال کل انچاس اسمبلی نشستیں ہیں ، اور انیس سو باون میں باون سے زیادہ اسمبلی نشستیں تھیں ) صرف تین مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ،
1- ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب مرحوم پوپری نارتھ ،سیتامڑھی سے
2- فیض الرحمن صاحب ، سکٹا مغربی چمپارن سے
3- مولوی مشہود صاحب ،ڈھاکہ ،مشرقی چمپارن سے

سیاست سے بے زاری

1957آتے آتے ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب کانگریس اور سیاست سے بے زار ہوگئے،
وہ استعفی کی بات کرتے تو پارٹی والے ان سے استعفی نہ دینے کی گذارش کرتے اس لیے انہوں نے پارٹی اور سیاست سے نکلنے کے لیے یہ حربہ اختیار کیا کہ پارٹی سے کہا کہ پوپری نارتھ( جو ان کی سیٹینگ سیٹ تھی اور جہاں مسلمان تیس پینتیس فیصد تھے) سے کسی اور کو امیدوار بنایا جائے اور مجھے پوپری ساؤتھ سے امیدوار بنایا جائے ،
ان کی خواہش کے مطابق پوپری ساؤتھ سے انہیں امیدوار بنایا گیا، ۔ اور 1957 میں وہ پوپری ساؤتھ سے انیس سو انچالیس ( 1939 )ووٹوں سے ہارگئے ، ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب کو چودہ ہزار سات سو پچانوے ( 14795) ووٹ ملے تھے اور وہ دوسرے نمبر پر تھے تھے ،
پرجا شوسلسٹ پارٹی کے امیدوار دیویندر جھا کامیاب ہوئے تھے ،ان کو سولہ ہزار سات سو چونتیس ( 16734) ووٹ ملے تھے ،

ہار کے اسباب
1-پرچۂ نامزدگی داخل کرنے کے بعد کامیاب ہونے کے لیے انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی،
2- پوپری ساؤتھ میں مسلمان صرف پندرہ فیصد تھے،
اور اس علاقے میں ڈاکٹر صاحب کا گاؤں نہیں پڑتا تھا ،
3- بعض مسلم مالدار حضرات جو ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب کے ذریعے اپنے غلط مقاصد پورا کرانا چاہتے تھے اور ڈاکٹر صاحب نے ان کی جھوٹی سفارش کرنے سے انکار کردیا تھا ، ان مالداروں نے پوپری ساؤتھ کی دو مسلم اکثریت والی پنچایتوں کے مکھیاؤں ( پردھانوں) کو 1957 کے انتخاب کے وقت خرید لیا تھا ، اور ان دونوں پنچایتوں کے مکھیاؤں نے اپنی پنچایت کی عوام کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا تھا ،
مزید تفصیلات پچھلی تین قسطوں میں ملاحظہ فرمائیں ،

ہار کی خوشی
میری بڑی خالہ (ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب مرحوم کی بڑی صاحب زادی عظمت آراء مرحومہ ) نے چند سال قبل مجھے بتایا تھا کہ 1957 کے بہار اسمبلی الیکشن کا رزلٹ سننے کے بعد ابا جب گھر آئے تو دیکھا کہ گھر کے لوگ مایوس نظر آرہے ہیں تو اپنی بڑی پھوپھی زاد بہن( جو بیوہ تھیں اور اپنی دو بچیوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی کفالت میں تھیں، گھر کے تمام لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے) سے پو چھا سب لوگ کیوں مایوس ہیں؟
تو بہن نے جوب دیا آپ ہار گئے اس لیے ،

اس کے جواب میں ابا نے ہنستے ہوئے کہا
مجھے تو ہارنے پر خوشی ہے ، میں نے اس دلدل سے نکلنے کے لیے ہی اصرار کرکے اپناحلقۂ انتخاب بدلوایا تھا اور پرچۂ نامزگی بھرنے کے بعد پرچار کے لیے بھی نہیں نکلا،
اگر اس حلقے سے انتخاب لڑتا تو جیت یقینی تھی اور جیتنے کے بعد پھر پانچ سال بھگتنا پڑتا،

1957 تا 1981 کی زندگی
ہارنے کے بعد بھی کانگریس ان کو سر گرم سیاست میں رکھنا چاہتی تھی ،
مگر انہوں نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ ہارے ہو ئے لیڈر کو رکھ کر کیا کروگے؟ مجھے اب سیاست سے دلچسپی نہیں ہے،

وہ پہلے سے ہی صوم وصلوة کے پابند اور شریعت اسلامی کے مطابق زندگی گذارتے تھے،
سیاست سے کنارہ کشی کے بعد سماجی خدمت اور عبادت میں زیادہ وقت لگانے لگے ، تکبیر تحریمہ کی پابندی کے ساتھ نماز اداکرتے ، فجر کی نماز کے بعد سے تقریبا دو تین گھنٹے ذکر او اذکار اور تلاوت قرآن میں مشغول رہتے ، ان کے دوستوں میں نیکی ،تقوی اور عمیق علم میں شہرت یافتہ علماء کرام تھے ، جن میں قابل ذکر مولا سلیمان صاحب اواپوری رح ، مولانا یونس مظاہری آواپوری رح اور مولانا عین الحق قاسمی جوگیاوی رح ہیں ،
یہ تینوں علماء ولی صفت علماء تھے ،
مولا سلیمان صاحب اواپوری رح ، مولانا یونس مظاہری آواپوری رح قریبی رشتے سے ڈاکٹر صاحب کے بہنوئی تھے ،
مولانا یونس مظاہری آواپوری رح قطب الاقطاب حضرت مولانا صدیق احمد باندوی رح کے استاذ اور مربی تھے ، حضرت باندوی جب بھی بہار تشریف لاتے تو اپنے استاذ سے ملنے ضرور آتے ، اور ان کے قیام و طعام کا انتظام ڈاکٹر صاحب کے یہاں ہی ہوتا تھا ،
مولانا عین الحق قاسمی رح کئی زبانوں کے ماہر تھے ، حساب اور علم فرائض میں دور دور تک ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ، وہ رشتے میں ڈاکٹر صاحب کے بڑے ساڑھو تھے ، اور راقم سطور کے دادا محترم ،

ان کی صالحیت اور صلاحیت کی گواہی دینے والے بہت سارے حضرات آج بھی موجود ہیں ، برہمن ہو یا دلت ، مسلمان ہو یا ہندو جس نے بھی ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب کو دیکھا ، ان کے بلند اخلاق کا گرویدہ ہوگیا ،
1977 میں جنتاپارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے جناب حبیب احمد براری مرحوم سے جب جب ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے بہت عزت دی ، وہ کہا کرتے تھے ، تمہارے دادا اور نانا دونوں میرے گرو ہیں ، تمہارے دادا مولانا عین الحق جوگیاوی قاسمی صاحب میرے تعلیمی استاذ ہیں ، اور تمہارے نانا ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب میرے سیاسی استاذ ہیں ،

وفات حسرت آیات
چودہ جنوری 1981 کو عشاء کی نماز کے بعد حرکت قلب بند ہوجانے سے ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب انتقال کر گئے ،
اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان کی نیک اور مفید خوبیاں ہمیں بھی عطا فرماٰئے، اور سر زمین سیتا مڑھی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ،

امت کی ذمے داری
ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب مرحوم جیسے ایماندار ، قابل اور ملت کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کردینے والے سیاسی لیڈران اب کمیاب ہی نہیں بلکہ نایاب ہیں ،
یہ پوری امت کی ذمے داری ہے کہ ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب مرحوم جیسے ایماندار ،اور قابل تمام سیاسی اور سماجی قائدین کو یاد کیا جائے ، اور ان کی صاف ستھری سیاسی زندگی کو نمونہ بنایا جائے ،
_______________________

Comments are closed.