Baseerat Online News Portal

مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف داناپوری رحمۃ اللہ علیہ

( وفات : ۱۹ فروری ۱۹۴۸ء)

 

تحریر: علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ

 

مہینوں سے اخبار نہیں پڑھتا کہ ان کو پڑھ کر ایک ایسے شخص کو جو ملک میں ہر طرح امن و امان اور مہر و محبت کا طالب ہو دلی صدمہ پہنچتا ہے، اسی لئے مولانا کی وفات کی خبر ان کے صاحبزادوں کے خطوط سے ہوئی، میں نے ان کے صاحبزادوں کو لکھا کہ مرحوم کے کچھ ابتدائی تعلیمی حالات مجھے لکھ کر بھیجیں۔

لیکن ان کا پھر کوئی جواب نہیں آیا، البتہ اخبارات کے چند تراشے ملے، جن میں وفات کی خبر کے سوا کچھ اور نہ تھا۔

مرحوم کا وطن صوبہ بہار میں شہر داناپور متصل پٹنہ تھا، مگر وہ ایک عرصہ سے کلکتہ میں طبیب کی حیثیت سے مقیم تھے اور گویا اب وہی ان کا گھر ہوگیا تھا، مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے تعلیم و تربیت کن اساتذہ سے حاصل کی، مگر گفتگو اور تحریر سے پتہ چلتا تھا کہ ان کو علوم دینیہ میں پوری دسترس حاصل تھی، پھر کلکتہ میں رہ کر اور سیاسی مجلسوں میں شرکت کے سبب سے وہ زمانہ کی ضروریات اور عصری خیالات و افکار سے پوری طرح آگاہ تھے اور ان علماء میں تھے جو قدیم علوم و اعتقادات فقہ کو جدید خیالات و افکار سے تطبیق دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔

میری ان کی پہلی جان پہچان اس وقت ہوئی جب میں ۱۹۱۲ء؁ میں الہلال کلکتہ کی ادارت میں شرکت کے لئے کلکتہ پہنچا اور اس تقریب سے کئی مہینہ کلکتہ رہنے کا اتفاق ہوا تو مختلف جلسوں میں ان سے گفتگو، بات چیت اور میل جول کی نوبت آئی، پھر ۱۹۱۷ء؁ یا ۱۹۱۸ء؁ میں مجلس علمائے بنگالہ کی صدر کی حیثیت سے جب میرا کلکتہ جانا ہوا اور یہ وہ وقت تھا جب اسی کے ساتھ لیگ اور کانگریس کے سالانہ اجلاس بھی وہاں ہورہے تھے اور ہندو اور مسلمان تمام ملک کے نمائندے وہاں جمع تھے اور بیت المقدس کی انگریزی فتح کا حادثہ تازہ تھا اور طبائع میں بڑا ہیجان تھا، مرحوم سے ملنے کا موقع ہاتھ آیا اور خیال آتا ہے کہ ان کی قیام گاہ پر بھی جانے کا اتفاق ہوا جو چوناگلی میں تھی اور جہاں مرحوم نے وفات پائی۔

۱۹۱۶ء؁ میں ہندوستان میں ایک مسئلہ پر زیر بحث تھا اور وہ یہ کہ پنجاب کی ایک مسلمان عورت نے جو اپنے شوہر کے مظالم سے عدم نفقہ سے تنگ آچکی تھی، اس سے چھٹکارے کے لئے علماء سے استفتاء کیا تھا، مفتی عبداﷲ صاحب ٹونکی نے حنفیہ کے مسلک کے مطابق اس کو جواب دیا کہ اسلام میں اس کے لئے کوئی مخلص نہیں، اس پر آریہ اخباروں نے اسلام کو اس کی تنگ دامانی کا طعنہ دیا، اس کو پڑھ کر مولانا ابوالکلام نے بعض فقہائے تابعین اور ائمہ فقہ کے مسلک کے مطابق مولانا ٹونکی کے فتووں کی تردید کی اور لکھا کہ تین ماہ کے انتظار کے بعد بھی اگر شوہر اپنی بیوی کے نان و نفقہ کا انتظام نہ کرے اور بیوی مطالبہ کرے تو قاضی زوجین میں تفریق کرسکتا ہے، مولانا داناپوری نے مولانا ابوالکلام کے فتویٰ کی تغلیط کی اور کلکتہ کے اخبارات میں ایک مفصل مضمون اس کے جواب میں لکھا، یہ معارف کی اشاعت کا پہلا سال تھا، خاکسار نے ان تینوں صاحبوں کے فتووں پر ایک محاکمہ لکھا، جو معارف کی پہلی جلد میں ’’زوجۂ غیر منفق علیہا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اور جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ نہ تو مطلقاً مولانا ابوالکلام کا فتوی صحیح ہے اورنہ مولانا عبدالرئوف صاحب کا اور نہ تو مولانا ابوالکلام کی وسعت صحیح ہے اور نہ مولانا داناپوری کی تنگی، بلکہ یہ سب فتوے الگ الگ مختص حالات سے مخصوص ہیں، کسی کہنے والے نے مجھ سے نقل کیا کہ مولانا داناپوری نے میرے اس مضمون کو پڑھ کر فرمایا کہ ہاں! یہ مضمون ایک پڑھے لکھے شخص کا ہے۔

پھر مرحوم سے جمعیۃ العلمائے کلکتہ کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی اور آخری ملاقات آٹھ دس برس ہوئے اس وقت ہوئی جب مسلم تعلیمی کانفرنس علی گڑھ کا اجلاس کلکتہ میں ہوا، جس میں کمال یارجنگ تعلیمی تحقیقاتی کمیٹی مقرر ہوئی تھی، یہ وقت ملکی سیاسیات کے ایک نئے پہلو کا تھا۔

مرحوم سیاسیات میں جمعیۃ العلماء کے ساتھ تھے اور اس کے بعض جلسوں کی صدارت بھی کرچکے تھے، لیکن آخر میں اس سے الگ ہوکر مسلم لیگ میں منسلک ہوگئے تھے اور جمعیۃ علمائے اسلام میں داخل ہوگئے تھے اور اس حیثیت سے وہ بنگال کی اسلامی سیاست پر بہت اثر انداز تھے۔

مرحوم علوم دینیہ کے علاوہ زمانۂ حال کے حالات و خیالات سے بھی پوری باخبر تھے جس کا ثبوت ان کے وہ مختلف خطبات ہیں جو انہوں نے مختلف مجلسوں میں پڑھے ان کا جمعیۃ العلماء کا خطبۂ صدارت ان کی سیاسی بصیرت کا آئینہ ہے، چند سال ہوئے جامعہ ملیہ دہلی میں اسلام کے سیاسی و معاشی اور دوسرے عصری مشکلات پر جو خطبہ ارشاد فرمایا اہل بصیرت نے اس کی بے حد قدر کی ان کی زندگی کا سب سے آخری کارنامہ ابھی چند ماہ ہوئے مشرقی بنگال کے ایک مذہبی و تبلیغی جلسہ میں ان کا حکیمانہ خطبہ ہے، جس میں پاکستان کی سیاسی حیثیت اور سیاسی مجبوریوں کی بناء پر اصول خلافت کی بنیاد پر حکومت کی تاسیس کی معذوریوں کا بیان تھا، یہ خطبہ بھی ان کی سیاسی فہم و تدبر کا نمونہ ہے۔

مرحوم ایک ممتاز طبیب، ایک مشہور عالم، ایک خوش بیان خطیب اور ایک مفکر ہونے کے ساتھ مصنف بھی تھے، چنانچہ ان کی تصنیفات میں سب سے اہم کتاب ’’اصح السیر‘‘ ہے، جو افسوس ہے کہ ان کی وفات سے ناتمام رہی۔

مولانا اونچا سنتے تھے، اس لئے ہمیشہ ایک آلہ ساتھ رکھتے تھے، جس کو لگاکر دوسروں کی بات سنتے تھے، تاہم ان سے ملنے جلنے والوں کا بڑا حلقہ تھا، اور کلکتہ میں ان کو بڑی اہمیت حاصل تھی، اہل علم اور اہل سیاست دونوں میں ان کا خیرمقدم تھا، وہ متواضع، سادہ مزاج اور خلیق تھے۔ چھوٹے بڑے سب سے یکساں ملتے تھے۔

مرحوم کی عمر اس وقت ۷۴ سال کی تھی، جس کے معنی یہ ہیں کہ ۱۸۷۴ء؁ میں ان کی ولادت ہوئی ہوگی، ۱۹؍ فروری ۱۹۴۸ء؁ کی صبح کو جمعرات کے دن ۸ بجے کے قریب ان کی علالت کی ابتداء ہوئی، فرمایا کہ بخار معلوم ہوتا ہے، تھوری دیر کے بعد جاڑا معلوم ہوا، دن بھر کچھ بخار رہا، مغرب کی نماز تک کوئی خاص بات نہ تھی، ساڑھے سات بجے شام سے حالت بگڑی، یہاں تک کہ رات کو ایک بجے داعی اجل کو لبیک کہا، مرحوم کی وفات سے کلکتہ کی سرزمین علم و عرفان کے نور سے محروم ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو روشن کرے۔

(’’س‘‘، مئی ۱۹۴۸ء)

(وفیات معارف)

Comments are closed.