ماہ شوال فضائل و خصوصیات اور رسومات و بدعات

عالمہ حمیرا حسین مومناتی(ایم اے)
شیخ پورہ دانی , دربھنگہ, بہار [email protected]
اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے بنائے ہیں اور ہر ماہ میں کچھ خصوصیات رکھی ہے جو انہیں دوسرے مہینوں سے ممتاز کرتی ہیں ۔ شوال اسلامی ہجری کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔ اسے شوال المکرم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جو کہ حج کے مہینوں میں پہلا مہینہ شمار کیا جاتا ہے (یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر ) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں کہ اس ماہ کی پہلی تاریخ کو مسلمان عید الفطر مناتے ہیں۔ تاریخِ اسلام میں اس ماہ کی بہت اہمیت ہے۔ یہ مہینہ اپنے دامن میں ایسی کئی تاریخی یادیں لئے ہوئے ہے جنہیں رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا ۔ *ماہِ شوال کے فضائل:* اس ماہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پہلی تاریخ کو *عید الفطر* کا دن ہونے کا شرف حاصل ہے جو اسلام کا ایک عظیم الشان تہوار ہے اور مسلمانوں کے لیے بڑی مسرت اور خوشی کا دن ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن بطور ِتہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرمادیے ہیں، ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن۔
(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:1134) ‘‘ ٢. عید الفطر کا دن خدا کے انعامات حاصل کرنے کا دن ہے۔ اسلام میں عید صرف علامتی خوشی اور رواجی مسرت کا دن نہیں ؛ بلکہ وہ عبادتوں کے بدلے، اللہ تعالیٰ کی رضاء و مغفرت اور دعاء کی قبولیت کا دن ہے۔
اسی لئے احادیث مبارکہ میں عید الفطر کی رات یعنی چاند رات کو "ليلة الجائزة ” اور عید الفطر کے دن کو ” یوم الْجَوَائِزِ” یعنی انعامات و بدلے کا دن کہا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس سے مَروی ہے :”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)
ایک طویل حدیث میں عید کے دن کا بڑا پیارا اور خوبصورت منظر بیان کیا گیا ہے، جسے پڑھ کر یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر جوش میں ہوتی ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس انعام والے دن کتنا نوازتے ہیں ،چنانچہ فرمایا:جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہر وں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین میں اُتر کر تمام گلیوں ، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے،پکارتے ہیں : اے محمد (ﷺ)کی امّت !اس کریم رب کی (درگاہ)کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطاء فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے ، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں : کیا بدلہ ہے، اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو ؟
وہ عرض کرتے ہیں : ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہےکہ اُس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں : اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے اُن کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطاء کردی اور بندوں سے خطاب فرماکر اِرشاد ہوتا ہے:اے میرے بندو! مجھ سے مانگو ، میری عزّت کی قسم ، میرے جلال کی قسم !آج کے دن اپنے اس اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے،وہ میں عطاء کروں گااور جو اپنی دنیا کے بارے میں سوال کروگے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا ، میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری (یعنی پردہ پوشی کا معاملہ)کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا ) ،میری عزّت کی قسم! اور میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں (اور کافروں)کے سامنے رسوا اور ذلیل نہ کروں گا ، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا ، پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر جو امّت کو افطار کے دن( رمضان کے ختم ہونے کے دن )ملتا ہے ،خوشیاں مناتے ہیں ۔
(شعب الإيمان ,۵/۲۷٧) *شبِ عید *(چاند رات) کے فضائل:*
شوال کا مہینہ اتنا بابرکت مہینہ ہے کہ اس کی برکتوں کاآغاز اس مہینے کی پہلی ہی رات سے ہوجاتا ہے ، جس طرح شوال کا پہلا دن ‘‘عیدالفطر‘‘ کا بابرکت دن ہے، اسی طرح اس کی رات بھی بابرکت ہے۔ اس رات کو “لیلۃ الجائزہ”یعنی’’ انعام ملنے والی رات‘‘ کہا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
”مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ“
جس عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔(ابن ماجہ:1782)(طبرانی اوسط:159)۔۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے نقل فرماتے ہیں :
جو چار راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرے، اُس کےلیےجنت واجب ہوجاتی ہے ۔
١- لیلۃ الترویۃ یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات۔
٢- عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی رات ۔
٣- لیلۃ النحر یعنی دس ذی الحجہ کی رات۔
٤- لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب۔
۵۔ شعبان کی پندرہویں شب یعنی شبِ براءت ۔
(الترغیب و الترھیب للمنذری، حدیث نمبر:1656)۔ ایک جگہ ارشاد ہے :
”خَمْسُ لَيَالٍ لَا تُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءَ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ“۔ (مصنف عبد الرزاق :7927)۔
پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا :جمعہ کی شب، رجب کی پہلی شب، شعبان کی پندرہویں شب، اور دونوں عیدوں(یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی راتیں۔ اس لئے عیدین کی راتوں میں مارکٹوں اور بازاروں میں مٹر گشتی کرنے کی بجائے ،ذکر و تلاوت اور
خدا کے حضور عجز ومسکنت سے دعا مانگنے کا اہتمام کرنا چاہئے ، اسے ضائع کرنا بڑی محرومی کی بات ہے۔۔ 2 *۔ ماہِ شوال اور حج کی تیاری* ماہ شوال کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کا شمار اشہر حج میں ہوتا ہے
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ(البقرۃ:197) حج کے مہینےطے شدہ اور معلوم ہیں۔
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ ’’اشہرِ حج‘‘ تین ہیں، جن میں سے پہلا شوال اور دوسرا ذیقعدہ اور تیسرا ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ فتح الباري : (420/3)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے مہینوں کی ابتدا شوال سے ہوتی ہے ، اور جو شخص اس سے قبل حج کا احرام باندھے گا اس کا احرام حج صحیح نہیں ہوگا ، کیونکہ حج کا یہ احرام اس کے وقت سے پہلے باندھا گیا ہے ، جس طرح اگر کوئی نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھ لے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی ، اور اسے وہ نماز کا وقت ہوجانے کے بعد دوبارہ پڑھنی پڑے گی ، اسی طرح شوال سے پہلے احرام حج باندھنے والے کو ماہ شوال شروع ہونے کے بعد دوبارہ احرام باندھنا پڑے گا۔
اسی طرح اگر کسی نے شوال سے پہلے تمتع کی نیت سے عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ کیا تو اس کا یہ عمرہ حج تمتع کا عمرہ نہیں ہوگا بلکہ نفلی عمرہ شمار ہوگا- 3 *شوال المکرم کے چھ روزے:*
ماہ شوال کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد اگر کوئی اس ماہ میں چھ روزے رکھ لے تو اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا ،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھَر”۔
(صحیح مسلم/1164)
ترجمہ: ” جس نے رمضان کے (پورے)روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے(یعنی پورے سال) کے روزے رکھنے کے برابر ہے”۔
اور آپ ﷺ نے اس کی وجہ یوں بیان فرمائی :
’’”اللہ تعالیٰ نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہے، رمضان المبارک کے روزے دس ماہ اورشوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے‘‘
صحیح ابن خزیمہ :2115،النسائی الکبری:2873
شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک، مسلسل یا متفرق، دونوں صورتوں میں جس طرح بھی آسان ہو، رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزے ہیں ، فرض یا واجب نہیں ہیں۔ جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ 4. *ماہ ِ شوال اور صدقۃ الفطر:* مستحب یہ ہے کہ عیدالفطر کے دن نماز عید کے لئے جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردیا جائے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول ﷺ نے صدقہ فطر روزے دار کو لغو اور بےہودہ باتوں کے اثرات سے پاک کرنے اور مسکینوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے مقرر فرمایا ہے،جس شخص نے نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کردیا،وہ مقبول صدقہ فطر ہےاور جس نے نمازِعید کے بعد ادا کیا ،تو وہ عام صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے۔
(سنن ابن ماجۃ،حدیث نمبر:1827)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ماہِ رمضان کا روزہ آسمان اور زمین کے درمیان معلق(لٹکا) رہتا ہےاور بغیر صدقہ فطر کے اوپر نہیں اٹھایاجاتا۔
(الترغیب و الترھیب للمنذری،حدیث نمبر:1653) 5. *ماہ شوال اور رسول اللّٰہ ﷺ کا اعتکاف* اس ماہ کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف نہیں کیا اور شوال میں اس کی قضاء کی ،حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺجب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوتے ، چنانچہ آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا ارادہ کیا اور خیمہ لگانے کا حکم دیا چنانچہ خیمہ لگادیا گیا ، پھر حضرت عائشہؓ نے اپنے لئے خیمہ لگانے کا حکم دیا تو ان کے لئےبھی خیمہ لگا دیا گیا،پھر حضرت حفصہؓ نے حکم دیا تو ان کے لئے بھی خیمہ لگا دیا گیا ، جب حضرت زینب نے ان دونوں خیموں کو دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے لئے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، جب رسول اللہ ﷺنے یہ دیکھا تو فرمایا: کیا انہوں نے خیر کا ارادہ کیا ہے ؟ پھر آپ نے اعتکاف نہیں کیا ، ان کے خیموں کو بھی اکھڑوا دیا اور اس کے بدلے شوال میں دس دن اعتکاف کیا ۔( صحیح ابن ماجہ :2/90) *شوال کے مہینہ میں پیش آنے والے چند اہم واقعات*
1. شوال سنہ 1ھ: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی۔
2. شوال سنہ 2ھ: اسلام میں پہلی مرتبہ عید الفطر کی نماز ادا کی گئی۔
3. شوال سنہ3ھ: غزوہ احداور غزوہ حمرآء الاسد واقع ہوا
4. شوال سنہ 5ھ:غزوہ احزاب (غزوہ خندق) واقع ہوا۔
5. شوال سنہ 6ھ:غزوہ مریسیع واقع ہوا۔
6. شوال سنہ 8ھ: حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین کے لیے پہنچے۔۔ *ماہ ِ شوال کی رسومات وبدعات*
1۔ *یکم شوال (عید کے دن) فوتگی والے گھر جانا:*
بعض علاقوں میں جب کسی گھر میں کوئی فوت ہوجاتا ہے ، تو اس کی وفات کے بعد عزیز و اقارب پہلی عید و بقرعید پرمیت کے گھر پہنچنا فرض سمجھتے ہیں،اور وہاں جاکر تعزیت کرتے ہیں ،چاہے انتقال ہوئے مہینوں گذر چکے ہوں۔
اس رسم میں کئی خرابیاں ہیں:
۱۔ تعزیت تین دن کے اندر اندر ایک مرتبہ کرنا سنت ہے ،لہذا جب ایک مرتبہ تعزیت کی جاچکی ہے،اب عید کے دن دوبارہ تعزیت کرنا سنت کے خلاف ہے ۔
۲۔ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
۳۔عید کا دن خوشی کادن ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے مہمان نوازی کا دن ہے ،اس دن غم کو تازہ کرکے عید کی خوشی کوغم میں تبدیل کرنا انتہائی مکروہ اور خلاف ِ شریعت رسم ہے۔
لہذا اس بری رسم اور بدعت سیئہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔۔ 2 *۔فوتگی والے گھر میں سوگ کا سماں:*
بعض علاقوں میں کسی کے انتقال کے بعد اس کی پہلی عید پر فوتگی والے گھرمیں سوگ کا سماں ہوتا ہے، اس گھر کے افراد عید کے دن خوشی منانے،اچھے کپڑے پہننے کو برا سمجھتے ہیں۔یہ محض خود ساختہ رسم ہے،کیونکہ شرعی اعتبار سےسوگ کی تین دن تک اجازت ہے ،البتہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو ،اس کے چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا واجب ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی عورت کے لئے ،جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:1491) لہذا اس خود ساختہ رسم سے اجتناب کرنا چاہیے۔۔ 3 *۔عید کے دن قبرستان جانا:*
بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ عید کے دن نمازِعید کےفوراًبعد قبرستان جانے کو ضروری خیال کیا جاتاہے اور اس دن قبروں کی زیارت نہ کرنے والوں پر طعن کی جاتی ہے،یہ بدعت اورناجائز ہےجس کو ترک کرنا لازم ہے،تاہم اگر اس کا التزام نہ کیا جائےاور اسے سنت اور ضروری نہ سمجھاجائے تو عید کے دن قبرستان جاناجائزہے۔ 4 *۔ماہِ شوال میں نکاح کو منحوس سمجھنا:*
بعض لوگ دو عیدوں کے درمیان اور شوال کے مہینے میں نکاح اور شادی کو منحوس سمجھتے ہیں ۔۔ *شوال میں نکاح کو منحوس سمجھنے کی وجہ:* اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ شوال میں طاعون پھیل گیا تھا،جس میں بہت سی دلہنیں مرگئی تھیں،اس لئے زمانہ جاہلیت میں لوگ شوال کے مہینے میں نکاح منحوس سمجھنے لگے تھے اور اس میں شادی نہیں کرتے تھے۔ طبقات ابن سعد: (60/8)
واضح رہے کہ شریعت میں سال کے بارہ مہینوں اور دنوں میں کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں ،جس میں نکاح کی تقریب مکروہ اور ناپسندیدہ ہو یا اس میں نکاح منحوس اور شادی ناکام ہوجاتی ہو۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس ماہ میں نکاح کیا اور اسی ماہ میں رخصتی فرماکر جاہلیت کے باطل خیال و نظریہ کا رد کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :جناب رسول اللہ ﷺ نے ميرے ساتھ شوال ميں نكاح كيا، اور ميرى رخصتى بھى شوال ميں ہوئى، نبى كريم ﷺكے نزديك رسول اللہ ﷺ کی كونسى بیوی مجھ سے زيادہ خوش قسمت تھى ؟ "(صحیح مسلم: 348)
(مسند احمد: 24272) اسی لئے ماہ شوال میں شادی کرنا اور رخصتی کر کے نئی نویلی دلہن کو اپنے گھر لانا بہت سے علماء کے نزدیک مستحب ہے ، اور اس کو شادی بیاہ کے لئے منحوس سمجھنا بالکل غلط اور جاہلیت کے امور میں سے ہے۔ غرض یہ کہ شوال کا مہینہ بڑی اہمیت اور گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس عظیم الشان مہینے کی برکتوں سے خوب مالا مال فرمائے، اور اس ماہ مبارک میں بدعات و خرافات سے بچائے اور زندگی کے قیمتی لمحات کی قدر کرکے زیادہ سے زیادہ توشہ آخرت تیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Comments are closed.