اگر کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو پہلے…….!

اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا……
محفوظ احمد، ریاض
24/11/2023 ، جمعہ
قرآن کی اس آیت کے اندر اللہ نے انسانی زندگی اور انسانی معاشرہ کے لیے ایک خدائی قانون (Divine Law) بیان کیا ہے، بحیثیت انسان ایک شخص اگر اس قانون پر عمل کر لے تو وہ بہت سارے مسائل اور بہت ساری پرابلمز سے بچ جائے گا۔
اس قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کے بارے میں آپ کے پاس کوئی شکایت لے کر آئے تو آپ کو چاہیے کہ اُس دوسرے آدمی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے قبل اپنے ذرائع (Resources) سے اس خبر کی تحقیق کر لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تحقیق کیے بغیر آپ کوئی فیصلہ کر لیں اور بعد میں وہ بات غلط ثابت ہو جائے تو آپ کو اپنے فیصلہ پر پچھتانا پڑے۔
مفسرین نے اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو بنی مُصطلق کے پاس صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا، زمانۂ جاہلیَّت میں حضرتِ ولید اور بنی مصطلق کے درمیان دشمنی ہوا کرتی تھی، جب آپ اُن کے علاقے کے قریب پہنچے اور اُن لوگوں کو معلوم ہوا تو اس خیال سے کہ حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فِرِستادہ (Messenger) ہیں، بہت سے لوگ آپ کی تعظیم اور استقبال کے لیے باہر نکل آئے لیکن حضرت ولید کو گمان ہوا کہ پرانی دشمنی کی وجہ سے یہ لوگ مجھے قتل کرنے کے لیے آرہے ہیں، یہ خیال آتے ہی آپ وہاں سے واپس ہوگئے اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے اپنے گمان کے مطابق عرض کیا کہ حضور! ان لوگوں نے صدقہ دینے سے منع کر دیا اور مجھے قتل کرنے کے درپے ہو گئے تھے۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو صورت حال کی تحقیق کے لئے بھیجا، حضرت خالد رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے دیکھا کہ وہ لوگ اذانیں کہتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اور اپنے صدقات بھی اُن کو پیش کردیے چنانچہ آپ یہ صدقات لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ عرض کیا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(6)
میں نے اپنی پرسنل اور پروفیشنل دونوں لائف میں اس کا معمول بنا رکھا ہے، میرے پاس جب بھی کوئی خبر آتی ہے تو میں اُس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرتا جب تک اپنے ذاتی ذرائع (Personal Resources) سے میں اس کی تحقیق و تدقیق نہ کر لوں۔
گذشتہ دنوں میرے ساتھ کچھ اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ چھٹی کے ایام میں حسب معمول اپنے معزز اساتذۂ کرام میں سے ایک استاذ سے ملاقات کے لیے میں اُن کے گھر حاضر ہوا۔ اساتذۂ کرام کی قدر و منزلت اور ان کی ذات با برکات کا ادب و احترام تو اوّلِ دن سے ہی گھٹیوں میں پڑا ہوا ہے لیکن دس سال قبل اچانک والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد اِن حضرات کی طرف دل کا میلان مزید بڑھ گیا ہے اور دل و دماغ بلکہ میرے پورے وجود میں ان کی عظمت و مرتبت دو چند ہو گئی ہے چنانچہ تمام تر مشغولیات کے باوجود ہر چھٹی میں مادر علمی کی چہار دیواری سے لے کر پورہ معروف تک کا سفر کئی کئی بار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان حضرات سے ملاقات کر کے دل کو سکون اور جان کو راحت محسوس ہوتی ہے۔ ان میں بعض حضرات تو ایسے ہیں کہ ان سے ملاقات کے بعد والد جیسی اُبُوَؔت اور ایک شفیق باپ جیسی شفقت کا احساس ہوتا ہے، اُس وقت میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اُن کی ماں کی بھی ملاقات اِن نفوسِ قدسیہ سے کراؤں تاکہ یہ حضرات اپنا شفقت بھرا ہاتھ ان بچوں کے سروں پر پھیر دیں اور کچھ دیر کے لیے انہیں بھی اپنے دادا مرحوم کی دادائیت کا احساس ہو سکے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 3 اکتوبر 2023ء کو مادر علمی مدرسہ نور الاسلام میں ہونے والے جلسۂ دستار بندی کے اندر جب لوگ بڑے بڑے علمائے کرام کے با برکت ہاتھوں سے اپنے سروں پر دستار فضیلت سجانے کے لیے کوشاں تھے میری نگاہیں اسٹیج پر ایک ایسے شخص کو تلاش کر رہی تھیں جو اپنی عمر اور دنیاوی عہدوں کے اعتبار سے اُن حضرات کے مقابلے میں کم بہت کم بلکہ کمتر ہے لیکن کم و بیش بیس بائیس سال قبل اُس شخص نے کلام اللہ کو ترتیل و تجوید کے ساتھ پڑھنے کا ہنر مجھے سکھایا تھا جو میں آج اپنے لیے باعث افتخار اور بہت بڑا سرمایۂ حیات سمجھتا ہوں، بالاخیر اسٹیج پر موجود علمائے کرام کی بھیڑ میں ہلکے پھلکے بدن اور متوسط قد و قامت والے مجھے میرے استاذ محترم حضرت مولانا قاری نیاز احمد صاحب قاسمی نظر آ گئے، ان کے پاس جا کر میں نے عرض کیا کہ حضرت میرے سر پر یہ دستار آپ ہی باندھیے کہ میں آپ ہی کو اس کا سب سے زیادہ مستحق سمجھتا ہوں۔ یہ سن کر آپ کو ایک خوش گوار حیرت ہوئی جس کا احساس اس وقت مجھے بھی ہوا۔ ایک دو پھیرے باندھنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ اب آپ دوسرے لوگوں سے مکمل کرا لیں، میں نے دوبارہ درخواست کی کہ حضرت آپ ہی مکمل کیجیے اس پر آپ کھلھلا کر ہنس پڑے اور پھر مکمل دستار میرے سر پر باندھی۔
بات استاذ محترم سے ملاقات کی چل رہی تھی، ہم ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوئے، علیک سلیک اور رسمی ضیافت کے بعد گفتگو کا سلسلہ جب ذرا دراز ہوا تو مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں اور آپسی تبادلۂ خیالات کے دوران ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے جب میں نے آپ کی کسی بات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تو بجائے مجھے مطمئن کرنے کے آپ فرمانے لگے کہ “جی ہاں میں نے سنا ہے کہ آپ علامہ نیاز فتحپوری سے متاثر ہیں”۔
اتنا سننا تھا کہ میرے ہوش اڑ گئے۔ پہلی بار “زبان گنگ ہونے والا” محاورہ سمجھ میں آیا۔ میں نے بولنا چاہا لیکن میری آواز نہیں نکل سکی، زبان گنگ ہو گئی اور آنکھیں بھر آئیں۔ بڑی کوشش کے بعد صرف اتنا کہہ سکا کہ حضرت آپ میرے استاذ ہیں، میں نے آپ کو والد کے درجہ میں سمجھا ہے، آپ میرے لیے صرف ایک استاذِ محض نہیں بلکہ بہت کچھ ہیں اور ہم آپ کے لیے آپ کی اولاد کی طرح ہیں۔ کیا اگر آپ کی حقیقی اولاد کے بارے میں آپ سے کوئی غلط بات کہی جائے تو آپ فورا مان لینگے یا اس کی تحقیق کرینگے؟ رندھی ہوئی آواز کے ساتھ میں اتنا ہی بول سکا اور پھر ماحول پر ایک خاموشی طاری ہو گئی، میرے ساتھ موجود ہمارے دوست اور خود استاذ محترم کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا کہ میں بول نہیں پا رہا ہوں اس کے بعد ایک امانت ان کو واپس کرنی تھی جو کر کے ہم لوگ واپس ہو گئے۔ واپسی پر آپ نے فرمایا کہ اگر میری بات سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔
در اصل اس واقعہ کے پیچھے وہی عام مزاج کار فرما ہے کہ لوگ سنی سنائی باتوں پر بعجلت تمام اعتماد کر لیتے ہیں اور تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھتے جبکہ قرآن کریم کی مذکورہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر پہلے ہمیں تحقیق کرنی چاہیے۔
ہمارے حلقۂ احباب میں بعض لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ تم ایک مضبوط فکر اور مضبوط دل و دماغ والے انسان ہو۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خلاف توقع حالات میں جب لوگ عموماً گھبرا جاتے ہیں میں کوشش کرتا ہوں کہ مطمئن نظر آؤں۔ اوپر کا واقعہ بظاہر ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اُس وقت مجھے سخت تکلیف پہنچتی ہے جب کوئی شخص میری دینی فکر پر ضرب لگاتا ہے کیونکہ میں اسی کو اپنا کل سرمایۂ حیات سمجھتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ:
جراحات السنان لها التيام
و لا يلتام ما جرح اللسان
مولوی اسماعیل میرٹھی نے عربی کے اس شعر کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح کیا ہے۔
چھری کا تیر کا تلوار کا تو زخم مٹا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا
علامہ نیاز فتحپوری ندوی ایک معروف ادیب، دانشور، فلسفی اور مؤرخ گذرے ہیں۔ 1884ء میں فتح پور ہسوہ میں پیدا ہوئے۔ فروری 1922ء سے “نگار” نامی ایک رسالہ نکالنا شروع کیے جو پاکستان میں آپ کی وفات 24 مئی 1966 تک ہر ماہ باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ من و یزداں (میں اور میرا خدا) آپ کی سب سے اہم کتاب ہے۔ آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ فکری اعتبار سے آپ راہ راست سے منحرف ہو گئے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کو دہریہ تک قرار دے ڈالا تھا۔ آپ کی مذکورہ کتاب قابل مطالعہ ہے، میں نے دہلی کے زمانۂ طالب علمی میں خرید کر پڑھی تھی۔ عقل و شعور کی پختگی کو پہنچنے کے بعد کسی شخص پر صرف اس لیے طنز کرنا کہ اس نے ایک مختلف فیہ مصنف کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے دیانت داری کے خلاف بات ہے۔ اگر ہم صرف اپنے ہم مسلک و ہم مشروب بزرگوں کی کتابوں کا ہی مطالعہ کریں گے تو باہر کی دنیا کا علم کیسے ہوگا، بوقت ضرورت انہیں کے انداز میں ان کا جواب دینا کیسے ممکن ہوگا۔ فکر غامدی، فکر وحیدی، فکر مودودی اور فکر نیازی سے اگر ہم واقف نہیں ہونگے تو کون ان کو جواب دے گا۔
ماضی قریب کے معروف عالم دین اور دانشور حضرت مولانا وحید الدین خان صاحب مرحوم نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ جب میں مغربی مفکر برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell) کی کتاب بغرض مطالعہ دار المصنفین اعظم گڑھ سے لے کر گھر آیا تو میری اہلیہ کہنے لگیں کہ اب آپ ضرور گمراہ ہو جائینگے لیکن اس کتاب کے مطالعہ سے فارغ ہو کر جب میں باہر نکلا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرا ایمان مزید مضبوط ہو گیا ہے۔
در حقیقت یہ صاحبِ مطالعہ کے علم اور اس کی ذہنی پختگی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ زیر مطالعہ کتاب سے کس حد تک متأثر ہوتا ہے یا اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ اس لیے اگر ہمیں اپنے اوپر اطمینان ہو تو ہر شخص کی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایسے ہی جب ہمارے پاس کوئی خبر پہنچے تو کوئی فیصلہ لینے سے قبل ہمیں اپنے اندر تحقیق کا مزاج پیدا کرنا چاہیے۔
“اے ایمان والو! جب کوئی فاسق آدمی آپ کے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کریں، ایسا نہ ہو کہ بغیر تحقیق کے آپ کوئی فیصلہ کر بیٹھیں اور بعد میں آپ کو اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہو۔
Comments are closed.