Baseerat Online News Portal

شہر علم وادب کا ایک گوہر نایاب مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ مشاہدات و تاثرات

غفران ساجد قاسمی
چیف ایڈیٹر: بصیرت آن لائن و ڈائریکٹر: بصیرت جرنلزم اینڈ لینگویج اکیڈمی، ممبئی

کتابوں سے تعلق رکھنے والا شاید وہاں باید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جو دیوبند کے معروف کتب خانہ دارالکتاب دیوبند سے ناواقف ہو، دارالکتاب کتابوں کی دنیا میں ایک ایسا معروف اور جاناپہچانا نام ہے جس سے دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس و جامعات میں پڑھنے والے تقریباً اکثر و بیشتر طلبہ و طالبات واقف ہوتے ہیں اور دارالکتاب کی مطبوعات سے مستفید ہوتے ہیں، دیوبند جانے والے طلبہ میں سے تقریباً 90 فیصد ایسے ہوتے ہیں جو دیوبند پہونچنے سے قبل ہی دارالکتاب دیوبند کے نام سے آشنا ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر مالک دارالکتاب واصف حسین المعروف ندیم الواجدی سے غائبانہ طور پر متعارف ہوچکے ہوتے ہیں، تقریباً میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، جب میں کلکتہ کے جامعہ قاسم العلوم خضرپور میں عربی اول کا طالب علم تھا تو اس وقت جامعہ کے درجہ حفظ کے ایک استاذ جناب حافظ ایوب صاحب ہوا کرتے تھے، انہیں کتابوں کا بہت شوق تھا، ان کی الماری کتابوں سے بھری رہتی اور دیکھتا کہ تقریباً ہر مہینے ہی وہ دیوبند سے کتابیں منگواتے رہتے تھے، حالاں کہ اس وقت میں عربی اول کا ادنی طالب علم تھا، شعور بھی ابھی پختہ نہیں ہوا تھا، لیکن حافظ صاحب سے قربت کی بنا پر میں نے بھی حافظ صاحب سے دارالکتاب کا پتہ معلوم کرکے کچھ کتابوں کا آرڈر کردیا اور اس وقت خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی جب میری مطلوبہ کتابیں بذریعہ ڈاک مجھے موصول ہوگئیں، غالباً مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت میں نے خطبات قاسمی اور مولانا مجیب اللہ ندوی کی اسلامی فقہ منگوائی تھیں، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ چھوٹے مدارس میں ابتدائی جماعت کے طالب علم کے پاس کتابوں کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ کتنا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے، یہ پہلا موقع تھا جب میں دارالکتاب دیوبند سے براہ راست متعارف ہوا اور اس کی مطبوعہ کتابوں سے مستفید ہونے کا موقع ملا اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔
جب دیوبند پہونچا تو دارالکتاب دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا، اپنے تخیلات کے اعتبار سے دارالکتاب کو میں نے کسی بڑی عمارت میں سوچا تھا؛ لیکن جب دیوبند پہونچا تو دیکھا کہ حسینیہ ہوٹل اور پوسٹ آفس کے قریب ایک چھوٹی سی دوکان ہے جس کے باہر دارالکتاب کا نمایاں بورڈ آویزاں ہے، اس وقت تک مولانا ندیم الواجدی صاحب کی شخصیت سے کماحقہ متعارف نہیں ہوسکا تھا، البتہ اتنی باتیں معلوم ہوچکی تھیں کہ دارالکتاب کے مالک مولانا ندیم الواجدی صاحب ہیں جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں، بالخصوص امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز تصنیف احیاء علوم الدین کے مترجم بھی ہیں، اس سے زیادہ واقفیت نہیں تھی۔
ان ہی دنوں دارالعلوم دیوبند میں میرے گاؤں کے ایک بہت ہی ہونہار، ذہین اور باصلاحیت طالب علم جو عمر میں بھی مجھ سے بڑھ تھے، جماعت کے اعتبار سے بھی مجھ سے بہت زیادہ سینئر تھے، اور رشتے میں بھائی ہوتے تھے، ان کا نام محمد ضیاء الحق تھا (مفتی محمد ضیاء الحق قاسمی رحمۃ اللہ علیہ) وہ اس وقت دورہ حدیث کے طالب علم تھے، میں انہیں کاپی قلم لے کر دارالکتاب میں جاتے ہوئے بارہا دیکھتا، میں سمجھتا کہ شاید وہ کتاب خریدنے جارہے ہیں؛ لیکن ان کے ہاتھ میں کاپی دیکھ کر میں کنفیوز ہوجاتا کہ یہ ہاتھوں میں صرف کاپی لے کر جاتے ہیں اور وہی کاپی لے کر آجاتے ہیں، میرا تجسس بڑھتا گیا تو بالآخر میں نے پوچھ ہی لیا کہ آخر آپ دارالکتاب میں بار بار کاپی لے کر کیوں جاتے ہیں، پھر یہ کہ واپسی پر آپ کے ہاتھوں میں کوئی کتاب بھی نہیں ہوتی ہے؟ تب انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھائی، یہ جو دارالکتاب کے مالک ہیں نا مولانا ندیم الواجدی صاحب، یہ بہت بڑے عالم ہونے کے ساتھ بہت بڑے قلم کار، مصنف اور مضمون نگار بھی ہیں، میں ان سے مضمون نگاری سیکھتا ہوں، ان کے سکھانے کا انداز بہت نرالا ہے، ضرورت پڑنے پر خوب ڈانٹتے بھی ہیں، پورا پورا مضمون کاٹ دیتے ہیں، پھر بڑے پیار سے سمجھاتے بھی ہیں، دارالعلوم میں تو میں اساتذہ سے کتابیں پڑھتا ہوں اور باہر آکر مولانا ندیم الواجدی صاحب سے مضمون نگاری سیکھتا ہوں، شاید یہ پہلا موقع تھا جب مولانا ندیم الواجدی صاحب کا صحیح اور مکمل تعارف میرے سامنے آیا تھا، اور پھر یہی تعارف مولانا ندیم الواجدی صاحب کی جانب کشش کا سبب بنا، حالاں کہ میں نے مولانا ندیم الواجدی صاحب سے باضابطہ استفادہ تو نہیں کیا، لیکن جب بھی موقع ملتا اور کوئی کتاب خریدنے دارالکتاب میں حاضر ہوتا تو ان سے بات کرنے کا موقع ضرور تلاش کرتا اور اسی بات چیت کے دوران کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ضرور مل جاتا، دیوبند کی طالب علمی کے زمانے میں دو ہی مکتبے میرے پسندیدہ تھے، ایک دارالکتاب، دوسرا کتب خانہ نعیمیہ، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دیوبند چھوڑنے کے طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود آج بھی جب کبھی دیوبند کا سفر ہوتا ہے تو ان دونوں مکتبوں میں حاضری ضرور دیتا ہوں، دارالکتاب کی حاضری سے مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بیٹھ کر ملی و تعلیمی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا موقع ملتا ہے، بالخصوص جب بھی مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بیٹھتا تو قدیم دیوبند اور موجودہ دیوبند، طلبہ کی علمی سرگرمیاں، شوق مطالعہ اور کتابوں سے دلچسپی پر گفتگو ہوتی اور مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ کے تجربات سے اپنے زمانے کے دیوبند اور موجودہ زمانہ کے دیوبند کا تقابل کرنا آسان ہوجاتا، اور دونوں ادوار کی خوبی اور خامیاں بھی کھل کر سامنے آجاتی، جب بھی حاضری ہوتی بروقت کچھ نہ کچھ ضیافت ضرور کرتے، اور کم از کم ایک وقت کے کھانے کی دعوت بھی دیتے، لیکن اپنی مصروفیات اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کا بہانہ بنا کر میں مولانا کی دعوت ٹال جاتا، لیکن مولانا کے خلوص کو دیکھتے ہوئے دعوت ٹالنے پر اپنے آپ میں شرمندگی بھی محسوس کرتا، مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت میں ایک طرح کی مقناطیسیت تھی، جو بھی ان سے قریب ہوتا تو پھر مزید قریب ہوتا ہی چلا جاتا، اور ان کی بے لوث محبت کا اسیر ہوجاتا۔ مولانا صرف علم کی دنیا کے ہی بے تاج بادشاہ نہیں تھے؛ بلکہ اخلاق و کردار کے بھی اعلیٰ اور بے مثال تھے، مولانا خالص علمی شخص تھے، لکھنا پڑھنا ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، اختلافات اور تنازعات سے ہمیشہ دور رہتے؛ یہی وجہ ہے کہ سیاست پر بہت کم لکھتے تھے، میں نے ایک بار اپنے لائیو پروگرام میں مدعو کیا جس کا موضوع ”یوپی کی سیاست“ تھا تو پہلے تو شرکت سے انکار کیا اور عذر پیش کیا کہ سیاست سے مجھے زیادہ دلچسپی نہیں ہے، پھر جب میں نے بہت اصرار کیا تو یہ کہتے ہوئے شریک ہوگئے کہ سیاست کے موضوع پر کم سوال کریں تو مہربانی ہوگی، مولانا تنازعات سے اپنے آپ کو دور رکھ کر خالص علمی و دینی کام کرنا چاہتے تھے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے، مولانا کی تصانیف کا موازنہ کرلیں، خالص علمی اور دعوتی موضوعات ملیں گے، یوں تو مولانا کی تصنیفات بے شمار ہیں، لیکن امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی وقیع و لاجواب تصنیف احیاء علوم الدین کا ترجمہ مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ کا شاہکار اور قابل فخر کارنامہ ہے، اور میں امید کرتا ہوں کہ مولانا کا یہ ترجمہ مولانا کے لئے ذخیرہ آخرت ثابت ہوگا، ان شاءاللہ. (جاری)

Comments are closed.