سترہ اکتو بر اور ہماری ذمہ داریاں

ڈاکٹر عبید اقبال عاصم
آج سے دو سوسات سال قبل (۷ راکتو بر ۱۸۱۷ء) کو دریا گنج دہلی کے عقب کی ایک حویلی میں اس عالم آب گل میں آنکھ کھولنے والا وہ بچہ جسے آج سرسید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ملت اسلامیہ بر صغیر کے مستقبل کے لیے نیک فال ثابت ہوا، اس بچہ کا نا م احمد تجویز ہوا۔ جس وقت یہ نام رکھا گیا وہ یقینی طور پر قبولیت کی گھڑی تھی، کیونکہ وہ واقعتا قابل تعریف ہی ثابت ہوا، اگرچہ اس کے عہد میں اس کی مخالفت کرنے والوں کا بھی شمار بہت زیادہ رہا لیکن اپنی علمی و عملی خدمات کے باعث آج وہ سبھی کی نظروں میں قابل تعریف ہے۔ اس وقت سرسید کا نسخہ کیمیا بہتوں کی سمجھ میں نہیں آیا، مگر وقت گذرنے کے بعد اس کی دور اندیشی اور بصیرت کا اعتراف ان سبھی نے کیا جن کا اس سے مختلف وجوہات کی بنا پر شدید اختلاف تھا، آزاد ہندوستان میں اس کے تعلیمی نظام کو ہر طبقہ نے
سراہا اور قابل تعریف قرار دیا، گویا کہ اس کی تعریف کے دفاتر زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ کھلتے ہی جارہے ہیں۔ سرسید احمد خاں نے اپنی زمین ، جائداد، اپنا اثاثہ ، وقت اور سب کچھ کس لیے صرف کیا؟ صرف اور صرف قوم کی ڈوبتی ہوئی نیا کو پار لگانے کے لیے ۔ امت مسلمہ کو فکر آخرت کے ساتھ دنیاوی مواقع سے فائدہ اٹھانے پر توجہ مرکوز کرانے کے لئے، جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے باہر نکالنے اور علم کی وادیوں کا سفر طے کرنے کی دعوت دینے کے لیے ۔ سب کچھ برداشت کیا، قوم کے طعنے سنے، گالیاں و بد تمیزیاں برداشت کیں ، کالج بنانے کی خاطر پیسہ جمع کرنا اور اُسے صحیح مصرف میں خرچ کرنا اپنا مقصد حیات بنایا تعلیم و تربیت کو اپنا مشن بنایا ، لاکھوں کروڑوں افراد میں سے چند ہی محسن الملک وقار الملک، زین العابدین ، شبلی و حالی مل سکے لیکن بانی درسگاہ کی نفع رسال طبیعت اور فیض صحبت نے اپنے سے وابستہ ہر شخص کو گوہر نایاب“ بنادیا۔ چند طلباء پر مشتمل محمدن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام کو ڈیڑھ صدی بیتنے جارہی ہے۔ آج اس ادارے سے فیض یافتہ طلباء و طالبات کی مجموعی تعداد لاکھوں افراد پر مشتمل ہو گئی ہے، ہر سال کم و بیش پچیس سے تیس ہزار طلباء یہ میرا چمن ہے میرا چمن کی دھن پر اس ادارہ کی چہار دیواری میں سر دُھنتے ہیں۔ ہندوستان کے تقریبا ہر شہر بالخصوص تمام بڑے شہروں کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ادارہ کے فیض یافتگان جشن سرسید مناتے ہیں، دھواں دھار تقریروں، علمی مقالات، سیر حاصل مباحثوں، دلچسپ تبصروں، با مقصد منظوم خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے قریہ قریہ ملکوں ملکوں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن کا اختتام پر تکلف عشائیہ پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہم لمبی چادر تان کر سو جاتے ہیں۔ قدیم و جدید یا موجودہ طلباء کی اکثریت رات کے کھانے سے اس قدر بو جھل ہو جاتی ہے کہ ۱۸ اکتوبر کی سحر خیزی کسی کسی خوش نصیب کے حصہ میں آتی ہے، اس کے بعد ہم صرف ڈنر کی ڈشنز پر تو قصیدہ خوانی یا اظہار کرب و تکلیف کرتے ہیں لیکن وہ تمام باتیں ہمارے دل و دماغ سے نکل جاتی ہیں جو قبل از طعام مقررین ، واعظین ، دانشور ، شعراء حضرات نے کی تھیں ۔
اس موقع پر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی اختصار کے ساتھ سرسید کے اس مشن پر بھی نگاہ ڈال لی جائے جس نے سید احمد کو سرسید احمد خاں بنایا، اُن کی زندگی کا پہلا دور اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب وہ انگریزوں کے ماتحت ملازم ہوتے ہوئے مظلوم و مفلوک مسلمانوں کی صورت حال کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہوئے انہیں صرف خزانہ بصارت نہیں بنا رہے تھے بلکہ فہم و بصیرت کے ساتھ ان تدابیر پر غور کر رہے تھے، جس سے امت مسلمہ کو خواب غفلت سے جگایا جا سکے کیوں کہ ” متاع گم شدہ حکمرانی کے زعم میں مبتلا نا کارہ افراد نے ملت کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا تھا جہاں ان کی قسمت کے فیصلے ان ناخواندہ جوانوں کے ہاتھ میں تھے جو پدرم سلطان بود“ کے نعرۂ مستانہ میں مست علم کی وادیوں سے دور ، شطرنج ، گنجھے ، چوسر ، پتنگ بازی، کبوتر و بٹیر بازی میں شہرت کما کر اپنی بدترین صورت حال سے لا پرواہ، خرمستیوں کو برقرار رکھتے ہوئے مرکار و عیار تعلیم و ٹیکنیک کے ہنر میں ماہر فرنگیوں کو ملک بدر کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ سرسید احمد خاں اس صورت حال سے پیدا ہونے والے ملت کے اس تاریک مستقبل پر نظریں جمائے ہوئے تھے جو ملت اسلامیہ ہند کے وجود کو ملیا میٹ کرنے والا تھا، لیکن وہ اس کے لیے خواہش کے باوجود تب تک کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے جب تک کہ ان کے ساتھ کچھ ایسے افراد نہ ہوں جن کے ضمیر زندہ ہوں اور جن کے خمیر میں اپنی قوم کو آگے بڑھانے کے لئے سب کچھ کرنے کا جذبہ ہو۔ اس دور میں انھوں نے امت مسلمہ کو ان کے شاندار ماضی کا احساس دلانے اور غیر ملکی قوم کو مسلمانوں کے کارہائے نمایاں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ۱۸۴۷ء میں سرکاری ملازمت کے دوران آثار الصنادید جیسی کتاب لکھی تا کہ انگریزوں کو مسلمانوں کی شوکت اور اور ملت کو اپنی عظمت رفتہ کا احساس ہو اور ملت اسلامیہ پھر اس عملی کردار کا مظاہر کرے جو اس کے وقار کو بلند کر سکے ، ظاہری بات ہے کہ اس کام کو علم کی کلغی لگائے بنا انجام دینا بہت زیادہ مشکل تھا۔ دوسرا دور بگڑتے ہوئے حالات میں ۱۸۵۷ کے حالات کے وجود میں آنے اور اس میں ملکی عوام بالخصوص مسلمانوں کی پسپائی اور اس کے نتیجہ میں ملنے والی ذلت و رسوائی کا نشانہ بننے والے ملت اسلامیہ کے طبقہ پر نت نئے مظالم کا سلسلہ جاری ہونے پر بے بس و بے کس سرسید احمد خاں ماتم و نوحہ خوانی کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن اس دورانیہ میں تاریخ سرکشی بجنور” یا اسباب بغاوت ہند لکھ کر انھوں نے کم از کم ان وجوہات پر تو توجہ دلا ہی دی ، جن کے نتیجہ میں یہ افتادان پر آن پڑی تھی۔ دوران ملازمت ہی ان کا یہ نظریہ یقین میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا کہ اگر تباہی کی دلدل سے مسلمانوں کو نکالنا ہے تو اس کا واحد علاج ایسی تعلیم کا حصول ہے جو دل و دماغ کے پختہ مسلم و مومن ہونے کے ساتھ ان عصری تقاضوں کو پورا کر سکے جو دور حاضر و مستقبل میں دنیا داری کے لیے ضروری ہے۔ ۱۸۵۹ء میں مراد آباد میں ان کے ذریعہ مدرسہ کی داغ بیل ڈالنا اور پھر غازی پور کی ملازمت کے دوران سائنٹفک سوسائٹی کا قیام ان کی انہیں کوششوں کا حصہ ہے، جو انھوں نے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقہ پر کام کرنا چاہا لیکن وہ پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی غرض سے ۱۸۶۴ء میں غازی پور کے قیام اور اپنی سرکاری ملازمت کے دوران ایک تحریر به عنوان التماس بخدمت ساکنان ہندوستان در باب ترقی تعلیم اہل ہند شائع کی ۔ اس سال انھوں نے غازی پور میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈال کر اپنی مقدور بھر عملی کوشش کے ذریعہ نئی نسل کو مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے ہم آہنگ کرنے کی بنیاد ڈال دی لیکن انہیں دنوں سرسید کا تبادلہ علی گڑھ ہو گیا اور وہ علی گڑھ آگئے ۔ ظاہری بات ہے کہ تو وہ مدرسہ کی عمارت کو تو غازی پور سے اٹھا کر نہیں لا سکتے تھے لیکن اپنی فکر کو عملی جہت دینے کے لیے انھوں نے علی گڑھ کو غازی پور سے کہیں بہتر جانا۔ غازی پور سے علی گڑھ منتقل ہونے کے بعد سرسید نے اپنے افکار کو عام مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے سائنٹفک سوسائٹی کے ترجمان کے طور پر ۱۸۲۶ء سے ایک اخبار علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے نکالنا شروع کیا جو شروع میں ہفتہ واری تھا لیکن سرسید کے نظریات سے متفق افراد کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر ہفتہ میں دو بار شائع ہونے لگا۔ یہ انگریزی اور ہندوستانی ( اردو ) دونوں زبانوں میں نکلتا تھا اس کا خاص مقصد انگریزوں کو ہندوستانیوں کے حالات سے آگاہ کرنا اور ہندوستانیوں کو انگریزی طرز حکومت سے آشنا کرنا تھا تا کہ دونوں قوموں میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کر کے ہندوستانیوں بالخصوص فرزندان توحید کو عصری علوم کی تحصیل
کی طرف مائل کیا جا سکے ۔ ”تہذیب الاخلاق کو اگر ان کی فکری تحریروں کی ارتقائی منزل کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔
سرسید کی تحریر میں اصلاحی انداز کی ہوتی تھیں جس میں مسلمانوں کو ان کے اندر پیش آمدہ اندرونی خرابیوں کو دور کرنے کے
ساتھ ساتھ تعلیم کے فوائد اور اس کی قدر و قیمت بھی سمجھائی جاتی اور حصول علم کے لیے عملی کوششوں کو داغ بیل ڈالنے پر بھی اکسایا جاتا ، وہ انگریزی تعلیم سے مسلمانوں کو فیض پہنچانے کے خواہش مند ضرور تھے لیکن غیرت ایمانی، حمیت اسلام، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ان کی ذات کے روئیں روئیں میں پیوست تھی ، یہی وجہ ہے کہ جب ولیم میور نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے متعلق بدگوئی کی تو اس کا شائستہ جواب دینے کی غرض سے برطانیہ کا سفر کیا، کیونکہ اس وقت ہندوستان کی لائبریریوں میں کتابوں کا ایسا ذخیرہ دستیاب نہیں تھا جو لندن میں موجود تھا، اس کے لیے انھیں گھر کا اثاثہ فروخت کرنا پڑا لیکن انھوں نے میور کا جواب دینے کے لیے جو عزم مصمم کیا تھا اس میں لغزش نہیں آنے دی، کئی سال برٹش کے میوزیم اور لائبریری سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے ایک طرف میور کی خرافات کا علمی جواب دنیا کے سامنے پیش کیا دوسری طرف انگلینڈ کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے انگریزوں کی ہمہ جہتی ترقی کے راز کو جاننے کی کوشش کی۔ بالآخر وہ مسلمانوں میں تعلیمی صور پھونکنے کے لیے ہندوستان واپس آئے اور اللہ کا نام لے کر علی گڑھ میں ۱۸۷۵ ء میں مدرسۃ العلوم الاسلامیہ کے نام سے ایک ننھا سا علمی پودا لگا دیا۔ شروع میں سرسید کی مخالفت بڑے پیمانے پر ہوئی لیکن سید والا گہر کے آہنی ارادوں کے آگے کوئی مخالفت کام نہ آسکی اور یہ نھا پودا چند سالوں میں ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے ” محمدن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے جانے جانا لگا جو اس وقت مسلمانوں کی عصری علوم کی معراج سمجھا جاتا تھا۔
ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ سرسید احمد خاں کے تعلیمی افکار ونظریات سے مسلم علماء کے طبقہ کو کوئی سروکار نہیں تھا، لیکن اسی درمیان انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر لکھ کر اپنی آراء و افکار کا اظہار کیا اور قرآن مجید سے ثابت بہت سے معجزات اور بہت سی غیبی باتوں کے بارے میں اپنے تذبذب کا اظہار کیا اس سے علماء کرام کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ یہ افکار ان کے تعلیمی ادارے میں ترویج پا گئے تو یقینی طور پر یہ اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہوں گے اور قوم وملت کے وہ نو بال جو اس ادارے میں جائیں گے فکری طور پر اسلام کی حقانیت سے محروم ہو جائیں گے۔ اسی بنا پر علماء کے ایک بڑے طبقے نے شدومد کے ساتھ سرسید کی مذہبی فکر کی مخالفت کی جس کے بہاؤ میں سرسید کے تعلیمی نظریات اور ادارہ بھی آگئے۔ حالانکہ سرسید نے اپنے مذہبی افکار کونہ تو ادارے کے طلباء پر مسلط کیا اور نہ ہی انہیں کسی مسلک کی متابعت پر مجبور کیا، چنانچہ ان کے اس ادارے میں دی جانے والی مذہبی تعلیمات کی سربراہی ایک ایسے فاضل عالم دین کے ہاتھ میں تھی جو علوم دینیہ کے ایک مدرسہ سے مکمل فیض یافتہ ہونے کے ساتھ طلبہ ومنتسبین و معتقدین کی روحانی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتا تھا۔
بہر حال عمر کی اس منزل پر جب انسانی قوی ضعیف ہو جاتے ہیں اور وہ ہر لمحہ، ہر قدم پر آرام و سکون کا منتظر رہتا ہے یہ ستر سالہ بوڑھا ادارو سازی کی خاطر کبھی علی گڑھ کی نمائش میں اپنے پیروں میں گھنگھروں باندھ کر مالیات کی فراہمی کی راہیں تلاش کر رہا تھا تو کبھی ملت کے سرسید بیزار طبقہ کی طرف سے ملنے والے پرانے جوتوں کو نیلام کر کے اس کی قیمت مدرستہ العلوم الاسلامیہ کے خزانے میں جمع کر کے اس کو مالی تقویت دینے میں لگا ہوا تھا۔ اسے نہ اپنی جان کی پرواہ تھی اور نہ اپنے ضعف کا خیال تھا، وہ تو بس اور بس مسلمانوں کے علمی سفر کے ارتقا کے لیے مضطرب و بے چین تھا ، اس کی ہڈیوں کا گودا دن بدن مائل بہ انحطاط تھالیکن اس کی فکری طنا ہیں ستاروں پر کمند ڈال رہی تھیں، یہ بوڑھی آنکھیں ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء کو ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں، ان کی زندگی میں محمدن اینگو اور نیشنل کالج ایک بڑا ادارہ ہوتے ہوئے بھی یو نیورسٹی کی شکل اختیار نہیں کر سکا، ان کے انتقال کی دودہائیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد ایم اے او کو اے ایم یو کا درجہ حاصل ہوا جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ایک سوسال سے زائد کا علمی سفر طے کر چکا ہے۔
آج کے ارا کتوبر ہے یعنی عالمی ، علیگ برادری کے جشن کا دن، اس دن ہم سب بانی درسگاہ کا یوم پیدائش نہایت تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو مسلمانان برصغیر کی نشاۃ ثانیہ کی آماجگاہ ہے اُس کے بانی سرسید احمد خاں کے یوم پیدائش کو پوری علی گڑھ برادری بہت اہتمام کے ساتھ مناتی ہے۔ دنیا کے بھی خطوں میں اس دن سرسید احمد خاں علیہ الرحمہ کی تحریک اور نظریات و افکار سے متعلق سیمینار ہوتے ہیں، جلسے کیے جاتے ہیں، کا نفرنسیں ہوتی ہیں، اظہار مسرت و شادمانی کے جو طریقے اختیار کسے جاسکتے ہیں وہ سب اختیار کیے جاتے ہیں، جس کے لیے پوری دنیائے علیگ مبارکباد کے لائق ہے۔ بالعموم اس قسم کی تقاریب کا انتقامیہ پر لطف و مہتم بالشان ڈنر پر ہوتا ہے۔ انتظام شکم سیری” میں ہم ایسے مدہوش ہوتے ہیں کہ ان تمام وعدوں، وعیدوں، ارادوں اور منصوبوں کو فراموش کر جاتے ہیں جو صبح سے رات کے پہلے پہر تک بانی درسگاہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر تقاریر و تجاویز میں یا منشور و منظوم انداز میں کئے جاتے ہیں۔ ستره اکتوبر ۲۰۲۴ ء کو سرسید کی پیدائش کو دو سو سات سال ہو گئے ۔ بقول علامہ اقبال ” وہ چین کے ایسے دیدہ ور تھا جو نرگس کے ہزاروں سال اپنی بے نوری پر رونے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ حضرات گرامی! جو بات میں بہت جرات و جسارت کے ساتھ کہنا چاہ رہا ہوں اس میں میرا درد دل شامل ہے۔ بقول غالب –
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
بات تلخ ضرور ہے مگر یہ ایسی سچائی ہے جس پر مصلحت کے پردے ڈال ڈال کر ہمیشہ چھپایا جا تا رہا اور نوبت بایں جا رسید کہ آج ہماری بے حسی نے ہمیں بے بسی کی حدود میں داخل کر دیا اور ملت اسلامیہ قعر مذلت کے قریبی حصہ میں پہنچ گئی ۔ ہمیں یہاں رک کر ایک لمحہ کے لیے یہ سوچنا ہے کہ ہم کم و بیش پچھتر سالوں سے سترہ اکتوبر کو نہایت تزک واحتشام کے ساتھ یوم سرسید مناتے ہیں۔ کیا اس سے سرسید شناسی کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ ہم نے سرسید کے عادات، اخلاق، افکار و عزائم کو کس حد تک اختیار کیا ؟ کیا ہمارے ممدوح سرسید احمد خاں نے اپنے مخالفین کو جنھوں نے ان کے دائرہ اسلام سے اخراج تک کے الزامات بلا تأمل لگائے تھے ۔ کیا انہوں نے مخالفین کی کسی بات کا کوئی ایسا جواب دیا جو کسی کی ذات یا اس کی صفت کو مجروح کرتا ہو بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ انھوں نے ان کا جواب تو کیا ان اعتراضات کو بھی خاطر میں لانا گوارہ نہیں کیا۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جو ہمیں موجود و زمانے میں جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔
اس موقع ح پر ہمیں ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ ہم خوشہ چینیان گلستان سید میں سے کتنے وہ افراد ہیں جنھوں نے سرسید کی زندگی کے اس حصہ کو کلی یا جزوی طور پر اپنایا؟ ہمیں آج کی اس مجلس میں اس نکتہ پر بھی غور و خوض کرنا چاہیے کہ سرسید کا مشن ، تقاریب کا وہ انتقامی حصہ ہے جس پر ہماری تمام تر توجہ مرکوز رہتی ہے اور جس پر ہم اچھی دعوتیں کھانے کھلانے پر خودستائی یا دوسروں کی تعریف و تنقید بلکہ بسا اوقات تنقیص کے خواہشمند رہتے ہیں یا پھر وہ حصہ جس پر ہمیں قبل از طعام مقررین و واعظین نے سرسید کی حیات کے کسی ایک پہلو پر اپنا خیال مرکوز کرتے ہوئے تو جہ دلائی تھی ۔
سرسید احمد خاں کی حیات میں ان سے محبت کرنے والوں نے لے ا راکتو بر کو ان کے یوم پیدائش کے طور پر منانا چاہا تو سرسید نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے فاؤنڈر ڈے کے بجائے فاؤنڈیشن ڈے کے طور پر منانے کی صلاح دی۔ ان کے انتقال کے بعد ۲۷ مارچ کو علیگ برادری ہر سال یوم وفات کے ساتھ بانی درسگاہ کو یاد یاد کرتی اور ان کے افکار و عزائم کو آگے بڑھانے کا عہد کرتی ، ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کے دور وائس چانسلری میں سے امر اکتو بر کو یوم سرسید کی روایت جاری ہوئی ، جس کا آغاز بعد فجر قرآن خوانی اور مزار سید پرگل پوشی سے ہوتا ، سرسید کے افکار و نظریات پر دن بھر ماہرین سیدان کے شعور و بصیرت پر گفتگو کرنے اور رات کو اجتماعی ڈنر پر اختتام ہوتا۔ مجاز کے ترانہ کے بعد وہ بھی ان تقریبات کا حصہ ہو گیا۔ رفتہ رفتہ اس روایت کو علیگ برادری قومی اور بین الاقوامی طور پر منانے لگی ۔
سرسید نے حالات کی تاریکیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر علم کی جو شمع جلا کر اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کی تھی ، اس وقت اس شمع کو مشعل کی صورت میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سال ملک کے مختلف تعلیمی پسماندہ علاقوں میں کے امراکتو بر کو کسی ایک نئے ادارہ کے قیام پر اور اسے مضبوط بنانے کی طرف اپنی صلاحیتیں لگا کر سرسید کو خراج
عقیدت پیش کریں ، تو ان شاء اللہ یہ قوم وملت کی فلاح و کامیابی کی ضمانت ہوگا۔
ڈاکٹر عبید ا قبال عاصم
وادی اسماعیل نز د مسجد ابراهیم
دوہرہ معانی علی گڑھ 202022
+919358318995 :موبائل
Comments are closed.