شہر علم وادب کا ایک گوہر نایاب مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ مشاہدات و تاثرات

غفران ساجد قاسمی
چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن
ڈائریکٹر بصیرت جرنلزم اینڈ لینگویج اکیڈمی ممبئی
قسط دوم
مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت میں بڑی جاذبیت اور کشش تھی، جو کوئی ان سے ملا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا، وہ عام لوگوں کے لیے محض ایک کتب خانہ کے مالک اور کتابوں کے تاجر تھے، لیکن جو لوگ ان کی شخصیت سے واقف تھے اور ان کے علمی مقام سے آگاہ تھے، ان کی نظر میں مولانا کا مرتبہ بہت بلند تھا، ان کی ولادت چونکہ دیوبند جیسی علمی سرزمین میں ہوئی تھی اور یہیں انہوں نے نشوونما پائی تھی، گھرانہ بھی علمی تھا اور پورا ماحول انہیں خالص علمی ملا جس سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگیا تھا اور اکابر علماءاور بزرگان دین کی مستقل صحبت نے ان کی علمی صلاحیت اور صالحیت کو خوب جلا بخشی تھی، وہ صحیح معنوں میں اکابر دیوبند کی علمی روایتوں کے پاسدار اور اسلاف کی علمی امانتوں کے وارث وامین تھے، وہ بجا طور پر فکر دیوبند کے ترجمان تھے اور انہیں دیوبندیت کی ترجمانی کا پورا حق حاصل تھا، اور یہی وجہ ہے کہ جب سن 2000 میں انہوں نے ترجمان دیوبند کے نام سے ماہانہ رسالہ شائع کیا تو پورے ملک میں اس رسالے کو اہل علم و کمال نے ہاتھوں ہاتھ لیا، بہت کم وقت میں ترجمان دیوبند نے بہت مقبولیت حاصل کی، اور ایک عرصے تک ترجمان دیوبند نے مجلات وسائل کی دنیا میں اپنا دبدبہ بنائے رکھا، بہت سے نوآمود قلمکاروں نے ترجمان دیوبند کے پلیٹ فارم سے جڑکر اپنی قلمی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا، جو مضمون ترجمان دیوبند میں شائع ہوجاتا، اہل علم کے نزدیک اسے استناد اور اعتبار کا درجہ حاصل ہوجاتا، ترجمان دیوبند بجا طور پر دیوبند اور فکر دیوبند کا ترجمان تھا اور اس موقر رسالے نے دیوبندیت کی ترجمانی کا واقعی حق بھی ادا کیا، مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں جہاں ایک طرف ان کے علمی گھرانے کا فیض تھا وہیں ان کی شخصیت نکھارنے میں ان کے محبوب ومخلص استاذ حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ کا بہت نمایاں کردار تھا، وہ حضرت مولانا کیرانوی کے بہت عزیز شاگرد تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ عربی زبان و ادب کے بھی ماہر تھے، عربی سکھانے والی کئی کتابیں انہوں نے تصنیف کیں جو کہ مبتدی ومنتہی سبھی طرح کے طالب علموں کے لیے یکساں مفید ہے، اسی طرح عربی بول چال کے موضوع پر بھی ان کی وقیع تصنیف ہے، اور سب سے بڑھ کر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز تصنیف احیاء العلوم کا اردو ترجمہ ان کی عربی زبان و ادب کی مہارت پر زبردست دلیل ہے. اس کے ساتھ ہی آج کی تراویح کے عنوان سے تیس پاروں کی مختصر تفسیر بھی ان کے نمایاں کارناموں میں سے ایک ہے.
مجھے خوب یاد ہے کہ جب میں نے بصیرت آن لائن کا آغاز کیا تو 2014 کے رمضان المبارک میں مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ پابندی سے روزانہ آج کی تراویح مجھے شائع کرنے کے لیے بھیجتے اور میں اسے خوب دلچسپی سے شائع کرتا، مولانا نے بصیرت آن لائن پر آج کی تراویح کے پابندی سے اشاعت پر بصیرت آن لائن کی خدمات کو سراہا اور خوب تعریف کی، مولانا کا ماننا تھا کہ اخبارات کے ذریعے تو محدود افراد تک ہی پہونچ پاتا ہے لیکن بصیرت آن لائن کے ذریعے پوری دنیا کی ارود آبادی تک یہ چیز پہونچ جاتی ہے جوکہ بہت ہی مفید ہے اور خوشی کی بات ہے.
مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ سے میرے ذاتی تعلقات کی نوعیت بہت زیادہ قربت کی تو نہیں تھی البتہ اتنا ضرور تھا کہ جب بھی دیوبند حاضری ہوتی تو میں ترجیحی طور پر مولانا سے ملتا تھا، مولانا بہت ہی تپاک اور گرمجوشی سے ملتے، بروقت چائے، کافی یالسی وغیرہ سے ضیافت کرتے، اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دیتے، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے میں کھانے کی دعوت سے معذرت کرلیتا، اس دوران بہت سارے موضوعات پر گفتگو ہوتی، موجودہ دور کے طلبہ کے تعلیمی معیار، مطالعے کے شوق اور بدلتے ہوئے قدیم و جدید دیوبند کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال ہوتا، مولانا کی شخصیت چونکہ بہت متوازن تھی، مزاج میں اعتدال اور فکر میں پختگی تھی، کوئی بھی رائے بہت محتاط انداز میں دیتے، کبھی کسی کے بارے میں میں غلط بات نہیں کہتے، متنازع اور مختلف فیہ مسائل میں خاموشی اختیار کرلیتے یا اگر کوئی رائے دیتے تو بہت ہی محتاط ہوکر، مولانا کہا کرتے تھے کہ مجھے اختلافی مسائل میں الجھنے کی عادت نہیں ہے، اسی لیے زیادہ تر اپنی زبان خاموش ہی رکھتا ہوں، جن لوگوں نے ان کے مضامین کا مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اپنی رائے رکھنے میں کس قدر محتاط ہیں. (جاری)
Comments are closed.