Baseerat Online News Portal

امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ   درویش صفت ، مگرمضبوط قائد 

 

از: مولانا رحمت اللہ عارفی ندوی

امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒکی وفات کو دس سال ہونے کو ہیں اور مجھے امارت شرعیہ سے ملازمانہ وابستگی چھوڑے ہوئے تقریبا چودہ سال کا عرصہ گزر چکا لیکن اب تک ان کی یاد دل سے مٹی نہیں ہے اور ان کے اثرات اب تک میرے دماغ سے محو نہیں ہوئے ہیں ، ان کی نصیحتیں ، ہدایتیں اور قدم قدم پر رہنمائی ، کبھی شفقت کے ساتھ، کبھی مشفقانہ سرزنش کے ساتھ؛ زندگی کی شاہ راہ پر آگے بڑھنے کا فن سکھانا اور تحریکی و تنظیمی باریکیوں کو سکھانا ابھی تک دل کے نہاں خانوں میں پنہاں ہے اور قدم بہ قدم مشعل راہ اور قندیل رہبانی کا کام کرتا ہے۔

وہ ہر وقت ملت کے لیے فکر مند رہتے ، ان کے شب و روز صر ف امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی ترقی و استحکام کے بارے میں سوچتے ہوئے ہی گزرتے تھے،خاص طور سے امارت شرعیہ کی فکر تو ان کے دل و دماغ پر ہر وقت چھائی رہتی ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے ملی تشخص کی بقا و حفاظت کے لیے آپ کا جہد مسلسل ، امارت شرعیہ کے ماتحت تعلیمی اداروں خاص طور سے المعہد العالی اور دار العلوم الاسلامیہ کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے ان کی دلسوزی کے روشن نقوش کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے۔

آپ ایک درویش صفت مگر مضبوط قائد تھے ، نرم گفتاری اور عاجزی و انکساری کے باجود عزیمت اور عزم محکم کے کوہ ہمالہ تھے، آپ کی نرم گفتاری ، سادگی اور عاجزانہ برتاؤکو دیکھ کر لوگوں کو شبہ ہوتا کہ آپ کے ارادے تو بہت کمزور ہوں گے ، لیکن جب ان کو قریب سے دیکھتا تو ان کے ارادے کی پختگی اور فیصلہ کا استحکام دیکھ کر ششدر رہ جاتا ۔

آپ کی خصوصیات میں سنت کی پیروی،شریعت کی پاسداری ، معاملات کی درستگی اور قوم کی فلاح کی فکر مندی کا خاص مقام تھا، آپ زبردست تنظیمی صلاحیتوں کے مالک تھے ،اوربرسو ں تک ملک کے دو بڑے اداروں کے سربراہ اعلیٰ اور درجنوں اداروں کے روح رواں رہے ، لیکن اس کے باوجود یہ عہدے ان کے دماغ پر حاوی نہیں رہے بلکہ وہ اپنا قدم اور ذہن ہمیشہ زمین پررکھتے، ان کے یہاں ہٹو بچو کی کوئی جگہ نہیں تھی ، ان کا دروازہ اور ان کا فون ہر وقت ہر شخص کے لیے کھلا رہتا ،ایک ادنیٰ درجے کا انسان بھی کسی وقت ا ن کے گھر جا کر ، ان کا دروازہ کھٹکھٹا کر ، ان کو نیند سے بیدار کر کے اپنا دکھڑا سنا سکتا تھا،اوروہ پوری خندہ پیشانی کے ساتھ اس کی بات سنتے اور اس کے مسئلہ کو حل کرتے۔کوئی بھی کسی وقت ان کو فون کر سکتا تھا اوروہ پوری خوشدلی کے ساتھ بغیر کسی ڈانٹ ڈپٹ کے اس کی بات سنتے۔اس قدر سہل الملاقات شخص ہونے سے کسی کو بھی شبہ ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص تو حواریین اور چاپلوسوں سے گھرا ہو گا۔لیکن ان کا معاملہ بالکل جداگانہ تھا، نہ ان کے پاس حواریین ،خوشامدیوں اور چاپلوسو ں کی بھیڑ ہوتی ، نہ انہیں یہ چیزیں پسند تھیں ، اگر کوئی ان کی تعریف کرنے لگتا اور تعریف میں ذرا بھی مبالغہ کرتا یا مبالغہ نہ کرتا بلکہ حقیقت بیانی ہی میں ذرا سا طوالت کر بیٹھتا تو فورا اس کو ٹوکتے اور خاموش کر دیتے ، کہتے مولوی صاحب میری تعریف مت کیجیے ، کام کی بات کیجیے ، وہ کام کے آدمی تھے ،کام کے آدمی کو پسند کرتے اور باتیں بھی کام کی ہی کرتے اور دوسروں سے بھی کام کی ہی باتیں سننا چاہتے تھے۔چاپلوسی ٍ، تملق پسند ی اور جی حضوری سے کوسوں دور رہتے ۔ کام کے سلسلہ میں مبالغہ آرائی کو بھی پسند نہیں کرتے ، کہتے تھے کہ جتنا کام کیجیے ، اتنا ہی بتایا کیجیے ۔ تنظیموں اور اداروں کا جو مزاج آج کل بنتا جارہا ہے کہ کام کم ہو اور اشتہار بازی زیادہ ہو وہ اس کے سخت خلاف تھے ۔آج کے بیشتر قائدین کی طرح نہیں کہ اپنے ماتحتوں سے ہر وقت تملق، چاپلوسی اور حمد و ثناء کے خواہاں رہتے ہیں۔

ان کے ماتحتوں کے دل پر ان کی بے جا ہیبت طاری نہیں رہتی تھی نہ ہر وقت وہ خوف میں مبتلا رہتے تھے ، کوئی ادنی ملازم بھی آپ کو مشورہ دے سکتا تھا، آپ کے فیصلہ پر تنقید کر سکتا تھا بلکہ بحث بھی کر سکتا تھا، آج بحث تو دور قائدین کی رائے سے اختلاف کی بھی جرأت ماتحتوں میں نہیں ہوتی بلکہ ہر بات پر آمنا صدقنا کا مزاج رہتا ہے اور بیشتر قائدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ صمٌ بکمٌ عمیٌ کی طرح ان کی ہر بے سر و پا کے فیصلہ پر بھی ماتحت آمنا صدقنا ہی کہتے رہیں ۔ ان کے اندر انتقامی جذبہ بالکل نہیں تھا، کتنے لوگوں نے ان کو ذاتی طور پر مطعون کرنے اور ان کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ انہوں نے در گزر سے کام لیا اور کسی قسم کا بدلہ ان سے نہیں لیا حالانکہ وہ بدلہ لینے پر پوری طرح قادر تھے ۔ حقیقت میں وہ’’ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس ‘‘ کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔

آپ ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے ، جس کے اندر علم و تقویٰ موروثی تھا ، آپ نے ایسے ماحول میں تربیت پائی تھی ، جس نے آ پ کو اپنی ذات کے بجائے قوم و ملت کے لیے جینے کا حوصلہ دیا تھا،آپ نے قوم و ملت کی خدمت میں عزت بھی پائی اور شہرت بھی ، مگر اس عزت و شہرت کو انہوں نے اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا،کبھی بھی خوف خدا اور فکر آخرت سے غافل نہیں ہوئے، اور اسی سادگی اورعجز و انکساری کو اپنا حرز جاں بنائے رکھا جو کہ اولیاء اللہ اور درویشوں کی خاص صفت ہے۔اس حقیرکو کو تقریباً سات آٹھ سال تک ان کے دامن شفقت سے وابستہ رہ کر امارت شرعیہ کی خدمت کرنے کا موقع ملا ، اس مدت میں جس شفقت و محبت کا انہوں نے معاملہ کیا اس کی مثال ملنی مشکل ہے ، آپ نے ہر موڑ پر ایک محسن و مشفق مربی کی حیثیت سے میری رہنمائی فرمائی ۔ امارت شرعیہ کی ملازمت سے سبکدوشی اور دوسری ملازمت سے وابستگی کے بعد بھی پھلواری شریف آمد و رفت کا سلسلہ لگا رہتا، جب بھی آتا ان کے پاس حاضری ضرور ہوتی، ہمیشہ ہی پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرتے اور محسوس ہی نہیں ہوتا کہ میں امارت شرعیہ سے کبھی الگ بھی ہو ا تھا۔

آپ کو خانقاہ رحمانی اور خانوادہ عارفی کے برزگوں سے بے پناہ عقیدت تھی ، خاص کر خانوادہ عارفی کے گل سر سبد حضرت مولانامحمد عارف صاحب ہر سنگھ پوری نور اللہ مرقدہ خلیفہ اجل قطب عالم حضرت مولانا سید شاہ محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ اور میرے دادا حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب ہر سنگھ پوری قدس سرہ العزیز خلیفہ اجل حضرت مولانا سید شاہ محمد لطف اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے غیر معمولی عقیدت تھی۔ اور اس مناسبت سے خاص طور پر عم محترم حضرت مولانا سعد اللہ صدیقی صاحب مد ظلہ سابق مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ اور والد گرامی حضرت مولانا ظفر اللہ رحمانی سے بہت ہی گہرے مراسم تھے ۔ یہ حضرات جب بھی امارت شرعیہ تشریف لاتے ، گھنٹوں ان سے گفتگو ہوتی،اورمشورے کرتے ، آپ کو ان دونوں حضرات پر بے پناہ اعتماد تھا، اس لیے بہت ہی اہم اور نازک معاملات میں بھی ان سے مشورہ کرتے۔جب بھی ان حضرات کی آمد ہوتی اپنا خاص کمرہ ان کے قیام کے لیے عنایت فرماتے۔ خانوادہ عارفی کی مناسبت سے ہی مجھ سے بھی ان کا رویہ پدرانہ اور مربیانہ شفقت سے بھر پور ہوتا ۔ کبھی مجھے امارت شرعیہ میں ایک ملازم کی حیثیت سے انہوں نے نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح ہی سمجھا۔ جب بھی ان کی خدمت میں حاضری ہوتی تو میرے خاندان کے بزرگوں کا تذکرہ کرتے اور ان سے متعلق کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور سناتے۔

ایک واقعہ یاد آتا ہے جس سے ان کی خانوادہ عارفی سے وابستگی، دین کے بارے میں حساسیت اور شریعت کی پاسداری کا خیال واضح طور پرنمایاں ہوتاہے ۔ امارت شرعیہ کے تحت کچھ تکنیکی ادارے بھی چلتے ہیں ، ایک بار ان کو خبر ملی کہ امارت شرعیہ کے تکنیکی شعبے میں مخلوط تعلیم شروع ہو گئی ہے،حالانکہ یہ خبر غلط فہمی پر مبنی تھی اور کسی نے ان کو صحیح خبر نہیں پہونچائی تھی ۔ بہر حال انہوں نے نظامت میں فون کیا اس وقت کے ناظم اور ٹرسٹ کے سکریٹری حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب مد ظلہ العالی سے بات کرنے کے لیے ، اتفاقا میں نے فون اٹھایا، اس وقت میں امارت شرعیہ کے دفتر نظامت میں کام کرتا تھا۔ خیر انہوں نے اس بابت پوچھا ، مجھے ان کی بات پوری سمجھ میں نہیں آئی تو انہوں نے گھر پر بلایا۔جب میں ان کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے میرے بڑے دادا حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب ہر سنگھ پوری نوراللہ مر قدہ کا ایک قصہ سنایا کہ’’ آپ کے بڑے دادا ایک بار امارت شرعیہ تشریف لائے ، جماعت سے فجر کی نما ز پڑھی، امام صاحب نے مجہول قرأت کی۔ صبح فجر کی نماز کے بعد میرے پاس آئے اور کہا ناظم صاحب! (اس وقت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ ناظم امارت شرعیہ تھے) بڑے افسوس کی بات ہے کہ امارت شرعیہ جیسے شرعی ادارے میں نماز میں مجہول قرأت ہوتی ہے۔ آپ فورا ایسے امام کا بندوبست کیجئے جو صحیح قرأت کر تا ہو۔ میں نے فورا حکم کی تعمیل کی اور دوسرے امام کا بندوبست کیا۔‘‘

پھر انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ دیکھو ہمارے اکابر مجہول قرأت تک برداشت نہیں کرتے تھے، آج مخلوط تعلیم امارت شرعیہ کے ادارے میں کیسے شروع ہوگئی ہے ؟ تم بھی تو اسی خاندان کے فرد ہو تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم ناظم صاحب سے مخلوط نظام تعلیم کے اس سلسلہ کو ختم کرنے کے لیے کہو۔‘‘ چنانچہ میں نے ناظم صاحب(مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب) سے بات کی تو انہوں نے صحیح صورت حال بتائی کہ مخلوط تعلیم نہیں ہو رہی ہے ، خبر کسی نے غلط دے دی ہے ،میں نے یہ بات جا کر حضرت امیرشریعت کو بتائی تب جا کر مطمئن ہوئے۔

آج کے دینی اداروں کے بیشتر قائدین اور امراء کا حضرت امیر شریعت ساد سؒ سے موازنہ کرتا ہوں تو بڑا افسوس ہو تا ہے کہ کتنی غیر شرعی اور غیر اخلاقی چیزوں کا ارتکاب ان کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، نکیر تو دور کی بات بعض وقت ان کی رضامندی ان غیر شرعی افعال کے بارے میں نظر آتی ہے ۔

حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ سادگی و انکساری کے با وجود آپ ایک عالمانہ وقار رکھتے تھے، آپ جو بھی بات کہتے طویل تجربے اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے ، اور جو فیصلہ کر لیتے تھے ، اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے تھے ، یقینی طور پر اپنے فیصلوں اور عزم مصمم کے معاملے میں وہ مرد آہن کہلانے کے مستحق تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو قابل رشک بصیرت اور دور اندیشی عطا کی تھی ، ہر معاملہ میں امارت شرعیہ کا مفاد اور قوم و ملت کا نفع آپ کے پیش نظر رہتا ، کبھی اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو قومی و ملی مفاد پر ترجیح نہیں دیتے تھے ۔

امارت شرعیہ کے بیت المال کا استحکام ہمیشہ ان کے نزدیک مقدم رہتا ،بیت المال میں جو رقم آتی سخت ہدایت تھی کہ اس کو مد وار درج کیا جائے اور مدات کے اعتبار سے خرچ کیا جائے ، وہ کہتے تھے کہ بیت المال کی رقم غرباء و مساکین کے لیے آتی ہے ، اس لیے ان پر ہی خرچ ہونی چاہئے ، اس لیے وہ دفتری اخراجات میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتے اور ذمہ داران و کارکنان کو بھی ایسا کرنے کو کہتے، بیواؤں کے وظیفہ کے تعلق سے ان کی ہدایت تھی کہ ہر ماہ ان تک پابندی سے وظائف پہونچائے جائیں۔ جیسے ہی محرم کا مہینہ شروع ہوتا، نظامت کے کارکنان کو جس میں راقم کے علاوہ مولانا محمد ابو الکلام شمسی آفس سکریٹری بھی تھے ، بعد میں مولانا سید محمد عادل فریدی کی بھی نظامت میں تقرری ہوئی ۔ ہم لوگوں کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سخت ہدایت تھی کہ فوری طور پر آنے والی درخواستوں کی فہرست ان کے پاس پیش کی جائے، پھر وہ خود ایک ایک درخواست کو پڑھتے اور مستحق بیوگان ومحتاجان اور طلبہ مدارس کا وظیفہ منظور کرتے ، پھر بیت المال کو ہدایت دیتے کہ ان تک وظائف پہونچانے کا اہتمام کیا جائے۔ بیت المال کی رقم کے بارے میں بھی بہت سخت تھے، خود بھی حسابات صاف رکھتے اور ماتحتوں کو بھی ہدایت دیتے کہ حسابات صاف رکھا کریں۔خود کا معمول یہ تھا کہ ایک رسید ہمیشہ اپنے پاس رکھتے ، کوئی شخص اگر کوئی رقم لا کر دیتا ، یا امارت شرعیہ کے پروگرام میں ان کو کوئی ہدیہ دیتا تو اس کی رسید کاٹ کر فوراً بیت المال میں بھیج دیا کرتے ۔ یہ انتظار نہیں کرتے کہ رسید مکمل ہو گی تب بھیجیں گے ،بلکہ رسید کے ایک فرد پر بھی رقم آتی تو فوراً بیت المال بھیج کر جناب مرزا حسین بیگ انچارج بیت المال یا جناب سمیع الحق صاحب نائب انچارج بیت المال کے حوالہ کروا کر رسیونگ بنوا لیتے تھے ۔اگر امارت شرعیہ کی گاڑی کبھی ذاتی کام میں استعمال کرتے تو فورا ً سفر مکمل ہوتے ہی متعینہ کرایہ جوڑ کر بیت المال میں بھجوا دیا کرتے تھے ۔

آپ امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے تربیت یافتہ تھے ، امیر شریعت رابعؒ کی رفاقت میں آپ نے بہت سے تجربات حاصل کئے ،ملت اسلامیہ کے مسائل کوحل کرنے اور مسلمانوں کے ایمان و یقین کی حفاظت کرنے کی کامیاب مساعی کا سلیقہ حضرت امیر شریعت رابعؒ سے ہی سیکھااور ان ہی سے قائدانہ کردار کا حوصلہ پایا۔امیر شریعت رابع کے ہی کہنے پرآپ امارت شرعیہ بحیثیت ناظم تشریف لائے ، اس کے بعد امیر شریعت رابع ؒ کی رہبری ورہنمائی اور حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب ؒ کی رفاقت میںآپ امارت شرعیہ کے مشن کو آگے بڑھا نے میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنے لگے۔ آپ کے دور نظامت اور دور امارت میں امارت شرعیہ سے عوام وخواص کی وابستگی اور اعتمادمیں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ آپ کے دور نظامت میں امارت شرعیہ کے بنیادی شعبے بہت مضبوط ہوئے ، شعبہ جات کے کاموں میں وسعت ہوئی ، بیت المال میں استحکام پیدا ہوا ، ملت اسلامیہ کے در پیش مسائل کو آپ نے بر وقت حل کیا، تمام شعبہ جات کی ترقی واستحکام اور اس کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا ، امارت شرعیہ کی شہرت و مقبولیت بڑھی اور وقاردوبالا ہوا، آپ کے فہم وفراست اور غیر معمولی محنت نے امارت کو ایک تناور درخت بنا دیا ، جس کی شاخیں ملک کی مختلف ریاستوں میں پھیلتی چلی گئیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ امارت شرعیہ پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی اپنی امتیازی خصوصیات کے ساتھ متعارف ہوگیا تو مبالغہ نہ ہوگا۔

جن لوگوں نے آپ کو قریب سے دیکھا ہے انہوں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ آپ ہمہ وقت ملت کے مسائل کے حل کے لیے فکر مند او ر بے چین رہتے تھے ، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے مسلمانوں کو درپیش مسائل کی فکر لگی رہتی اور حاضرین سے بسا اوقات اس درد و کرب کا اظہار بھی کرتے ،بلا شبہ وہ قوم و ملت کے سچے رہنما تھے، پورے ملک کے مسلمانوں کو ان کی قیادت پر فخر تھا اور اطمینان بھی ،اس لئے جب بھی کوئی مسئلہ اٹھتا تو مسلمانوں کی امید بھری نگاہیں آپ کی طرف اٹھتیں اور انہیں اطمینان ہوتا کہ ملت اسلامیہ کو آپ کی کوششوں سے ضرورفائدہ ہوگا۔آپ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے کثیر الجہات بنایا تھا ، ایک زمانہ تک امارت شرعیہ کے ناظم رہے ، پھر بعد میں چھٹے امیر شریعت منتخب ہوئے، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کے علاوہ بے شمار ملی اداروں کے سر پرست کے طور پر آپ نے جس جرأت ، جواں مردی اور بے باکی کے ساتھ ملت اسلامیہ کی قیادت کی وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک عمدہ مثال ہے ، جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

افسوس کہ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء بوقت بعد نماز مغرب متصلا طویل علالت کے بعد اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرتے ہوئے ہزاروں معتقدین ومتوسلین اور خدام کو روتے بلکتے چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

لیکن آخر وقت تک امارت شرعیہ اور اور اس کے استحکام کی فکر دامن گیر رہی، مرض الموت میں جب غشی کی حالت میںتھے، جب بھی ذرا افاقہ ہوتا تو تو دو ہی چیز ورد زبان ہوتی ، نماز اور امارت شرعیہ،اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، درجات کو بلند کرے اور ہم سب کوان کے نقوش پر چلنے کی توفیق بخشے۔

آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے ،بالخصوص مسلمانان ہند ان کی وفات کی کسک کو مدتوں محسوس کریں گے۔ نصف صدی پر مشتمل ان کی ہمہ جہت خدمات ناقابل فراموش ہیں۔اور ان کے افکار اور ملک و ملت کی ترقی و فلاح کے تئیں ان کے نظریات ہم سب کو راستہ دکھاتے رہیں گے۔

اولائک آبائی فجأنی بمثلم

اذا جمعتنا یا جریر المجامع

ضرورت ہے کہ ان کے افکار و نظریات اور کارناموں کو ملت کے سامنے لایا جائے تاکہ قوم و ملت کا کام کرنے والوں کو اس سے سچی رہنمائی مل سکے ۔

Comments are closed.