نعت شریف کی اہمیت اور اس کے آداب

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی
’’نعت‘‘ رسول اللہ ﷺ کی تعریف اور مدح سرائی کا نام ہے، جس میں شاعر نبی کریم ﷺ کی شخصیت، اخلاق، فضائل اور مقام کو شعری انداز میں بیان کرتا ہے۔’’نعت ‘‘کا لغوی معنی ’’تعریف‘‘ یا ’’مدح ‘‘ہے، اور اصطلاح میں یہ خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی تعریف کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
نعت گوئی کا مقصد نبی کریم ﷺ کی محبت کو دلوں میں راسخ کرنا، آپ کی سیرتِ طیبہ اور اوصاف حمیدہ کو شاعرانہ انداز میں پیش کرنا، اور آپ ﷺ کی عظمت و شان کو ادب و عقیدت کے ساتھ بیان کرنا ہے۔
نعت میں نبی کریم ﷺ کی ولادت، معجزات، اخلاق کریمانہ، قربانیوں، اور اللہ عزوجل کے ساتھ آپ کے تعلق کا تذکرہ کیا جاتا ہے، تاکہ لوگوں کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کی محبت اور پیروی کا جذبہ پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ نعت رسول اللہ ﷺ محبتِ رسول ﷺ کی وہ خوشبو ہے جو قلوب کو معطر کرتی ہے اور مومنوں کے سینوں میں عشقِ رسول ﷺ کے دیپ جلا دیتی ہے۔نعت گوئی اور نعت خوانی ایک ایسا مقدس عبادتی عمل ہے جس کے ذریعے انسان کا تعلق براہِ راست اُس ذات سے جڑتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں:
’’ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ‘‘(سورۃ الاحزاب، آیت :۵۶)
’’اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو‘‘۔
نعت کی عظمت:
نعت گوئی کا فن اہل علم کی نظر میں نہایت عظمت و تقدس کا حامل رہا ہے۔ یہ محض شاعری یا جذبات کے اظہار کا وسیلہ نہیں، بلکہ عشقِ رسول ﷺ کے احساسات کو شعری پیرایے میں ڈھالنے کی ایک روحانی کاوش ہے۔یہ محض الفاظ کی ترتیب نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی سفر ہے جو دلوں کو رسول اللہ ﷺ کی محبت میں ڈوبو دیتا ہے۔یہ ایک عبادت ہےجودراصل اللہ کی رضا حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے، یہ وہی جذبہ ہے جسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنایا اور پھر نسل در نسل یہ عمل مسلمانوں کے دلوں کا محور رہا۔اس کا آغاز خود نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہوا۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی موجودگی میں آپ کی شان بیان کرتے تھے۔ اس کے بعد صحابہ، تابعین، اور بعد کے دور کے علما اور صوفیا نے بھی نعت گوئی کو ایک مستقل فن کی شکل دی۔
نعت کی عظمت وقبولیت کا اس سے انداز ہوسکتا ہے کہ ’’شاعر الرسول‘‘ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی نعت سن کر نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے ان کی مدد فرمائے۔ یہ واقعہ محض ایک تاریخی حقیقت نہیں بلکہ اس سے ہمیں نعت گوئی کے عظمت کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ یہ عمل کتنا محترم اور پاکیزہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس کی وجہ سے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو تائید ربانی کی دعا دی۔
نعت کے آداب:
نعت لکھنا ،پڑھنا اور سننا عبادتی اعمال ہیں جن میں ادب اور تقدس کا خاص خیال رکھنا لازمی ہے۔ نعت کا تعلق چونکہ نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ سے ہے، اس لیے اس کے ہر پہلو میں احترام اور وقار کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے؛ کیونکہ دربار رسالت میں ادنی درجہ کی بے ادبی اور گستاخی رب العالمین کو گوارا نہیں ہے ۔اس لئے نعت پڑھنے اور سننے میں اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ کوئی عمل مزاج شریعت اور تعلیم نبوت کے خلاف نہ ہو، اس لئے اس میں مندرجہ اہم امور ضرور پیش نظر رہنے چاہئیں:
نیت کی پاکیزگی:
نعت پڑھتے وقت سب سے پہلی شرط نیت کا اخلاص ہے، نعت خوانی کوئی دنیاوی شہرت، ناموری یا فنی مہارت کا مظہر نہیں، بلکہ یہ عشقِ رسول ﷺ کی وہ آزمائش ہے جس میںحقیقی کامیابی صرف وہی پاتا ہے جو خالص دل سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے یہ عمل کرتا ہے۔حضرت رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
’’إنما الأعمال بالنيات‘‘ (بخاری)
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔
نعت خوانی میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے کہ جتنی نیت کی پاکیزگی ہوگی، اسی قدر اس عمل میں برکت اور ثواب ہوگا۔
بہت سی مرتبہ دیکھا جاتا ہے لوگوں سے داد ودہش کے حصول کے لئے شعراء نعت پڑھتے ہیں اور لوگوں سے واہی واہی کے طلب گار ہوتے ہیںاور مزید تماشہ یہ کہ بخشش وعطایا کے حصول پر ان کی نظر ہوتی ہے، یہ عمل سراسر مطلوبہ اخلاص کے خلاف ہے ۔
الفاظ کا انتخاب:
مدحتِ نبوی اور نعتِ رسول فنی اعتبار سے ایک ایسا نازک عمل ہےکہ اس میں الوہیت اور عبدیت کا امتیاز پیش نظر رکھنا جہاں اہم فریضہ ہے وہیں منصب نبوت کی عظمت و تقدس کے تقاضوں کی تکمیل بھی ضروری ہے ، نہ یہاں حد سے زیادہ مبالغہ کی گنجائش ہے اور نہ ہی ادنیٰ درجے کی تنقیص گوارا ہے ، ان کے بیچ اعتدال کی راہ پر گامزن رہنا ضروری ہے،اس لئے نعت میں استعمال ہونے والے الفاظ ایسے ہوں جو نبی کریم ﷺ کی عظمت اور محبت کو بیان کریں، لیکن حد سے تجاوز نہ کریں۔ مبالغہ آرائی اور غلو سے بھرے الفاظ نعت کے ادب کے خلاف ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے خود فرمایا:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ‘‘(بخاری)
’’مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا، بے میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘‘۔
حدیث واضح طور پر نعت گوئی اور تعریف میں اعتدال کی تلقین کرتی ہے، اوراس سے معلوم ہوتا ہے کہ نعت گوئی میں کسی بھی قسم کی غلو (حد سے تجاوز) جائز نہیں،اور یہ درحقیقت نبی کریم ﷺ کے احترام کے منافی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تعریف میں بھی توحید کے اصولوں کا خیال رکھا جائے۔نعت گوئی میں آپ ﷺ کو اللہ کی صفات سے متصف کرنا یا آپ ﷺ کی ایسی تعریف کرنا جو شریعت میں ثابت نہیں ہے، درحقیقت مزاج شریعت اور توحید کے منافی ہے۔
آواز کا وقار اور انداز کا ادب:
نعت پڑھنے اور سننے کا ادب، دراصل رسول اللہ ﷺ کے حضور حاضری کا ادب ہے۔ اس میں خشوع، وقار اور ادب کی رعایت ضروری ہے،اس کی اہمیت کی خاطر اللہ نے قرآن کریم میں صحابہ کو اس کی تعلیم دی ہے، اللہ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ() اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ (سورہ حجرات : ۲۔۳)
’’ اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو، اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں، اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ یقین جانو جو لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے خوب جانچ کر تقوی کے لیے منتخب کرلیا ہے، ان کو مغفرت بھی حاصل ہے اور زبردست اجر بھی۔ ‘‘۔
نیز نعت کے الفاظ خود اپنے اندر تقدس رکھتے ہیں، اس لیے ان کو پیش کرنے کا انداز بھی ویسا ہی پاکیزہ ہونا چاہیے۔نعت خوانی میں شور شرابہ، بے جا آواز کا بلند کرنا، یا ایسا جذباتی اور جوشیلہ انداز اختیار کرنا جو وقار اور ادب کو مجروح کرے، دراصل نعت کی روحانی تاثیر کو مدھم کر دیتا ہے۔ نعت کا اصل مقصد دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کو جاگزین کرنا ہے، اور جب نعت کا انداز فطری وقار اور خشوع سے خالی ہو، تو یہ مقصد پس منظر میں چلا جاتا ہے، اور نعت کا نورانی پیغام اپنی اثر پذیری کھو دیتا ہے۔
’’وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ‘‘ (سورۃ لقمان، آیت 19)
’’”اپنی آواز کو پست رکھو‘‘۔
نعت خوانی میں یہ حکم اور زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے کیونکہ یہ کلام نبی کریم ﷺ کی شان میں کہا جا رہا ہوتا ہے۔
نیز پڑھنے کا انداز اس اعتبار سے بھی باادب ہو کہ نعت گو گانے وغیرہ کے انداز میں نہ پڑھا جائے، بہت سے لوگ کسی مشہور گانے کے طرز پر نعتیہ کلام لکھتے ہیں یا پڑھتے ہیں ، یہ نعت کے ادب کے بالکل خلاف ہے۔حضرت مولانا مفتی سلمان منصورپوری مدظلہ العالی ایک فتوی میں لکھتے ہیں:
’’ نعت کو ترنم میں پڑھنے کی اجازت مطلق نہیں ہے بلکہ اس میں یہ شرط ہے کہ شرعی طور پر گوئی فتنہ انگیزی نہ ہو، مثلا اشعار سنجیدہ ہوں، ترنم گانے اور عشقیہ اشعار کے مشابہ نہ ہو، پڑھنے والے کی صورت اور آواز موجبِ فتنہ نہ ہو۔(کتاب النوازل)
عورتوں کی آواز میں نعت کا حکم؟
اسی ادب میں حضرات علما ء کرام نے یہ بھی لکھا ہے عورت عورت کی محفل میں تو نعت پڑھ سکتی ہے، اس کی اجازت ہے، لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ آواز غیر محرم مردوں تک نہ پہونچے؛ کیونکہ عورت کی عام گفتگو کی آواز کا پردہ نہیں ہے ، اس کا حسب ضرورت مردوں سے بات کرنا جائز ہے لیکن عورت کی ترنم ریز آواز کا پردہ ہے، فقہاء کرام لکھتے ہیں:
نغمة المرأة عورة(رد المحتار: ۱؍۴۰۶)
’’عورت کی دلکش آواز (نغمہ) پردہ ہے‘‘۔
یہ حکم اس لئے ہے کہ اسلام میں جہاں عورتوں کو مردوں سے بات کرنے کی اجازت دی گئی ہیں وہیں یہ تاکید بھی کی گئی ہے کہ وہ مردوں سے تخاطب کے وقت اپنی آواز کو پرکشش نہ بنائیں، نرم لہجہ میں بات نہ کریں، بلکہ سخت لہجے میں بات کریں، ضرورت کے بقدر مختصر بات کرکے بات ختم کردیں، جیساکہ قرآنِ پاک(سورہ احزاب) میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو (امہات المؤمنین ہونے کےباجود) ہدایت کی گئی کہ اگر کسی امتی سے بات چیت کی نوبت آجائے تو نرم گفتگو نہ کریں؛ مبادا اس شخص کے دل میں کوئی طمع نہ پیدا ہوجائے جو دل کا مریض ہو، بلکہ صاف اور دوٹوک بات کہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ نعت پڑھنے میں آواز کو مترنم اور پرکشش بنانے پر توجہ ہوتی ہے ، اس طرح اگر کوئی عورت مردوں کے درمیان نعت پڑھے گی آواز کو پرکشش اور مترنم بناکر ہی پڑھے گی، جو یقینا اس تاکیدی حکم قرآنی کے خلاف ہوگا۔ رد المحتار میں ہے:
ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة.(رد المحتار: ۱؍۴۰۶)
’’ہم ان کے لیے اپنی آواز کو بلند کرنے، یا اسے کھینچنے، نرم کرنے، اور باریک بنانے کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ اس میں مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور ان کی شہوت کو بھڑکانے کا خدشہ ہے۔ اسی وجہ سے عورت کو اذان دینے کی اجازت نہیں دی گئی‘‘۔
لیکن اس سلسلہ میں آج کل بڑی بے احتیاطی عام ہوچکی ہے، اور اس میں عوام وخواص بڑے پیمانے پر مبتلا ہیں، یوٹیوب اور شوشل میڈیا پر عورتوں کی نعت والی ویڈیوز ڈالی جاتی ہیںجن میں پردہ کے بہت سے احکام کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے ،مثلا چہرہ کھلا ہوتا ہے ، بناؤسنگھار کے ساتھ وہ خواتین نظر آتی ہیں، حجاب نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے، اس کے باوجود اسے شوق سےدیکھا اور سنا جاتا ہے ،اور اس کے غلط ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا ہے ، جو یقینا افسوس ناک اورناقابل قبول ہے ،اور یہ نعت کی اہانت کے سوا کچھ اور نہیں ہے؛ کیونکہ جن کی تعریف وتوصیف میں نعت پڑھی جارہی ہے ان کی تعلیمات کی پیروی نعت پڑھنے اور سننے سے زیادہ ضروری ہے،لیکن کان کی لذت نے ان چیزوں سے غافل کردیا ہے، جب کہ باحجاب عورت کی آواز میں بھی نعت سننے اور اس نعت کو عام کرنے سے منع کیا گیا ہے، جامعۃ العلوم الاسلامیہ البنوریہ کے ایک فتوی میں ہے:
’’عورت کا اپنی آواز میں نعت ریکارڈ کرکے ویب سائٹ پر اس کو اَپ لوڈ کرنے میں درج ذیل خرابیاں موجود ہیں:
1- وہ نعتیں مرد بھی سنیں گے، اور نامحرم عورتوں کے لیے مردوں کو نعتیں سنانا جائز نہیں ہے۔
2- یہ بلاضرورت عورت کی آواز مردوں کو سنانا ہے۔
3- نعت میں عمومًا آواز کو نرم اور پرکشش بنایا جاتا ہے، جب کہ عورتوں کو یہ حکم ہے کہ ضرورت کے موقع پر بھی مردوں سے بات کریں تو لہجے میں نرمی اور کشش پیدا نہ کریں۔
لہذا عورتوں کے لیے آپنی آواز میں نعتیں پڑھ کر ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کرنا جائز نہیں ہے‘‘۔(فتوی نمبر : 144205200987)
آلاتِ موسیقی سے پرہیز:
نعت خوانی میں موسیقی یا جدید آلات جیسے ’’ایکو ‘‘ اور دیگر صوتی اثرات کا استعمال ایک ایسی بدعت ہے جس سے نعت کی روح متاثر ہوتی ہے۔ نعت رسول ﷺ خالص عبادت کا عمل ہے، اور اس میں اضافی دنیاوی چیزیں شامل کرنا اس کی پاکیزگی کو مجروح کرتا ہے۔ نعت کا اصل جمال اس کی سادگی اور خلوص میں ہے۔
نعت جیسے مقدس اور پاکیزہ عمل میں موسیقی اور ان جیسی چیزوں کو شامل کرنا درحقیقت اس عبادت کی توہین ہےاور رسول اللہ ﷺ کی مقدس تعلیم کی خلاف ورزی ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَمْحَقَ الْمَزَامِيرَ وَالْكِنَّارَاتِ يَعْنِي الْبَرَابِطَ، وَالْمَعَازِفَ، وَالْأَوْثَانَ الْتِي كَانَتْ تُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ.(مجمع الزوائد:۸۱۸۹)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے، اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں مزامیر (موسیقی کے آلات)، کِنّارات (گانے بجانے کے آلات)،اور معازف (ساز و سرود)کو اور ان بتوں کو مٹاؤں جن کی جاہلیت میں اللہ کے سوا عبادت کی جاتی تھی۔
اس نبوی فرمان کے بعد کہاں سے گنجائش نکل سکتی ہے کہ ان کی مدحت میں ساز وسرود کو اورمیوزک کو شامل کیا جائے، لیکن اس وقت بڑے پیمانے پر نعت کو اس انداز میں سننے اور سنانے کا رواج عام ہوگیا ہے جو یقینا شریعت کے خلاف ہے اورسراسر نعت ومدحت رسول ﷺ کی بے ادبی ہے۔حضرت مفتی محمود الحسن صاحب نور اللہ مرقدہ ایک فتوی میں لکھتے ہیں:
’’سازکے ساتھ نعت شریف کو پڑھنا نہایت خطرناک ہے ، فقہاء کرام نے اس پر بےت سخت حکم لگایا ہے ،سننے والا ایسی خطرناک چیز کو سن کرخود بھی خطرہ مول لیتا ہے اگر چہ اس کا دھیان ساز کی طرف نہ ہو‘‘۔(فتاوی محمودیہ )
حضرت مولانا احمد رضاخان بریلویؒ لکھتے ہیں:
نعت سادہ، خوش الحانی کے ساتھ ہو، گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے(فتاویٰ رضویہ:۲۳؍۳۶۳)
نعت خوانی آلاتِ لہو و لعب اور افعالِ لغو مثلاً مزا میر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے(فتاویٰ رضویہ : ۲۴؍۷۹)
مجلس کا تقدس:
نعت خوانی کی مجلس میں خشوع و خضوع اور احترام کا ماحول ہونا چاہیے، سامعین کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی شان میں کہے گئے کلام کو سن رہے ہیں، اس لیے مجلس میں کوئی شور شرابہ،آواز کی بلندی ، ہنگامہ یا دنیاوی گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ نعت کی محفل ایک عبادتی مجلس ہوتی ہے، اور اس کا احترام ہر فرد پر لازم ہے۔
خلاصہ
خلاصہ یہ کہ’’ نعت ‘‘وہ عبادت ہے جو دلوں کو روشنی عطا کرتی ہے، روحوں کو تازگی بخشتی ہے، اور مؤمن کو رسول اللہ ﷺ کی محبت میں سرشار کر دیتی ہے۔ نعت گوئی دراصل عشقِ رسول ﷺ کا اظہار ہے، جس میں عاشق کو اپنی اداؤں میں پاکیزہ، مؤدب اور باوقار ہونا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ نعت کو اس کے حقیقی تقدس اور آداب کے ساتھ پیش کیا جائے، تو یہ ایک نورانی سفر کا آغاز بن جاتی ہے، جو دلوں کو منور اور ایمان کو تازہ کر دیتی ہے۔ نعت کی عظمت اسی میں ہے کہ اس کے ہر لفظ، ہر مصرعے اور ہر آواز میں عشقِ رسول ﷺ کی خوشبو ہو، اور اس کا ہر ادا کیا جانے والا لفظ دلوں میں عشق و ادب کی نئی دنیائیں روشن کر دے۔ نعت کے آداب کا لحاظ نہ صرف اس کی تاثیر بڑھاتا ہے، بلکہ یہ نعت گوئی کی اصل روح کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بھی ہے،اس لئے نعت کو ہمیشہ خلوص، وقار، اور دینی جذبے کے ساتھ پڑھا اور سنا جانا چاہیے تاکہ دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کی شمع روشن ہو اور زندگیوں میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو اپنانے کا جذبہ بیدار ہو۔
Comments are closed.