یتیموں کی کفالت میں تساہلی کیوں؟

مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی
دین متین میں یتیموں کی کفالت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ قرآن کریم نے پہلے کہا کہ یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ پھٹکو، پھر حکم ہوا یےیموں کی بھلائی اور ان کی مصلحت پیش نظر رکھو، پھر جہاں توحید کی تلقین اور شرک سے بچنے کے تاکید کے ساتھ والدین اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہوا اسی آیت میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین کی گئی،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کی کفالت کرنے والوں کو یہ کہتے ہوئے بڑی عظیم بشارت سنائی اپنی دو انگلیوں کو جوڑ کر فرمایا یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں ایسے ہوں گے، ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ بیوہ اور مسکین کی حاجت روائی کرنے والا راہ خدا میں جہاد کرنے والی طرح ہے، اسی طرح ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قساوت قلبی کا تذکرہ کیا، کہ دل بڑا سخت ہوگیا ہے تو فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے دل میں نرمی ہیدا ہو؟ ، اور تمہاری ضرورت پوری ہو؟ تو یتیموں پر رحم کرو، اس کا سر سہلاؤ ،اور جو تم کھاتے ہو اسے بھی کھلاؤ ، تمہارا دل نرم ہوجائے گا اور تمہاری ضرورت بھی پوری ہوجائے گی،
خلاصہ یہ کہ دین متین میں یتیمیوں کی کفالت کو بڑی اہمیت کے حاصل ہے،یہ قربت الہی کا اہم ذریعہ ہے.
قرآن و حدیث میں یتیم کی کفالت کی تاکید کی گئی، اسلام میں یتیموں کو خصوصی مرتبہ حاصل ہے، ، اس کی تکریم اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا خصوصی حکم ہے، اللہ پاک نے اس کی کفالت پر بڑے اجر کا وعد کیا ہے.
سوال ہے کہ یتیموں کی کفالت پر اتنا زور کیوں دیا گیا؟ دراصل سماجی معاملات کے جس حصے میں کوتاہی اور تساہلی کا جس قدر اندیشہ ہوتا ہے، دین اسی قدر متنبہ کرتا ہے، اس کے فضال بیان کیے جاتے ہیں، اور اہمیت کا احساس دلایا جاتا ہے۔
کفالت کا مسئلہ چوں کہ عمومی طور پر تھوڑا دشوار بھی ہے اور انسان اپنے بچوں میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ دوسروں سے تساہلی کا اندیشہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، تساہلی کے کئی اسباب و عوامل بھی جمع ہوجاتے ہیں، بچوں کی محبت، ان کے مستقبل کے تئیں اندیشے، یہ خوف کہ مجھے کچھ ہو گیا تو ان بچوں کا کیا ہوگا، یا یہ اندیشہ کہ یہ بچے اس احساس میں نہ مبتلاء ہوجائیں کہ والدین ان سے چشم پوشی کرتے ہیں وغیرہ اور اگر اس طرح کی وجوہات نہ بھی ہوں تو کبھی دوسروں کے بھروسے ان کی دیکھ بھال میں تساہلی کا ارتکاب ہوجاتا ہے۔
ان سب عوامل کی وجہ سے انسان بچوں پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے ساتھ ان کے لیے ذخیرہ اندوری کی فکر بھی کرتا ہے، کچھ تو اتنے بدقسمت ہوتے ہیں کہ والدین سے بھی نظریں چرانے لگتے ہیں، اسی لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بھی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، ایسے ہی یتیموں کی کفالت کا مسئلہ بھی ہے آج کل اس حوالہ سے سماج میں جتنی بے توجہی برتی جارہی ہے وہ ناقابل بیان ہے، عموما دیکھا جاتا ہے کہ جو بچے بالخصوص والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوجاتے ہیں ان کے لیے رشتہ دار کچھ دنوں تک بڑے جذباتی ہوتے ہیں، خوب توجہ دیتے ہیں لیکن دو چار ماہ گذرتے ہی ان کے سارے جذبات کافور ہوجاتے ہیں، ایسے منہ موڑتے ہیں جیسے جانتے بھی نہیں یا وہ یتیم ان کے بچوں کا رزق چھین رہے ہیں، ایک طرف اپنے بچوں کی ضروریات چھوڑیے ان کے ادنی شوق پر بھی سب کچھ قربان لیکن یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے ہزاروں میں سے چند پیسے یتیموں کے کفالت کے لیے محفوظ کرلیے جائیں، قساوت قلبی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر دل پر پتھر رکھ کر کچھ دے بھی رہے ہیں تو توقع ہوتی ہے کہ وہ یتیم ہردم ان کے آگے پیچھے گھومتے رہیں، ذرا اختلاف ہوتے ہی منہ موڑلیتے ہیں بلکہ لوگوں کو یہ شکایت کرتے دیکھا ہے کہ یہ بچے ملتے بھی نہیں، یا فلاں معاملہ میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں، گویا یتیموں کی کفالت ایسے کرتے ہیں جیسے انہیں خرید لیا ہو، ان لوگوں کی حالت تو مزید ابتر ہے جنہیں لگتا ہے کہ یتیموں پر چند روپے خرچ کرنے سے ان کے اپنے بچوں کی حق تلفی ہو جائے گی، ان کا رزق سلب ہوجائے.
آج سماج میں نظر اٹھائیے آس پاس کتنے ایسے یتیم ملیں گے جو بچپن میں ہی والدین کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے بالخصوص والد کا انتقال ہوگیا اور کوئی پالنے پوسنے والا نہیں، تعلیم تو چھوڑیے کھانے کے لالے پڑجاتے ہیں، شہروں میں دیکھیے ایسے بچے بھیک مانگتے نظر آئیں گے، بخدا دل خون کے آنسو روتا ہے جب نظر اتا ہے وہ بچے جنہیں مدرسہ و اسکول میں ہونا چاہیے، اپنے گھر کا خرچ پورا کرنے کے لیے سڑکوں پر کچھ بیچ رہے ہیں یا بھیک مانگ رہے ہیں، ہاں یہ سچ ہے کہ اللہ کسی کو کسی بندے کے سہارے پیدا نہیں کرتا، اس نے رزق کی ذمہ داری خود لی ہے اور وہ عطاء بھی کرتا ہے، اور اس کا نظام ہے کہ جب تک باپ زندہ ہےبچوں کی کفالت اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور باپ کے مرنے کے بعد قرابت والوں کی، یہ نظام خالق کا ہے اسے قبول کرناچاہیے، اور سوچنا چاہیے کہ کل ہوکر خدا نہ خواستہ آپ کے ساتھ ایسا ہوگیا اور سارے رشتہ دار اس کی کفالت سے ایسے ہی ہاتھ اٹھالیں جیسے آج آپ نے منہ موڑلیا ہے تو آپ کے نونہالوں کا کیا حال ہوگا.
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے آس پڑوس اور رشتہ داروں میں دیکھیں کہ ایسے بچے تو نہیں ہیں اگر ملیں تو چند لوگ مل کر ایک نظام بنائیے اور خاموشی سے ان کی اتنی مدد کیجئے جتنے میں ان کا گھر چل جائے اور ان بچوں کا تعلیمی سلسلہ بھی برقرار رہ سکے.
یہ نظام گاؤں اور محلے کی سطح پر بھی بنایا جا سکتا ہے،
ایک ہی مرتبہ بڑی رقم دینے والے چند مہینوں میں تھک جاتے ہیں اسلیے رشتہ داروں کی مدد کے لیے اپنے رشتہ داروں سے دس پندرہ لوگوں کا انتخاب کیا جائے اور محلہ میں کسی یتیم کی مدد کے لیے صرف محلہ کے چند لوگوں پر مشتمل نظام ہوتو بہتر ہے.
بڑی بڑی تنظیموں کے چکر میں پڑنے کے بجائے، ان پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود چند لوگ مل کر ایسا کر سکتے ہیں، بس کوشش کی ضرورت ہے.
Comments are closed.