Baseerat Online News Portal

غیر مسلموں کے ساتھ معاشی تعلقات

 

ڈاکٹر قاضی محمدفیاض عالم  قاسمی

ناگپاڑہ ،ممبئی۔۸

8080697348

کسی ملک کی خوشحالی کادارومدار اس کی معیشت اوراقتصادی حالت پرہے،اگر ملک کی معیشت مضبوط ہےتو عوام بھی خوشحال ہوں گے،ورنہ مہنگائی،غربت اور بھوک مری کااثرسب پر پڑے گا۔شریعت میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ مسلمان اورغیرمسلموں کے درمیان تجارت،خریدوفروخت اورلین دین جائزہو، چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مشرک نبی کریم ﷺ کے پاس بکری لیکر آیاتو آپ نےاس سےپوچھاکہ یہ بکری ہدیہ کے طورپرہے یافروخت کے طورپر؟ تو اس نے کہاکہ فروخت کے طورپر، پھر آپ نے وہ بکری اس سے خریدکرلی۔ (صحیح بخاری، ۲۲۱۶عن عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما(حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ایک مدت کے لیے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ بطور رہن رکھی۔ (صحیح بخاری:۲۰۶۸)

غیرمسلموں کے ساتھ شراکت(Partnership) پر تجارت کرنا:

نبی کریم ﷺ نے ابوسفیان اورجبیر بن مطعم کے ساتھ مضاربت پر تجارت کی ہے۔اسی طرح آپ ﷺ نےخیبر کے فتح ہونے کے بعدوہاں کی اَراضی یہودیوں کے قبضہ ہی میں رہنے دیں،اوران سے بٹائی پر معاملہ طے کرلیا۔(صحیح بخاری:۴۲۴۸)چنانچہ فتاویٰ کی مشہور  کتاب ہندیہ  جو  اورنگ زیب عالم گیر ؒ کے زمانے میں ترتیب دی گئی تھی،اس میں ہے

کہ غیرمسلموں کے ساتھ لین دین کرناجائز ہے۔ (ہندیہ:۵/۳۴۸)

غیرمسلموں کواپنے یہاں نوکررکھنا:

مسلمان کاغیرمسلم کے یہاں اسی طرح غیرمسلم کامسلمان کے یہاں نوکری کرنااوراس طرح ملک کی معیشت کو ترقی دینےاورروزی روٹی کاانتظام کرنے میں ایک دوسرے کاہاتھ بٹاناجائزہے۔رسول ﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی توایک مشرک کو اپنے لیےدلیل یعنی راستہ دِکھانے والاکےطورپراجرت دے کرساتھ میں رکھا۔(احکام اھل الذمہ لابن القیمؒ:۱/۵۶۱ش)

غیرمسلم کے یہاں نوکری کرنا:

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی کےیہاں نوکری کی،اسی طرح حضرت خباب رضی اللہ عنہ لوہاری کے فن سے واقف تھے انھوں نے عاص بن وائل کے یہاں کام کیا۔(صحیح بخاری:۲۳۷۵)

غیرمسلموں کامالی تعاون کرنا:

غیرمسلموں کو زکوٰۃ کے علاوہ سبھی صدقات دیناجائزہے:

مسلمان اپنی جان کی طرح اپنے مال کابھی مالک نہیں ہوتاہے،اس پر لاز م ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ان کو استعمال کرے؛چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مال میں دوسروں کاباضابطہ حق بھی متعین کیاہے،چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ ترجمہ:اور جن کے مال میں سوال کرنے والے اور (نہ مانگنے والے) محتاجوں کا مقررہ حصہ ہوتا ہے ۔ (سورہ معارج:۲۵-۶۶)اس کے علاوہ صدقۃ الفطر،صدقہ نافلہ ، منت، وصیت بہت سارے ایسے مصارف ہیں جس میں غیرمسلموں کی مالی اعانت کرناجائز ہے۔

بدائع الصنائع میں امام اعظم ابوحنیفہ ؒ اورامام محمد کامذہب نقل کیاہے کہ زکاۃ کے علاوہ سبھی قسم کےصدقات وخیرات،منت اورکفارات یعنی کسی مذہبی کام کرنے پر کوئی غلطی  ہوجائے تواس پر جومالی تاوان  دیاجاتاہے، وہ غیرمسلموں کوبھی  دیاجاسکتاہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کفارے کامصرف بیان کرتے ہوئے مساکین کہاہے، جس میں مسلم اورغیرمسلم کی تفریق نہیں کی گئی ہے۔نیز اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کفارات غربت کو دورکرنے کےواسطے مقررکئے گئے ہیں، اورغیر مسلموں میں بھی غریب ہوتےہیں؛اس لیے ان کو دینادرست ہے،بلکہ ان کودینابہترہے۔(المائدة: ۸۹،بدائع الصنائع: ۵/۱۰۴کتاب الکفارات)

غیرمسلموں کے لیے بیت المال سے وظیفہ:

حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حیرہ فتح ہواتو حضرت خالد بن ولید فاتح حیرہ نے جو معاہدہ یہاں کے غیرمسلموں کو لکھ کردیا، اس میں تھاکہ جو بوڑھاآدمی کسبِ معاش سے عاجز ہوجائے،یااس کو کوئی آفت پہونچ جائے جس کے سبب وہ معذور ہوجائے،یاپہلے مالدارتھاپھرمفلس ہوگیا،تو اس سے ٹیکس معاف کردیاجائےگااوربیت المال سے اس کو اوراس کے اہل وعیال کو بقدرِ کفالت وظیفہ دیاجائے گا۔ (کتاب الخراج لابی یوسف:۱/۱۵۷)

غیرمسلموں کے لیےمالی وصیت کرنا:

آدمی اپنی حیات میں اپنےکل مال کامالک ہوتاہے، مگر وفات کے بعد اس کے پورے مال کامالک اس کے وارثین ہوجاتے ہیں۔البتہ اس کو یہ حق ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے کل مال کا تہائی حصہ یااس سے کم کسی کے لیے وصیت کردے، تو یہ اسلامی قانون کے مطابق نافذ ہوگا، اورجس کے لیے وصیت کی گئی ہے پہلے اس کو مال دیاجائے گاپھر وارثین کے درمیان تقسیم ہوگا۔ جس کےلئے وصیت کی جارہی ہے وہ اگر غیرمسلم ہے توبھی  یہ وصیت جائز اورنافذالعمل ہوگی۔

حضرت امام عطاءرحمہ اللہ جو مشہورتابعی ہیں سے منقول ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ خیرخواہی کرنے کامطلب یہ ہے کہ ان کوعطیہ کیاجائے یعنی اپنی حیات میں ہدیہ وغیرہ دیناچاہئے اوران کے لئے وصیت بھی کرناچاہئے۔ (مصنف عبدالرزاق، حدیث نمبر: ۱۹۳۳۸)۔بدائع الصنائع میں ہےکہ جس آدمی کے لیےمالی وصیت کی جائےاس کامسلمان ہوناضروری نہیں ہے، بلکہ غیرمسلم کے لیے بھی وصیت کرناجائزہے۔ (بدائع الصنائع:۷/۳۴۱)۔فقط

Comments are closed.