Baseerat Online News Portal

سفارتی جنگ سے عسکری تصادم تک،عالمی طاقتوں کی رسّہ کشی

 

مسعود محبوب خان ممبئی

 

دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی طاقت کا عدم توازن پیدا ہوا، زمین پر ظلم، فتنہ اور فساد نے جنم لیا۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر (اس طریقے سے) اللّٰہ ایک گروہ کو دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللّٰہ تعالیٰ تو تمام جہانوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔” (القرآن – سورۃ البقرہ: 251)۔ یہی حقیقت آج کی عالمی سیاست پر بھی لاگو ہوتی ہے، جہاں بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں، اور دنیا طاقت کی اس رسہ کشی میں الجھی ہوئی ہے۔ دنیا کے افق پر چار عظیم دیو— روس، امریکہ، چین اور ایران—یہ چار قوتیں آج کے عالمی افق پر نمایاں ہیں، اور ہر ایک اپنی اپنی راہ متعین کرنے کے جتن میں مصروف ہے۔

 

اسلام عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسا عالمی نظام پیش کرتا ہے، جہاں نہ کسی قوم کو بلاجواز فوقیت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی قوم کو ظلم و استبداد کی بھینٹ چڑھنے دیا جا سکتا ہے۔ مگر آج دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ طاقتور قوموں کے ذاتی مفادات اور سیاسی تسلّط کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تصادم محض سرحدوں کی حفاظت، معیشت کی بقاء، یا سفارتی تعلقات کی بہتری کے لیے نہیں، بلکہ ایک ایسی حکمرانی کی خواہش کا نتیجہ ہے جس میں دنیا پر بالادستی حاصل کرنے کی خواہش کارفرما ہے۔

 

اسلامی تعلیمات ہمیں انصاف، امن اور حکمت کے اصولوں پر عمل کرنے کی تلقین کرتی ہیں، جہاں طاقت کو ظلم کے بجائے فلاح کے لیے استعمال کیا جائے۔ لیکن آج کی دنیا میں طاقت کا استعمال کمزور قوموں کو دبانے، معیشت کو کنٹرول کرنے، اور دنیا پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جسے اسلامی بصیرت کے تحت سمجھنے اور اس کے حل کے لیے تدبیر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مضمون اسی عالمی منظرنامے کو سمجھنے کی کوشش ہے، تاکہ ہم جان سکیں کہ آج کی دنیا میں طاقت کے نئے مراکز کیسے بن رہے ہیں، قوموں کے درمیان تعلقات کیسے تبدیل ہو رہے ہیں، اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں اس کا کیا حل ہو سکتا ہے۔

 

کبھی بازوؤں کی قوت، کبھی درہم و دینار

زمانہ جنگ میں بدلا، بدلتی ہے تلوار

 

طاقت کے چار کہنہ مشق شہسوار— روس، امریکہ، چین اور ایران—اپنی اپنی بادشاہتوں کے قلعوں میں مورچہ زن ہیں، جہاں سیاست کی شطرنج بچھ چکی ہے، معیشت کی تلواریں کھنچ چکی ہیں، اور اسٹریٹیجک چالوں کے زخم نمایاں ہیں۔ یہ محض سرحدوں کی جنگ نہیں، نہ صرف معیشت کی کشمکش ہے، اور نہ ہی سفارتی چالوں کا سادہ سا کھیل، بلکہ طاقت کی ایک مہیب بساط ہے، جہاں ہر مہرہ بے چین کھڑا ہے۔ کوئی توسیع کے خواب بُن رہا ہے، کوئی دفاع کی فصیل بلند کر رہا ہے، تو کوئی پس پردہ چالوں سے بازی پلٹنے کی تدبیر میں مصروف ہے۔ یہ درحقیقت ایک پیچیدہ داستان ہے، جہاں سیاست کی باریکیاں، اقتصادی مسابقت کی تیز دھاریاں، اور اسٹریٹیجک منصوبوں کے غیر مرئی دھاگے ایک دوسرے میں الجھے ہوئے ہیں، اور ہر طاقت اپنی چال کو حتمی اور فیصلہ کن بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

 

یہ دنیا کے افق پر معلق وہ کہانی ہے جہاں اقتصادی طوفان اٹھتے ہیں، سفارتی ہوائیں بدلتی ہیں، اور عسکری بادل گرجتے ہیں۔ کہیں مغربی دیواریں مضبوط کی جا رہی ہیں، کہیں مشرقی اتحاد بُنتے جا رہے ہیں، اور کہیں خاموش معاہدوں کے سائے میں نئے جہان تخلیق ہو رہے ہیں۔ وقت کی سِل پر لکھی یہ داستان بتاتی ہے کہ زمین پر اقتدار کی جنگ کبھی تھمی نہیں، فقط اس کے رنگ، اس کے میدان اور اس کے کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں۔

 

یہ چاروں ممالک عالمی سیاست کے وہ چراغ ہیں، جن کی روشنی اور سائے دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ امریکہ، جو طویل عرصے سے خود کو دنیا کا حاکمِ اعلیٰ سمجھتا آیا ہے، اب چین کی بلند ہوتی دیواروں سے خائف نظر آتا ہے۔ چین، جس نے اپنی معیشت کو ایک سدِ سکندری کی مانند استوار کیا ہے، مغرب کی آنکھ میں چبھنے لگا ہے۔ چین اور امریکہ تائیوان کے مسئلے پر آمنے سامنے ہیں، جہاں چین تائیوان کو اپنا حصّہ سمجھتا ہے، جب کہ امریکہ اس کی حمایت کر رہا ہے۔

 

روس، جو تاریخ کے اوراق میں کبھی زاروں کا مسکن رہا، کبھی سوویت یونین کی سرخ آندھی میں لپٹا، آج پھر ایک ایسی طاقت بننے کی جدوجہد میں ہے جو مغرب کے برابر کھڑی ہو سکے۔ روس امریکہ اور نیٹو (NATO) کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر یوکرین جنگ کے بعد مغربی ممالک سے اس کی کشیدگی مزید بڑھ چکی ہے۔ اور ایران، تہذیبوں کی قدیم زمین، جسے نہ صرف مغربی سازشوں بلکہ خطے کی اندرونی رقابتوں کا بھی سامنا ہے، اپنے نظریاتی اور جغرافیائی محاذ پر تنِ تنہا سینہ سپر ہے۔ ایران، جو خطے میں ایک بڑی طاقت ہے، مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں (جیسے اسرائیل اور سعودی عرب) سے ٹکراؤ میں ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، جب کہ امریکہ اور اسرائیل اس کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 

دنیا کی اس کشمکش کا دوسرا اور شاید سب سے زیادہ محسوس کیا جانے والا پہلو "اقتصادی برتری” کا ہے، جو اب عالمی طاقتوں کے درمیان ایک نئی جنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ امریکہ، جو ڈالر کو دنیا کی معیشت کا مرکزی ستون بنائے رکھنے کا خواہاں ہے، چین کی یوان پر مبنی اقتصادی حکمتِ عملی سے واضح طور پر مضطرب نظر آتا ہے۔ اس کشیدگی نے چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی محاذ آرائی کو جنم دیا ہے، جو اب چِپ مینو فیکچرنگ، 5G ٹیکنالوجی، اور دیگر جدید صنعتوں تک پھیل چکی ہے۔

 

ادھر روس، جو مغربی پابندیوں کی فولادی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، اپنی معیشت کو سہارا دینے اور مغرب پر انحصار کم کرنے کے لیے چین اور ایران کے ساتھ متبادل اقتصادی اور تجارتی راستوں کی تلاش میں ہے۔ ان پابندیوں نے اگرچہ روسی معیشت کو دباؤ میں رکھا ہے، مگر ساتھ ہی ایک نیا بلاک بھی ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔

 

اسی طرح ایران، جو کئی دہائیوں سے امریکی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے، اپنی معیشت کو زندہ رکھنے کے لیے مشرقی طاقتوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چین اور روس کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تجارتی و توانائی معاہدے نہ صرف اس کی بقاء کی علامت ہیں بلکہ مغربی اقتصادی نظام سے ہٹ کر ایک متبادل نظام کے قیام کی کوشش کا حصّہ بھی ہیں۔ یوں عالمی طاقتوں کی یہ کشمکش صرف جغرافیائی یا عسکری نہیں، بلکہ اقتصادی میدان میں بھی شدّت اختیار کر چکی ہے، جہاں نئی صف بندیاں اور نئے اتحاد ایک بدلتے ہوئے عالمی نظام کی نوید دے رہے ہیں۔

 

یہ ممالک صرف الفاظ اور معاہدوں کی دنیا تک محدود نہیں رہے، بلکہ عسکری محاذوں پر بھی برسرِ پیکار ہیں۔ یوکرین میں روس کی پیش قدمی اور اس کے خلاف مغربی ممالک کی سخت مزاحمت، بحر الکاہل میں چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے ممکنہ حملے، اور عالمی سطح پر دفاعی اتحادوں کی نئی صف بندیاں اس امر کی غماز ہیں کہ آج کی جنگیں صرف روایتی میدانوں میں نہیں، بلکہ سفارت کاری، معیشت، ٹیکنالوجی، اور اطلاعات کے ہر محاذ پر جاری ہیں۔

 

ایسے میں عالمی طاقتوں کی نئی صف بندیاں ایک خاص اہمیت اختیار کر چکی ہیں۔ امریکہ کے اتحادیوں میں نیٹو، یورپی یونین، جاپان اور بھارت شامل ہیں، جو مل کر روس اور چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس، روس اور چین ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور مغربی غلبے کے مقابلے میں مشترکہ حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں۔ ایران اور روس کے مابین بھی دفاعی اور توانائی کے شعبوں میں گہرے تعلقات قائم ہیں، جو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نیا توازن پیدا کر رہے ہیں۔

 

دنیا ایک "ملٹی پولر” ورلڈ آرڈر کی جانب بڑھ رہی ہے، جہاں امریکہ کی یک قطبی حکمرانی کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ چین، روس، ایران اور دیگر علاقائی طاقتیں اپنے اپنے بلاکس بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی تناظر میں برِکس (BRICS) جیسے اقتصادی اتحاد ابھر کر سامنے آ رہے ہیں، جو مغربی اقتصادی نظام کا متبادل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ نئے اتحاد نہ صرف معیشت، بلکہ عالمی سیاست، دفاع، اور سفارت کاری کے میدانوں میں بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں۔

 

ہے یہ دنیا کی سیاست کا عجب میدان بھی

دوستی پردے میں ہے اور در پردہ طوفان بھی

 

یہ ممالک مختلف محاذوں پر ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہیں، لیکن ساتھ ہی بعض معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے ہیں۔ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے، اور اس کشمکش کے نتیجے میں عالمی سیاست میں نئے بلاکس اور اتحاد بنتے جا رہے ہیں۔

 

یہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں کوئی ایک ملک تنہا سب پر حکمرانی نہیں کر سکتا۔ جہاں ہر طاقت اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جہاں اتحاد ٹوٹ رہے ہیں اور نئے محاذ کھل رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں جنگیں صرف تلوار اور توپ سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ سفارت کاری، معیشت، ٹیکنالوجی اور میڈیا کے ہتھیار بھی اتنے ہی موثر ہیں۔ یہ کشمکش نہ آج شروع ہوئی تھی، نہ کل ختم ہوگی۔ بس وقت کی گردش میں یہ کہانی نئے کرداروں، نئے عنوانات اور نئے میدانوں کے ساتھ آگے بڑھتی رہے گی، اور دنیا کے باسی اسی کھیل کے تماشائی اور بعض اوقات مہروں کے طور پر شامل رہیں گے۔

 

دنیا میں طاقت کی یہ رسہ کشی اور اقتدار کی جنگ کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قوت و اختیار چند طاقتوں کے ہاتھ میں مرتکز ہوا، کمزور اقوام استحصال اور جبر کا شکار ہوئیں۔ مگر اسلام دنیا میں طاقت کے حصول کو ایک ذمہ داری قرار دیتا ہے، نہ کہ استبداد کا ذریعہ۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا ہے، ان پر احسان کریں اور انہیں پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث بنائیں۔” (القصص: 5)۔ یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اللّٰہ کی نظر میں طاقت اور اختیار کسی قوم کی اجارہ داری نہیں بلکہ ایک آزمائش ہے۔ جو قوم بھی عدل، حق اور امن کے اصولوں پر چلے گی، وہی دیرپا کامیابی حاصل کرے گی۔

 

کبھی تلوار، کبھی سازش، کبھی گفتار کی جنگ

یہ سیاست کے فقیہہ لوگ ہیں، بے کار کی جنگ

 

آج کی عالمی سیاست میں جہاں اقتصادی تسلّط، عسکری مقابلہ آرائی اور سفارتی چالیں جاری ہیں، وہاں اسلامی تعلیمات عدل و انصاف، باہمی احترام اور امن پر زور دیتی ہیں۔ اسلام نہ تو ظالمانہ تسلّط کی حمایت کرتا ہے، نہ ہی کسی بھی قوم کے حقوق سلب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ عدل کرو، یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔” (المائدہ: 8)

 

موجودہ عالمی منظرنامے میں جہاں طاقتور ممالک اپنی حکمت عملی کے ذریعے دوسروں کو دبانے کی کوشش میں لگے ہیں، وہاں دنیا کے ہر فرد اور ہر قوم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقی استحکام طاقت کے توازن میں نہیں، بلکہ عدل و مساوات میں ہے۔ اگر عالمی قوتیں اسلامی اصولوں کے مطابق انصاف، حقوق کی برابری اور امن کو فروغ دیں، تو یہ دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ کے بجائے امن و سلامتی کی مثال بن سکتی ہے۔

 

رسول اکرمﷺ نے فرمایا: "ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا۔” (مسلم)۔ لہٰذا، عالمی سیاست میں حکمرانوں، پالیسی سازوں اور اقوام کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ طاقت کے اس کھیل میں انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں یا ظلم کا حصّہ بن رہے ہیں۔ جو بھی قوم عدل کے اصولوں پر چلے گی، وہی بالآخر سرخرو ہوگی، کیونکہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، اور کامیابی کا اصل پیمانہ اللّٰہ کے ہاں دی جانے والی جزا و سزا ہے۔

 

یہ جو دنیا کے خدائی کے ہیں خوابیدہ اسیر

کبھی فرعون بھی تھے، آج کہاں ہیں وہ پیر؟

Comments are closed.