Baseerat Online News Portal

وقف ایکٹ 2025 میں بعض ترامیم شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں

 

از: محمد برہان الدین قاسمی

ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی

 

وقف ایکٹ 1995 میں حالیہ ترامیم—جو اب "وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025” کہلاتا ہے—ہندوستان کے آئینی اور اسلامی تناظر میں سنگین تشویش کا باعث ہیں۔ ان میں کئی دفعات نہ صرف غیر منطقی اور من مانی ہیں بلکہ آئین ہند کے آرٹیکل 14، 15، 25، 26 اور 29 کے تحت شہریوں کو حاصل بنیادی حقوق کی براہِ راست خلاف ورزی ہیں۔ ان ترامیم کا مقصد وقف اداروں میں شفافیت اور بہتر نظم و نسق کو فروغ دینا نہیں بلکہ مسلمانوں کے اپنے مذہبی امور میں آزادی کو کمزور کرنا ہے، جو کہ ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔

 

ایک نہایت قابل اعتراض ترمیم یہ ہے کہ اب کوئی شخص اُس وقت تک وقف نہیں کر سکتا جب تک وہ "کم از کم پانچ سال سے عملی مسلمان” نہ ہو۔ یہ شرط شریعتِ اسلامی کی روشنی میں بالکل بے بنیاد اور آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کی بھی خلاف ورزی ہے، جو ہر فرد کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور مذہبی ادارے قائم و چلانے کی آزادی دیتا ہے۔ اسلام میں وقف ایک عبادت اور صدقہ جاریہ کا عمل ہے، جس کے لیے شریعت میں پانچ سال کی کوئی شرط نہیں۔ یہ ترمیم بالخصوص نئے ایمان لانے والوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 14 (قانون کی نظر میں مساوات) اور 15 (مذہب کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت) کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔

 

ایک اور غیر آئینی ترمیم یہ ہے کہ اب غیر مسلموں کو صوبائی وقف بورڈز اور سینٹرل وقف کونسل میں لازمی طور پر شامل کیا جانا ہے، جو اقلیتوں کو دیے گئے آئینی حقوق—آرٹیکل 26 اور 29—کی خلاف ورزی ہے۔ ان دفعات کے تحت اقلیتوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہبی و رفاہی ادارے، بغیر کسی حکومتی مداخلت کے خود قائم و منظم کرسکتے ہیں۔ اگر ہندو اپنے مندر اور اس سے جڑی جائیدادوں کو خود سنبھالتے ہیں، عیسائی اپنے چرچ اور سکھ اپنے گردوارے، تو مسلمانوں کو یہ آزادی کیوں نہیں دی جا رہی؟ یہ ترمیم خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے، جس سے قانون اور نظم و نسق میں دوہرا معیار پیدا ہوتا ہے، جو کہ آئین ہند کے مقدمہ میں درج ہندوستان کی سیکیولر روح کے منافی ہے۔

 

اس کے علاوہ یہ ایکٹ ضلع کلکٹرز اور دیگر سرکاری افسران کو حد سے زیادہ اختیارات دیتا ہے کہ وہ وقف جائیدادوں کی شناخت، جانچ اور حتیٰ کہ انہیں منسوخ تک کر سکتے ہیں۔ یہ حکومت کی زیادتیوں، زمین ہتھیانے اور وقف جائیدادوں پر قبضے کو قانونی شکل دینے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ایسے اقدامات اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو پامال کرتے ہیں اور اُن صدیوں پرانے اداروں کو کمزور کرتے ہیں جو یتیموں، غریبوں، تعلیم اور مذہبی ضروریات کے لیے وقف کیے گئے تھے۔

 

"وقف بذریعہ استعمال” (Waqf by User) کے تصور کو ختم کرنا بھی ایک تشویشناک قدم ہے، جو اُن جائیدادوں پر مسلمانوں کے عمل دخل کو کمزور کرتا ہے جو نسلوں سے عوامی خدمت میں استعمال ہو رہی ہیں۔

 

ایک اہم سوال یہ بھی ہےکہ "عملی مسلمان” ہونے کا تعین کون کرے گا؟ کیا اب حکومت شرعی مسائل کی تشریح کرے گی اور کیا حکومت نے مسلمانوں کے دینداری کو ناپنے کا کوئی پیمانہ ایجاد کیا ہے؟ یہ تصور اسلامی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے، کیونکہ اسلام میں کوئی درجہ بندی یا طبقاتی نظام نہیں ہے جو کسی کو اچھا یا برا مسلمان قرار دے۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو یہ جانتا کہ کون انسان اپنے عمل میں کیسا ہے۔ یہ ترمیم بھی آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، جو ضمیر کی آزادی اور انفرادی و اجتماعی طور پر مذہب پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے۔

 

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں شامل متعدد دفعات نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں بلکہ آئینی اصولوں سے بھی متصادم ہیں۔ یہ مسلمانوں کے مذہبی آزادی کو محدود کرتے ہیں، اُن کے ساتھ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں اور حکومت کو وقف جائیدادوں پر قانونی قبضہ کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔

 

یہ ترامیم نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر اُس شہری کو مسترد کرنی چاہیے جو جمہوریت، سیکولرازم اور آئینی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ یہ بنیادی حقوق، قانون کی مساوات اور اقلیتوں کے حقوق—جو کہ آئین ہند کی بنیاد ہیں—کی خلاف ورزی ہے۔ قابل قدر سپریم کورٹ کو اس ترمیمی قانون کا از خود نوٹس لینا چاہیے تھا، تاہم چونکہ اس سلسلے میں مقدمات داخل ہو چکے ہیں، اس لیے توقع ہے کہ عدالت عظمیٰ آئین کی روح اور عدل و انصاف کی بنیاد پر فیصلہ دے گی۔

Comments are closed.