Baseerat Online News Portal

فریضہ حج وعمرہ کے لئے محرم کی شرط اورائمہ مجتہدین کی آرا

 

مفتی احمدنادرالقاسمی

اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر محرم کے حج اورعمرہ کا سفر یا 48 میل یعنی سفرشرعی کی مسافت سے زیادہ کے سفر کا مسئلہ ماضی میں اتنا معرکۃ الآرا نہیں تھا جتنا آج دنیا میں تیزرفتار سواری کے ایجاد کے بعد ہوگیا ہے۔ اس میں ایک طرف توبہت زیادہ شدت ہے تودوسری طرف حالات وواقعات اندیکھے خطرات اورشکوک وشبہات سے چشم پوشی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس باب میں راہ اعتدال کیا ہے ؟ اوریہ بات بھی اسی کے ساتھ قابل غورہےکہ جن روایات میں صراحت کے ساتھ جواپنی سند ودرایت کے اعتبارسے بھی شفاف اوربےغبار ہیں ان میں ایک دن دو دن اورتین دنوں کی مسافت کے برابرسفرسے منع کیاگیاہے۔کیاوہ روایات معلول بہ علت ہیں کہ اگرخطرہ ہوتو ممنوع اوراگر کوئی خطرہ نہ ہوتو سفر مباح۔ اوراگر معلول بہ علت نہیں ہیں تو ائمہ مجتہدین میں سے امام مالک اورامام شافعی جیسے جلیل القدر ائمہ نے بغیرمحرم کے صریح روایات موجودہونےکےباوجود سفرحج وعمرہ کی اجازت کیسے دی۔؟یہ وہ امورہیں جوغورطلب ہیں ۔جب تک ان تمام پہلوؤں پر سیرحاصل بحث نہیں ہوگی مسئلہ کے صحیح نتیجے تک پہونچنا مشکل ہے۔ ائمہ متقدمین کاموقف : پہلے اس بارے میں ائمہ کاموقف جاننے کی کوشش کرتےہیں۔شرح بخاری لابن بطال میں صراحت ہے کہ امام مالک ۔اوزاعی اورشافعی کے نزدیک اور عورت کے اوپر حج فرض اوراس کے ساتھ محرم نہ ہو تو وہ خواتین کے گروپ یابھروسے مند مردوں کے گروپ کے ساتھ بھی سفرحج پہ جاسکتی ہے۔جیساکہ اوزاعی کی رائے ہے۔ جبکہ ابوحنیفہ اوران اصحاب کے نزدیک نہیں جاسکتی۔عدم جواز کے قائلین میں امام احمد۔اسحاق۔اورابوثور بھی شامل ہیں۔اورمجوزین میں حضرت عبداللہ بن عمر، عطاء۔سعید۔ابن سیرین۔حسن بصری۔اورحسن مالک واوزاعی اورشافعی کے علاوہ ہیں اورجمہور بھی اسی کے قائل ہیں. دیکھئے:”قال مالک والاوزاعی والشافعی تخرج المراۃ فی حجۃ الفریضۃ مع جماعۃ النساء فی رفقۃ مامونۃ وان لم یکن معھا محرم۔وجمہور العلماء علی جواز ذلک۔وکان ابن عمر یحج معہ نسوۃ من جیرانہ وھو قول عطاء وسعیدبن جبیر وابن سیرین والحسن البصری۔وقال الحسن :المسلم محرم ولعل بعض من لیس بمحرم اوثق من المحرم۔وقال ابوحنیفۃ واصحابہ:لاتحج المراۃ الامع ذی محرم۔وھوقول احمد واسحاق وابی ثور۔وحملہ مالک وجمہور الفقہاء علی الخصوص۔وان المراد بالنھی الاسفارغیرالواجبۃ علیہا“ {شرح بخاری لابن بطال جلد٨ صفحہ ١٢٦۔التمہید لمافی الموطا من المعانی والاسانید جلد٢١۔صفحہ ٥٢}۔ نیز حماد کی بھی یہی رائے ہے۔”وقال حماد: لاباس للمراۃ ان تسافر بغیر محرم مع الصالحین“{المحیط للبرھانی جلد ٥ صفحہ ٢٧٦} واضح رہے کہ حج اورعمرہ کے علاوہ دیگر دنیوی اسفار غیر واجبہ میں تمام حضرات ائمہ کا اتفاق ہے، بلکہ اجماع کہ سکتے ہیں کہ کوئی خاتون بغیر محرم کے 48 میل یااس سے زیادہ کا سفر تنہا یامردوں اورعورتوں کے گروپ میں نہیں کرسکتی ہے۔ ”اتفق العلماء علی انہ لیس لھا ان تخرج فی غیر الحج والعمرۃ۔الا مع ذی محرم “۔ {الموسوعۃ الفقھیۃ جلد٣٦ صفحہ ٢٠٦}۔ جمہور کے جواز کےقائل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حدیث میں مذکورممانعت سے حج اورعمرہ کے سفر کو مستثنی قرار دیتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک ممانعت سے مراد عام اسفار ہیں چاہے تعلیمی ہو۔تلاش معاش کے لئے ہو۔یاتفریح کےلئے یاملاقات وزیارت کےلئے۔جبکہ ائمہ احناف اس ممانعت کو عام مانتے ہیں۔اورسارےہی اسفار کو اس کامصداق قرار دیتے ہیں۔بشمول حج وعمرہ کے۔ معاصر اوردورجدید کے اہل علم اور اہل فتاوی میں اس بارے میں دونوں طرح کی آراملتی ہیں ۔ عالم عربی کے اہل فتاوی عام طورسے جمہور علماء کے موقف کواختیار کرتے ہوئے گروپ کی شکل میں خواتین کے سفرحج وعمرہ کے جوازکی بات کہی ہے۔اوربرصغیر کے علماء احناف کے موقف کو ترجیح دیکر فتاوے دئیے ہیں۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند اوربنوری ٹاون پاکستان کےفتاوی بغیرمحرم عام اسفارکی طرح حج وعمرہ کے سفر کوبھی ناجائز ہی کہاگیاہے اوریہ حکم عام ہے ۔چاہے جوان سال خواتین ہوں یامعمر اوربزرگ ۔ نیز برصغیر کے اہل علم نے راستے کے مامون ہونے کی بات بڑی شدومد کےساتھ کہی ہے اوراس کو سامنے رکھتے ہوئے امام اورشافعی کے استدلال پر بھی سوال اٹھایاہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے پچاس سال پہلے کے سمندری سفر جس میں مہینوں لگتے تھے جدہ پہونچنے میں اورراستے پرخطر بھی تھے، آج کے ہوائی اسفار کم ازکم ہزاروں گنا اس سے مامون ہیں ۔اورجب کوئی شخص مکہ داخل ہوجائے تو اسے خود قران نے مامون قرار دیاہے۔”من دخلہ کان آمنا“ تو راستے کے مامون ہونے پر فی زمانہ مکمل اطمینان کیا جاسکتاہے۔ اس اعتبار سے عدم جواز کی یہ علت بھی مفقود ہوجاتی ہے۔ بہر حال ان مذکورہ تفصیلات سے اتنی بات تو ضرور سامنے آتی ہے کہ یہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے۔اورجب کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہوجائے تو حکم میں تخفیف ہوہی جاتی ہے۔ لہذا جمہور ائمہ کے جوازکے موقف اورحدیث میں مذکور ممانعت سےسفرحج کے استثنی کو دیکھتے ہوئے میرا خیال یہ ہےکہ اگر کوئی معمرخاتون ایسی ہو جس کے پاس محرم نہ ہو۔یامحرم کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہ ہو اور اسے سفرحج میں جانے کےلئے خواتین کاگروپ مل جائےتو حج کے سفر پہ اسے بغیرمحرم کے جانے کی اجازت ہونی چاہئیے۔اورخواتین کاگروپ میسر ہونے کو استطاعت کادرجہ قراردیاجاناچاہئیے۔اگرچہ عرب وعجم کے فقہاء نے عورت کے لئےمحرم کی موجودگی کو استطاعت میں ایک شرط کے طورپر شامل کیاہے۔گویا محرم نہیں ہے تو عورت مستطیع نہیں ہے۔ مگردوسرے ائمہ کے قول کے مطابق گروپ کو یہ درجہ دیاجاسکتاہے تاکہ حج وعمرہ جیسی عبادت سے ایسی خواتین کو محروم نہیں کیاجاچاہئیے۔اوراس مسئلہ میں شدت اختیار کرنے کی بجائے اجتماعی غوروفکرکے ذریعہ حل نکالناچاہئے۔خواہ مشروط ہی کیوں نہ ہو۔ استطاعت کامسئلہ دور جدید میں استطاعت صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کہ مکہ مکرمہ تک جانے ۔وہاں سے آنے۔ مدت قیام تک کےکھانے اوررہائش کے اخراجات موجود ہوں۔بلکہ حرم سے مزدلفہ۔عرفات۔منی۔رمی جمرات۔اورطواف وغیرہ ارکان حج اداکرنےکےلئے پیدل یا ساری سے آنےجانے کی جسمانی طاقت بھی ہو۔یہ ساری چیزیں استطاعت کے زمرے میں آئیں گی۔معمرخاتون کو گروپ کے ساتھ اجازت دیتے وقت اس کوبھی ملحوظ رکھاجائے گا۔۔پھرعالم عربی سے تعلق رکھنے والی خواتین کامسئلہ الگ ہے۔اوردنیاکے دوسرے ملکوں سے جانے والی خواتین کےلئے متنوع دشواریاں ہیں۔ان کوبھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ اس لئے صرف جمہور ائمہ کے استثنی والے قول کی بنیاد پر ان امور کو صرف نظر کرتےہوئے اجازت دیدینا ۔گروپ میں جانے والی خاتون کو مشقت میں مبتلا کرناہوگا۔کیوں کہ حج میں ازدحام کی وجہ سے ہرشخص کے لئے جاں کنی کاعالم رہتاہے۔اوراپنااپنامعاملہ رہتاہے۔کوئی دوسرے کا خیال رکھنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا۔یہ ساری مصلحتیں ہیں ۔ جنھیں اجازت دیتے وقت بہرحال ملحوظ رکھناہوگا۔ اللھم ارناالحق حقا۔

Comments are closed.