نیا و قف قانون: اب ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں؟

تحریر: جاوید اختر بھارتی
لمبے عرصے سے یہ مسلہ زیر بحث تھا کہ حکومت وقف ترمیمی بل پیش کرے گی یعنی وقف کا جو قانون ہے اس میں تبدیلی کرے گی ، وقف املاک کی جو حیثیت ہے اس میں ردوبدل ہوگا نتیجہ یہ ہوا کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بھی وجود میں آئی خوب میٹنگیں ہوئیں اس کمیٹی میں بھی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہوتی رہیں پھر وہ دن بھی آیا کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وقف ترمیمی بل پیش کیا مخالفت اور حمایت میں زوردار بحث ہوئی تمام بحث و مباحثے کے بعد وقف ترمیمی بل پاس ہوگئی اور صدر جمہوریہ نے دستخط بھی کردیا ،، اب یہ بات ذہن نشین ہونا چاہئے کہ وقف بل،، اب بل نہیں بلکہ قانون بن گیا ،، بحث کے دوران بہت کچھ باتیں تلخ بھی رہیں ، خوش کن بھی رہیں ، روشن مستقبل کے خواب بھی دکھائے گئے ، غریبوں ، یتیموں اور مسکینوں کا ذکر بھی ہوا ، بے سہاروں کو سہارا دینے کی بات کہی گئی ، کمزوروں کو طاقتور بنانے کی بات کہی گئی ، غریبوں کو بسانے کی بات کہی گئی اور مسلم خواتین کا بھی خوب تذکرہ کیا گیا ،، تمام طرح کے عہد اور وعدوں کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی میں وہ سب کچھ عملی طور پر ہوگا جس کا ذکر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تال ٹھونک ٹھونک کر کیا گیا ہے بحث کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ کے اندر مسلمانوں اور پسماندہ مسلمانوں اور مسلم خواتین کا درد بہت دکھا اب یہاں پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور پسماندہ مسلمانوں و مسلم خواتین کا درد امت شاہ کے سینے میں ہے یا صرف زبان پر ہے ،، سینے میں درد ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ایک بھی بی جے پی سے مسلم ایم پی نہیں ملک کی تمام ریاستوں کی اسمبلی میں بی جے پی سے ایک بھی ایم ایل اے نہیں پھر کس بنیاد پر یہ ہمدردی دکھائی جارہی ہے اتنا ہی نہیں ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ کیا وقف میں پسماندہ مسلمانوں اور غریب مسلمانوں ، داؤدی بوہرہ مسلمانوں کو نمائندگی نہیں ملنی چاہئے اگر نہیں ملنی چاہئے تو کیوں ؟ اور اگر ملنی چاہئے تو ہم وہی کام تو کرہے ہیں ،، اب یہاں پر بھی پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقف میں وزیر داخلہ مسلمانوں کو ، پسماندہ مسلمانوں کو ، چھوٹے بڑے مسلمانوں کے تمام طبقات کو نمایندگی دینا چاہتے ہیں تو وہی نمائندگی بھارتیہ جنتا پارٹی میں کیوں نہیں دیتے وقف میں نمایندگی دینے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ سیاسی طور پر پارٹی میں پہلے نمائندگی دی جائے اور مسلم خواتین کی اتنی فکر ہے تو پھر یہ فکر اور یہ ہمدردی بلقیس بانوں کے ساتھ کیوں نہیں دکھائی گئی اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ طبقات کے ساتھ ہمدردی کی بات صرف زبان خرچی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ،، اب دوسری اہم بات یہ ہے کہ وقف ترمیمی قانون بن جانے کے بعد احتجاج کی بات ہورہی ہے مسلم پرسنل لاء بورڈ ابھی احتجاجی لائحہ عمل مرتب کرہا ہے دوسری طرف جمیعۃ علماء ہند کا کہنا ہے کہ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نہ آئیں تو یہ بات بھی کہنے والوں نے کہا ہے کہ غریب مسلمانوں کو سڑکوں پر اترنے کے لئے اکسایا جارہاہے اور سرمایہ دار و سیاسی مسلم لیڈران ایر کنڈیشن روم میں بیٹھے ہیں اور عالیشان ہوٹلوں میں بیٹھ کر فرمان جاری کررہے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ ساری باتیں اخباروں کے صفحات پر دیکھی گئی ہیں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں ،، جب مسلم رہنماؤں کا یہ حال ہے تو پھر عام مسلمان کیا کرے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ وقف قانون کے خلاف احتجاج کرنا ہے تو اس احتجاج میں پیشوایان قوم اور ان کے اہل وعیال صف اول میں ہونے چاہئیں ،، خانقاہوں کے پیران کرام اپنے مریدوں کے ساتھ وقف قانون کی مخالفت میں علم بغاوت بلند کرتے نظر آنے چاہئیں مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے ،، ملک کے گنے چنے علاقوں میں احتجاج ہوا ہے ساتھ ہی ساتھ عام مسلمانوں کو وقف ترمیمی قانون کے نقصان و فوائد بھی معلوم نہیں ہیں کیونکہ انہیں بتایا ہی نہیں گیا ہے اسی وجہ سے تو مسلمانوں میں بھی بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جس کا کہناہے کہ مسلمانوں کے بازوؤں پر کالی پٹی نہیں باندھی گئی بلکہ ان کی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھی گئی احتجاج میں شامل کسی صف میں داخل ہوکر میڈیا کے لوگ سوال کردیں کہ ترمیم شدہ وقف قانون سے آپ کا کیا نقصان ہے تو کیا جواب دیں گے ،، یہ مسلمانوں کا بہت بڑا المیہ ہے کہ سیاسی صف بندی نہیں ، سماجی صف بندی نہیں اسی وجہ سے سیاسی و سماجی بیداری بھی نہیں اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کے جلوسوں میں دوسرے لوگ داخل ہوکر اصل مقاصد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور ماحول خراب کردیتے ہیں اس لئے اب احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاج کے تحفظ کا بھی بندوبست کرنا ہوگا،، یہ بھی دھیان رہے کہ احتجاج تشدد کا رخ اختیار نہ کرے ورنہ اس کا فائدہ بی جے پی کو ہی ملے گا اور ویسے بھی بی جے پی نے بڑی ہی چالاکی سے کام لیا ہے2014 سے 2019 تک وہ بھر پور اکثریت میں تھی تو وقف ترمیمی بل پیش نہیں کیا بلکہ ایسے دور میں پیش کیا ہے جب بی جے پی کو مرکز میں حکومت چلانے کے لئے بیساکھی کی ضرورت ہے اور اسی کے سہارے چل بھی رہی ہے ایک طرف چندرا بابو نائیڈو سر پر ٹوپی اور بدن پر جبہ پہن کر نماز پڑھنے کے لئے صف میں شامل ہوگئے تو دوسری طرف نتیش کمار کاندھے پر رومال ڈال کر سر پر ٹوپی پہن کر افطاری کا اہتمام کیا اور دونوں نے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا اور شائد بی جے پی یہی چاہتی تھی کہ نائیڈو اور نتیش این ڈی اے میں رہتے ہوئے بھی انہیں مسلمانوں کی جو مقبولیت حاصل ہے اس سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے پھر تو خود بخود ان کا سیاسی وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور ان کا سیاسی پر کتر جائے گا پھر یہ ہمیں آنکھیں دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے اور بظاہر بی جے پی اس معاملے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے ،، نائیڈو کی پارٹی سکتے میں ہے مگر نتیش کی پارٹی میں بھونچال نظر آرہاہے اور اسی سے بوکھلا کر نتیش کمار کے وزیر نے بہار کے ایم ایل سی خالد انور کے ذریعے منعقدہ عید ملن پروگرام میں میڈیا سے یہ کہا کہ ہمیں مولانا کی ضرورت نہیں ہے ،، یہ تو صحیح ہے کہ جے ڈی یو کو مولانا کی کیا ضرورت ہے ارے مولانا کی ضرورت تو مسلمانوں کو ہے مگر یہی بات رمضان میں کیوں نہیں کہی گئی کہ ہمیں افطاری کے اہتمام کی ضرورت نہیں ، ہمیں سر پر ٹوپی اور پگڑی اور کاندھے پر رومال ڈالنے کی ضرورت نہیں معلوم یہ ہوا کہ اب نظریہ بدل رہا ہے اصل خمیر آواز دے رہا ہے اور زعفرانی سیاست وقت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور امکان تو یہی ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ،، ایک بات اور قابل ذکر یہ ہے کہ آخر کس بنیاد پر نتیش اور نائڈو سے یہ امید لگائی گئی تھی کہ وقف ترمیمی بل کے معاملے میں یہ حکومت کی حمایت نہیں کریں گے یہ کیوں بھلادیا گیا کہ ساتھ رہنے کے لئے مزاج اور نظریہ کا ملنا ضروری ہے ساتھ مل کر الیکشن لڑے پھر حکومت سازی کی اور کابینہ میں شامل ہوئے ایسا تو کبھی نہیں دیکھا گیا ہے کہ ایک مخالف اپنے دوسرے مخالف کی منگنی میں شامل ہو ، بارات میں شامل ہو اور ولیمہ میں شامل ہو ،، اب سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی وقف سے متعلق نئے قانون کی مخالفت مسلمان کررہاہے ہے تو حمایت بھی مسلمان ہی کررہا ہے بعض مسلم رہنمائے سیاست اور علماء تو اب وہ باتیں بھی کرنے لگے ہیں جو باتیں پارلیمنٹ میں بحث کے دوران برسراقتدار بی جے پی کے بہت سے لیڈران نے کہا ہے کہ وقف کی املاک سے اور اس کی آمدنی سے آخر مسلمانوں کا بھلا کیوں نہیں ہوا؟ مسلمان تعلیم کے میدان میں پیچھے کیوں ہوا؟ ملک کا ہر چوتھا مسلمان بھکاری اور غریب کیوں ہے؟ راقم نے بہت پہلے کہا تھا کہ حالات تبدیل ہورہے ہیں چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ،، مسلمانوں کے ایک طبقے کو بھی اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ورنہ کل کوئی سیاسی لیڈر یا میڈیا رپورٹر و اینکر کی جانب سے یہ بھی سوال ہوسکتا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا صدر اب تک کسی پسماندہ سماج کے عالم دین کو کیوں نہیں بنایاگیا ؟ جمیعۃ علماء ہند دو حصوں میں تقسیم ہونے کے باجود بھی ایک ہی خاندان کے لوگ صدارت کے منصب پر کیوں قابض ہیں ؟ دہلی کی شاہی جامع مسجد کی امامت ایک ہی خاندان میں کیوں ہے ؟ دفعہ 341 پر لگی پابندی کو ہٹانے کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ ، جمیعۃ علماء ہند ، ملی کونسل ، علما مشائخ بورڈ ، مسلم فورم وغیرہ جیسی بڑی بڑی تنظیموں نے مظاہرہ کیوں نہیں کیا ، اس پر لگی مذہبی پابندی کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کیا آخر پابندی ختم کردینے سے پسماندہ و دلت مسلمانوں کا کتنا زبردست فائدہ ہوا ہوتا لیکن نہیں مسلمانوں کے ہی ایک طبقے نے مسلمانوں کو ہی اندھیرے میں رکھا ہے دودھ ملائی خود کھائیں گے اور ہانڈی برتن کی رکھوالی پسماندہ مسلمانوں سے کرائیں گے اور پسماندہ مسلمان بھی کبھی سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے سلگتے ہوئے مسائل پر غور وفکر نہیں کرتا اگر کرے تو خود معلوم ہو جائے گا کہ پانی کہاں مر رہا ہے ،، 1947 سے لے کر اب تک بے شمار ایسے مواقع آئے ہیں جو مسلمانوں و پسماندہ مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہیں ، 60 سالہ کانگریس کا دور اقتدار ، دلتوں اور مسلموں کے حالات ، کانشی رام کی جدوجہد و قربانیاں اور تحریک مسلمانوں و پسماندہ مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہے، دلتوں کا سیاسی طور پر بیدار و متحد ہونا اور کانشی رام کے بعد مایاوتی کو لیڈر ماننا ، ووٹ دینا اور اقتدار تک پہنچانا مسلمانوں و پسماندہ مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہے ، دلت ووٹ بینک کا ٹوٹنا اور بی ایس ایس پی کا اقتدار سے دور ہونا بھی مسلمانوں و پسماندہ مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہے، 1989 کے بعد سے چھوٹے چھوٹے سماج کا سیاسی شناخت قائم کرنا مسلمانوں و پسماندہ مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہے ، 1952 سے 2024 تک ہونے والے سبھی پارلیمانی الیکشن مسلمانوں و پسماندہ مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہیں ، 2024 کے پارلیمانی الیکشن کے اختتام پذیر ہونے کے بعد جیتن رام مانجھی کا مرکزی حکومت ( کابینہ) میں حصہ داری کے لئے قطار میں لگنا پھر حصہ داری ملنا ان کا وزیر بننا مسلمانوں و پسماندہ مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہے ،، ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین کے تحت حاصل شدہ اختیارات کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کریں تو معلوم ہوگا کہ سیاست ہی امراض ملت کی دوا ہے کیونکہ جمہوری ملک میں جس سماج کے اندر سیاست نہیں تو اس سماج کی کوئی حیثیت نہیں ،، آج وقف قانون مسلہ ہے کل کوئی اور مسلہ پیش آسکتا ہے اس لئے احتجاج بھی کریں تو ہوش وحواس کے ساتھ ورنہ وہ بھی ہوسکتا ہے جو بی جے پی کے کچھ لیڈران چاہتے ہیں ۔
++++++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
Comments are closed.