آر ایس ایس: پچھتانا یوں ہی سا ہے جو ہونا تھا ہو چکا

ڈاکٹر سلیم خان
کنال کامرا کی طرح راجیو نگم بھی ایک معروف کامیڈین ہے۔ انہوں نے چار ہفتہ قبل ایک ویڈیو بنائی’اورنگ زیب کا رائتہ‘ اس کے ایک ہفتہ بعد ’قبر اور صبر‘ بنائی اور ایک دن پہلے کی ویڈیو ہے’یار یہ اورنگ زیب کہاں کھوگیا؟‘ان تین سرخیوں کی مدد سے اورنگ زیب عالمگیر سے متعلق آر ایس ایس کے دلچسپ اور حیرت انگیز رویہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔پہلے تو سنگھ پریوار نے اس معاملے اتنااچھالا کہ ناگپور میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے اس تیر سے کئی شکار کھیلنے کی کوشش کی مگر سارے نشانے خطا ہوگئے اوروہ وقت بھی آیا کہ جب خود آر ایس ایس نے ان کے ہاتھوں سے سارے ترکش چھین کر کوڑے دان میں ڈال دئیے۔ اس تنازع کے دوران بنگلورو میں آر ایس ایس کی قومی مجلس نمائندگان کے اجلاس سے ویویندر فڈنویس کوجو توقعات وابستہ تھیں ان پر اوس پڑگئی۔ آر ایس ایس کے معمر رہنما سریش ’بھیا جی‘ جوشی نے دورانِ اجلاس اورنگ زیب کے مقبرے سے متعلق دو ٹوک انداز میں جواب دے دیا کہ بے وجہ یہ مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔
بھیاجی کے اس مختصر سے فقرے نے دیویندر فڈنویس کے وزیر اعظم بننے کا سپنا چکنا چور کردیا کیونکہ امیت شاہ اور یوگی ادیتیہ ناتھ اسی طرح کی شتعال انگیزی سے اپنی سیاست چمکا کر مودی کی ولیعہدی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ آر ایس ایس نے اورنگ زیب کو غیر ضروری قرار دے کر فڈنویس کو بے یارو مددگار کردیا کیونکہ ناگپور میں رہ کر سنگھ کو آنکھیں دکھانا کم از کم بی جے پی وزیر اعلیٰ کے بس کی بات نہیں ہے۔بھیا جی جوشی نے نہایت سادگی سے کہا چونکہ اورنگ زیب کاانتقال یہاں ہوا اس لیے قبر بھی یہیں ہے اورجن کو عقیدت ہے وہ اس مقبرے پر جائیں گے۔ انہوں نے شیواجی کی مثال دےکر کہا کہ وہ ہمارے آئیڈیل ہیں اور انہوں نے افضل خان کا مقبرہ بنوایا تھا۔ یہ ہندوستان کی کشادہ دلی اور جامعیت کی علامت ہے۔وہ بولے اورنگ زیب کی قبر رہے اور جس کو وہاں جانا ہے وہ جائے( اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا) ۔اس بیان نےوشوہندو پریشد اور بجرنگ دل کے منہ پر ایسا کرارہ طمانچہ مارا کہ عقل ٹھکانے آگئی اور قبر کو اکھاڑنے والے اپنی سمادھی میں دبک کر بیٹھ گئے ۔
مہاراشٹر کی سیاست میں راج ٹھاکرے ہندوتوا کی بلند آواز ہے۔ انہوں نے چھاوا دیکھ کر جاگنے والے ہندووں کی سنبھاجی مہاراج کی قربانی سےنا واقفیت کو شرمناک بتایااور مشورہ دیا کہ تاریخ جاننے کے لیے وہاٹس ایپ (یونیورسٹی پر انحصار کرنے) کے بجائے کتابیں پڑھنا چاہیے ۔ چھاوا نامی فلم کسی تاریخی دستاویز پر نہیں بلکہ ایک ناول پر مبنی ہے۔ اس فلم کے اندر روپیہ کمانے کی خاطر دنیا بھر کی مبالغہ آرائی ہے۔ راج ٹھاکرے نے بھی افضل خان کے مقبرے کا ذکر کرکے کہا کہ وہ تعمیر شیواجی کی مرضی کےبغیر ناممکن تھی ۔ این ڈی اے کے اتحادی مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے تک اورنگ زیب عالمگیر کی قبر کے نام پر سیاست کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا، ‘اورنگ زیب کا انتقال 1707 میں ہو گیا تھا، تواس کی قبر کو ابھی کیوں ہٹایا جائے؟
اٹھاولے نےپوچھا ’گزشتہ 300 سالوں میں قبر کو ہٹانے کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ اورنگ زیب کی قبر کو ہٹانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگااس لیے اسے نہیں ہٹایا جاناچاہیے۔‘ نیز مشورہ دیا کہ مسلمانوں کواز خود کو اس قبر سے دور رہنا چاہیے اور ہندوؤں کو اسے ہٹانے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس قبر کی حفاظت اے ایس آئی کے ذمے ہے۔مرکزی وزیر کے مطابق ہندوؤں اور مسلمانوں کی لڑائی ملک کے لیے اچھی نہیں ہے، سب کو ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔رام داس اٹھاولے مہا ارشٹر کے نتیش کمار ہیں یعنی وہ ہمیشہ اہل اقتدار کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس لیے انہیں اس حقیقت کا علم ضرور ہی ہوگا کہ اورنگ زیب عالمگیر کا تنازع اپنی ذاتی سیاسی ترقی کے لیے ہی تو اٹھایا جارہا ہے۔ کوئی اس کے ذریعہ اپنا قد بڑھاکر سرکار دربار میں جگہ بنانا چاہتا ہے اور کوئی تو وزیر اعظم بن جانا چاہتا ہے۔ خیراورنگ زیب عالمگیر کے حوالے سے یہ سمجھداری کی باتیں اگر ناگپور فساد سے پہلے ہوتیں تو اس سانحہ کو ٹالا جاسکتا تھا ۔
ابن الوقتی کے لیے بدنام راج یا اٹھاولے سے قطع نظر آر ایس ایس کی دانشمندی اور اس میں غیر معمولی تاخیر کا جائزہ لیا جانا چاہیے ۔ابتداء میں سنگھ کو اندازہ نہیں تھا کہ ’بات نکلے گی تو (کتنی) دور تلک جائے گی‘؟اس خطرے کو اگرقبل از وقت بھانپ لیاجاتا تو شروع میں ہی وزیر اعلیٰ کو منع کرکے رسوائی سے بچا جاسکتا تھامگر فلم چھاوا کی نفرت انگیزی سے سنگھ پریوار کی باچھیں کھل گئی تھیں ۔اس میں پہلی رکاوٹ اس وقت آئی جب سمبھاجی پر ساورکر اور گولوالکر کے تحریریں سوشیل میڈیا میں آنی شروع ہوئیں۔ ان لوگوں نے سمبھا جی کو نہ صرف نااہل حکمراں بلکہ شراب اور عورت کا رسیا تک لکھ چھوڑا ہے ۔ اس طرح گویا اورنگ زیب عالمگیر کے معاملے میں ’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘۔ آر ایس ایس کے لیے یہ دھرم سنکٹ تھا کہ وہ ان دو دانشوروں کی تردید یا تصدیق نہیں کرسکتے، اس لیے آخر کریں تو کیا کریں؟
تاریخی حقائق کی کھوج بین شروع ہوئی تو پتہ چلا کر شیواجی کے پوتے شاہو جی نے خود اورنگ زیب کی قبر پاکر جاکر خراجِ عقیدت پیش کیا تھا ۔ آگےچل کر انکشاف ہوا کہ سمبھاجی نے اورنگ زیب کا ساتھ مل کر اپنے والد شیواجی سے بغاوت کی تھی اور قید ہوئے۔ انہوں نے اپنے سوتیلے بھائی راجہ رام کے دعویٰ کو کمزور کرنے کی خاطر سوتیلی ماں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ۔ اس طرح منظر بدل رہا تھا تو پتہ چلا اورنگ زیب تو انہیں چھوڑ دینا چاہتے تھے مگر برہمنوں نے منو سمرتی کے مطابق سزا دینے پر اصرار کردیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمگیر نے ایسی سخت سزا کسی اور حریف کو نہیں دی اور اس کے پیچھے ان کی اسلام پسندی نہیں تھی کیونکہ دین اس کی اجازت نہیں ہے بلکہ سمبھاجی سے نفرت کرنے والے برہمنوں کی سازش تھی جو شیوشاہی ختم کر کے بعد پیشوائی قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان حقائق نے سب کچھ بدل دیا اورسنگھ پریوار پر یہ شعر صادق آگیا؎
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
’چھاوا‘ فلم کے تنازع میں سمبھاجی مہاراج کی گرفتاری کے حوالے سے دکھائے جانے والے شرکے خاندان کے کردار نے تو پوری بازی ہی الٹ دی ؟ اس پر سب سے پہلے تو اس کنبے کے لوگوں نے اعتراض کرکے ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کی دھمکی دے دی۔ فلمساز نے فوراً معافی مانگ کر ازخود حقیقت بیانی دعویٰ پنچر کردیا لیکن بات وہیں نہیں رکی ۔ ان حقائق پر نہایت دلیرانہ انداز میں تاریخی حقائق بیان کرنے والے مراٹھی مورخ اندرجیت ساونت کی حقیقت بیانی بالآخر سنگھی برہمنوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئی اور اسی طرح کے موقع پر لوگ ایسی غلطی کرجاتے ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے’لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘۔ ناگپور کے ایک برہمن صحافی پرشانت کورٹکر نے وزیر اعلیٰ سے قربت کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکر اپنے پیروں پر ایسی کلہاڑی چلائی کہ فڈنویس کا بھی سر پھوٹ گیا۔
پرشانت کورٹکر نے فون کرکے اندرجیت ساونت کو نہ صرف خبردار کیا کہ فی الحال مہاراشٹر میں برہمنوں کی فڈنویس کی حکومت ہے بلکہ انہیں وہ اپنے حدود میں رہنے کی دھمکی بھی دے ڈالی ۔ اس احمق نے جوش بیان میں شیواجی مہاراج سمیت ان زوجہ کے بارے میں بھی توہین آمیز الفاظ استعمال کردیئے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گیاکہ فون ٹیپ بھی ہوسکتا ہے۔ بس پھر کیا تھا اندرجیت ساونت نے جب وہ ٹیپ میڈیا والوں کے حوالے کی تو کورٹکر کی خاکی نیکر ڈھیلی ہوگئی۔ اس نے پہلے تو ٹیپ کو بگاڑنے کا الزام لگایا اورپھر شیواجی کی تعریف میں ایک ویڈیو بھی جاری کرکے صفائی پیش کی لیکن یہ نوٹنکی بیکار ثابت ہوگئی الٹا اس دوران اسے ملنے والے سرکاری تحفظ نے وزیر اعلیٰ کے لیے مشکلات میں اضافہ کردیا۔ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی اسے گرفتار کرنے کے بجائے فرار ہونے کا موقع دینا دیویندر فڈنویس کا ناقابلِ معافی جرم تھا جس کی انہیں سزا مل رہی ہے۔
ناگپور فساد کے ذریعہ اس غلطی کی جانب سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی جب ناکام ہوگئی تو اسے بادلِ نخواستہ گرفتار کرنا ہی پڑا ۔ ایک ماہ کے بعد اس کو تلنگانہ میں گرفتار کیا گیا تو وہ رولس رائس گاڑی میں تھا ۔ اس سے پتہ چلا کہ وہ صحافی نہیں بلکہ اقتدار کادلال ہے اور گوہاٹی میں لین دین کے وقت موجود تھا ۔ کورٹکر کو گرفتار کرکے کولہاپور لایا گیا تو سیکڑوں لوگ اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر موجود تھے ۔ وہ چپلوں سے اس کا استقبال کرنے کے خواہشمند تھے ۔ اس کو عدالت کے اندر ایک وکیل نے زدو کوب کیا اور ریاست کا وزیر اعلیٰ نہ تو اپنے دوست کو بچا سکا اور نہ اس کے حملہ آور پر کوئی کارروائی کرسکا ۔ اس صورتحال نے سنگھ کی عقل ٹھکانے لگا دی اور اس نے معاملے کو رفع دفع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ کاش کے سنگھ کے لوگ اس قدرکوتاہ اندیش نہ ہوتے کہ ایک ماہ کے اندر رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کو بھی بھانپ نہیں پاتے ۔ وہ اگر بروقت اپنے خیمے کے وزیر اعلیٰ پر لگام لگا دیتے اس رسوائی سے بچا جاسکتا تھا لیکن انہیں یہ توفیق نہیں ہوئی ۔ اس لیے اب امن و یکجہتی کایہ پروچن بے معنیٰ ہو گیا ہے ۔ ان پر مضطر خیرآبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
پوچھا ستا کے رنج کیوں بولے کہ پچھتانا پڑا
پوچھا کہ رسوا کون ہے بولے دل آزاری مری
Comments are closed.