غذائی قلت، غزہ میں حاملہ اور دودھ پلانے والی ہزاروں خواتین موت کے دھانےپر

بصیرت نیوزڈیسک
غزہ میں ایکشن ایڈ انٹرنیشنل نے امداد کے داخلے پر جاری مکمل پابندی اور باقی خوراک کی فراہمی کی کمی کے درمیان حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں میں شدید غذائی قلت کے واقعات میں تیزی سے اضافے سے خبردار کیا ہے۔
فاؤنڈیشن نے بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں وضاحت کی کہ قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے تمام گزرگاہوں کو بند کرنے اور امداد کے داخلے کو روکنے کے بعد سے 45 دنوں سے زائد عرصے سے کوئی خوراک، صاف پانی، ادویات یا دیگر ضروری سامان غزہ میں داخل نہیں ہوا، جو کہ اجتماعی سزا اور آبادی کو بھوک سے مارنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ خوراک کی شدید قلت کی وجہ سے لوگ بھوک اور تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت ابتر صورت حال کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے بیکریاں اور کمیونٹی کچن بند ہو گئے ہیں اور مارکیٹیں زیادہ تر سامان سے خالی ہیں۔
انہوں نے وسطی غزہ کے النصیرات میں العودہ کمیونٹی ہسپتال اور فاؤنڈیشن کے معالجاتی غذائیت کے شعبے کے سربراہ ماہر اطفال ڈاکٹر وصال ابو لبان کے حوالے سے بتایا کہ "حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین پر گہرے اور تباہ کن اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں”۔
انہوں نے مزید کہاکہ "ہم نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا ہے جن میں سے بڑی تعداد شدید غذائی قلت سے دوچار ہے اور کچھ خواتین درمیانے درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ سب پچھلے مہینے کی ناکہ بندی اور کراسنگ کی بندش کا نتیجہ ہے۔ یہ خوراک یا غذائی سپلیمنٹس کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی اور آئرن کی کمی کا شکار ہیں، جس کا حمل پر منفی اثر پڑتا ہے”۔
ابو لبان نے نشاندہی کی کہ زیادہ تر بچے معمول سے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کیسز جو ہم اب دیکھتے ہیں ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کا وزن 2.5 کلو گرام سے کم ہوتا ہے”۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خوراک کی فراہمی پر عائد پابندیو ں کا حاملہ ماؤں کی غذائیت کے درمیان براہ راست تعلق ہے، جو حمل کے دوران خون کی کمی کی وجہ سے اسقاط حمل اور خون بہنے جیسے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔
نیوٹریشن کلسٹر کی جانب سے کیے گئے ایک حالیہ سروے سے پتا چلا ہے کہ 10 فی صد سے 20 فی صد کے درمیان حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں، جب کہ غزہ میں حاملہ خواتین کا ایک تہائی جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 55,000 ہے کو ہائی رسک حمل کا سامنا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ میں ہر روز تقریباً 130 بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن ضروری طبی سامان جیسے کہ ڈیلیوری کے لیے بے ہوشی، درد کش ادویات، اینٹی بائیوٹکس اور پیچیدہ کیسز کے لیے درکار خون کے یونٹ ختم ہو رہے ہیں۔
چھوٹے بچوں میں غذائی قلت کے کیسز بھی بڑھ رہے ہیں۔ غزہ میں طبی ذرائع کا اندازہ ہے کہ تقریباً 60,000 بچوں کو غذائی قلت کی وجہ سے صحت کی سنگین پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
اس وقت طبی دیکھ بھال تک رسائی مشکل ہو گئی ہے، کیونکہ یونیسیف کو اسرائیلی گولہ باری یا جبری انخلا کے احکامات کی وجہ سے اپنے 21 غذائی مراکز بند کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، جس سے سینکڑوں بچے علاج کی سہولت سے محروم رہ گئے تھے۔
مکمل امریکی حمایت کے ساتھ قابض فاشسٹ ریاست غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے نسل کشی کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں 167,000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں اور 11,000 سے زیادہ لاپتہ ہیں۔
Comments are closed.