چیف جسٹسس آف انڈیا کا تبصرہ قابل تعریف پھر بھی عوام کو چوکنا اور بیدار رہنے کی ضرورت : امیر شریعت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی

چیف جسٹس آف انڈیا کے حکومتی وکیل سے کئے گئے سوالات اور عبوری احکام پر حضرت امیر شریعت کی جانب سے خیرمقدمی کلمات
پٹنہ(پریس ریلیز)
آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں وقف ترمیمی قانون پر جاری سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا جناب سنجیو کھنہ سمیت تین رکنی بینچ کی جانب سے جو اہم تبصرے سامنے آئے، ان پر امیر شریعت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب دامت برکاتہم،نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ مایوسی کے اس ماحول میں چیف جسٹس کے حکومتی وکیل (سالیسٹر جنرل) سے کئے گئے سوالات اور عبوری احکامات امید افزا ہیں۔
حضرت امیر شریعت نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے وقف کی حیثیت، خاص طور پر وقف بائی یوزر جیسے اہم مسئلے پر جو تنصرے کئے ہیں، وہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں اور یہ عوامی اعتماد بحال کرنے کے تئیں ایک اچھا قدم ہے۔ حضرت نے کہا کہ عدالت کی یہ بات کہ وقف املاک کو محض اس بنیاد پر ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ رجسٹرڈ نہیں ہیں، ایک انتہائی اہم نکتہ ہے جس پر ملک بھر میں امت کو تشویش تھی۔
حضرت امیر شریعت نے مزید کہا کہ “سپریم کورٹ نے وقف کے استحقاق، عدالت کے فیصلوں کی حرمت اور عوامی مذہبی جذبات کا جو لحاظ کیا ہے، وہ قابلِ تحسین ہے۔ تاہم یہ بھی تاریخ کا تلخ حصہ ہے کہ بعض اوقات عدالتوں کی جانب سے مثبت تبصروں کے باوجود فیصلے منفی اور مسلم مخالف آ چکے ہیں۔“
لہٰذا حضرت امیر شریعت نے ملک بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان لمحات میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں اور وقف کے تحفظ کی اس تحریک میں پوری تن دہی کے ساتھ شامل رہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ “وقف صرف املاک کا نام نہیں بلکہ ہماری تاریخ، ثقافت اور مذہبی شناخت کا نام ہے۔ اسے بچانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔“
اخیر میں حضرت نے کہا کہ جو عبوری تجاویز عدالت کی جانب سے رکھی گئی ہیں، وہ اطمینان بخش ہیں، انہوں نے امید ظاہر کی کہ عدالت عظمیٰ اپنے حتمی فیصلے میں بھی انصاف، آئین اور عوامی اعتماد کو مقدم رکھے گی۔
حضرت امیرشریعت نے کہاکہ امارت شرعیہ بھی اس کیس میں فریق ہے،اور سپریم کورٹ میں امارت نے بھی پٹیشن داخل کی ہے،اس کیس کی مزید سماعت کل ہو گی،انھوں نے امید ظاہر کہ عدالت عظمی مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرے گی تاکہ عدالتوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔
Comments are closed.