Baseerat Online News Portal

”سپریم کورٹ میں وقف قانون پر سماعت: نہ جیت کا لمحہ، نہ جشن کی گھڑی — ابھی تو لڑائی باقی ہے”

 

ایڈووکیٹ اسامہ ندوی

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف دائر متعدّد مفاد عامہ کی عرضیوں پر 17 اپریل 2025 کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی، جو اس قانونی عمل کا ایک اہم مرحلہ ہے۔ اس سماعت میں کسی بھی فریق کو کامیاب یا ناکام قرار نہیں دیا گیا بلکہ عدالت نے سماعت کے دوران مرکزی حکومت کے نمائندے، معزز سالیسٹر جنرل آف انڈیا جناب تشار مہتا کے زبانی بیان کو ریکارڈ پر لے لیا، جو بظاہر ایک عبوری ریلیف کے زمرے میں آتا ہے۔

عدالت میں مرکزی حکومت کی یقین دہانیاں

سماعت کے دوران، سالیسٹر جنرل نے عدالت کو مطلع کیا کہ جواب دہندگان یعنی مرکزی و ریاستی حکومتیں، سات دن کے اندر اس معاملے میں تحریری جواب داخل کرنا چاہتی ہیں۔ عدالت نے اس استدعا کو منظور کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک درج ذیل امور پر زبانی یقین دہانی کو ریکارڈ پر لیا:۔

اسی کے ساتھ، جناب مہتا نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ سماعت تک مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز کے لیے کوئی تقرری عمل میں نہیں لائی جائے گی، جیسا کہ "یونائیفائیڈ وقف مینجمنٹ، ایمپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995” (جو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے ذریعے ترمیم شدہ ہے) کی دفعات 9 اور 14 میں درج ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی تقرری کی جاتی ہے تو اُسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی بیان کیا گیا کہ آئندہ تاریخِ سماعت تک کسی وقف، بشمول "وقف بائی یوزر” (یعنی ایسا وقف جو عوام کے مسلسل استعمال سے قائم ہوا ہو)، کو نہ تو ڈی نوٹیفائی کیا جائے گا اور نہ ہی اس کی حیثیت یا نوعیت میں کوئی تبدیلی کی جائے گی۔

معزز عدالت نے ان بیانات کو باقاعدہ طور پر ریکارڈ کا حصہ بنا لیا ہے، جو قانونی اعتبار سے ایک اہم بات ہے، لیکن یہ بھی واضح ہے کہ یہ صرف ایک عبوری مرحلہ ہے، کوئی مستقل حکم نہیں۔

*دفعہ 9: مرکزی وقف کونسل کی تشکیل میں تبدیلی*

*پرانا قانون (اصل دفعہ 9):*

وقف ایکٹ 1995 کے تحت مرکزی وقف کونسل کی تشکیل میں صرف مسلم اراکین شامل کیے جاتے تھے، تاکہ وقف کے مذہبی، قانونی اور انتظامی امور مسلمانوں کی نمائندگی میں ہی طے پائیں۔

*ترمیمی دفعہ (2025):*

ترمیمی قانون کے مطابق، اب مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت کی گنجائش دی گئی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس سے شفافیت، تنوع اور کارکردگی میں بہتری آئے گی۔

 

*دفعہ 14: ریاستی وقف بورڈز کی تشکیل میں ترمیم*

*پرانا قانون (اصل دفعہ 14):*

ریاستی وقف بورڈز میں صرف مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی تھی، اور ان کی تشکیل مختلف مسلم طبقات، علماء، ماہرینِ قانون اور ماہرینِ مالیات کے درمیان توازن سے کی جاتی تھی۔

*ترمیمی دفعہ (2025):*

نئی ترمیمات کے مطابق:

دو غیر مسلم اراکین کو ریاستی وقف بورڈ میں شامل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

بورڈ میں زیادہ سے زیادہ دو خواتین رکھی جا سکتی ہیں (جبکہ پرانے قانون میں کم از کم دو خواتین تھیں)۔

*یہ تمام تبدیلیاں آئین ہند کے آرٹیکل 26 (b) (حق برائے اقلیتی مذہبی اداروں کی خودمختاری) سے متصادم سمجھی جا سکتی ہیں۔*

ایسے نازک حالات میں، جہاں ملت کے دینی و سماجی ادارے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، ضروری ہے کہ جذبات سے زیادہ بصیرت سے کام لیا جائے۔ اس وقت یہ نہ کوئی فتح ہے، نہ جشن کا موقع، بلکہ ایک فکر اور تیاری کا لمحہ ہے۔ یہ مرحلہ ہم سے سنجیدگی، اتحاد، مضبوط قانونی تیاری، اور مسلسل جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم عدالتی عمل پر اعتماد کرتے ہوئے قانونی دائرے میں رہ کر اپنی لڑائی کو مستقل فیصلے تک مؤثر انداز میں جاری رکھیں۔ بظاہر حاصل ہونے والی وقتی مہلت کو حتمی کامیابی نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے ایک ذمہ دارانہ عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع تصور کیا جائے۔

ملت کے تمام طبقات، خاص طور پر دینی قیادت، وکلا، ماہرین قانون اور ملی ادارے، اس بات کو سمجھیں کہ یہ ایک طویل قانونی و آئینی سفر ہے جس میں فتح صرف انہی کو نصیب ہوتی ہے جو صبر، حکمت اور دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔

Comments are closed.