Baseerat Online News Portal

وقف قانون مکمل رد ہونے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی، پُرہجوم پریس کانفرنس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اعلی عہدیداران کا اعلان

 

ممبئی ۱۸ اپریل(نمائندہ خصوصی)

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام حالیہ وقف قانون کی مخالف میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس مراٹھی پترکار سنگھ میں منعقد ہوئی، جس میں بورڈ کے اعلی عہدیداران تمام مکاتب فکر کے علماء اور غیر مسلم دانشوران نے خطاب کیا ـ

خطاب کرنے والوں میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، نائب صدر مولانا عبیداللہ اعظمی، نائب صدر سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے قومی ترجمان سید الیاس قاسم رسول، بورڈ کے مہاراشٹر کنوینئر مولانا محمود احمد خاں دریابادی، پروفیسر مونسہ بشری عابدی، شیعہ عالم دین مولانا روح ظفر، مولانا عبدالسلام سلفی، شیام کواڑے، وویک کوڑے تھے ـ

مقررین نے 17 اپریل کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی وقف ایکٹ کی 44 ترمیمات میں سے صرف دو پر عدالت عالیہ نے عارضی روک لگائی ہے، جب تک یہ قانون مکمل واپس نہیں ہوجاتا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت میں ہماری جدوجہد جاری رہے گی ـ

بنگال تشدد کے متعلق سوال پر بورڈ کے ترجمان نے ہر قسم کے تشدد سے اظہار بیداری کرتے ہوئے کہا کہ مساجد وغیرہ کے سامنے جو تلواریں لہرا کر اشتعال انگیزی اور پتھراو کیا جاتا ہے اُس تشدد کی بھی مذمت کی جانی چاہیئے ـ

مقررین نے یہ بھی کہا کہ حکمران پارٹی نے اپنی عددی طاقت کی بنیاد پر کروڑوں مسلمانوں، اقلیتوں اور ملک کے انصاف پسندعوام کی مرضی کے خلاف وقف قانوں میں جو من مانی، امتیاز پر مبنی اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے دستوری و بنیادی حقوق پرتیشہ چلاکر جو ترمیمات منظور کی ہیں، ہم اسے کلیتاً مسترد کرتے ہیں۔
ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ ترامیم نہ صرف آئین ہند کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ہیں بلکہ وقف کے انتظام و انصرام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے حکومت کے ارادے و ناپاک عزائم کو واضح کرتے ہیں، اس طرح ان ترمیمات کے ذریعہ ملک کی مسلم اقلیت کو ان کے اپنے مذہبی اوقاف کے آزادانہ انتظام و انصرام سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ہندوستانی آئین کی دفعات 25 اور 26 ضمیر کی آزادی کے علاوہ مذہب پر عمل کرنے، تبلیغ کرنے کے حق اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے اداروں کے قیام اور انتظام کے حق کو یقینی بناتی ہیں۔ نیا نافذ کردہ قانون مسلمانوں کو ان بنیادی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ارکان کے انتخاب سے متعلق ترامیم اس کا واضح ثبوت ہیں۔ مزید برآں واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان ہونے کی شرط، ہندوستانی قانونی فریم ورک اور آئین کی دفعات 14 اور 26 کے خلاف اور اسلامی شرعی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
یہ ترمیمات امتیازی و تفریق پر مبنی ہیں لہذا آئین کے دفعہ 14 سے بھی راست متصادم ہیں۔ دیگر مذہبی اکائیوں یعنی ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور بودھ کے اوقاف کو جو حقوق و تحفظات حاصل ہیں، مذکورہ ترمیمات کے ذریعہ مسلمانوں کو ان سے محروم کردیا گیا ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ، متعدد دینی و ملی جماعتوں اور مسلم دانشوروں نے پارلیمینٹ کی جانب سے قائم کردہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر ان ترمیمات کے خلاف زبانی و تحریری نمائندگی کی تھی، اس کے علاوہ ملک کے 5 کروڑ مسلمانوں نے بھی جے پی سی چیئرمیں کو ای میل بھیج کر انہیں کلیاً مسترد کیا تھا ۔ لیکن پارلیمانی اور جمہوری تقاضون کے علی الرغم انہیں مسترد کردیا گیا۔ اب آخری چارہ کار کے طور پر جہان ایک طرف ہم نے قانونی راستہ اختیار کرکے اسے عدالت عظمی میں چیلنج کیا ہے، وہیں اب ہم عوام کی عدالت میں بھی جارہے ہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلے میں جو تفصیلی ہدایات دی ہیں اور 3 ماہ کی پرامن جدوجہد کا جو تفصیلی خاکہ پیش کیا ہے، ان شاءاللہ اسے پوری طاقت اور ایمانداری کے ساتھ بروئے کار لایا جائے گا۔ آج ہماری ریاستی کمیٹی نے غور و فکر کرکے ریاست گیر سطح کا ایک پروگرام ترتیب دیا ہے۔ ہمارے ساتھ ریاست کی تمام اقلیتی و مذہبی اکائیاں، تمام مذہبیو سیاسی شخصیات اور سول سوسائٹی کے اہم افراد بھی ہوں گے۔ یہ پورا پروگرام پر امن، دستور و قانون کے دائرے رہے گا۔
اس موقع پر بورڈ کے دیگر اراکین حافظ اقبال چوناوالا اور فرید شیخ بھی موجود تھے.

Comments are closed.