Baseerat Online News Portal

بوہرہ وفد، مودی ملاقات! وقف بل کی حمایت— فتنہ، غداری یا فہم؟

 

مسعود محبوب خان (ممبئی)

 

یہ خبر اپنے اندر غیر معمولی حساسیت اور دور رس اثرات لیے ہوئے ہے—ایک ایسی گھڑی میں جب وقف قانون میں کی گئی ترمیمات کے خلاف پورے ملک میں احتجاج، قانونی جنگ اور فکری مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر طرف سوالات اٹھ رہے ہیں، تحفّظات ظاہر کیے جا رہے ہیں، اور ملتِ اسلامیہ کے دل میں ایک اضطراب سا بسا ہوا ہے کہ کہیں ان کے مذہبی تشخص، دینی اداروں اور تاریخی ورثے پر کوئی کاری ضرب نہ لگے۔ ایسے نازک اور پُرآشوب وقت میں داؤدی بوہرہ وفد کی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات اور ان کے متنازع قدم کی کھلی حمایت نے مسلم حلقوں میں گہرے تاثر اور فکری اضطراب کو جنم دیا ہے۔ یہ محض ایک ملاقات یا رسمی اظہارِ تشکر نہیں بلکہ ایک فکری و نظریاتی پیغام ہے، جس نے ملت کے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑ دیا ہے اور دلوں میں یہ سوالات ابھرنے لگے ہیں کہ آیا یہ اقدام مذہبی شعور کی نمائندگی ہے یا محض سیاسی حکمت عملی کا حصّہ؟

 

جب قوم کے ہر ذی شعور فرد کی زبان پر سوال ہو، جب ہر طبقۂ فکر سے وابستہ افراد ایک متفقہ موقف پر مجتمع ہوں، تو ایسے میں کسی ایک گروہ کی طرف سے حکومتی اقدام کی تائید ایک نئی بحث کا آغاز بن جاتی ہے—ایسی بحث جو ملت کی وحدت، ترجیحات اور اندرونی ہم آہنگی سے متعلق کئی پرتیں کھولتی ہے۔ یہ وقت جذبات میں بہنے کا نہیں، بلکہ ہوش مندی، بصیرت اور اتحاد کے ساتھ ان رویّوں کو سمجھنے اور ان کے اثرات کو پرکھنے کا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ایک "شکریہ” کسی پوری قوم کے زخموں پر نمک بن کر گرتا ہے۔

 

وقف، اسلامی تہذیب و تمدّن کا درخشندہ ادارہ

 

وقف، اسلامی تہذیب کا وہ تابندہ چراغ ہے جو صدیوں تک نہ صرف علم و عرفان کی محفلوں کو روشن کرتا رہا بلکہ عبادت گاہوں، مدارس، مسافر خانوں، یتیم خانوں اور شفا خانوں کے ذریعے ایک بھرپور تمدّنی زندگی کو جِلا بخشتا رہا۔ یہ ادارہ محض جائیدادوں کا ایک نظم و نسق نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے باطن میں رچے بسے اس روحانی شعور کا ترجمان ہے جو ایثار، قربانی، خیرخواہی اور اجتماعی فلاح کے سنہرے اصولوں پر استوار ہے۔ وقف وہ آئینہ ہے جس میں امت کی تہذیبی عظمت، فکری بلندی اور دینی حمیت کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ یہ امت کے اس اجتماعی ضمیر کی علامت ہے جو وقت کی دھوپ چھاؤں میں اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے نسل در نسل خیر کے چشمے بہاتا رہا ہے۔

 

لیکن افسوس کہ آج یہی درخشندہ ادارہ ایک کٹھن دور سے گزر رہا ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے حالیہ وقف قانون میں کی گئی ترمیمات نے اس مقدس نظام کی روح کو مجروح کر دیا ہے۔ ان ترامیم کو محض قانونی تبدیلی نہیں بلکہ ایک گہری فکری اور تہذیبی مداخلت تصور کیا جا رہا ہے، جسے نہ صرف علماء کرام، بلکہ شرعی ادارے اور دینی حلقے بھی شدید اضطراب و تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اقدام، وقف کے اس خودمختار، مذہبی اور فلاحی کردار پر ایک غیر فطری اور غیر آئینی پہرہ بٹھانے کی کوشش ہے، جو نہ صرف مذہبی آزادی کے بنیادی اصول سے متصادم ہے بلکہ آئینی وعدوں کی روح سے بھی انحراف ہے۔

 

ملک بھر میں جب اس قانون کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں، قانونی جنگیں لڑی جا رہی ہیں، ملت سراپا سوال بنی ہوئی ہے کہ کیا ریاست اقلیتوں کے مذہبی تشخص اور آئینی حقوق کی حفاظت میں مخلص ہے؟—ایسے نازک ماحول میں 17؍ اپریل 2025ء کو داؤدی بوہرہ جماعت کے ایک وفد کی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات اور متنازع ترمیم شدہ وقف قانون پر شکریہ ادا کرنا، ملت کے دل پر ایک گہرا چرکا بن کر ابھرا ہے۔

 

یہ ملاقات محض ایک وفد کی حکومتی رہنما سے ملاقات نہیں بلکہ اس کا وقت، سیاق و سباق اور پیغام، سب کچھ ایک نہایت حساس اور نازک اشارہ لیے ہوئے ہے۔ اس ملاقات نے ان شبہات کو جنم دیا ہے کہ آیا حکومت اقلیتوں کے اندرونی اختلافات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے؟ کیا ملت اسلامیہ کی صفوں میں وہ وحدت باقی رہی ہے جو ایسے مواقع پر سینہ سپر ہو کر اپنے مشترکہ تہذیبی ورثے کی حفاظت کر سکے؟ یہ منظرنامہ محض سیاسی نہیں بلکہ تہذیبی اور فکری بھی ہے، کیونکہ جب ملت کے اجتماعی ادارے پر حملہ ہو اور اہل علم و دانش، عدالتوں کے در پر دستک دے رہے ہوں، تب کسی ایک گروہ کا اس قانون پر شکر بجا لانا، اتحادِ ملت کے لیے زہرِ قاتل سے کم نہیں۔

 

آج امت مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ ان داخلی تقسیمات سے اوپر اٹھ کر اپنے مشترکہ ورثے، اپنے اداروں اور اپنے شعور کی حفاظت کرے۔ یہ وقت ہے بیداری کا، حکمت کا، اور فکری مزاحمت کا۔ کیونکہ اگر وقف جیسے ادارے کی خودمختاری پر سمجھوتہ کیا گیا، تو یہ صرف ایک قانونی ترمیم نہ ہوگی بلکہ امت کی تہذیبی بنیادوں پر ایک ایسا زلزلہ ہو گا جس کی لرزشیں آنے والی نسلوں تک محسوس کی جائیں گی۔

 

اجتماعی مسلم موقف سے انحراف: بوہرہ وفد کی غیر متوقع روش

 

کبھی کبھی ایک قدم، ایک بیان، یا ایک ملاقات صرف ظاہری عمل نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسی معنوی کائنات کا آئینہ دار ہوتا ہے جو کسی پوری قوم کے شعور، احساس، وحدت اور درد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ داؤدی بوہرہ جماعت کی جانب سے ترمیم شدہ وقف قانون کی صریح حمایت بھی ایسا ہی ایک قدم ہے، جو محض ایک فرقے کی رائے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ اسے ملت اسلامیہ کے اجتماعی شعور سے صریح انحراف اور وحدتِ ملت کی دیوار میں دراڑ کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔

 

جب ایک قوم کی روح زخمی ہو، اس کے علما منبر و محراب سے فریاد بلند کر رہے ہوں، اس کے دانشور قلم کی نوک سے احتجاج رقم کر رہے ہوں، اس کے تعلیمی ادارے فکری محاذ پر صف آرا ہوں، اور اس کے قانونی ماہرین عدالتوں میں اس قانون کی چیرہ دستیوں کو چیلنج کر رہے ہوں—ایسے میں کسی ایک گروہ کی طرف سے حکومت کے اس متنازع قدم پر شکریہ ادا کرنا، ملت کی اجتماعی صف بندی کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔

 

یہ صرف ایک رائے کا اختلاف نہیں، بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ ایک مخصوص طبقہ امت کے درد سے کٹ چکا ہے، یا اسے اس اجتماعی اذیت سے کوئی غرض نہیں۔ جب ملت کی تمام مؤقر تنظیمیں اور معتبر ادارے ایک سنگین قانون کے خلاف متفقہ آواز میں سراپا احتجاج ہوں، تو اس کے برعکس رویہ محض فکری تفاوت نہیں کہلاتا—بلکہ اسے شعوری سیاسی مفاد پرستی، ذاتی وابستگیوں اور ممکنہ مراعات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جس کی بازگشت ملت کے ضمیر میں ’’قوم فروشی‘‘ جیسے سخت الفاظ کی صورت گونجتی ہے۔

 

بوہرہ جماعت کی یہ روش نہ صرف ملت کے داخلی اتحاد کو زک پہنچاتی ہے بلکہ حکومت کو یہ جواز فراہم کرتی ہے کہ وہ امت کے اندر کی کمزوریوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرے۔ جب دشمن در پر ہو، اور اہل صف خود شکستگی کا مظاہرہ کریں، تو وہ لمحہ صرف افسوس کا نہیں، بلکہ احتساب، بیداری اور تعمیر نو کا متقاضی ہوتا ہے۔ آج کا یہ انحراف، کل کی ایک بڑی کمزوری بن سکتا ہے۔ ملت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے، ان پر نمک چھڑکنے کا یہ عمل، تاریخ کے صفحوں پر کس عنوان سے محفوظ ہوگا؟ یہ سوچنا اہل فکر و دانش کی ذمہ داری ہے۔

 

مسلکی نمائندگی یا اجتماعی منافقت؟

 

تاریخ شاہد ہے کہ داؤدی بوہرہ برادری نے ہمیشہ اپنی منظم سماجی ساخت، قیادت کی غیر متزلزل اطاعت، اور مصلحت آمیز طرزِ عمل کے ذریعے اپنی ایک منفرد شناخت قائم رکھی ہے۔ ان کی داخلی نظم و ضبط اور قیادت پر کامل اعتماد کو بہت سے حلقے ایک مثالی ماڈل کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اطاعت، یہ نظم، یہ مصلحت پسندی—ہر صورت میں قابلِ تحسین ہے؟ کیا اجتماعی مفاد اور امت کی یکجہتی کے لمحے میں یہی خاموشی اور حکومتی قربت عقلمندی کے زمرے میں آتی ہے، یا یہ درحقیقت وہ منافقانہ روش ہے جو تاریخ کے کٹہرے میں بےنقاب ہو کر رہتی ہے؟

 

جب تمام مکاتبِ فکر کے علما، مشائخ، دینی ادارے اور ملت کے معتبر نمائندے وقف قانون میں کی گئی ترمیمات کے خلاف یک زبان ہو چکے ہوں؛ جب اس قانون کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی جا چکی ہو؛ جب مسلمان محسوس کر رہے ہوں کہ ان کے مذہبی ادارے، ان کا دینی وقار، اور ان کی صدیوں پر محیط تہذیبی خودمختاری ریاست کے جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کی جا رہی ہے—تو ایسے حساس اور نازک ماحول میں کسی ایک فرقے کی طرف سے اس ترمیمی قانون کی تائید، خاموش تماشائی بننے سے بھی بڑا جرم ہے۔

 

یہ حمایت گویا اُس ہاتھ کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے جو ملت کے وقف پر شب خون مارنا چاہتا ہے؛ وہ ہاتھ جو مسجد، مدرسہ، خانقاہ اور کتب خانوں کو محض زمین کے قطعات میں بدل کر ریاستی مشینری کا حصّہ بنانا چاہتا ہے؛ اور وہ ہاتھ جو دینی خودمختاری کو ضوابط و بیوروکریسی کی زنجیروں میں جکڑ دینا چاہتا ہے۔

 

ایسے میں بوہرہ برادری کے وفد کی جانب سے اظہارِ تشکر محض ایک "مسلکی رائے” نہیں، بلکہ ایک فکری و اخلاقی سوال بن کر سامنے آتا ہے: کیا ایک مسلمان، خواہ کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو، اپنے ذاتی یا گروہی مفاد کی خاطر پوری ملت کے اجتماعی موقف سے روگردانی کا حق رکھتا ہے؟ اور اگر رکھتا ہے، تو کیا ایسی روش کو "اجتماعی نمائندگی” کہا جائے گا یا "تاریخی غداری” کا نام دیا جائے گا؟

 

وقت گزر جائے گا، مگر یہ سوال باقی رہے گا۔ اور تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے—وہ نہ مصلحت سے مرعوب ہوتی ہے، نہ خاموشی کو دانائی سمجھتی ہے۔ وہ صرف سچ اور موقف کو یاد رکھتی ہے۔ اور جب امت اپنے زخموں کو سہلاتی ہوئی پیچھے مڑ کر دیکھے گی، تو وہ اُن ہاتھوں کو ضرور پہچانے گی جنہوں نے مرہم رکھنے کے بجائے، نمک چھڑکنے کو ترجیح دی۔

 

’سب کا وشواس‘ یا صرف ’اپنے مفاد کا وشواس‘؟

 

بوہرہ وفد کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کے مشہور نعرے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ پر اعتماد کا اظہار، ایسے حالات میں خواب و خیال سے کم نہیں لگتا—بلکہ ایک تلخ تضاد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس وقت جب کہ ملک بھر میں مسلمان محض اپنے تشخص، لباس، عبادات اور طرزِ زندگی کی بنیاد پر نشانہ بنائے جا رہے ہیں؛ جب گؤ رکشا کے نام پر لنچنگ معمول بن چکی ہے؛ جب معاشی، سماجی اور ڈیجیٹل سطح پر مسلم مخالف بائیکاٹ کی مہمات زوروں پر ہیں؛ جب مدارس اور دینی ادارے انتقامی کارروائیوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں؛ اور جب مساجد کے گنبد بلڈوزروں کی زد میں آ چکے ہوں—ایسے پُرتشدد اور تعصب آلود ماحول میں حکومتی نعروں پر یقین کا اظہار کیا واقعی ملت کے اجتماعی مفاد میں ہے؟ یا یہ محض سیاسی وفاداری کے تمغے حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے؟

 

ایسے حساس وقت میں جب ملت اسلامیہ کی اجتماعی آواز حکومت کے متنازع اقدامات پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہو، بوہرہ وفد کی طرف سے اعتماد و تشکر کے کلمات گویا اس زخم خوردہ قوم پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ یہ سوال بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ برادری واقعی تمام مسلمانوں کی نمائندہ ہے؟ کیا ان کا یہ موقف ملت کے اجتماعی جذبات، تحفّظات اور مطالبات کی عکاسی کرتا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے، تو یہ بیان صرف ذاتی یا مسلکی مفاد کا عکاس سمجھا جائے گا—نہ کہ امت کے اجتماعی وقار اور حقوق کا ترجمان۔

 

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’سب کا وشواس‘ کا نعرہ بعض طبقات کے لیے ’صرف اپنے مفاد کا وشواس‘ بن چکا ہے۔ ایک ایسا نعرہ جسے سیاسی مفاہمت، حکومتی قربت اور وقتی فوائد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، چاہے اس کی قیمت پوری ملت کی اجتماعی وحدت اور خودداری سے ادا کرنی پڑے۔ اس دو رُخے رویے نے مسلمانوں کے اندر پہلے سے موجود فکری و سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب قومیں اجتماعی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر ذاتی وفاداریوں میں بٹ جاتی ہیں، تو ان کا وقار، وحدت اور بقاء ہمیشہ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

 

قوم کے مفاد پر سودا؟

 

بوہرہ وفد کی حالیہ حکومتی قربت اور ترمیم شدہ وقف قانون پر ان کی حمایت، محض ایک سفارتی ملاقات یا رسمی شکریے کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک گہرے سیاسی اور فکری بحران کی علامت ہے—ایسا بحران جو قوموں کے تشخص کو گہنایا کرتا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ وہ قومیں جو وقتی مفاد، ظاہری قربت یا سیاسی چالوں کا شکار بن جاتی ہیں، بالآخر اپنے وجود، وقار اور اجتماعیت کو کھو بیٹھتی ہیں۔

 

بوہرہ قیادت کو اب یہ غور کرنا ہوگا کہ آیا وہ ملت اسلامیہ ہند کے ساتھ کھڑی ہے—جس کے علما، دانشور، اور عوام یک زبان ہو کر وقف قانون میں ترمیمات کو مذہبی اور آئینی حقوق پر حملہ قرار دے رہے ہیں—یا وہ ریاستی حکمت عملیوں کا ایک خاموش مہرہ بننے جا رہی ہے، جسے وقتِ ضرورت بطور "نمائندہ اقلیت” پیش کیا جا سکے۔

 

یقیناً کسی بھی برادری کو حکومت سے روابط رکھنے، اپنی شناخت قائم رکھنے اور اپنے مفادات کے تحفّظ کا حق حاصل ہے۔ مگر جب بات ملت کے اجتماعی مذہبی، قانونی اور تہذیبی مسائل کی ہو—تو ایسی "سہولت کاری” کو محض مصلحت یا سفارتکاری کا نام دینا، سچ سے فرار کے مترادف ہے۔ یہ درحقیقت وہ فتنہ ہے جو ملت کے جسم میں اندرونی کمزوری کے طور پر داخل ہوتا ہے، اور بظاہر اپنوں کے چہروں سے دشمن کی بولی بولتا ہے۔

 

ایسے نازک وقت میں ملت اسلامیہ ہند پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ صرف ظاہری حملوں ہی سے نہیں، بلکہ اندرونی فکری انحراف اور سیاسی مفاہمتوں سے بھی خبردار ہو۔ خاموشی، لاپرواہی اور داخلی بے ربطی وہ خلاء ہے جسے طاقتور قوتیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ملت کو چاہیے کہ وہ ایسے رویوں کے خلاف واضح اور متحد مؤقف اختیار کرے، اور اپنی صفوں میں فکری بیداری، تنظیمی ہم آہنگی اور قیادت کا شعور پیدا کرے—تاکہ کوئی "اپنا” نہ صرف دشمن کی زبان نہ بولے، بلکہ دشمن کی صف میں کھڑے ہونے کا حوصلہ بھی نہ کر سکے۔

خاموشی اب جرم ہے، یہ وقت صرف تجزیہ کرنے کا نہیں بلکہ پُرعزم آواز بلند کرنے کا ہے۔ بوہرہ وفد کی یہ روش ملت میں تفریق، کمزوری اور نفاق کو بڑھا سکتی ہے۔ لہٰذا ہر ذی شعور مسلمان، ہر دینی و ملّی ادارہ، اور ہر غیرت مند نوجوان کو چاہیے کہ ایسے عناصر کی سازش کو پہچانے، قوم کو ان کی حقیقت سے آگاہ کرے، اور وقف جیسے مقدس ادارے کے تحفّظ کے لیے متحد ہو کر اپنی سعی و جہد کو جاری رکھے.

Comments are closed.