علماء وحفاظ کا شہریہ عام مزدور سے بھی کم حقیقت یا فسانہ

راقم السطور:۔ قاضی محمد ریاض ارمان قاسمی
دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ناگپاڑہ ممبئی
فون نمبر 8529155535
برصغیر میں مدارس ایک لمبی تعطیل کے بعد کھل چکے ہیں ، جدید وقدیم طلباء کے داخلے شروع ہوچکے ہیں ، عنقریب اسباق بھی شروع ہو جائیں گے ، ہر سال بلکہ پورے سال ،مہینہ ،ہفتہ اور دن بلکہ ہر لمحہ یہ تصور عام کیا جارہا ہے کہ مدارس کے اساتذہ کی مالی حالت انتہائی خراب ہے ، اور وہ خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر اس کی اس قدر تشہیر کی گئی ہے، کہ ایک اچھا پڑھا لکھا آدمی بھی دفاعی پوزیشن پر آجاتا ہے ،اور ایک بڑے طبقہ کو یقین ہو چلا ہے کہ واقعی یہ بات سچ ہے، اس لیے ہمیں اس فلسفہ پر غور کرنا چاہئے کہ کیا مدارس کے مدرسین،امت کے علماء وحفاظ کی تنخواہ ایک مزدور سےبھی کم ہے۔ یا مدارس میں پڑھانے والے کچھ مدرسین ناشکری کے شکار ہیں۔اور غلط فہمی میں مبتلاء ہوکر دوسروں کو بھی مایوسی کے دلدل میں ڈھکیل رہے ہیں۔قناعت پسندی اور حسن کار کردگی کو چھوڑ کر دنیا کمانے کی لالچ طبیعت میں رچ بس گئی ہے ۔ اور جانے انجانے میں ماد ہ پرستی میں مبتلاء ہو چکے ہیں ۔
مدارس کے ملازمین کی تنخواہ ایک عام مزدور سے بھی کم ہے ؟اس لیے عام مزدور اور مدارس کے معزز اساتذہ کرام کے شہریہ کا انصاف پسندانہ تجزیہ کرتے ہیں اور اصل حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں ،تاکہ انصاف پسند طبقہ کے سامنے صحیح رخ واضح ہوسکے اور امت مسلمہ مایوسی سے نکل سکے۔
ایک عام مزدور کی یومیہ اجرت
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایک عام مزدور یومیہ 500 / پانچ سوروپئے کماتا ہے ،اور اس رقم کو حاصل کرنے کے لیے اس کو آٹھ دس گھنٹے ،اور بعض لوگوں کو بارہ گھنٹےکا وقت دینا ہوتا ہے ۔ان کے سروں پر عموما پنکھوں کی ہوا نہیں ہوتی ہے ،اور نہ دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی سایہ ہوتا ہے ۔ جب وہ کام میں مشغول ہوتے ہیں تو ان کے چہرہ اور کپڑے کو عموما پہچاننا مشکل ہو تا ہے ۔اور جب وہ شام میں چھٹی کرتے ہیں تو ان کو اپنی تھکن کو دور کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کھانا پڑتا ہے ،خواہ وہ نشہ آور چیز ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک مزدور پیشہ کو اپنے ذاتی اخراجات کے لیے اپنی کمائی میں سے متعین مقدار نکالنا ہی پڑتا ہے ۔
ایک مزدور اگر ایک دن میں500/ پانچ سو روپئےکماتا ہے، تو یہ بات واضح ہے کہ وہ مہینہ میں صرف 26/دن کی تنخواہ پاتا ہے ۔ مہینہ میں اس کے چار دن اتوار کی چھٹی کی وجہ سے خالی جاتے ہیں اور چار یوم کے و دو ہزار روپئے بنتے ہیں جو اس کو نہیں مل پاتے ہیں۔اسی طرح ماہانہ مزدور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کام پر نہ جاسکے تو ڈھائی دن مہینہ کی اور چھٹی مان لیں توگویا کہ ایک مزدور مہینہ میں 23.5ساڑھے تئیس دن کام کرے گا اوراس کی تنخواہ پائے گا۔ گویا کہ 500سو روزانہ کمانے والا مزدور ماہانہ 11750/گیارہ ہزار سات سو پچاس روپئے کمائے گااور سالانہ ایک لاکھ اکتالیس ہزار روپئے 141000/کمائے گا۔ یہ جب ہے جب وہ مسلسل کا م کرے ،اور اس کو مسلسل مزدوری ملتی رہے ،کبھی ناغہ نہ ہو ،اگر مزدوری نہیں ملی ،یا وہ بیمار ہوگیا اور کسی دوسرے اعذا ر کی وجہ سے کام پر نہیں جاسکا تو اس کی سالانہ آمدن اور کم ہوجائے گی ۔ نیز عام مزدور کو اضافی تنخواہ ملنے یا اضافی آمدنی کی کوئی توقع نہیں ہے ۔
حافظ ، عالم اور امام صاحب کی ماہانہ اجرت
مدرسہ میں پڑھانے والے علماء وحفاظ کو ماہانہ اجرت ملتی ہے ،مساجد کےائمہ کو بھی ماہانہ اجرت ملتی ہے ،ہندوستان کے کچھ علاقوں میں ائمہ مساجد کو چھ ماہ میں اناج اور پیسہ کی شکل میں اجرت ملتی ہے ،تھوڑی بہت رقم ہر ماہ ملتی رہتی ہے ،اور چھ ماہ پر پورے نصف سال کی تنخواہ مل جاتی ہے ۔ علماء وحفاظ کو دھوپ میں محنت نہیں کرنی پڑتی ہے ،ان کے سروں پر کم سے کم درجے میں پنکھاہوتا ہے ۔اسی طرح ان کی چھٹی کا پورا نظام ہوتا ہے ۔اور نظام میں رہ کر چھٹی کی جائے تو اس کی تنخواہ ملتی ہے ،سال میں مدرسوں میں مدرسین کو وظیفہ کے ساتھ ۲۴؍ یوم کی چھٹی ملتی ہے ، بیماری کی چھٹی ۱۵؍ یوم کی ملتی ہے ،اسی طرح ۱۸؍شعبان سے ۱۰؍شوال تک کی ایک مہینہ بائیس یوم یعنی ۵۲ ؍یوم کی چھٹی ہوتی ہے ۔ پورے سال جمعہ کے دن کی چھٹی ۴۸ یوم کی ،اور بقرعید کی چھٹی ۸؍یوم ، محرم الحرام کے دو یوم ،ربیع الاول ایک یوم ،شب برات،یوم جمہوریہ ،یوم آزادی کی کل چھٹی ۶ یوم ہوگی ۔اس طرح سال میں کل چھٹی ۱۵۳ ؍دن کی ہوتی ہے جس کی تنخواہ ملتی ہے ۔کل کام کے ایام ۲۱۲ ؍دن ہیں ۔ نیز اگر ایمرجنسی چھٹی اس کے علاوہ لیں تو ۳۰؍ یوم کی چھٹی بغیر وظیفہ کے ملتی ہیں ۔
ائمہ و حفاظ کی اوسط ماہانہ شہریہ 10000/دس ہزار روپئے ہوں ،تو ایک سال کا وظیفہ120000/ایک لاکھ بیس ہزار روپئے ہوں گے ۔ یعنی ۲۱۲ یوم کام کریں تو ایک دن کا وظیفہ علماء وحفاظ کا ۵۶۶؍پانچ سو چھیاسٹھ روپئے بنتے ہیں۔ جو ایک عام مزدور سے یومیہ ۶۶؍ روپئے زائد ہیں ۔
علماء وحفاظ کی اضافی آمدنی
رمضان میں ڈبل تنخواہ ملتی ہے ۔دس ہزارر وپئے رمضان کی اضافی رقم مان لیں ،اسی طرح اگر دو لاکھ روپئے کا مدرسہ کا چندہ کریں تو چندہ کا انعام 7/فیصد بھی مان لیں تو 20000بیس ہزار روپئے چندہ کا بنتا ہے ۔اگر کوئی خوش نصیب حافظ صاحب تراویح پڑھا لیں تو کم سے کم 10000 دس ہزار تراویح کے مان لیں ،مدرسین اور ائمہ کو تین وقت کے کھانے اور رہائش کا عمدہ انتظام ہوتا ہے ، اگر ایک وقت کے کھانے کی قیمت 40روپیہ ہو تو 212دن کے تین وقت کے یومیہ کھانے کی قیمت25440روپیے بنتے ہیں تو اس طرح ایک دس ہزار کمانے والے مدرس کی کل سالانہ آمدنی جس میں 153دن آرام دہ چھٹی کے ساتھ ۔
120000+20000+10000+10000+25440
،کل سالانہ آمدنی 185440/ایک لاکھ پچاسی ہزار چار سو چالیس روپئے بنتے ہیں ۔ اور یومیہ 874آٹھ سو چوتہر روپئے بنتے ہیں یہ تو آمدنی کی تفصیل ہے ،مزید تفصیل درج ذیل ہیں ۔
مدرس مدرسہ کے کمرے اور ائمہ مساجد مسجد کے حجرہ میں رہتے ہیں جس کی اجرت اور بجلی پانی کے استعمال کی اجرت شامل نہیں کی گئی ،جب کہ ایک مزدور کو بجلی پانی اور کمرہ کسی چیز کی سہولت نہیں ملتی ہے ۔ اسی طرح دین کی نسبت پر جو دعوت کھاتے ہیں ۔ امت کی طرف سے عزت افزائی ملتی ہے اس کی قیمت کوئی قوم ادا نہیں کرسکتی ہے ۔جو کسی مزدور کو اس کی مزدوری کی بنیاد پر نہیں ملتی ہے۔اسی طرح نکاح پڑھانے کی آمدنی ۔ اگر کوئی مقرر بھی ہواورتقریر کرتا ہو تو اس کی اجرت۔ اگر محبوب الخلائق ہوتو ہدیہ ،یہ چیزیں شمار نہیں کی گئی ہیں۔جب کہ مزدور کو کبھی بھی یہ چیزیں نہیں ملتی ہیں ۔
ان سب چیزوں کو لکھنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے بلکہ جو صحیح صورت حال ہے اس کو پیش کرنا ہے ،تاکہ ہم خدام دین کو یہ احسا س رہے کہ دین کی بنیاد پر جو سہولتیں ہمیں مل رہی ہیں وہ کسی اور قوم کو نہیں مل رہی ہیں ،اور ہماری کوئی خصوصیت نہیں ہے کہ اللہ ہر حال میں ہمیں ان چیزوں سے نوازتا رہے ،اس لیے کہ ہم بھی مزدور ہو سکتے تھے ،اور ہمیں بھی تپتی دھوپ میں جھلسنا پڑ سکتا تھا ،اس لیے ناشکری کے بجائے احسان مندی کی کیفیت دین دنیا دونوں میں ترقی کا باعث ہوگا ۔
علماء اور حفاظ سے ادبا گذارش ہے کہ اپنے آپ کو تنگ دل نہ کریں ،محنت کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں ۔اپنے آپ کو اور دوسروں کو مایوس نہ کریں الحمدللہ آپ اب بھی مزدورں سے اچھی حالت میں ہیں ۔اللہ نے دین کی خدمت کا موقع دیا ہے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کام میں لگے رہنے میں دنیا وآخرت میں کامیابی ضرور ملے گی. ان شاء اللہ
Comments are closed.