Baseerat Online News Portal

مسلمان لڑ کر وقف قانون واپس تو کرلیں گے مگر کس کے لئے ؟؟؟

قوم کے لئے یا قوم کے ٹھیکیداروں کے ذاتی مفاد کے لئے ؟؟؟؟

 

احساس نایاب شیموگہ کرناٹک

 

جس بات کا ڈر تھا آخر وہی ہوا

کروڑوں مسلمانوں کی مخالفت و اپوزیشن جماعتوں کی ہنگامہ آرائی کے درمیان سنگھی حکومت وقف ترمیمی بل پاس کروانے میں کامیاب رہی

اس کامیابی کے پیچھے جہاں دشمنان اسلام کی سازشیں تھیں وہیں شامل کچھ اپنوں کی غلطیاں ، لاپرواہیاں، لالچ و حرس و حوس ہے

جس نے دشمن کو باربار وار کرنے کا کھُلا موقع دیا

بہرحال مسلمان اس زیادتی ناانصافی پر چپ نہیں رہیں گے اور جلد اپنا حق چھین کر لیں گے

دیر سویر ہی سہی حکومت کو گھُٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور اس بل کو واپس لینا ہوگا کیونکہ وقف کی زمینیں کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ اللہ کی ملکیت ہے غریبوں ، یتیموں و مفلسوں کی آس ، امید و مستقبل ہے ۔۔۔۔۔۔

اللہ اپنے بندوں کی امید ٹوٹنے نہیں دے گا ، یتیمون کو اُن کا حق مل کر رہے گا بھلے کسی بھی صورت کیوں نہ ہو

چند دنیا پرست مفاد پرستوں کی وجہ سے اللہ اپنے مجبور بندوں کو محتاج، بےسہارا ، بےیارو مدگار نہیں چھوڑے گا ۔۔۔۔۔۔

رہی بات مسلمانوں کی تو موجودہ حالات میں وقف بل کے خلاف پوری قوم کو ایک جُٹ ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی، موقعہ پڑنے پر سڑکوں پر اتر کر بل کے خلاف ایک ساتھ ایک زبان احتجاج بھی کرنے ہوں گے ۔۔۔۔۔

 

لیکن اس سے پہلے قوم کے اُن ٹھیکیدارون کے گریبان کھیچ کر سوال کرنے ہوں گے جنہونے وقف کی زمینوں پر جبرا ناجائز قبضہ کرلیا ہے ، وقف کئے ہوئے اثاثے ہڑپ لئے اور ڈکار بھی نہیں دیا ، یا چوری چھپی کوڑیوں کے دام غیروں کو بیچ دئے گئے

ایسے اندرونی لٹیروں کی ناک میں نکیل ڈالنی ہوگی تاکہ ہماری کوشیشین ہماری جدوجہد قوم کے کام آئے نہ کہ ان ٹھیکیداروں مفاد پرستوں پر قربان ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ وقف کی زمینوں پر بنی عالیشان عمارتیں، دکانیں آج کسی کی ذاتی جاگیر بن کے رہ گئے ہیں ، غیر تو غیر اپنے بھی اس پر قابض ہوکر قوم کو اندر سے کھوکھلا کررہے ہیں ۔۔۔۔۔

مثال کے طور پہ آگرہ ، دہلی ، پٹنہ ، حیدرآباد سمیت کئی بڑے شہروں میں آج بھی وقف زمین پر بنی دکانوں کا کرایہ 50 ، 100، 200، 1000 یا تین ، چار ہزار ہے اور یہ صرف آگرہ ، دہلی ، پٹنہ یا حیدرآباد کے حالات نہیں ہیں بلکہ ملک بھر میں اسی قسم کی خیابت چل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔

کہیں کاغذات کی ہیرا پھیری ہے تو کہیں ایکڑوِں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ کئی اپنوں نے ہی اپنوں پر ستم ڈھائے ہیں ۔۔۔۔۔

وقف کے اندرونی حالات اس محاورے کے مصداق ہیں

اپنا دیکھے نہ پرایا ، حلال دیکھے نہ حرام ، بس مال مفت دل بےرحم

رہی بات کم کرائے کی تو یہ محض دکھانے کے دانت ہیں

اصل کھانے کے دانت چھپائے گئے ہیں

 

بظاہر جو کرایہ 50، 100 ، 200 ، 400 ، یا 4000 تک نِظر آرہا ہے وہ پرانے کرائے داروں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے جسے قوم ہی کے لٹیرے آپس مین مل بانٹ کر کھارہے ہیں ….

پہلے تو انہونے وقف زمین پر بنی دکانیں خود آپس میں کرائے پر بانٹ لی جیسے یہ قوم کی نہ ہوکر ان کے باپ داد کی جاگیر ہوں

وہ بھی محض چار سو پانچ سو ہزار یا تین ہزار روپیہ میں

پھر ان دکانوں کو 20 ہزار سے 25 ، 30 ہزار تک دوسروں کو کرائے پر دے دیا اور وہ کرایا خود ہضم کر رہے ہیں

باقی وقف کے ڈبوں میں خیرات کی صورت 500 یا 1000 کی رقم ڈالی جارہی ہے ۔۔۔۔۔

 

آج وقف قوم کا سرمایہ نہ ہوکر ان ٹھیکیداروں کی جاگیر ، ان عیاشوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ بنا ہوا ہے جس پر لگام کسنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

 

ایسے میں اگر وقف پر حکومت کی ناپاک نظریں ہیں تو یہ اُن تمام مسلمانوں پر اللہ کا غضب ہے جنہونے سب کچھ جانتے بوجھتے خاموشی اختیار کی اور وہ جنہونے وقف ملکیت نگل کر ڈکار بھی نہ دی

 

اس کے علاوہ بھی اگر قبرستانوں کی بات کی جائے تو اللہ کی پناہ ایکڑوں کی زمینیں مٹھی بھر پیسوں کے لئے کافرون کے ہاتھوں سونپی جاچکی ہیں

کہیں کاغزات میں گھوٹالے کرکے تو کہیں کسی اور طریقے سے

خیر حقدارون کا حق مار کے کھانے کا انجام یہی ہوگا

ایسے میں گیہون کے ساتھ گھُن کا پسنا تو طئے ہے ۔۔۔۔

 

غورطلب

آج وقف ترمیمی بل پر سب سے زیادہ واویلا کون مچارہے ہیں ذرا اس پر بھی غور کیا جائے

 

نوجوانوں کی لنچنگ

حکومت کی جانب سے مسلم گھروں پر ظالمانہ بلڈوزر کاروائی

حجاب معاملہ

کھلے عام مسلم بچیوں و خواتین کی تذلیل جیسے سنجیدہ معاملات پر کل تک جہاں قوم کے نام نہاد رہنماؤں کی جانب سے سانپ سونگھنے والی خاموشی تھی تو کہیں سے صبر کی تلقین کرنے والوں کے اعلانات تھے آج وہی سب زمین جائداد کی بات آئی تو تلملا اُٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

جب سڑکون پر نوجوانوں کا خون بہتا ہے تو ان رہنماؤں کا خون پانی ہوجاتا ہے

جہان سرعام ، سربازار مسلم بچیون کے حجاب کھینچے جاتے ہیں تو ان کی غیرت نہیں جاگتی

راہ چلتی بچیوں کو نوچا جاتا ہے تو ان کی زبانوں سے افف تک نہیں نکلتا بلکہ بڑی ہی بےشرمی بےغیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اپنی آنکھیں موندھ لیتے ہیں ،

وہیں بات جائداد کی آئی تو یہ سب کا قدر بے چین ہوکر بلک اٹھے ہیں

کل تک غریبون و مسکینوں میں امداد بھی کرتے تھے تو ایسے تن کر جیسے انہیں ان کا جق نہیں بلکہ اپنے باپ کی جاگیر بانٹ رہے ہیں

جانے کتنوں کو رسوا کیا ، کتنوں کا حق مارا ، کتنوں کی تذلیل کی ہے جو آج کسی کی آہیں فریادین بارگاہ الہی میں قبول ہوکر قوم مسلم پر قہر برسارہی ہیں

 

دینے والوں نے تو اللہ کی راہ مین اللہ کی رضا کے خاطر بہت کچھ دے دیا لیکن لینے والوں نے اُس کا کیا کیا ؟؟؟

جب وقف ملکیت کے مکمل اختیارات مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے تب ہم نے قوم کے لئے بےسہارا مسلمانوں کے لئے کیا کیا ؟؟؟

 

کتنے اسپتال بنائے؟؟؟

بچوں کے لئے کتنے اسکول، کالج، یونیورسٹی، لائبریرس بنائی گئی ؟؟؟

گھریلو تشدد، نوجوانوں کی بےراہ روی روکنے کے خاطر ہمارے کتنے کاؤنسلینگ سینٹرس بنائے گئے ؟؟؟

نوجوانوں کو نشے کی لت سے دور کرنے کے لئے کتنے ریہیبٹیشن سینٹرس بنائے گئے ؟؟؟

آج مسلمانوں کے لئے کتنی حلال بینکس موجود ہیں ؟؟؟

روزگار کے لئے ہم نے کیا کیا ہے ؟؟؟

 

آج یہ سارے سوال ایک چائے بیچنے والا ، گائے کا گوبر کھانے اور ہیشاب پینے والا بھی ہم سے پوچھ رہا ہے ؟؟؟

 

خیر ان کے سوالوں پر سرسید آحمد خان ، ابولکلام آزاد و اے پی جے عبدالکلام جیسے رہنماؤں کے نام لے کر مثال پیش کرسکتے ہیں

لیکن سچرکیمٹی کی رپورٹ کیسے جھُٹلائیں گے ؟؟؟

 

ہندوستان میں وقف اثاثے مالی حیثیت میں پہلے نمبر پر ہے باوجود آج ایک عام مسلمان کے حالات اس قدر خستہ ہیں کہ

پیسوں کی قلت سے مسلم بچے تعلیم ادھوری چھوڑ رہے ہیں

بےروزگاری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ مسلم نوجوان نشے کے عادی ہورہے ہیں ، مجرمانہ سرگرمیوں میں زندگیان برباد کررہے ہیں یا گھر بار سے دور روزگار کی تلاش میں بیرونی ممالک کی خاک چھان رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

تیس ، چالیس سال گزر جانے کے باوجود ہماری بچیان گھروں مین کنواری بیٹھی ہیں

ہماری باپردہ خواتیں. بےسہارا در در کی ٹھوکریں کھارہی ہیں

غیروں کی چوکھٹون پر فریاد کررہی ہیں

کئی گھروں کے چراغ بجھ گئے ہیں ، چولہے سرد پڑ چکے ہیں

اللہ کی ملکیت ، قوم کا سرمایہ آخر کہان اور کن کاموں کے لئے لُٹایا گیا ؟؟؟

عیاشی ؟

حرام خوری ؟

گھوٹالے ؟

ہیرا پھیری ؟

دلالی ؟

ناجائز غبضہ ؟

یا اس کی ٹوپی اُس کے سر ؟

افسوس قوم مسلم کے پاس وقف جیسی نعمت ہونے کے باوجود آج ایک غریب مسلمان غریب ہی ہوتا جارہا ہے، سماجی و سیاسی ہر لحاظ سے پچھڑا ہوا ہے جبکہ اُن کا حق کوئی اور کھا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔

ایسے میں اللہ کی طرف سے نعمتین چھین لی جائیں تو تعجب کیسا ؟؟؟

اللہ کی ملکیت پر عیاشی، حرام خوری کریں گے اور اللہ کی مار نہیں پڑے گی کیا یہ ممکن ہے ؟؟؟

کیا چہرے پہ داڑھی سر پہ ٹوپی رکھ لینے یا مسلم نام رکھ کر خود کو مسلمان کہلانے سے اللہ کے قہر و غضب سے کوئی بچ سکا ہے جو یہ بچ جائین گے ؟؟؟

نہیں بلکہ یہ اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کو لے ڈوبینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر حالات جو بھی ہوں ، جیسے بھی ہوں اللہ کی ملکیت کو ہر صورت بچانا ہے

مگر کس کے لئے گریبان پکڑ کر آج اس سوال کو بھی اٹھانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.